ریاست عوام اورپولیس کا احساس محرومی
نیوزی لینڈ میں 2013ء میں ایک عرصے بعد پولیس کی جانب سے کسی کریمنل پر فائر کیا گیا،
پولیس کے حوالے سے میرا یہ دسواں کالم ہے ،اس موضوع سے میری ذاتی دلچسپی اس لیے ہے کہ کسی بھی ریاست کی انٹرنل سیکیورٹی پولیس کی ذمے داری ہوتی ہے، وطن کو جنت بنانا یا جہنم میں بدل دینا پولیس کا ہی کام ہے۔ دنیا میں ایسے بہت سے ممالک ہیں جو پولیس فورس کی وجہ سے امن کا گہوارہ بنے ہوئے ہیں۔ ان میں آئس لینڈ، نیوزی لینڈ، آسٹریا ایسے ممالک ہیں جہاں کئی کئی سال ایک گولی بھی نہیں چلتی۔
نیوزی لینڈ میں 2013ء میں ایک عرصے بعد پولیس کی جانب سے کسی کریمنل پر فائر کیا گیا، جس سے وہ صرف زخمی ہوا۔ اس پر پولیس نے جرائم پیشہ شخص کے گھر والوں سے معذرت بھی کی کہ ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ اس کے برعکس یہاں تو جعلی پولیس مقابلوں میں سیکڑوں لوگوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا جاتا ہے، پنجاب میں 11کروڑ کی آبادی پر پولیس اہلکاروں کی تعداد1لاکھ 83ہزار کے قریب ہے یعنی 12سو افراد کی حفاظت کے لیے ایک پولیس ہے ۔ ان پولیس اہلکاروںمیں1لاکھ 32ہزار کانسٹیبلز اور 18ہزار ہیڈ کانسٹیبلز ہیں۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ ان کانسٹیبلز میں سے ہزاروںکی تعداد میں پولیس اہلکار وی آئی پیز کی ڈیوٹیز پر معمور ہیں اور کئی جگہ تو یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ پولیس افسران کے گھروں میں یہ اہلکار ان کی ذاتی ڈیوٹیاں سر انجام دے رہے ہیں۔ دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پنجاب پولیس کے کانسٹیبل کو ماہانہ صرف 25، 30ہزا رروپے تنخواہ دی جاتی ہے، صوبائی حکومت بغیر چھٹی اور24گھنٹے ڈیوٹی کے باوجود سپاہی کے مورال کو ہائی دیکھنے کی خواہش مند، سپاہی سے سب انسپکٹر تک کی کم تنخواہوں نے معاشرے میں کرپشن کو رواج دیا ہے۔
سپاہی کے لیے سرکاری رہائش، بچوں کی تعلیم کی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں، پنجاب میں امن و امان کا کو ئی بھی مسئلہ ہو پولیس فرنٹ لائن پر ہو تی ہے، تنخواہوں کے معیار کو دیکھا جائے اور موازنہ کیا جائے کہ جس سب انسپکٹر نے قتل کیس کی تفتیش کر نی ہے اسے صرف ایک ہزار روپے روزانہ معاوضہ مل رہا ہے جب کہ جو سپاہی سینہ تان کر دہشت گردی یا جرائم پیشہ افراد کی گولی کو روکنے کے لیے کھڑا ہے اسے روزانہ800 روپے تنخواہ کی مد میں ملتے ہیں جب کہ ایک دیہاڑی دار مزدور کی مزدوری یو میہ ایک ہزار روپے ہے۔ اس صورتحال میں ہماری پولیس کو ایمانداری کا میٹھا سبق دیا جاتا ہے ۔ان کے بچوں کے لیے نہ تو کوئی اسکول ہے اور نہ ہی کہیں کوئی علاج معالجے کی سہولت، حالانکہ دیگر سیکیورٹی اداروں کے اپنے اسکول، موجود ہیں ۔
میں اپنے کئی کالموںمیں اس حوالے سے ذکر کر چکا ہوں کہ ان پولیس اہلکاروں کے لیے حکومت مستقل بنیادوں پر کام کیوں نہیں کرتی، جب پاک فوج کے لیے سی ایم ایچ اسپتال، تعلیمی ادارے اور بہت سی سہولیات میسر ہیں تو ان کے لیے الگ اسپتال کیوں نہیں بنائے جاتے اور اگر ایک فوجی شہید ہو جائے تو اس کے اہل خانہ کو گھر سے لے کر رقوم تک فراہم کی جاتی ہیں جب کہ پولیس والوں کا کیا قصور ہے۔
یہ اگر شہید ہو جائیںتو ان کے لواحقین دربدر کی ٹھوکریں کھاتے ہیں یا یو ں کہیے ایک پولیس اہلکار کی شہادت کے بعدپورا خاندان شہید ہو جاتاہے جس پولیس اہلکار نے عوام الناس کے تحفظ کی خاطر جان دی اور وہ اپنے فرائض منصبی پر لڑتا ہوا قربان ہوا، جس نے 20، 20گھنٹے مجرموں کا پیچھا کرتے ہوئے گزارے، جو زندگی بھر اپنے حق کے لیے کبھی آواز نہیں اُٹھا سکا، کبھی احتجاج نہیں کر سکا، بلکہ دیگر احتجاجی تحریکوں کو اپنے قوت بازو سے حکومتی ایماء پر دباتا رہا، جو کسی احتجاجی تحریک کو ناکام بنانے کے لیے فرنٹ مین کا کردار ادا کرتا رہا، جو حکومتی و غیر حکومتی شخصیات کے پروٹوکول کا حصہ رہا۔ دھوپ، بارش، آندھی اور طوفان میں بھی وہ ان شخصیات کی حفاظت پر مامور رہا جو اس وطن عزیز اور اس دھرتی پر بوجھ سمجھے جاتے ہیں۔
جب وہ ان فرائض کی ادائیگی کے دوران شہادت کا رتبہ پاتے ہیں تو ایسی شہادت سے طبعی موت اچھی۔۔۔ کیوں کہ اس کے شہید ہونے کے بعد اس کے خاندان کا جو حشر ہوتا ہے اسے عرف عام میں بیان نہیں کیا جا سکتا، شہید اہلکار کا خاندان نہ تو زندوں میں ہوتا ہے اور نہ مُردوں میں، اس کی فیملی کے ساتھ وہ سلوک کیا جاتا ہے جو آج کل بھارت میں دلتوں کے ساتھ کیا جا رہا ہے یا اس سے بھی بدتر... بقول شاعر
زندگی تو مجھے کس موڑ پہ لے آئی ہے
پھر بھی ہنستا ہوں نئی آس لیے چہرے پر
ایک معمولی افسر سے لے کر وزیر اعظم تک سبھی اس غریب ملک کے شہنشاہ ہیں آپ پوش علاقوں میں چلے جائیں سیکڑوں کی تعداد میں 4، 4کنال کی کوٹھیاں نظر آئیں گی جو بیوروکریسی اور اسٹیبلشمنٹ کی ملکیت ہوںگی، یہاں ہر سال افسران کے لیے نت نئی گاڑیاں خریدنا، بیوروکریٹ اور اس کی فیملی کے لیے اسٹیٹس سمبل بن چکا ہے۔ میرے خیال میں ان تھانوں کی ظاہری حالت کو بہتر کرنے کے بجائے ان کے اندر بیٹھنے والوں کی حالت کو بہتر بنایا جائے تاکہ وہ کرپشن کا سہارا ہی نہ لے سکیں۔ آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا کو آئے ہوئے دو سال سے زائد کا عرصہ ہو چکا ہے ۔
انھوں نے بھی زبانی جمع خرچ اور اعلانات کے سوا کچھ نہیں کیا...جب ایک پولیس کانسٹیبل کے گھر فاقوں جیسی کیفیت ہوگی یا وہ احساس محرومی کا شکار ہوگا تو کبھی بھی وہ صحیح طور پر اپنی فرائض انجام نہیںدے سکے گا،اس بوسیدہ نظام کو بدلنے کی ضرورت ہے، پولیس کو جدید استوار پر پرکھنے کی ضرورت ہے، جدید تربیت اور پولیس کو جدید سہولیات دے کر عوام کی خدمت کے لیے اچھے نتائج کا کہا جا سکتاہے ورنہ اس نظام میں بہتری خام خیالی کے سوا کچھ نہیں ہو سکتی!