دفاع پاکستان کے تقاضے
انشاء اللہ، چند برسوں میں پاکستان دنیا کی تاریخ میں ایک طاقتور اور باشعور قوم کا ملک بن کر ابھرے گا
ISLAMABAD:
یہ حقیقت تو اظہر من الشمس ہے کہ ہندو سامراج کو دنیا کے نقشے پر بھانت بھانت کے ممالک کے جھرمٹ میں نمودار ہونے والا یہ اک ننھا سا ٹمٹماتا ستارہ اول روز سے ہی اک آنکھ نہ بھایا تھا۔ ہمارے مکار، چالباز، فطرتاً شر انگیز ازلی دشمن بھارت نے 6 ستمبر 1965 کو بے وجہ، بنا اطلاع، بلا اشتعال، اچانک ہی شدید گولہ باری کرتے ہوئے لاہور اور سیالکوٹ سیکٹر پر تین اطراف سے حملہ کردیا۔ بھارتی مسلح افواج نے پوری تیاری کے ساتھ اچانک پاکستان پر حملہ کیا تو ان کا خیال تھا کہ پاکستان چند گھنٹوں میں ڈھیر ہوجائیگا، بھارتی جرنیل نے عالمی میڈیا سے کہا کہ ''آج شام ہم لاہور کے جم خانہ کلب میں فتح کا جشن منائیں گے''۔ لیکن پاکستان کے غازی اور شہباز بھی بیدار ہوچکے تھے، پھر تاریخ نے ایک ایسا منظر دیکھا جو کم کم ہی دیکھنے میں آتا ہے، پاکستان نے یہ جنگ اتنی بہادری اور ایسے عزم کے ساتھ لڑی کہ بھارت اپنے ناپاک قدم پاک سرزمین پر نہ رکھ سکا۔ سترہ دن اور سترہ راتوں تک جاری رہنے والی اس جنگ نے ساری دنیا کو بتادیا کہ پاکستان ناقابل تسخیر ہے۔
اس جنگ کے دوران پاکستان کی بری، بحری اور فضائی افواج نے اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں اور مہارتوں کا لوہا ساری دنیا میں منوایا۔ مجاہد پاکستان ایم ایم عالم نے 1950ء کے ماڈل کے ایک جنگی جہاز سے ڈیڑھ منٹ میں دشمن کے 5حملہ آور طیاروں کو مار گرایا، پھر دشمن کی سرزمین پر فضائی حملے کرکے پورے کے پورے ایئر بیس آن واحد میں برباد کردیے۔
پاک بحریہ کی واحد آبدوز نے سیکڑوں میل زیر سمندر سفرکرکے بھارتی بحریہ کے مرکز کے بغل میں پہنچ کر بحری قلعے دوارکا کو جس طرح تباہ کیا وہ بحری جنگوں کی تاریخ میں آبدوز کا کامیاب ترین حملہ مانا جاتا ہے۔ مونا باؤ ریلوے اسٹیشن سے لے کر کشمیر کے بلند پہاڑوں پر حاجی درہ پیر تک پاک افواج نے بے مثال شجاعت، کامیاب ترین جنگی ذہانت اور قوم کی نتیجہ خیز معاونت سے جو عسکری معجزات رقم کیے وہ ہمیشہ کے لیے پاکستانی دفاعی سکت میں مسلسل اضافے کا سبب بن گئے۔ یہ پاکستان کے دفاع کی ایک ایسی جنگ تھی جو ہماری بہادر مسلح افواج نے ہی نہیں بلکہ پاکستان کے ہر فرد نے لڑی، ہر مرد، ہر عورت، ہر جوان، ہر بوڑھے اور ہر بچے نے لڑی، کہا جاتا ہے کہ جنگیں فوجیں نہیں قومیں جیتا کرتی ہیں، ستمبر 1965 کی پاک بھارت جنگ اس قول کا جیتا جاگتا ثبوت تھی۔
یہ ستمبر پاکستانی قوم کے لیے اس لیے بھی بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ آج ہم یوم دفاع اس احساس کے ساتھ منارہے ہیں کہ ہم دہشتگردی اور انتہا پسندی کے خلاف جاری جنگ میں فتح یاب ہورہے ہیں۔ ایک طرف ملک کے اندر دہشتگردی کے خلاف جنگ جاری ہے، جنگ بھی ایسی جس کا محاذ پورے ملک پر محیط ہے، اس میں دشمن محاذ جنگ پر نہیں، ہمارے گلی، کوچوں، بازاروں، مساجد، امام بارگاہوں، ہماری تنصیبات کے آس پاس کہیں موجود ہوسکتا ہے، اس جنگ کا بڑا حصہ جیتا جاچکا ہے، لیکن ابھی یہ جنگ جاری ہے۔
ادھر سرحد کے اس پار دشمن کے جارحانہ عزائم ڈھکے چھپے نہیں، ہمارے دشمن کے بالا دستی کے عزائم میں آج بھی ذرہ بھر تبدیلی نہیں آئی۔ اس کا مقصد اس خطے میں اپنی بالا دستی قائم کرنا ہے، اس کی قابض افواج کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کررہی ہیں اور کشمیری عوام کو بے دردی سے ہلاک اور دہشت زدہ کررہی ہیں کیونکہ وہ اپنے اس حق خود ارادیت کا مطالبہ کررہے ہیں جس کا اقوام متحدہ نے بھی اس سے وعدہ کررکھا ہے۔
بھارت کی خفیہ ایجنسی را پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ ناکام بنانے پر تلی ہوئی ہے، بلوچستان میں بھارت کی مداخلت ثابت ہوچکی ہے، گرفتار بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو سے کی جانیوالی تحقیقات کے نتیجے میں ''را'' کا پورا نیٹ ورک پکڑا جاچکا ہے، اس کے باوجود دشمن اپنی حرکتوں سے باز نہیں آرہا ہے، تاہم قوم کے لیے یہ امر باعث اطمینان ہے کہ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت مکمل ہم آہنگی کے ساتھ تمام درپیش چیلنجوں سے کامیابی کے ساتھ عہدہ برآ ہونے کے لیے پختہ عزم اور مضبوط حوصلے کے ساتھ سرگرم عمل ہے۔ دہشتگردی اور اس میں کرپشن کے پیسے کا استعمال روکنے کے لیے آپریشن ضرب عضب اور نیشنل ایکشن پلان کی شکل میں فیصلہ کن مہم جاری ہے، جس کے نہایت مثبت نتائج برآمد ہورہے ہیں۔
دہشتگردی اور انتہا پسندی کے ساتھ ساتھ آپریشن کا دائرہ کرپشن تک بھی وسیع کردیا گیا ہے، سیکورٹی اداروں کو اس کا مینڈیٹ نیشنل ایکشن پلان کے تحت دیا گیا ہے، نیشنل ایکشن پلان کے تحت دہشتگردوں کی مالی معاونت اور سرپرستی کرنیوالوں کے ساتھ ساتھ ان کے سہولت کاروں کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی۔ جس طرح گزشتہ تین عشروں سے دہشتگردی اور انتہا پسندی کے خلاف کسی نے بھی سنجیدگی سے اقدامات نہیں کیے تھے اور گہرے پانیوں میں اترنے سے گریز کیا تھا، اسی طرح پاکستان بننے کے بعد کرپشن کے خلاف بھی کسی نے سنجیدہ مہم نہیں چلائی، عوام بھی تنگ آچکے ہیں، جب عوامی حمایت سے بڑی بڑی جنگیں جیتی جاسکتی ہیں تو اور بھی بہت سے بڑے کام کیے جاسکتے ہیں۔
یہ سچ ہے کہ ہمارا ماضی کوتاہیوں اور لغزشوں سے پر ہے، اس میں سبھی ادارے شامل ہیں مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ آج تمام ادارے از خود احتساب کے عمل سے گزرتے ہوئے اپنا اپنا قبلہ درست کرنے کی طرف گامزن ہیں، جب ادارے اصول و ضوابط کی پابندی کو پوری طرح اپنانے کی طرف راغب ہوں تو پھر ملک صحیح معنوں میں ترقی کی طرف گامزن ہوتا ہے، پاکستان ایک ریاست ہے، حکومت، فوج، عدلیہ اس کے طاقتور ادارے ہیں، جن کے فیصلے ملکی تقدیر سے جڑے ہوتے ہیں، خوش قسمتی سے آج تمام ادارے آزادی کی فضاء میں اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔
انشاء اللہ، چند برسوں میں پاکستان دنیا کی تاریخ میں ایک طاقتور اور باشعور قوم کا ملک بن کر ابھرے گا، یہ ملک باصلاحیت لوگوں کی سرزمین ہے، جو شبانہ روز محنت کے عادی ہیں، جو دنیا کے سامنے سر اٹھاکر چلنے کا عزم رکھتے ہیں، جو اپنے دامن پر لگے تخریب کے داغ کو دھونے کے لیے سرگرم ہیں اور جو حب الوطنی کے ایسے جذبے سے سرشار ہیں، جس کی مثال دنیا کی کسی اور قوم سے نہیں دی جاسکتی۔ حکومت، دفاعی ادارے اور عدلیہ نے لوگوں کو یہ یقین دلانا ہے کہ قانون کے سامنے سب یکساں ہیں اور کوئی کسی کا استحصال نہیں کرسکتا، سب بغیر کسی دباؤ اور مداخلت کے اپنے اپنے دائرہ کار میں آزادی سے اپنے فرائض سرانجام دیں، پھر دیکھیں کیا معجزہ رونما ہوگا؟ دنیا ایک نئے پاکستان کی تصویر دیکھے گی جو کھیلوں، سائنسی ایجادات، ٹیکنالوجی، کلچر اور ادب میں نئی منزلوں کو چھوتا دکھائی دے گا، امکانات کی سرزمین میں چھپے تمام خزانوں کی تلاش کا سفر آغاز ہوگا تو خود کفالت کی منزل تک رسائی حاصل ہوگی۔
دفاع پاکستان کے تقاضوں میں سے ایک اہم تقاضا یہ بھی ہے کہ ہم اپنے تمام سیاسی، مسلکی، مذہبی، فرقہ ورانہ، علاقائی اور لسانی اختلافات پر ملک کی سلامتی اور بقاء کو ترجیح دینے کا تہیہ کریں۔ اختلافات بلاشبہ انسانی معاشروں کا حصہ ہوتے ہیں لیکن انھیں بہر صورت ایسے حدود میں رکھا جانا چاہیے کہ یہ ملک کی بقا اور سلامتی کے لیے خطرہ نہ بنیں۔