بُک شیلف

ڈاکٹر آصف محمود جاہ کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ زیرِ نظر کتاب سے پہلے اُن کی چار کتب شایع ہوچکی ہیں۔


December 09, 2012
فوٹو : فائل

LONDON: سندھ، سیلاب اور زندگی

مصنف: ڈاکٹر آصف محمود جاہ
ناشر: علم و عرفان پبلشرز۔ لاہور
صفحات: 240،قیمت: 300 روپے

ڈاکٹر آصف محمود جاہ کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ زیرِ نظر کتاب سے پہلے اُن کی چار کتب شایع ہوچکی ہیں۔ ''سندھ، سیلاب اور زندگی'' ان کی پانچویں کتاب ہے۔ ڈاکٹر آصف اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ انسانی فلاح و بہبود کے کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے ہیں۔ موجودہ کتاب سندھ میں ہونے والی مون سون بارشوں اور سیلاب سے متاثر اور بے گھر ہونے والے افراد کی رُوداد پر مبنی ہے۔

ڈاکٹر آصف نے نہ صرف اُن بے کس و لاچار لوگوں کے لیے طبی خدمات سرانجام دیں، بلکہ اُن کو دوبارہ زندگی کی دوڑ میں شریک کرنے اور اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں مدد بھی فراہم کی ہے۔ انہوں نے یہ سفر تنہا شروع کیا تھا، لیکن اب اُن کے ساتھ خاصے درد مند نوجوانوں کی ٹیم ہے، جو فلاحِ انسانیت کے لیے عملاً کوشاں ہیں۔ کتاب رنگین تصویروں سے مزیّن ہے، جو اُن کی خدمات کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ مصنف نے اس کارِ خیر میں نہ صرف خود حصّہ لیا بلکہ دوسروں کو بھی شریک و ترغیب دینے کی عمدہ کوشش کی ہے۔ اس کے ساتھ انہوں نے سیلاب کی تباہ کاریوں پر جامع دستاویز بھی مرتب کردی ہے۔
(تبصرہ نگار: عبداللطیف ابوشامل)

سیرکر دنیا کی غافل

مصنف: افسر سعید خان
ناشر: الجلیس پاکستانی بُکس پبلشنگ سروسز
صفحات:415،قیمت: 400
زیرِنظر کتاب ''سیر کر دنیا کی غافل'' ایک سفر نامہ ہے اور اس کے مصنف ہیں افسر سعید خان۔ اس کتاب میں عام سفرناموں کے بر خلاف پہلی بات تو یہی ہے کہ اس میں ایک سفرنامہ نہیں، بلکہ دس گیارہ ممالک کے سفرنامے موجود ہیں، جن میں لندن، پیرس، بیلجیم، ڈنمارک، جرمنی، ترکی، اسپین، بھارت، امریکا، مصر اور قاہرہ وغیرہ کے خواب ناک سفر کی روداد موجود ہیں۔ افسر سعید خان کا تعلق بھوپال سے ہے، وہ کراچی کی معروف کاروباری شخصیت ہیں، شعروادب کے علاوہ سماجی اور ثقافتی تقریبات میں بڑھ چڑھ کر شرکت کرتے ہیں اور اپنی نفیس عادات و اطوار کے باعث ہر دل عزیز سمجھے جاتے ہیں۔

البتہ بہ طور مصنف انہوں نے یہ پہلا معرکہ انجام دیا ہے۔ آئیے اس حوالے سے خود ان کے خیالات جانتے ہیں،''میں نے زیر نظر سفرنامے میں کوشش کی ہے کہ قاری کو اپنے ساتھ لے کر جرمنی کی ریپر بہان والی تنگ گلیوں سے سوئٹز ر لینڈ کے مرغ زاروں اور برف پوش پہاڑوں کا نظارہ کرائوں، امریکا کی آنکھوں کو چکاچوند کر دینے والی بستیوں، وہاں کے باشندوں کے مزاج اور کردار کی جھلک بھی دکھائوں۔'' اس طرح افسر سعید خان نے یقیناً اپنے سفرناموں کی صورت اور سیرت پر کافی روشنی ڈالی، لیکن اب اسی حوالے سے کتاب میں موجود ایک اور رائے سے بھی استفادہ کر لیتے ہیں۔

