تیسری سیاسی قوت
آصف علی زرداری نے اپنے منصوبے کے تحت پہلے نوازشریف کو حکومت سے علیحدہ ہونے پر مجبور کردیا
سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے کہا ہے کہ اگر ملک میں تیسری سیاسی قوت ظاہر نہ ہوئی تو 2018 کے انتخابات میں نواز شریف کی مسلم لیگ (ن) پھر برسر اقتدار آجائے گی۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ آصف علی زرداری اور نواز شریف آپس میں ملے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کے مفاد کی سیاست کر رہے ہیں ایسے حالات میں ملک کو تیسری سیاسی قوت کی ضرورت ہے مگر تیسری سیاسی قوت کہیں نظر نہیں آرہی۔
1971 سے پہلے اور پیپلز پارٹی کے قیام کے بعد ملک دو صوبوں پر مشتمل تھا اورسابق صدر ایوب کی مسلم لیگ کی حکومت ختم ہونے کے بعد جنرل یحییٰ کے دور میں ملک دولخت ہوا تو مغربی پاکستان سقوط ڈھاکہ کے بعد آدھے پاکستان پر پہلی بار پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی تھی اور مسلم لیگ ٹکڑوں میں بٹ گئی تھی اور 1977 میں پیپلز پارٹی کے مقابلے میں پاکستان قومی اتحاد منظر عام پر آیا تھا جس میں پی پی مخالف نو جماعتیں شامل تھیں۔
پی این اے کی تحریک کے نتیجے میں جنرل ضیا الحق نے مارشل لا لگا دیا تھا جس کے 8 سال بعد 1985 میں غیر جماعتی انتخابات کے بعد پھر سرکاری مسلم لیگ نے حکومت بنائی تھی جس کا مقابلہ پیپلز پارٹی نے 1988 میں کرکے سرکاری مسلم لیگ کے امیدواروں کو شکست دی تھی مگر بے نظیر حکومت اپنی غلطیوں کے باعث برطرف ہوئی جس کے بعد آئی جے آئی کے اتحاد سے مسلم لیگ کے نواز شریف پہلی بار وزیر اعظم بنے مگر صدر سے اختلافات کے باعث ان کی حکومت برطرف ہو گئی۔
جس کے بعد پیپلز پارٹی نے اپنے حلیفوں کی مدد سے نہ صرف حکومت بنائی بلکہ پیپلز پارٹی کے سردار فاروق لغاری کو صدر بھی منتخب کرا لیا مگر 1996 میں بے نظیر حکومت اپنے ہی صدرکے ہاتھوں برطرف ہوئی اور 1997 کے انتخابات میں نواز شریف کی حکومت بھاری مینڈیٹ کے ساتھ دوبارہ اقتدار میں آگئی جس نے برطرفی سے محفوظ رہنے کے لیے دوسری جماعتوں کی مدد سے صدر فاروق لغاری کی حکومت برطرف کرنے کا 58/2-B کا اختیار ہی ختم کردیا۔
1985 کے غیر جماعتی اور بعد کے چار جماعتی انتخابات میں مسلم لیگ کو تین بار اور پیپلز پارٹی کو دو بار اقتدار کی باریاں لینے کا موقعہ ملا کیونکہ کوئی تیسری سیاسی قوت موجود نہیں تھی۔ 1999 میں وزیر اعظم نواز شریف کے اقتدارکا سورج پھر جنرل پرویز مشرف کے اقتدار سنبھال لینے کے باعث غروب ہوا بعدازاں بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کو دو دو بار اقتدار میں رہنے کے بعد جلا وطن ہونا پڑا۔ جنرل پرویز مشرف سابق وزرائے اعظم بے نظیر بھٹو اور نواز شریف دونوں کے خلاف تھے اوردونوں کو ملک میں دیکھنا بھی نہیں چاہتے تھے مگر سپریم کورٹ کے حکم پر 2002 میں انتخابات کرانا پڑے جن میں پی پی اور (ن) لیگ اپنی قیادت جلاوطن ہونے کے باعث کامیاب نہ ہوسکیں اور دونوں پارٹیوں کے رہنما توڑکر جنرل پرویز کی خواہش پر مسلم لیگ قائد اعظم کی حکومت صرف ایک ووٹ کی اکثریت سے قائم ہوئی جس نے بھٹو حکومت سے بھی زیادہ عرصہ 5 سال حکومت کی۔
مسلم لیگ (ق) نے مدت تو پوری کرلی جس کے دور میں تعمیر وترقی بھی ہوئی مگر (ق) لیگ جنرل پرویزکی توقعات پر پوری نہ اتر سکی اور انھیں اپنے مفاد اور مزید اقتدار میں رہنے کے لیے بے نظیر بھٹو کے ساتھ این آر اوکرنا پڑا۔ بے نظیر بھٹو جنرل پرویز مشرف سے معاہدے کے بعد جنرل پرویزکے منع کرنے کے باوجود 2007 میں وطن واپس آگئیں اور جنرل پرویز نے نواز شریف کو وطن واپس نہ آنے دیا۔ 2007 میں عام انتخابات کے دوران بے نظیر بھٹو انتخابی مہم کے دوران شہید ہوگئیں جس کا بھرپور فائدہ 2008 میں پیپلز پارٹی کو اورکم فائدہ مسلم لیگ (ن) کو ملا اور (ق) لیگ کو شکست ہوئی۔ اگر بے نظیر شہید نہ ہوتیں تو (ق) لیگ نے دوبارہ حکومت بنا لینی تھی جس کے وزیراعظم چوہدری پرویزالٰہی ہوتے اور پرویز مشرف صدر رہتے جنھیں دس بار وردی میں منتخب کرانے کا اعلان پرویز الٰہی نے کیا تھا۔ 2008 میں پہلی بار پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے مل کر حکومت بنائی اور مواخذہ تحریک کی دھمکی دے کر پرویز مشرف کو مستعفی ہونے پرمجبور کردیا۔
آصف علی زرداری نے اپنے منصوبے کے تحت پہلے نوازشریف کو حکومت سے علیحدہ ہونے پر مجبور کردیا اور پھرخود صدر منتخب ہوگئے۔ 2008 سے 2013 تک پی پی کی حکومت رہی جس نے اپنی مدت ضرور پوری کرلی مگر 2013 میں اقتدار میں نہ آسکی۔ 2013 کے انتخابات میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے مقابلے میں تحریک انصاف تیسری سیاسی قوت تو بن کر ابھری مگر تیسری پوزیشن پر رہتے ہوئیکے پی کے حکومت بنانے میں ضرورکامیاب ہوگئی اور پیپلز پارٹی کا اقتدار صرف سندھ تک محدود ہوگیا۔
پی ٹی آئی کے عمران خان تیسرے قومی رہنما بن کر ابھرے۔ جو وزیراعظم بننا چاہتے تھے مگر پی پی کے بعد پھر مسلم لیگ (ن) اقتدار میں آگئی مگر عمران خان تین سال سے دھاندلی دھاندلی کا راگ الاپ رہے ہیں اور ان سے (ن) لیگ کا اقتدار ہضم نہیں ہو رہا۔ عمران خان کو قوم تیسرا بڑا قومی لیڈر اور پی ٹی آئی کو مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے بعد تیسری سیاسی قوت سمجھ رہی تھی مگر عمران خان کی جلد بازی، دھرنوں، آئے دن یوٹرن لینے کی پالیسی، غیرذمے دارانہ بیانات، ساڑھے تین سال گزرنے کے بعد بھی دھاندلی دھاندلی کا شور مچائے رکھنے، پانامہ لیکس کا کوئی نتیجہ نہ نکلنے کے باوجود پانامہ لیکس کا شور جاری رکھنے، پانامہ لیکس پر پی پی کی حمایت حاصل کرنے کے بعد آصف علی زرداری اور پیپلز پارٹی پر تنقید سے گریز زرداری دورکی کرپشن کا ذکر بھول کر صرف نواز شریف اور ان کے بیٹوں اور خاندان پر روزانہ کڑی تنقید اور بے سروپا بیانات سے لگتا ہے کہ عمران خان کو نواز شریف سے ذاتی دشمنی ہوچکی ہے۔
اور وہ (ن) لیگ کی حکومت کی ناقص کارکردگی کو بھول کر صرف نواز شریف کے پیچھے پڑکر تیسری سیاسی قوت بننا چاہتے ہیں۔ چھوٹی سیاسی جماعتوں متحدہ، جے یو آئی اور اے این پی سے عمران خان کی نہیں بن رہی۔ جماعت اسلامی حلیف ہوکر بھی عمران خان سے خوش نہیں۔ حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک میں عمران خان کی تنہا اڑان سے پیپلز پارٹی بھی عمران کی ہمنوا نہیں ہے۔
ساڑھے تین سال گزرنے کے بعد اب پی ٹی آئی کی کے پی کے حکومت کو باقی مدت میں کچھ کرکے دکھانا اور مثالی کارکردگی پر توجہ مرکوزکرنا ہوگی۔ پی پی کو 8 سال بعد ہوش آگیا اور آصف زرداری تو سندھ میں تبدیلی کی طرف آگئے اور مراد علی شاہ پی پی حکومت کی بیڈگورننس کے خاتمے پر دھیان دے رہے ہیں مگر عمران خان کو اب بھی ہوش نہیں آرہا کہ وہ اب نواز شریف دشمنی چھوڑ کر کے پی کے پر توجہ دیں۔ شہباز شریف نے پنجاب میں کارکردگی دکھائی تو (ن) لیگ کامیاب ہوئی تھی۔اب سندھ میں پی پی اور کے پی کے میں عمران خان حقیقی تبدیلی لائیں گے تو (ن) لیگ متاثر ہوگی۔ عمران خان کو تیسری سیاسی قوت بننے پر توجہ دینے کے لیے اپنی سیاست میں تبدیلی اور کے پی کے کو مثالی صوبہ بناکر دکھانا ہوگا وگرنہ پرویز مشرف درست ثابت ہوں گے۔
1971 سے پہلے اور پیپلز پارٹی کے قیام کے بعد ملک دو صوبوں پر مشتمل تھا اورسابق صدر ایوب کی مسلم لیگ کی حکومت ختم ہونے کے بعد جنرل یحییٰ کے دور میں ملک دولخت ہوا تو مغربی پاکستان سقوط ڈھاکہ کے بعد آدھے پاکستان پر پہلی بار پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی تھی اور مسلم لیگ ٹکڑوں میں بٹ گئی تھی اور 1977 میں پیپلز پارٹی کے مقابلے میں پاکستان قومی اتحاد منظر عام پر آیا تھا جس میں پی پی مخالف نو جماعتیں شامل تھیں۔
پی این اے کی تحریک کے نتیجے میں جنرل ضیا الحق نے مارشل لا لگا دیا تھا جس کے 8 سال بعد 1985 میں غیر جماعتی انتخابات کے بعد پھر سرکاری مسلم لیگ نے حکومت بنائی تھی جس کا مقابلہ پیپلز پارٹی نے 1988 میں کرکے سرکاری مسلم لیگ کے امیدواروں کو شکست دی تھی مگر بے نظیر حکومت اپنی غلطیوں کے باعث برطرف ہوئی جس کے بعد آئی جے آئی کے اتحاد سے مسلم لیگ کے نواز شریف پہلی بار وزیر اعظم بنے مگر صدر سے اختلافات کے باعث ان کی حکومت برطرف ہو گئی۔
