سی پیک سمٹ کے مثبت اثرات
پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے کو پاکستان کی معاشی ترقی اور خوشحالی کے لیے ناگزیر قرار دیاجارہا ہے
پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے کو پاکستان کی معاشی ترقی اور خوشحالی کے لیے ناگزیر قرار دیاجارہا ہے۔ پاکستان اس منصوبے کو کتنی اہمیت دے رہا ہے اس سے ساری دنیا وقف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دنوں اسلام آباد میں دورروزہ پاک چین اقتصادی راہداری سمٹ اور ایکسپوکا اہتمام کیا گیا جس کی افتتاحی نشست سے وزیر اعظم محمد نوازشریف نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ نہ صرف پاکستان کے لیے گیم چینجر ثابت ہوگا بلکہ اس سے پورے خطے کی تقدیر بدل جائے گی۔
انھوں نے کہا کہ چین نے اقتصادی مشکل میں پاکستان کو بھی تنہا نہیں چھوڑا۔ پاکستان پر چین کا بھرپور اعتماد کبھی نہیں بھولیں گے۔ وزیر اعظم نے خطے اور پاکستان کے لیے خوشحالی کی یکساں منزل پر مبنی منصوبے کو سفارتکاری میں ایک نیا تصور قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کے ذریعے بے روزگاری، پسماندگی اور غربت کے خاتمے میں مدد ملے گی۔
سی پیک سمٹ اور ایکسپو کا انعقاد اس امر کا واضح اشارہ ہے کہ پاکستان اس عظیم منصوبے کو مکمل کرنے میں کتنا سنجیدہ ہے۔ بلاشبہ یہ حقیقت بھی ہے کہ اقتصادی راہداری منصوبہ پاکستان کی ترقی اور اس کی معیشت کے استحکام کے لیے بے حد ضروری ہے۔ اس منصوبے سے پاکستان میں تجارتی سرگرمیوں کو فروغ حاصل ہوگا اور اس راہداری کو استعمال کرنے کی فیس بھی ہمارے حصے میں آئے گی جب کہ دوسری جانب چین کو اپنے جنوب مغربی صوبوں کو ترقی دینے کا موقع ملے گا۔ حکومت نے معیشت کی بحالی کے لیے ٹھوس اقدامات شروع کردیے ہیں۔ 35 ارب روپے ملک میں صرف توانائی کی پیداوار بڑھانے کے شعبوں پر خرچ کیے جارہے ہیں یقینا اس سرمایہ کاری کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے اور پاکستان کو لوڈ شیڈنگ سے نجات مل جائے گی۔ موجودہ حکومت کے دور میں امن و امان کی صورتحال بہت بہتر ہوئی ہے۔
جس کی وجہ سے معیشت کی بہتری کے واضح آثار بھی پیدا ہونے لگے ہیں جس کا اعتراف ملکی اور بین الاقوامی سطح پر مسلسل کیا جارہا ہے۔ اب پاکستان کو ابھرتی ہوئی معیشتوں میں شامل کرلیا گیا ۔ بلاشبہ پاکستان دہشتگردی، لاقانونیت اور 73 ارب ڈالر سے زائد کا مقروض ہے اس کے باوجود موجودہ حکومت کی اقتصادی پالیسیاں اور وزیراعظم کے اقتصادی وژن کی بدولت ملک کی مجموعی معاشی ترقی کی شرح پچھلے 8 سال کی بلند ترین سطح پر ہے۔ اسٹاک مارکیٹ کی کارکردگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ملکی زرمبادلہ کے ذخائر ریکارڈ سطح پر پہنچ گئے ہیں۔ امن و امان اور سیکیورٹی کی صورتحال پہلے سے کہیں بہتر ہے۔ ڈالر کا ریٹ بھی کنٹرول میں ہے۔ بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں مسلسل کمی واقع ہورہی ہے۔
سی پیک کے علاوہ موٹرویز کی تعمیر کے شاندار منصوبے زیر تکمیل ہیں۔ یہ موجودہ حکومت کی اقتصادی پالیسیوں کے ثمرات ہیں کہ پاکستان عالمی تجارت میں واپس آگیا ہے۔ اگر سی پیک سمیت دیگر منصوبے بروقت مکمل کرلیے گئے تو وزیر اعظم کا پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنانے کا خواب بھی جلد پورا ہوجائے گا۔ دیگر منصوبوں کے ساتھ ساتھ سی پیک سے قوم کو بڑی امیدیں وابستہ ہیں کیونکہ اس سے پاکستان ہی نہیں پورے خطے کی تقدیر بدل جائے گی۔ جس سے تین ارب لوگوں کو فائدہ پہنچے گا۔ پاکستان خصوصاً بلوچستان، سندھ، خبیرپختونخواہ، گلگت بلتستان اور دیگر پسماندہ علاقوں میں اقتصادی انقلاب برپا ہوگا۔
ملک میں انفرااسٹرکچر، ٹرانسپورٹ اور باربرداری کا نظام بہتر ہوجائے گا۔ وزیراعظم کے ساتھ ساتھ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے ایک سے زائد بار اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے کو ہر صورت مکمل کیا جائے گا۔ سیاسی اور عسکری قیادت نے اس منصوبے کو مکمل کرنے کے لیے آہنی عزم کا اظہار کیا ہے۔ جب کہ پاکستان کو چین کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔
چین ہمارا عظیم دوست اور قابل اعتماد ہمسایہ ہے جس نے ہر مشکل گھڑی میں ہماری مدد کی ہے اور اب پاکستان میں معاشی سرگرمیوں میں تیزی لانے میں بھی وہ ہماری بھرپور مدد کررہا ہے۔ بلکہ میں یہ عرض کروں گا یہ مقام مسرت ہے کہ حالیہ دنوں میں چین کے ایک تھنک ٹینک نے بھارت کو متنبہ کیا ہے کہ وہ بلوچستان کے معاملات میں دخل اندازی بند کردے اور اگر سی پیک منصوبے کو نقصان پہنچایا گیا تو چین مداخلت سے گریز نہیں کرے گا۔ دراصل جب سے چین اور پاکستان نے سی پیک منصوبے پر کام شروع کیا ہے تب سے بھارت اور امریکا کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہی ہے اور وہ اس منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے طرح طرح کی سازشیں کررہے ہیں۔
خاص طور پر بھارت افغانستان کے راستے پاکستان میں ''را'' کے ایجنٹوں کو بھیج کر دہشتگردی کروارہا ہے۔ دوسری جانب بلوچستان میں بھارت نے را کے ذریعے علیحدگی پسندوں کی مدد بھی کی اور دہشتگردی کو فروغ دینے کی کوشش بھی کرتا رہا۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ چند ماہ قبل بلوچستان سے ''را'' کا اہم ایجنٹ کل بھوشن یادو بھی پکڑا گیا تھا جس نے بھارت کی جانب سے بلوچستان میں مداخلت کا اعتراف بھی کیا ہے۔ دوسری جانب امریکا چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ اور خطے میں چین کی بالا دستی سے خائف ہے اسی لیے وہ اب بھارت پر مہربان دکھائی دے رہا ہے۔
چند روز قبل واشنگٹن میں بھارت اور امریکا میں ایک دوسرے کے زمینی، فضائی اور بحری فوجی استعمال کرنے کا معاہدہ بھی ہوا ہے بھارت کے روایتی معاندانہ رویے کی وجہ سے بھارت اور امریکا کے درمیان ہونے والا یہ معاہدہ باعث تشویش ہے۔ بھارت کو مختلف شعبوں میں مسلسل امریکی امداد بھی فراہم کی جارہی ہے جب کہ نیوکلیئر سول ٹیکنالوجی کی بھارت کو منتقلی کے لیے بھی امریکا بے تاب دکھائی دے رہا ہے۔ ان امریکی اقدامات سے خطے میں طاقت کا توازن بگڑ سکتا ہے ۔ دراصل امریکا بھارت کو علاقے کا پولیس مین بنانا چاہتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جب سے پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کا آغاز ہوا ہے بھارت اور امریکا سخت بے چینی کا شکار ہیں اور دونوں ممالک مل کر سی پیک منصوبے کو ناکام بنانے کی سرتوڑ کوششیں کررہے ہیں۔ اس ضمن میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اپنی حد بھی پار کرگئے ۔ جب پچھلے دنوں بھارتی وزیر اعظم نے دہلی کے لال قلعے کی فصیل پر کھڑے ہو کر ایک اور ڈراما رچانے کی بھونڈی کوشش کی اور دنیا پر یہ ظاہر کرنا چاہا کہ بلوچستان کے لوگوں ان سے (مودی) رابطے میں ہیں اور عسکریت پسندی میں مدد دینے پر ان کا شکریہ ادا کیا ہے لیکن اس کا جواب بلوچستان کے عوام نے محض دو روز بعد اس وقت دے دیا جب بلوچستان بھر میں پاکستان کے ساتھ اپنی بھرپور وابستگی کا اظہار کرکے عظیم الشان ریلیاں نکال کر یہ ثابت کردیا کہ بھارتی وزیراعظم مودی کی ہرزہ سرائی کا ان سے کوئی تعلق نہیں۔
یہ سی پیک کے مخالفین کے منہ پر زور دار طمانچہ تھا۔ میرا خیال ہے کہ پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کے فولادی عزم اور عظیم دوست چین کی بھرپور حمایت سے سی پیک منصوبہ ضرور مکمل ہوگا جب کہ بھارت اور امریکا کو منہ کی کھانی پڑے گی۔ اب پاکستان خوشحالی و ترقی کی منزل پر پہنچ جائے گا اور دنیا کی کوئی طاقت اسے روک نہیں سکتی۔ اب ہماری منزل خوشحالی کی طرف ہے۔