یہ کارآمد مضمون ہے جسٹس حاذق الخیری صاحب کا، وہ لکھتے ہیں،''سفر نامے تو آج کل بہت لکھے اور پڑھے جارہے ہیں اور اکثر یکسانیت کا شکار بھی ہیں، لیکن افسر سعید خان کے سفرنامے ایک انفرادیت لیے ہوئے ہیں۔ انہوں نے مختلف ممالک کے جغرافیائی، تاریخی اور معاشی پس منظر اور پیش منظر کو بڑے دل آویز انداز سے اور وہاں کے مکینوں کے رسوم ورواج، فکر وانداز، بودوباش، عادات و اطوار کا مطالعہ کیا ہے۔'' اب اس کتاب کا پورا پس منظر واضح ہوچکا ہے۔ آخری بات اس حوالے سے یہی کہی جاسکتی ہے کہ افسر سعید خان نے تمام سفرنامے قاری کو ساتھ لے کر چلتے ہوئے تحریر کیے ہیں۔ ان کی زبان آسان اور عام فہم ہے۔ اس کے ساتھ کچھ رنگ آمیزی اور جمالیاتی چاشنی بھی موجود ہے، جب کہ پوری کتاب میں ایک خاص سلیقہ اور تہذیب بھی موجود ہے۔

بزم ِمزاح

ترتیب وتدوین: انوار احمد علوی
ناشر: بزمِ مزاح
صفحات: 144،قیمت:300
زیر نظر کتاب دراصل بہت سے منتخب مزاح نگاروں کی تحریروں سے مزین ہے، جن میں نثر لکھنے والے بھی ہیں اور مزاح گو بھی۔ اس کتاب کو انوار احمد علوی صاحب نے ترتیب دیا ہے۔ علوی صاحب کا نام ''مزاح پلس'' کے حوالے سے معروف ہے۔ اس کتابی سلسلے میں مزاح پیش کیا جاتا ہے اور اس بار علوی صاحب نے مزاح کے حوالے سے عہد ِ حاضر کے چند منتخب مزاح نگاروں اور مزاحیہ شعراء کا مختصر انتخاب یک جا کردیا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ ہر مزاح نگار کے بارے میں مختصر کوائف بھی ان کے مضامین اور مزاحیہ شاعری کے آغاز میں فراہم کر دیے گئے ہیں۔

اس طرح اس نثر ی اور شعری انتخاب کی اہمیت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ تمام لکھنے والے چاہے وہ معروف ہوں یا کم معروف سب کے سب ایک سطح پر مشترکہ مزاج رکھتے ہیں اور وہ مشترکہ مزاج ہے مزاح کا، جسے عہد حاضر میں کم برتا جا رہا ہے، کیوں کہ مزاح ایک مشکل اور بے حد دشوار صنف ہے اور بڑے بڑے شہ سوار اس میدان تک آتے آتے لڑکھڑاتے ہوئے دیکھے گئے ہیں۔ تاہم خوشی کی بات ہے کہ زیرِنظرکتاب میں نثری اور شعری مزاح کا قابل قدر مواد یک جا کیا گیا ہے۔

کتاب میں شامل بعض مضامین کے عنوان ہی اتنے دل چسپ ہیں کہ قاری فوراً ان کی جانب لپکتا ہے مثلا ًاقبال تبسم ''صفحہ پھاڑ دو''، ابوالفرح ہمایوں ''ڈھنڈورا شہر میں!''، نعیم نیازی ''گھوڑے کبھی بوڑھے نہیں ہوتے''، عاشر نثار احمد ''موٹاپا میری پہچان''، نسیم انجم ''تعزیت کا جوڑا'' وغیرہ۔ اسی طرح مزاحیہ شاعری کا حصہ مرزا عاصہ اختر، کلیم چغتائی، مرزا عابد عباس، حکیم خان حکیم کے گدگداتے اشعار سے سجایا گیا ہے۔

علوی صاحب اس سے قبل بھی اسی نوعیت کا ایک انتخاب شایع کر چکے ہیں، جب کہ کتاب کے سرورق پر ایک معنی خیز جملہ بھی موجود ہے،''ایک مزاحیہ مضمون یا غزل لکھ کر صاحب ِکتاب بننے کا آسان نسخہ۔'' اب یہ معلوم نہیں ہے کہ یہ جملہ کمپنی کی مشہوری کے لیے یا اس کاٹ دار جملے کا مقصد محض ایسے شوقین لکھنے والوں پر ایک طنز ہے۔ خیر کچھ بھی ہو، انوار احمد علوی نے ایک اچھا سلسلہ شروع کیا ہے، جسے مزید آگے بڑھنا چاہیے۔
(تبصرہ نگار: خ ۔م)

