وفاداری کسے کہتے ہیں ایاز صادق نے بتادیا

امید یہی تھی کہ احساس تلے دبے لوگ کہاں اپنے وزیراعظم کیخلاف فیصلہ لے سکتے ہیں اور امیدوں کے مطابق انہوں نے ایسا ہی کیا


خوشنود زہرا September 06, 2016
جب بات عشق، محبت، وفاداری اور اپنے پن تک جاپہنچے تو پھر نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ اسپیکر قومی اسمبلی اپنے ہی وزیراعظم کیخلاف دائر ریفرنس مسترد کردیتا ہے۔ فوٹوفائل

قومی اسمبلی نے وزیراعظم پاکستان محترم جناب نواز شریف صاحب کو نااہل قرار دیتے ہوئے اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے دائر کیا گیا ریفرنس پر کارروائی کا فیصلہ کرلیا ۔۔۔۔۔۔ کیا ہوا؟ شاک لگا ناں سن کر؟ بھئی مذاق کر رہی ہوں۔ اب آپ سوچیں گے کہ اتنے سنجیدہ اور حساس موضوع پر مذاق کی کیا تک بنتی ہے؟ لیکن جناب ہماری حکومت اور اپوزیشن مل کر پارلیمنٹ میں دہشتگردی، سفارتی معاملات، قومی سلامتی اور دیگر حساس معاملات سمیت مہنگائی، تعلیم، صحت جیسے عوامی اور فوری حل طلب مسائل کے حل کے بجائے ریفرنس ریفرنس کھیل سکتی ہیں، پانامہ لیکس پر میں اہل تو نااہل کا مذاق ہوسکتا ہے تو میں دل کو بہلانے کیلئے یہ کیوں نہیں سوچ سکتی؟، بتائیے بتائیے!

جی ہاں قومی اسمبلی میں یہ نااہلی ریفرنس کا کھیل گزشتہ کچھ ماہ سے بھرپور انداز میں جاری ہے۔ پانامہ لیکس میں ملوث ہونے پر وزیراعظم اور عمران خان کی نااہلی کیخلاف مخالف سمتوں سے ریفرنس دائر کئے گئے، لیکن جناب جب بلی کو دودھ کی رکھوالی ملے، جب اندھے کے پاس ریوڑیاں آجائیں اور جب بات عشق، محبت اور اپنا پن تک جاپہنچے تو پھر نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ وزیراعظم اور اُن کے قریبی ساتھی محمود خان اچکزئی کیخلاف دائر ریفرنس مسترد ہوجاتے ہیں اور مخالف عمران خان اور اُن کے قریبی ساتھی جہانگیر ترین کی نااہلی کی درخواست الیکشن کمیشن تک پہنچ جاتی ہے۔

جناب یہی کچھ ہوا کل قومی اسمبلی میں جب اسپیکر ایاز صادق صاحب نے وزیراعظم نواز شریف کی اہلیت سے متعلق دائر کیا گیا ریفرنس ناکافی شواہد کی بنیاد پر مسترد کردیا، جبکہ حکمراں جماعت کے ارکانِ قومی اسمبلی کی طرف سے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی نااہلی سے متعلق ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھجوا دیا گیا ہے۔ اگر سچ پوچھا جائے تو اِس فیصلے سے سب سے زیادہ فائدہ ایاز صادق کو ہی پہنچے گا کہ انہوں نے میاں صاحب کو یہ پوری طرح باور کروادیا ہے کہ آپ دیکھ لیجیے، میں کس قدر وفادار ہوں، اور یقیناً وفاداری کا انعام ایک بادشاہ سے بڑھ کر کون دے سکتا ہے۔

وزیراعظم کیخلاف یہ ریفرنس عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کی طرف سے دائر کیا گیا تھا جس میں پاناما لیکس میں سامنے آنے والی آف شور کمپنیوں کی معلومات کے تناظر میں وزیراعظم کو نااہل قرار دینے کی درخواست کی گئی تھی۔ اس 150 صفحات پر مشتمل ریفرنس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ وزیراعظم نے پانامہ اسکینڈل میں آف شور کمپنیوں سے متعلق جھوٹ بولا جس کی وجہ سے وہ صادق اور امین نہیں رہے اور آئین کے آرٹیکل 63 کی شق 2 کی رو سے وزارت عظمیٰ کیلئے نااہل ہوگئے ہیں۔ اب اگر ایاز ''صادق'' صاحب کہتے ہیں کہ شواہد ناکافی ہیں اور وزیراعظم بخیروعافیت اپنی صداقت و امانتداری محفوظ رکھنے میں کامیاب ہوہی گئے تو ایسا ہی ہوگا۔

خیر اُمید یہی تھی کہ احساس تلے دبے لوگ کہاں اپنے وزیراعظم کے خلاف کوئی فیصلہ لے سکتے ہیں، اور اُمیدوں کے عین مطابق انہوں نے لیا بھی نہیں۔ لیکن تحریک انصاف کیلئے غضب یہ ہوا کہ ن لیگ کے وزراء کی جانب سے 4 اگست کو عمران خان کی نااہلی کیخلاف دائر کیا گیا نااہلی ریفرنس الیکشن کمیشن تک پہنچ گیا۔ اسپیکر صاحب اس معاملے میں بالکل کان لپیٹے رہے اور کسی قسم کی کارروائی نہیں کی۔ جس پر خود کار طریقہ سے ایک ماہ مکمل ہونے پر یہ ریفرنس الیکشن کمیشن منتقل ہوگیا۔ اسے کہتے ہیں لحاظ اور مروت، شاید یہ زمانہ طالب اور ہم جماعت ہونے کا پاس رکھا گیا۔ اسپیکر صاحب کی نیت تو وہ جانیں لیکن کپتان کے حق میں یہ خاموشی خوش کن نہ ثابت نہ ہوئی اور معاملہ آگے چلا گیا۔

بہرحال یہ سب تو اس ملک کی پارلیمانی تاریخ کی روایت ہے۔ ٹانگیں کھینچنا اور رسہ کشی تو چلتی ہی رہتی ہے لیکن بُرا ہو اس اس تاثر کا جو میرے ذہن سمیت پاکستان کے ہر فرد کے ذہن میں قائم ہوچکا۔ وہاں تو نااہلی ہی نااہلی ہے، مایوسی ہی مایوسی ہے۔ ہر سمت، عوامی مسائل بھلا کر پورے 5 سال اہلیت اور نااہلیت کا کھیل جاری رہنا ثابت کرتا ہے کہ اس ملک کے حکمران، جمہوری نمائندے اپنی عوام اپنے ووٹرز سے کس حد تک مخلص ہیں، کتنا دھیان اپنی بقا اور عوام کی فلاح کی جانب ہے۔

تو حضور بات یہ ہے کہ کوئی نااہل ہو یا اہل اس سے ہم جیسے افراد کو تو کوئی فائدہ نہیں، میں تو اس قوم میں شامل ہوں جس کے ذہن میں یہی فکر پلتی ہے کہ کس طرح 55 روپے کمائے جائیں تاکہ کم از کم ایک کلو آٹا خرید کر ایک وقت کی حلال روٹی بچوں، اہل خانہ کو میسر آسکے۔

[poll id="1213"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں