سن لیجیے 1965ء میں پاکستان ہی جیتا تھا
1965ء کی جنگ ہماری ایک ایسی ہی تاریخ ہے جسے ہمارے خود ساختہ دانشوروں نے احساس کمتری میں مبتلا ہوکر متنازعہ بنادیا ہے۔
ایک عجب سلسلہ ہی چل پڑا ہے کہ ہم اپنے ہاتھوں سے تاریخ کو مسخ کردیتے ہیں۔ دوسری اقوام کو دیکھیں تو شرم آتی ہے کہ وہ کیسے اپنی تاریخ کی حفاظت کرتے ہیں اور ہم ہیں کہ ہم اپنی ہی تاریخ کو مختلف حیلے بہانوں سے برباد کرنے پر تُلے ہیں۔ 1965ء کی جنگ بھی ہماری ایک ایسی ہی تاریخ ہے جس کو ہمارے خود ساختہ دانشوروں نے احساس کمتری میں مبتلا ہو کر متنازعہ بنا دیا ہے۔
قوموں کی تاریخوں کو کیوں متنازعہ بنادیا جاتا ہے؟ یہ ایک ایسا گہرا سوال ہے جس کے جواب میں کئی صفحے کالے کئے جاسکتے ہیں، لیکن اس کا سادہ سا جواب یہی ہوگا کہ جب بھی کسی قوم میں سے احساس برتری ختم کرنا ہو، اس میں سے احساس فخر ختم کرنا ہو، اس قوم میں سے بحیثیت مجموعی خود اعتمادی کا خاتمہ مقصود ہو تو پھر مختلف داؤ آزما کر اُن کی تاریخ کے درخشاں ابواب کو متنازعہ بنا دیا جاتا ہے۔
ہم بھی کیسی قوم ہیں کہ ہمارے ان پڑھ اور جاہل سیاست دان بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح ؒ کو بھی نہیں بخشتے ہیں اور ان کی زندگی اور ان کی سیاسی جدوجہد کو بھی متنازعہ بنادیتے ہیں۔ مفکر پاکستان اور شاعر مشرق حضرت اقبال کے ساتھ ہم نے کیا کیا ہے؟ ہم نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ کیا کیا؟ پاکستان نے اپنی پہلی 'فل اسکیل' جنگ 1965ء میں اپنے ہمسائے میں موجود دشمن بھارت سے لڑی تھی۔ کیا ہم نے اس جنگ کو متنازعہ نہیں بنایا ہے؟ کسی بھی مغرب زدہ ضمیر فروش دانشور سے سوال کر لیجئے وہ اپنے جواب کا 'اگر مگر' سے آغاز کرے گا۔ اپنی لچھے دار گفتگو سے یہ ثابت کرے گا کہ پاکستان نے 1965ء کی جنگ میدان میں بھی ہاری تھی۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ بھی ایک سازش ہے کہ قوم کے اذہان کو کسی بھی طرح صحیح سے ہٹا کر کم از کم کچھ نہیں تو منتشر کیا جائے، ایک کنفیوزڈ دماغ کیا سوچے گا؟
امسال 6 ستمبر کو سوچا گیا کہ چلیں اپنے ذہن پر موجود گرد کو جھاڑتے ہیں۔ اس کا بہترین طریقہ یہ تھا کہ جنگِ 65ء کے حوالے سے کسی فوجی سے بات کی جائے۔ خیال یہی تھا کہ محض 51 سال کی بات ہے، کوئی نہ کوئی فوجی تو مل ہی جائے گا۔ جس نے نصف صدی قبل لڑی جانے والی یہ جنگ اپنی آنکھوں سے دیکھی ہو اوراس نے اس جنگ میں خود حصہ بھی لیا ہو۔ یہ تلاش مجھے جنرل جمشید ایاز تک لے گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ لاہور میں بارڈر کے پاس ہی قائم ایک گاؤں کے بزرگ چوہدری لیاقت عمر تک بھی لے گئی۔ پہلے جمشید ایاز سے ہونے والی گفتگو پیش خدمت ہے۔
جواب: جس جنگ کا آپ نے تذکرہ کیا ہے میں اس جنگ میں بالکل نوجوان تھا، اور فوج میں بحیثیت سیکنڈ لیفٹیننٹ اپنے فرائض سر انجام دے رہا تھا۔ جب بھارت نے ہم پر حملہ کیا تو ہمیں ایک لمحے کیلئے بھی یہ خیال نہیں تھا کہ ہم یہ جنگ ہار جائیں گے۔ ہم جانتے تھے کہ ہم یہ جنگ جیتیں گے۔ آپ حیران ہونگے کہ ہم یہ کیسے جانتے تھے۔ دیکھیں، کچھ باتیں انسان کا دل بھی کہہ رہا ہوتا ہے۔ میرا دل کہہ رہا تھا کہ پاکستان کو کچھ نہیں ہوگا اور پاکستان یہ جنگ جیتے گا۔ فوجی افسران اور جوانوں کا مورال تو بہت ہی بلند تھا۔ درحقیقت بھارت نے یہ جنگ صرف پاکستان کو نیچا دکھانے کیلئے کی تھی۔ پاکستان نے اپنی سرزمین کی حفاظت کی تھی اور یہ پاکستان کا حق تھا کہ وہ بیرونی دشمن سے اور حملہ آور سے نبرد آزما ہوتا۔ وہ تو پاکستان کو ختم کرنے کا خواب لے کر میدان میں آیا تھا اور یہ ایک الگ بات ہے کہ یہ خواب ابھی بھی محض خواب ہی ہے۔ 65ء کی جنگ میں فوجی جوانوں کا کردار بھی بہت مثبت تھا اور ہر جوان میں ایک ولولہ اور کچھ کر گزرنے کا جذبہ موجود تھا۔
ایک مرتبہ مجھے ایک ٹاسک دیا گیا۔ میں جیپ لے کر اُس کی تکمیل کیلئے نکل گیا۔ جیسے ہی میں شہری آبادی میں پہنچا تو وہاں پر موجود لوگوں نے میرا بہت استقبال کیا۔ اصل میں عوام فوج کے ساتھ تھی اور بہت عزت کرتی تھی۔ یہ ایک بات ہے جو میرے حافظے میں محفوظ ہے، دراصل فوج کا مورال بھی بہت بلند تھا اور وہ ناممکنات کو کمال مہارت سے ممکن کر رہے تھے۔
یہ کم عقل اور کم فہم لوگوں کا کہنا ہوسکتا ہے جو کسی بیرونی ایجنڈے پر کام کر رہے ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو تاریخ سے کوئی واقفیت حاصل نہیں ہوتی، ہماری نہیں تو پھر مغرب کے غیر جانبدار ممالک کی تاریخ کا مطالعہ کرلیں تو واضح ہوجائے گا کہ کون جیتا تھا اور کس کو منہ کی کھانی پڑی تھی۔ اصل میں پاکستان کا دفاع مضبوط تھا اور یہ دفاع اب بھی مضبوط ہے۔ بھارت جنگ تو تب جیتتا جب وہ اپنی وہ باتیں پوری کرتا جو اُس نے کی تھی۔ لاہور میں ناشتہ تک تو وہ کر نہیں سکا تو وہ کون سی جنگ جیتا تھا؟ پاکستان نے وہ جنگ ہر لحا ظ سے جیتی تھی اور بہت زبردست کردار ادا کیا تھا۔
پاکستان کا دفاع بہت مضبوط ہے۔ بھارت نے حملہ کرنے کی جسارت کی تو وہ بہت مار کھائے گا۔ اصل میں وہ ایک بزدل دشمن ہے اور میرا نہیں خیال ہے کہ وہ آج کل کے حالات میں حملہ کرنے کی غلطی کرے گا۔ پاکستان پر آج حملہ کرنا آسان نہیں ہے۔ اگر آپ پوچھیں گے کہ کیوں تو میرا جواب یہ ہے کہ بھارت ایک مرتبہ پھر سے منہ کی کھائے گا۔ مختلف معاملات میں پاکستان کا رول اتنا مضبوط ہوتا ہے کہ یہ بھارت والے گھبرا جاتے ہیں۔ بھارت کسی بھی قیمت پر پاکستان پر حملہ نہیں کرے گا۔
اب مختصراً بات کرتے ہیں لاہور کے چوہدری لیاقت صاحب کی۔
اُس وقت لاہور کی آبادی آج کے مقابلے میں کافی کم تھی۔ شہر وہی تھا جس کو آج اندرون شہر کہا جاتا ہے۔ آس پاس مضافات میں آبادی تھی لیکن وہ اتنی کم تھی کہ دو دفعہ کسی کو دیکھ لو تو وہ تیسری مرتبہ سامنے آنے پر یاد آجاتا تھا کہ اس کو کہاں دیکھا ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں نوکری کرنے گاؤں سے شہر آیا کرتا تھا۔ ہمیں یہ سننے کو مل رہا تھا کہ سرحد پر معاملات درست نہیں ہیں اور ِاکا دُکا جھڑپیں ہوجاتی ہیں لیکن یہ نہیں پتا تھا کہ بھارت پاکستان پر حملہ کرنے کا فیصلہ کرچکا ہے۔ ہم نے ساتھ والے گاؤں پر حملہ کرنا ہو تو دو مہینے پلاننگ کرتے ہیں، یہ تو پھر ایک ملک کا دوسرے ملک کے خلاف حملہ تھا لہذا اس کی پلاننگ بہت پہلے ہوئی تھی اور بھارت کی جانب سے ہی جنگ کا ماحول تیار کیا گیا تھا۔ حملہ ہم پر ہوا تھا اور ہم نے دفاع کرنا تھا تو اللہ کے فضل سے ہم نے کامیابی سے دفاع کیا۔
جب جنگ شروع ہوئی تو سب کچھ تبدیل ہوگیا۔ آس پاس کے گاؤں سے فوج نے ہمیں بحفاظت براہ راست حملے کے علاقے سے نکال کر شہر کی طرف روانہ کیا۔ ہم نے فوج کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا اور جتھے کی صورت میں سرحد کی طرف چلے گئے۔ فوجی ہمیں راستے میں روک لیتے۔ آپ یقین کریں کہ اُن کی آنکھیں بھیگ جاتی تھی جب وہ دیکھتے تھے کہ اس قوم کے لوگ ہمارے ساتھ لڑنے مرنے کیلئے سرحد پر آچکے ہیں۔ ہم روز ہی یہی کرتے تھے کہ فجر کے بعد سرحد کی طرف چلے جاتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ فوج دیوانہ وار لڑی تھی اور ملک و قوم کے ایک ایک انچ کی حفاظت کی تھی۔ ہمیں سرحد تک کو جانے نہیں دیتے تھے لیکن ہماری ضد کے آگے ہار مان کر وہ ہم سے چھوٹے موٹے کام کروا لیتے تھے۔ ہمارے لئے یہ بہت تھا کہ ہم سے فوجیوں نے کام لیا ہے اور ہم خوشی خوشی کرتے تھے۔
جواب: لوگوں کے کہنے سے کیا ہوتا ہے؟ بہت پڑھے لکھے اور سمجھدار لوگ یہ بھی تو کہتے ہیں ناں کہ پاکستان نے 1965ء کی جنگ جیتی تھی۔ میں بھی یہی کہتا ہوں کہ پاکستان نے وہ جنگ جیتی تھی اور اس کا گواہ بھارت خود ہے۔ ہم بارڈر کے نزدیک تھے تو یہاں بھی انڈین ریڈیو کے سگنل آجاتے تھے۔ جنگ کے دو مہینے بعد تک وہ اپنے ریڈیو پر روتے رہے تھے تو آپ بتائیں کہ وہ کون سی جنگ جیتے تھے؟ میجرعزیز بھٹی شہید کی بہادری یاد نہیں؟ پاکستان نے بھارت کے 10 ہزار فوجی مارے، اُن کا 2600 مربع کلومیٹر کا علاقہ قبضے میں لیا تھا جو کہ بعد میں امن کے معاہدے کے بعد واپس کیا تھا۔ یہ پاکستان ہی تھا جس نے بھارت کے 120 جہاز مار گرائے تھے۔ ایم ایم عالم روڈ لاہور پر جب کھانا کھانے جاتے ہو تو یہ بھی تو یاد ہونا چاہئے کہ جس کے نام پر یہ سڑک ہے، اُس نے کیا کیا تھا؟ اُس کا ریکارڈ آج بھی قائم ہے۔
ٹینکوں کی مشہور جنگ کون جیتا تھا؟ بھارت کے500 سے زائد ٹینک تباہ ہوئے تھے۔ ہمیں تو آج بھی اُس دور کی خبریں یاد ہیں۔ ہم بارڈر کے ساتھ رہتے تھے اور آج بھی وہی رہ رہے ہیں۔ دیکھیں، جب اللہ ساتھ دے اور قوم ساتھ کھڑی ہو تو ایسی قوم کو ہرانا آسان نہیں ہے۔ اللہ نہ کرے کہ پاکستان دوبارہ کسی جنگ میں جائے لیکن اگر جاتا ہے تو ہم آج بھی پاکستان کی خاطر فوج کے ساتھ مل کر لڑیں گے۔ جان تو جانی ہے، اللہ کی راہ میں چلی جائے تو شہادت کا رتبہ مل جائے گا، ہمیں بھلا اور کیا چاہیے۔
[poll id="1214"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
قوموں کی تاریخوں کو کیوں متنازعہ بنادیا جاتا ہے؟ یہ ایک ایسا گہرا سوال ہے جس کے جواب میں کئی صفحے کالے کئے جاسکتے ہیں، لیکن اس کا سادہ سا جواب یہی ہوگا کہ جب بھی کسی قوم میں سے احساس برتری ختم کرنا ہو، اس میں سے احساس فخر ختم کرنا ہو، اس قوم میں سے بحیثیت مجموعی خود اعتمادی کا خاتمہ مقصود ہو تو پھر مختلف داؤ آزما کر اُن کی تاریخ کے درخشاں ابواب کو متنازعہ بنا دیا جاتا ہے۔
ہم بھی کیسی قوم ہیں کہ ہمارے ان پڑھ اور جاہل سیاست دان بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح ؒ کو بھی نہیں بخشتے ہیں اور ان کی زندگی اور ان کی سیاسی جدوجہد کو بھی متنازعہ بنادیتے ہیں۔ مفکر پاکستان اور شاعر مشرق حضرت اقبال کے ساتھ ہم نے کیا کیا ہے؟ ہم نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ کیا کیا؟ پاکستان نے اپنی پہلی 'فل اسکیل' جنگ 1965ء میں اپنے ہمسائے میں موجود دشمن بھارت سے لڑی تھی۔ کیا ہم نے اس جنگ کو متنازعہ نہیں بنایا ہے؟ کسی بھی مغرب زدہ ضمیر فروش دانشور سے سوال کر لیجئے وہ اپنے جواب کا 'اگر مگر' سے آغاز کرے گا۔ اپنی لچھے دار گفتگو سے یہ ثابت کرے گا کہ پاکستان نے 1965ء کی جنگ میدان میں بھی ہاری تھی۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ بھی ایک سازش ہے کہ قوم کے اذہان کو کسی بھی طرح صحیح سے ہٹا کر کم از کم کچھ نہیں تو منتشر کیا جائے، ایک کنفیوزڈ دماغ کیا سوچے گا؟
امسال 6 ستمبر کو سوچا گیا کہ چلیں اپنے ذہن پر موجود گرد کو جھاڑتے ہیں۔ اس کا بہترین طریقہ یہ تھا کہ جنگِ 65ء کے حوالے سے کسی فوجی سے بات کی جائے۔ خیال یہی تھا کہ محض 51 سال کی بات ہے، کوئی نہ کوئی فوجی تو مل ہی جائے گا۔ جس نے نصف صدی قبل لڑی جانے والی یہ جنگ اپنی آنکھوں سے دیکھی ہو اوراس نے اس جنگ میں خود حصہ بھی لیا ہو۔ یہ تلاش مجھے جنرل جمشید ایاز تک لے گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ لاہور میں بارڈر کے پاس ہی قائم ایک گاؤں کے بزرگ چوہدری لیاقت عمر تک بھی لے گئی۔ پہلے جمشید ایاز سے ہونے والی گفتگو پیش خدمت ہے۔
- سوال: جنرل صاحب، 65ء کی جنگ کو آپ کیسے یاد کرتے ہیں؟
جواب: جس جنگ کا آپ نے تذکرہ کیا ہے میں اس جنگ میں بالکل نوجوان تھا، اور فوج میں بحیثیت سیکنڈ لیفٹیننٹ اپنے فرائض سر انجام دے رہا تھا۔ جب بھارت نے ہم پر حملہ کیا تو ہمیں ایک لمحے کیلئے بھی یہ خیال نہیں تھا کہ ہم یہ جنگ ہار جائیں گے۔ ہم جانتے تھے کہ ہم یہ جنگ جیتیں گے۔ آپ حیران ہونگے کہ ہم یہ کیسے جانتے تھے۔ دیکھیں، کچھ باتیں انسان کا دل بھی کہہ رہا ہوتا ہے۔ میرا دل کہہ رہا تھا کہ پاکستان کو کچھ نہیں ہوگا اور پاکستان یہ جنگ جیتے گا۔ فوجی افسران اور جوانوں کا مورال تو بہت ہی بلند تھا۔ درحقیقت بھارت نے یہ جنگ صرف پاکستان کو نیچا دکھانے کیلئے کی تھی۔ پاکستان نے اپنی سرزمین کی حفاظت کی تھی اور یہ پاکستان کا حق تھا کہ وہ بیرونی دشمن سے اور حملہ آور سے نبرد آزما ہوتا۔ وہ تو پاکستان کو ختم کرنے کا خواب لے کر میدان میں آیا تھا اور یہ ایک الگ بات ہے کہ یہ خواب ابھی بھی محض خواب ہی ہے۔ 65ء کی جنگ میں فوجی جوانوں کا کردار بھی بہت مثبت تھا اور ہر جوان میں ایک ولولہ اور کچھ کر گزرنے کا جذبہ موجود تھا۔
- سوال: اس جنگ کی کوئی یاد جو ابھی تک آپ کے حافظے میں محفوظ ہو؟
ایک مرتبہ مجھے ایک ٹاسک دیا گیا۔ میں جیپ لے کر اُس کی تکمیل کیلئے نکل گیا۔ جیسے ہی میں شہری آبادی میں پہنچا تو وہاں پر موجود لوگوں نے میرا بہت استقبال کیا۔ اصل میں عوام فوج کے ساتھ تھی اور بہت عزت کرتی تھی۔ یہ ایک بات ہے جو میرے حافظے میں محفوظ ہے، دراصل فوج کا مورال بھی بہت بلند تھا اور وہ ناممکنات کو کمال مہارت سے ممکن کر رہے تھے۔
- سوال: کچھ لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ پاکستان نے 1965ء کی جنگ ہاری تھی؟
یہ کم عقل اور کم فہم لوگوں کا کہنا ہوسکتا ہے جو کسی بیرونی ایجنڈے پر کام کر رہے ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو تاریخ سے کوئی واقفیت حاصل نہیں ہوتی، ہماری نہیں تو پھر مغرب کے غیر جانبدار ممالک کی تاریخ کا مطالعہ کرلیں تو واضح ہوجائے گا کہ کون جیتا تھا اور کس کو منہ کی کھانی پڑی تھی۔ اصل میں پاکستان کا دفاع مضبوط تھا اور یہ دفاع اب بھی مضبوط ہے۔ بھارت جنگ تو تب جیتتا جب وہ اپنی وہ باتیں پوری کرتا جو اُس نے کی تھی۔ لاہور میں ناشتہ تک تو وہ کر نہیں سکا تو وہ کون سی جنگ جیتا تھا؟ پاکستان نے وہ جنگ ہر لحا ظ سے جیتی تھی اور بہت زبردست کردار ادا کیا تھا۔
- سوال: آج آپ پاکستان کے دفاع کو کیسے دیکھتے ہیں؟
پاکستان کا دفاع بہت مضبوط ہے۔ بھارت نے حملہ کرنے کی جسارت کی تو وہ بہت مار کھائے گا۔ اصل میں وہ ایک بزدل دشمن ہے اور میرا نہیں خیال ہے کہ وہ آج کل کے حالات میں حملہ کرنے کی غلطی کرے گا۔ پاکستان پر آج حملہ کرنا آسان نہیں ہے۔ اگر آپ پوچھیں گے کہ کیوں تو میرا جواب یہ ہے کہ بھارت ایک مرتبہ پھر سے منہ کی کھائے گا۔ مختلف معاملات میں پاکستان کا رول اتنا مضبوط ہوتا ہے کہ یہ بھارت والے گھبرا جاتے ہیں۔ بھارت کسی بھی قیمت پر پاکستان پر حملہ نہیں کرے گا۔
اب مختصراً بات کرتے ہیں لاہور کے چوہدری لیاقت صاحب کی۔
- سوال: چوہدری صاحب! 1965ء کی جنگ کی یاد کو کیسے تازہ کرتے ہیں؟
اُس وقت لاہور کی آبادی آج کے مقابلے میں کافی کم تھی۔ شہر وہی تھا جس کو آج اندرون شہر کہا جاتا ہے۔ آس پاس مضافات میں آبادی تھی لیکن وہ اتنی کم تھی کہ دو دفعہ کسی کو دیکھ لو تو وہ تیسری مرتبہ سامنے آنے پر یاد آجاتا تھا کہ اس کو کہاں دیکھا ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں نوکری کرنے گاؤں سے شہر آیا کرتا تھا۔ ہمیں یہ سننے کو مل رہا تھا کہ سرحد پر معاملات درست نہیں ہیں اور ِاکا دُکا جھڑپیں ہوجاتی ہیں لیکن یہ نہیں پتا تھا کہ بھارت پاکستان پر حملہ کرنے کا فیصلہ کرچکا ہے۔ ہم نے ساتھ والے گاؤں پر حملہ کرنا ہو تو دو مہینے پلاننگ کرتے ہیں، یہ تو پھر ایک ملک کا دوسرے ملک کے خلاف حملہ تھا لہذا اس کی پلاننگ بہت پہلے ہوئی تھی اور بھارت کی جانب سے ہی جنگ کا ماحول تیار کیا گیا تھا۔ حملہ ہم پر ہوا تھا اور ہم نے دفاع کرنا تھا تو اللہ کے فضل سے ہم نے کامیابی سے دفاع کیا۔
- سوال: اُس جنگ میں آپ نے کیا کردار ادا کیا تھا؟
جب جنگ شروع ہوئی تو سب کچھ تبدیل ہوگیا۔ آس پاس کے گاؤں سے فوج نے ہمیں بحفاظت براہ راست حملے کے علاقے سے نکال کر شہر کی طرف روانہ کیا۔ ہم نے فوج کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا اور جتھے کی صورت میں سرحد کی طرف چلے گئے۔ فوجی ہمیں راستے میں روک لیتے۔ آپ یقین کریں کہ اُن کی آنکھیں بھیگ جاتی تھی جب وہ دیکھتے تھے کہ اس قوم کے لوگ ہمارے ساتھ لڑنے مرنے کیلئے سرحد پر آچکے ہیں۔ ہم روز ہی یہی کرتے تھے کہ فجر کے بعد سرحد کی طرف چلے جاتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ فوج دیوانہ وار لڑی تھی اور ملک و قوم کے ایک ایک انچ کی حفاظت کی تھی۔ ہمیں سرحد تک کو جانے نہیں دیتے تھے لیکن ہماری ضد کے آگے ہار مان کر وہ ہم سے چھوٹے موٹے کام کروا لیتے تھے۔ ہمارے لئے یہ بہت تھا کہ ہم سے فوجیوں نے کام لیا ہے اور ہم خوشی خوشی کرتے تھے۔
- سوال: چوہدری صاحب! کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان کو اُس جنگ میں شکست ہوئی تھی؟
جواب: لوگوں کے کہنے سے کیا ہوتا ہے؟ بہت پڑھے لکھے اور سمجھدار لوگ یہ بھی تو کہتے ہیں ناں کہ پاکستان نے 1965ء کی جنگ جیتی تھی۔ میں بھی یہی کہتا ہوں کہ پاکستان نے وہ جنگ جیتی تھی اور اس کا گواہ بھارت خود ہے۔ ہم بارڈر کے نزدیک تھے تو یہاں بھی انڈین ریڈیو کے سگنل آجاتے تھے۔ جنگ کے دو مہینے بعد تک وہ اپنے ریڈیو پر روتے رہے تھے تو آپ بتائیں کہ وہ کون سی جنگ جیتے تھے؟ میجرعزیز بھٹی شہید کی بہادری یاد نہیں؟ پاکستان نے بھارت کے 10 ہزار فوجی مارے، اُن کا 2600 مربع کلومیٹر کا علاقہ قبضے میں لیا تھا جو کہ بعد میں امن کے معاہدے کے بعد واپس کیا تھا۔ یہ پاکستان ہی تھا جس نے بھارت کے 120 جہاز مار گرائے تھے۔ ایم ایم عالم روڈ لاہور پر جب کھانا کھانے جاتے ہو تو یہ بھی تو یاد ہونا چاہئے کہ جس کے نام پر یہ سڑک ہے، اُس نے کیا کیا تھا؟ اُس کا ریکارڈ آج بھی قائم ہے۔
ٹینکوں کی مشہور جنگ کون جیتا تھا؟ بھارت کے500 سے زائد ٹینک تباہ ہوئے تھے۔ ہمیں تو آج بھی اُس دور کی خبریں یاد ہیں۔ ہم بارڈر کے ساتھ رہتے تھے اور آج بھی وہی رہ رہے ہیں۔ دیکھیں، جب اللہ ساتھ دے اور قوم ساتھ کھڑی ہو تو ایسی قوم کو ہرانا آسان نہیں ہے۔ اللہ نہ کرے کہ پاکستان دوبارہ کسی جنگ میں جائے لیکن اگر جاتا ہے تو ہم آج بھی پاکستان کی خاطر فوج کے ساتھ مل کر لڑیں گے۔ جان تو جانی ہے، اللہ کی راہ میں چلی جائے تو شہادت کا رتبہ مل جائے گا، ہمیں بھلا اور کیا چاہیے۔
[poll id="1214"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھblog@express.com.pk پر ای میل کریں۔