بولتی لکیریں
مصنف: شمیم زیدی،ناشر: سپریر سروسز، ناظم آباد، کراچی
صفحات: 132،قیمت: 450روپے
کارٹون کسے پسند نہیں، کارٹونسٹ کا کما ل یہ ہوتا ہے کہ وہ محض چند بولتی، چیختی، چھیڑتی اور گدگداتی لکیروں سے اپنا پورا مدعا بیان کر دیتا ہے۔ اسی لیے اردو اور انگریزی صحافت میں کارٹون کا چلن بڑا قدیم بھی ہے، اور بڑا مقبول بھی۔ شیشم زیدی اپنی دیگر حیثیتوں کے ساتھ ساتھ ایک معروف کارٹونسٹ ہی حیثیت سے بھی جانے پہچانے جاتے ہیں۔ انہوں نے پاکستان اور پاکستان سے باہر کئی دہائیوں دوران مختلف بڑے اخبارات میں سیاسی، معاشرتی اور روز مرہ کے دل چسپ، طنزیہ اور بلیغ کارٹون تخلیق کیے۔ زیرِنظر کتاب ان ہی کمپیوٹر ایکسپرٹ اور عملی صحافت سے وابستہ شمیم زیدی کے منتخب کارٹونوں کا مجموعہ ہے۔

یہ کارٹون پاکستان کے سیاسی جبر، بدلتے ہوئے معاشرتی حالات اور روبہ زوال اخلاقی اور تہذیبی اقدار کی عکاسی کرتے ہیں۔ یہ غالباً پاکستان میں کسی معروف کارٹونسٹ کی پہلی کتاب ہے، اور اس کے بارے میں خود شمیم زیدی کہتے ہیں،''پندرہ بیس برس قبل بنائے گئے سیاسی کارٹون پاکستان کے آج کے سیاسی حالات سے تقریباً اتنی ہی مطابقت رکھتے ہیں، جتنی اُس وقت رکھتے تھے۔ یہ بات حیرت کی تھی، وہی چہرے، وہی نعرے، وہ ہی باتیں۔ زیادہ تر وہی سب کچھ تھا، جو اُس وقت تھا۔ تب مجھے خیال آیا کہ اگر پینتیس چالیس سال کے عرصے کے ان کارٹونوں کو اکٹھا کیا جائے تو یہ کچھ لوگوں کے لیے دل چسپ بات ہوسکتی ہے۔'' اس پس منظر کے بیان سے یقیناً ''بولتی لکیریں'' کی اہمیت اور افادیت مزید واضح ہوجاتی ہے۔ شمیم زیدی صاحب کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے اپنے جیتے جاگتے کارٹونوں پر جو پنچ لائنیں دی ہیں، ان سے کارٹون مزید کارآمد ہوگئے ہیں۔

یہ شگفتہ جملے کہیں انگریزی اور کہیں اردو اخبارات میں حالات حاضرہ کی اور ایک تشریح کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ''بولتی لکیریں'' میں شمیم زیدی کے اپنے مختصر مضمون کے علاوہ دیگر اہم لکھنے والوں کے چند مضامین بھی موجود ہیں، جن میں محمد اظہار الحق، فیروز احمد، نفیس ناصر، ارشد سعید، شمیم عالم، اشرف شاد اور نقاش کاظمی کے نام شامل ہیں، لیکن یہاں ممتاز صحافی اور شاعر احفاظ الرحمن کی مختصر تحریر کی روشنی میں شمیم زیدی کے فکروفن سے ایک اقتباس پیش ہے۔ احفاظ صاحب لکھتے ہیں،''اگرچہ پاکستان سے چلے جانے کے بعد یہاں اُن کے کارٹون کی اشاعت کا سلسلہ ترک ہوگیا، لیکن وہ کویت اور پھر آسٹریلیا میں بھی اپنے ذوق کی آبیاری کرتے رہے۔

وہاں کے اخبارات وغیرہ میں اُن کے بنائے ہوئے کارٹون چھپتے رہے۔ کتنے؟ معلوم نہیں، لیکن چوں کہ کبھی کبھار ای میل سے اپنی تخلیقات روانہ کرتے رہے، اس لیے ان کے راز میں شریک رہا کہ اپنے شوق سے دست بردار نہیں ہوئے۔'' اس کے آگے احفاٖظ الرحمن صاحب نے لکھا ہے،''شمیم کی یہ کتاب ہاتھ میں آئے گی تو ہمارے ہاتھ مہکیں گے۔'' اس اعتبار سے یقیناً شمیم زیدی کی کتاب اب منظر ِعام پر آچکی ہے اور باذوق قارئین کے لیے اس کتاب میں پاکستان کی سماجی اور سیاسی تاریخ کے باب مزاح اور طنزیہ جملوں اور دل فریب بولتی لکیروں کی صورت میں میسر ہیں۔ (تبصرہ نگار : خالد معین)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں