فن کے شہید پہلا حصہ
ستمبر کا مہینہ پاکستان کی تاریخ میں ناقابل فراموش واقعات لے کر اجاگر ہوتا ہے
ISLAMABAD:
ستمبر کا مہینہ پاکستان کی تاریخ میں ناقابل فراموش واقعات لے کر اجاگر ہوتا ہے۔ 1965 ستمبر کو ہم نے 17 روزہ جنگ لڑی جس میں شو بزنس سے وابستہ افراد نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کچھ واقعات ایسے بھی تھے جس کا عوام نے پرتپاک او گرم جوشی سے استقبال کیا اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم فنکاروں کی خدمات کو نظرانداز نہیں کرسکتے کیونکہ ماضی میں فنکاروں کی گراں قدر خدمات رہی ہیں جو رہتی دنیا تک تابندہ اور درخشاں رہے گی ۔کیا ہم ان گیتوں کو اپنے ذہنوں سے جھٹک سکتے ہیں جو آج بھی خوبصورتی سے ہمارے دلوں میں زندہ ہیں۔
نورجہاں کہتی ہیں ''اے وطن کے سجیلے جوانو'' اس گیت کو جمیل الدین عالی نے لکھا پھر مسرور انور کے کلام کو مہدی حسن پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں ''اپنی جاں نذر کروں اپنی وفا پیش کروں'' پھر ''جنگ دفاع پاکستان میں'' شاعر رئیس امروہوی کچھ مہدی حسن کی زبان میں کہتے ہیں ''خطہ لاہور تیرے جانثاروں کو سلام'' ۔گلوکار عنایت حسین بھٹی مرحوم نے 1958 میں فلم ''چنگیز خان'' کے لیے ایک گیت گایا اور پیر وہ 1965 کی جنگ میں امر ہوگیا۔ شاعر طفیل ہوشیار پوری نے کیا خوب لکھا ''اے مرد مجاہد جاگ ذرا' اب وقت شہادت ہے آیا'' شاعر حمایت علی مسعود رانا کی سریلی آواز کے توشے سے قوم کو پیغام دیتے ہیں ''ساتھیو... مجاہدو... جاگ اٹھا ہے سارا وطن'' گلوکار تاج ملتانی شاعر ڈاکٹر رشید انور کی زبان میں کہتے ہیں ''جنگ کھیڈ نئیں زنانیاں دی'' اب آتے ہیں ہم اپنے مرحومین کی طرف جن کی کارکردگی ناقابل فراموش تھی۔
اداکار لہری کا اصل نام سفیر اللہ صدیقی تھا۔ 2 جنوری 1931 کو بھارت کے شہرکانپور میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد اور دادا انڈین ریلوے میں ٹھیکے لیا کرتے تھے ان کے چھ بہن بھائی تھے ابتدائی تعلیم علی مسلم ہائی اسکول اور دھرم اسکول کانپور سے حاصل کی پھر 1947 میں فیملی کے ساتھ پاکستان آگئے ۔1991 میں ہماری تفصیلی ملاقات میرے محترم استاد اسد جعفری مرحوم نے ان سے پہلی مرتبہ کروائی۔
یہ جنوری کا مہینہ تھا لہری صاحب بخار میں مبتلا تھے بڑی محبت سے ملے اور کہا کہ مجھے بخار ہے تم دوبارہ برخوردار ضرور آنا پھر ایک دن ان کا فون آیا ہم اس زمانے میں ایک مقامی روزنامے سے وابستہ تھے جب کہ ماہانہ فلم ایشیا جس کے مدیر منیر حسین مرحوم تھے سے بھی وابستہ تھے اور ہمارے ساتھ فلم ایشیا میں بہت ہی پیاری شخصیت جنھیں صحافت کی دنیا میں شاہ جی (نادر شاہ عادل) کہتے ہیں۔ فلم ایشیا میں ہمارے ساتھ ہوتے تھے ہم جونیئر اور وہ ہم سے بہت سینئر تھے آج کل وہ روزنامہ ''ایکسپریس'' سے وابستہ ہیں اور وہی اپنی باغ و بہار اور نفیس طبیعت کے ساتھ۔ خیر اب اس فون کی طرف آتے ہیں جو لہری صاحب نے ہمیں کیا تھا کہ برخوردار اب طبیعت بہتر ہے کسی وقت گھر آجاؤ اور یوں ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ 23 مارچ 1991 میں ہماری لہری صاحب سے تقریباً 3 گھنٹے طویل نشست ہوئی ۔