جس کے بعد پیپلز پارٹی نے اپنے حلیفوں کی مدد سے نہ صرف حکومت بنائی بلکہ پیپلز پارٹی کے سردار فاروق لغاری کو صدر بھی منتخب کرا لیا مگر 1996 میں بے نظیر حکومت اپنے ہی صدرکے ہاتھوں برطرف ہوئی اور 1997 کے انتخابات میں نواز شریف کی حکومت بھاری مینڈیٹ کے ساتھ دوبارہ اقتدار میں آگئی جس نے برطرفی سے محفوظ رہنے کے لیے دوسری جماعتوں کی مدد سے صدر فاروق لغاری کی حکومت برطرف کرنے کا 58/2-B کا اختیار ہی ختم کردیا۔
1985 کے غیر جماعتی اور بعد کے چار جماعتی انتخابات میں مسلم لیگ کو تین بار اور پیپلز پارٹی کو دو بار اقتدار کی باریاں لینے کا موقعہ ملا کیونکہ کوئی تیسری سیاسی قوت موجود نہیں تھی۔ 1999 میں وزیر اعظم نواز شریف کے اقتدارکا سورج پھر جنرل پرویز مشرف کے اقتدار سنبھال لینے کے باعث غروب ہوا بعدازاں بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کو دو دو بار اقتدار میں رہنے کے بعد جلا وطن ہونا پڑا۔ جنرل پرویز مشرف سابق وزرائے اعظم بے نظیر بھٹو اور نواز شریف دونوں کے خلاف تھے اوردونوں کو ملک میں دیکھنا بھی نہیں چاہتے تھے مگر سپریم کورٹ کے حکم پر 2002 میں انتخابات کرانا پڑے جن میں پی پی اور (ن) لیگ اپنی قیادت جلاوطن ہونے کے باعث کامیاب نہ ہوسکیں اور دونوں پارٹیوں کے رہنما توڑکر جنرل پرویز کی خواہش پر مسلم لیگ قائد اعظم کی حکومت صرف ایک ووٹ کی اکثریت سے قائم ہوئی جس نے بھٹو حکومت سے بھی زیادہ عرصہ 5 سال حکومت کی۔
مسلم لیگ (ق) نے مدت تو پوری کرلی جس کے دور میں تعمیر وترقی بھی ہوئی مگر (ق) لیگ جنرل پرویزکی توقعات پر پوری نہ اتر سکی اور انھیں اپنے مفاد اور مزید اقتدار میں رہنے کے لیے بے نظیر بھٹو کے ساتھ این آر اوکرنا پڑا۔ بے نظیر بھٹو جنرل پرویز مشرف سے معاہدے کے بعد جنرل پرویزکے منع کرنے کے باوجود 2007 میں وطن واپس آگئیں اور جنرل پرویز نے نواز شریف کو وطن واپس نہ آنے دیا۔ 2007 میں عام انتخابات کے دوران بے نظیر بھٹو انتخابی مہم کے دوران شہید ہوگئیں جس کا بھرپور فائدہ 2008 میں پیپلز پارٹی کو اورکم فائدہ مسلم لیگ (ن) کو ملا اور (ق) لیگ کو شکست ہوئی۔ اگر بے نظیر شہید نہ ہوتیں تو (ق) لیگ نے دوبارہ حکومت بنا لینی تھی جس کے وزیراعظم چوہدری پرویزالٰہی ہوتے اور پرویز مشرف صدر رہتے جنھیں دس بار وردی میں منتخب کرانے کا اعلان پرویز الٰہی نے کیا تھا۔ 2008 میں پہلی بار پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے مل کر حکومت بنائی اور مواخذہ تحریک کی دھمکی دے کر پرویز مشرف کو مستعفی ہونے پرمجبور کردیا۔
آصف علی زرداری نے اپنے منصوبے کے تحت پہلے نوازشریف کو حکومت سے علیحدہ ہونے پر مجبور کردیا اور پھرخود صدر منتخب ہوگئے۔ 2008 سے 2013 تک پی پی کی حکومت رہی جس نے اپنی مدت ضرور پوری کرلی مگر 2013 میں اقتدار میں نہ آسکی۔ 2013 کے انتخابات میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے مقابلے میں تحریک انصاف تیسری سیاسی قوت تو بن کر ابھری مگر تیسری پوزیشن پر رہتے ہوئیکے پی کے حکومت بنانے میں ضرورکامیاب ہوگئی اور پیپلز پارٹی کا اقتدار صرف سندھ تک محدود ہوگیا۔
پی ٹی آئی کے عمران خان تیسرے قومی رہنما بن کر ابھرے۔ جو وزیراعظم بننا چاہتے تھے مگر پی پی کے بعد پھر مسلم لیگ (ن) اقتدار میں آگئی مگر عمران خان تین سال سے دھاندلی دھاندلی کا راگ الاپ رہے ہیں اور ان سے (ن) لیگ کا اقتدار ہضم نہیں ہو رہا۔ عمران خان کو قوم تیسرا بڑا قومی لیڈر اور پی ٹی آئی کو مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے بعد تیسری سیاسی قوت سمجھ رہی تھی مگر عمران خان کی جلد بازی، دھرنوں، آئے دن یوٹرن لینے کی پالیسی، غیرذمے دارانہ بیانات، ساڑھے تین سال گزرنے کے بعد بھی دھاندلی دھاندلی کا شور مچائے رکھنے، پانامہ لیکس کا کوئی نتیجہ نہ نکلنے کے باوجود پانامہ لیکس کا شور جاری رکھنے، پانامہ لیکس پر پی پی کی حمایت حاصل کرنے کے بعد آصف علی زرداری اور پیپلز پارٹی پر تنقید سے گریز زرداری دورکی کرپشن کا ذکر بھول کر صرف نواز شریف اور ان کے بیٹوں اور خاندان پر روزانہ کڑی تنقید اور بے سروپا بیانات سے لگتا ہے کہ عمران خان کو نواز شریف سے ذاتی دشمنی ہوچکی ہے۔
اور وہ (ن) لیگ کی حکومت کی ناقص کارکردگی کو بھول کر صرف نواز شریف کے پیچھے پڑکر تیسری سیاسی قوت بننا چاہتے ہیں۔ چھوٹی سیاسی جماعتوں متحدہ، جے یو آئی اور اے این پی سے عمران خان کی نہیں بن رہی۔ جماعت اسلامی حلیف ہوکر بھی عمران خان سے خوش نہیں۔ حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک میں عمران خان کی تنہا اڑان سے پیپلز پارٹی بھی عمران کی ہمنوا نہیں ہے۔
ساڑھے تین سال گزرنے کے بعد اب پی ٹی آئی کی کے پی کے حکومت کو باقی مدت میں کچھ کرکے دکھانا اور مثالی کارکردگی پر توجہ مرکوزکرنا ہوگی۔ پی پی کو 8 سال بعد ہوش آگیا اور آصف زرداری تو سندھ میں تبدیلی کی طرف آگئے اور مراد علی شاہ پی پی حکومت کی بیڈگورننس کے خاتمے پر دھیان دے رہے ہیں مگر عمران خان کو اب بھی ہوش نہیں آرہا کہ وہ اب نواز شریف دشمنی چھوڑ کر کے پی کے پر توجہ دیں۔ شہباز شریف نے پنجاب میں کارکردگی دکھائی تو (ن) لیگ کامیاب ہوئی تھی۔اب سندھ میں پی پی اور کے پی کے میں عمران خان حقیقی تبدیلی لائیں گے تو (ن) لیگ متاثر ہوگی۔ عمران خان کو تیسری سیاسی قوت بننے پر توجہ دینے کے لیے اپنی سیاست میں تبدیلی اور کے پی کے کو مثالی صوبہ بناکر دکھانا ہوگا وگرنہ پرویز مشرف درست ثابت ہوں گے۔