اب اس نشست کا حال احوال بتاتے ہیں لہری بتا رہے تھے کہ جب ہم پاکستان آئے تو ہماری عمر تقریباً 18 سال تھی بڑی مشکل سے برنس روڈ پر ایک فلیٹ کرائے پر ملا۔ اسلامیہ کالج سے انٹر ''انڈروڈ ٹائپنگ اسکول'' سے ٹائپنگ سیکھنے کے بعد جنگلات کے محکمے میں اداکار آزاد مرحوم جو قائد اعظم کے ذاتی ڈرائیور تھے اور 12 ستمبرکو اس دنیا سے رخصت ہوئے نے اپنے ایک دوست مسعود الرحمن کے توسط سے انھیں یہ نوکری دلوائی جہاں انھیں 242 روپے تنخواہ ملا کرتی تھی جو گھر کے اہل خانہ کے لیے نہ کافی تھی ۔
نوکری کے بعد شام کو یہ صدر میں بنیان اور موزے فروخت کیا کرتے تھے بعد از نمازعشا، صدر پوسٹ آفس کی گلی میں ایک کچا ہوٹل تھا، اعظم ہوٹل وہاں معروف صحافی مقبول جلیس اور اداکار آزاد آیا کرتے تھے ۔ ان کی ٹیم نے ایک اسٹیج پلے جو بہت خوبصورت تھا ''مریض عشق'' لکھا یہ لہری کا پہلا اسٹیج ڈرامہ تھا جو بہت کامیاب ہوا چونکہ اداکار آزاد مرحوم ان پر بہت مہربان تھے تو انھوں نے مصنف مسعود الرحمن (جن کا تذکرہ اوپر ہے) نے فلم ''انوکھی'' کی کہانی لکھی اور یہی لہری کی پہلی فلم تھی، جو27 جنوری 1956 کو ریلیز ہوئی لیکن خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کرسکی۔ فلم دعا، بیداری، دل میں، لہری نے کام کیا مگر نمایاں نہ ہوسکے اور لہری نے بتایا کہ ہم ملازمت اور اسٹیج پر کامیڈی کرکے اپنے اور گھر والوں کے پیٹ کی دوزخ بھرتے فلم انڈسٹری لاہور میں بہت کام ہو رہا تھا۔
اسد جعفری مرحوم نے انھیں لاہور آنے کی دعوت دی بقول لہری صاحب کے کہ کرایہ نہ ہونے کی وجہ سے لاہور کئی مہینوں کے بعد گیا تو پتہ چلا کہ اسد جعفری ڈھاکہ گئے ہیں مگر ان کی والدہ مرحوم اور بڑے بھائی نے بہت محبت کا ثبوت دیا اور یوں مجھے فلم الٰہ دین کا بیٹا اور نوکری میں چانس دیا گیا جو اسد جعفری کے فون پر دیا گیا تھا۔ دونوں فلمیں فلاپ ہوئیں اور پھر انھوں نے ہنستے ہوئے کہا کہ گھبرا کر کراچی آگیا کیونکہ نوکری اور اسٹیج سے گھر چل رہا تھا اگر لاہور میں رہتا تو ڈر تھا کہ گدھا بھی جاتا اور رسی بھی۔
اس دوران اسد جعفری کراچی آگئے اور انھوں نے کوشش کرکے فلم فیصلہ، سویرا، انصاف قابل ذکر فلمیں تھیں فلم ''انصاف'' 29 جنوری 1960 میں ریلیز ہوکر سپرہٹ ہوئی اور لہری کہتے ہیں کہ یہ فلم میری پہچان بنی فلم ''اور بھی غم'' ہیں کہ ہیرو اسد جعفری تھے جس میں لہری بھی موجود تھے اور یہی وہ معیاری فلم تھی جس کو صدارتی ایوارڈ دیا گیا اور پھر معروف اداکار ابراہیم نفیس مرحوم کو میں نے درپن سے کہہ کر فلم ''رات کے راہی'' میں پہلی مرتبہ چانس دلوایا۔ پنجابی فلموں کے حوالے سے انھوں نے بتایا کہ میں نے صرف چار پنجابی فلموں میں کام کیا ہدایت کار لقمان مرحوم کی فلم ''ووہٹی'' میں زمرد اور نیلو کے ہیرو تھے۔
زمرد کے بارے میں انھوں نے بتایا بہت کم گو خاتون تھیں اداکارہ نیلو اداکارہ شان کی والدہ بہت خوش گفتار اور جولی طبیعت کی خاتون تھیں، زمرد گلوکارہ تو نہیں تھیں مگر ان کی آواز بہت اچھی تھی۔ شاہد سے شادی کے بعد ان سے علیحدگی کو انھوں نے بہت سنجیدہ لیا تھا ۔ننھا (کامیڈین الف نون والے) کے حوالے سے انھوں نے بتایا کہ میرا بہت اچھا دوست تھا، فلم ''انتقام'' سے آنے والی اداکارہ اور رقاصہ نازلی کے عشق میں گرفتار ہوگئے۔ مجھے بتایا میں نے سمجھایا کہ خاور (اصلی نام) تم بال بچے دار آدمی ہو، کس چکر میں پڑ گئے ہو۔ مگر نہ مانے اور نازلی نے ان سے شادی نہیں کی، اس دکھ کی وجہ سے انھوں نے اپنے عروج کے دور میں ہی خودکشی کرلی۔
گفتگو میں تکبر کا تذکرہ ہوا تو لہری بہت رنجیدہ ہوگئے اور مجھے کہا میاں زندگی میں جب نعمتیں تمہاری جھولی میں ہوں اور لوگ تمہارے کام کی وجہ سے تمہیں جاننے لگیں تو یاد رکھنا ہر عروج کے بعد زوال ہے جو انسان خود پیدا کرتا ہے ۔ ایک واقعہ سناتے ہوئے ان کے آنسو نکل گئے اور اس طرح مجھے بھی نصیحت کا دروازہ نظر آگیا، فرمانے لگے 1985 میں فلم ''تانیہ'' کی شوٹنگ کے لیے بنکاک گیا وہاں تمام اسٹاف ایک ہوٹل میں ٹھہرا مگر اس وقت میں ہارٹ کیک تھا میں نے فلم کے کرتا دھرتا سے کہا کہ میں اس ہوٹل میں نہیں ٹھہر سکتا۔ مجھے 5 اسٹار ہوٹل چاہیے اور اس طرح میری ضد پر مجھے 5 اسٹار ہوٹل میں ٹھہرایا گیا اور پھر اسی رات مجھ پر فالج کا حملہ ہوگیا اور ... (جاری ہے)
ستمبر کا مہینہ پاکستان کی تاریخ میں ناقابل فراموش واقعات لے کر اجاگر ہوتا ہے۔ 1965 ستمبر کو ہم نے 17 روزہ جنگ لڑی جس میں شو بزنس سے وابستہ افراد نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کچھ واقعات ایسے بھی تھے جس کا عوام نے پرتپاک او گرم جوشی سے استقبال کیا اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم فنکاروں کی خدمات کو نظرانداز نہیں کرسکتے کیونکہ ماضی میں فنکاروں کی گراں قدر خدمات رہی ہیں جو رہتی دنیا تک تابندہ اور درخشاں رہے گی ۔کیا ہم ان گیتوں کو اپنے ذہنوں سے جھٹک سکتے ہیں جو آج بھی خوبصورتی سے ہمارے دلوں میں زندہ ہیں۔
نورجہاں کہتی ہیں ''اے وطن کے سجیلے جوانو'' اس گیت کو جمیل الدین عالی نے لکھا پھر مسرور انور کے کلام کو مہدی حسن پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں ''اپنی جاں نذر کروں اپنی وفا پیش کروں'' پھر ''جنگ دفاع پاکستان میں'' شاعر رئیس امروہوی کچھ مہدی حسن کی زبان میں کہتے ہیں ''خطہ لاہور تیرے جانثاروں کو سلام'' ۔گلوکار عنایت حسین بھٹی مرحوم نے 1958 میں فلم ''چنگیز خان'' کے لیے ایک گیت گایا اور پیر وہ 1965 کی جنگ میں امر ہوگیا۔ شاعر طفیل ہوشیار پوری نے کیا خوب لکھا ''اے مرد مجاہد جاگ ذرا' اب وقت شہادت ہے آیا'' شاعر حمایت علی مسعود رانا کی سریلی آواز کے توشے سے قوم کو پیغام دیتے ہیں ''ساتھیو... مجاہدو... جاگ اٹھا ہے سارا وطن'' گلوکار تاج ملتانی شاعر ڈاکٹر رشید انور کی زبان میں کہتے ہیں ''جنگ کھیڈ نئیں زنانیاں دی'' اب آتے ہیں ہم اپنے مرحومین کی طرف جن کی کارکردگی ناقابل فراموش تھی۔
اداکار لہری کا اصل نام سفیر اللہ صدیقی تھا۔ 2 جنوری 1931 کو بھارت کے شہرکانپور میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد اور دادا انڈین ریلوے میں ٹھیکے لیا کرتے تھے ان کے چھ بہن بھائی تھے ابتدائی تعلیم علی مسلم ہائی اسکول اور دھرم اسکول کانپور سے حاصل کی پھر 1947 میں فیملی کے ساتھ پاکستان آگئے ۔1991 میں ہماری تفصیلی ملاقات میرے محترم استاد اسد جعفری مرحوم نے ان سے پہلی مرتبہ کروائی۔
یہ جنوری کا مہینہ تھا لہری صاحب بخار میں مبتلا تھے بڑی محبت سے ملے اور کہا کہ مجھے بخار ہے تم دوبارہ برخوردار ضرور آنا پھر ایک دن ان کا فون آیا ہم اس زمانے میں ایک مقامی روزنامے سے وابستہ تھے جب کہ ماہانہ فلم ایشیا جس کے مدیر منیر حسین مرحوم تھے سے بھی وابستہ تھے اور ہمارے ساتھ فلم ایشیا میں بہت ہی پیاری شخصیت جنھیں صحافت کی دنیا میں شاہ جی (نادر شاہ عادل) کہتے ہیں۔ فلم ایشیا میں ہمارے ساتھ ہوتے تھے ہم جونیئر اور وہ ہم سے بہت سینئر تھے آج کل وہ روزنامہ ''ایکسپریس'' سے وابستہ ہیں اور وہی اپنی باغ و بہار اور نفیس طبیعت کے ساتھ۔ خیر اب اس فون کی طرف آتے ہیں جو لہری صاحب نے ہمیں کیا تھا کہ برخوردار اب طبیعت بہتر ہے کسی وقت گھر آجاؤ اور یوں ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ 23 مارچ 1991 میں ہماری لہری صاحب سے تقریباً 3 گھنٹے طویل نشست ہوئی ۔
اب اس نشست کا حال احوال بتاتے ہیں لہری بتا رہے تھے کہ جب ہم پاکستان آئے تو ہماری عمر تقریباً 18 سال تھی بڑی مشکل سے برنس روڈ پر ایک فلیٹ کرائے پر ملا۔ اسلامیہ کالج سے انٹر ''انڈروڈ ٹائپنگ اسکول'' سے ٹائپنگ سیکھنے کے بعد جنگلات کے محکمے میں اداکار آزاد مرحوم جو قائد اعظم کے ذاتی ڈرائیور تھے اور 12 ستمبرکو اس دنیا سے رخصت ہوئے نے اپنے ایک دوست مسعود الرحمن کے توسط سے انھیں یہ نوکری دلوائی جہاں انھیں 242 روپے تنخواہ ملا کرتی تھی جو گھر کے اہل خانہ کے لیے نہ کافی تھی ۔
نوکری کے بعد شام کو یہ صدر میں بنیان اور موزے فروخت کیا کرتے تھے بعد از نمازعشا، صدر پوسٹ آفس کی گلی میں ایک کچا ہوٹل تھا، اعظم ہوٹل وہاں معروف صحافی مقبول جلیس اور اداکار آزاد آیا کرتے تھے ۔ ان کی ٹیم نے ایک اسٹیج پلے جو بہت خوبصورت تھا ''مریض عشق'' لکھا یہ لہری کا پہلا اسٹیج ڈرامہ تھا جو بہت کامیاب ہوا چونکہ اداکار آزاد مرحوم ان پر بہت مہربان تھے تو انھوں نے مصنف مسعود الرحمن (جن کا تذکرہ اوپر ہے) نے فلم ''انوکھی'' کی کہانی لکھی اور یہی لہری کی پہلی فلم تھی، جو27 جنوری 1956 کو ریلیز ہوئی لیکن خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کرسکی۔ فلم دعا، بیداری، دل میں، لہری نے کام کیا مگر نمایاں نہ ہوسکے اور لہری نے بتایا کہ ہم ملازمت اور اسٹیج پر کامیڈی کرکے اپنے اور گھر والوں کے پیٹ کی دوزخ بھرتے فلم انڈسٹری لاہور میں بہت کام ہو رہا تھا۔
اسد جعفری مرحوم نے انھیں لاہور آنے کی دعوت دی بقول لہری صاحب کے کہ کرایہ نہ ہونے کی وجہ سے لاہور کئی مہینوں کے بعد گیا تو پتہ چلا کہ اسد جعفری ڈھاکہ گئے ہیں مگر ان کی والدہ مرحوم اور بڑے بھائی نے بہت محبت کا ثبوت دیا اور یوں مجھے فلم الٰہ دین کا بیٹا اور نوکری میں چانس دیا گیا جو اسد جعفری کے فون پر دیا گیا تھا۔ دونوں فلمیں فلاپ ہوئیں اور پھر انھوں نے ہنستے ہوئے کہا کہ گھبرا کر کراچی آگیا کیونکہ نوکری اور اسٹیج سے گھر چل رہا تھا اگر لاہور میں رہتا تو ڈر تھا کہ گدھا بھی جاتا اور رسی بھی۔
اس دوران اسد جعفری کراچی آگئے اور انھوں نے کوشش کرکے فلم فیصلہ، سویرا، انصاف قابل ذکر فلمیں تھیں فلم ''انصاف'' 29 جنوری 1960 میں ریلیز ہوکر سپرہٹ ہوئی اور لہری کہتے ہیں کہ یہ فلم میری پہچان بنی فلم ''اور بھی غم'' ہیں کہ ہیرو اسد جعفری تھے جس میں لہری بھی موجود تھے اور یہی وہ معیاری فلم تھی جس کو صدارتی ایوارڈ دیا گیا اور پھر معروف اداکار ابراہیم نفیس مرحوم کو میں نے درپن سے کہہ کر فلم ''رات کے راہی'' میں پہلی مرتبہ چانس دلوایا۔ پنجابی فلموں کے حوالے سے انھوں نے بتایا کہ میں نے صرف چار پنجابی فلموں میں کام کیا ہدایت کار لقمان مرحوم کی فلم ''ووہٹی'' میں زمرد اور نیلو کے ہیرو تھے۔
زمرد کے بارے میں انھوں نے بتایا بہت کم گو خاتون تھیں اداکارہ نیلو اداکارہ شان کی والدہ بہت خوش گفتار اور جولی طبیعت کی خاتون تھیں، زمرد گلوکارہ تو نہیں تھیں مگر ان کی آواز بہت اچھی تھی۔ شاہد سے شادی کے بعد ان سے علیحدگی کو انھوں نے بہت سنجیدہ لیا تھا ۔ننھا (کامیڈین الف نون والے) کے حوالے سے انھوں نے بتایا کہ میرا بہت اچھا دوست تھا، فلم ''انتقام'' سے آنے والی اداکارہ اور رقاصہ نازلی کے عشق میں گرفتار ہوگئے۔ مجھے بتایا میں نے سمجھایا کہ خاور (اصلی نام) تم بال بچے دار آدمی ہو، کس چکر میں پڑ گئے ہو۔ مگر نہ مانے اور نازلی نے ان سے شادی نہیں کی، اس دکھ کی وجہ سے انھوں نے اپنے عروج کے دور میں ہی خودکشی کرلی۔
گفتگو میں تکبر کا تذکرہ ہوا تو لہری بہت رنجیدہ ہوگئے اور مجھے کہا میاں زندگی میں جب نعمتیں تمہاری جھولی میں ہوں اور لوگ تمہارے کام کی وجہ سے تمہیں جاننے لگیں تو یاد رکھنا ہر عروج کے بعد زوال ہے جو انسان خود پیدا کرتا ہے ۔ ایک واقعہ سناتے ہوئے ان کے آنسو نکل گئے اور اس طرح مجھے بھی نصیحت کا دروازہ نظر آگیا، فرمانے لگے 1985 میں فلم ''تانیہ'' کی شوٹنگ کے لیے بنکاک گیا وہاں تمام اسٹاف ایک ہوٹل میں ٹھہرا مگر اس وقت میں ہارٹ کیک تھا میں نے فلم کے کرتا دھرتا سے کہا کہ میں اس ہوٹل میں نہیں ٹھہر سکتا۔ مجھے 5 اسٹار ہوٹل چاہیے اور اس طرح میری ضد پر مجھے 5 اسٹار ہوٹل میں ٹھہرایا گیا اور پھر اسی رات مجھ پر فالج کا حملہ ہوگیا اور ... (جاری ہے)