کراچی کا بادشاہ
سیاست میں تشدد ان کے لیے ناقابل برداشت تھا۔ تقسیم سے پہلے کراچی میں ایک ہڑتال ہوئی۔
جمشید نسروان جی ذاتی تکلیف کو دوسروں کے دکھ درد میں ڈبو دیتے تھے۔ لڑکپن کے زمانے سے ہی جمشید کو ہرنیا کی تکلیف ہوگئی تھی جس نے انھیں عمر بھر ناقابل بیان اذیت میں مبتلا رکھا۔ کیول موٹوانی نے جمشید نسروان جی سے بار بار اصرار کیا کہ وہ ہرنیا کا آپریشن کرالیں لیکن انھوں نے ہر بار انکار کردیا۔ آپریشن میں درد سے نجات کا امکان ضرور تھا، لیکن جان جانے کا خطرہ بھی تھا۔
جمشید کو موت سے خوف نہیں آتا تھا، مگر ایسے خاندانوں اور افراد کی تعداد بلا مبالغہ سیکڑوں اور ہزاروں میں تھی جن کا دارو مدار جمشید کی طرف سے ملنے والی مالی امداد پر تھا۔ جمشید کی موت ان کی زندگیوں کو تہہ و بالا کرسکتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ جمشید نے درد برداشت کرنے کو ترجیح دی۔ جب کبھی اس درد کا دورہ پڑتا تو جمشید کی زبان سے شکایت کا ایک لفظ نہیں نکلتا، اس روز وہ اپنی مصروفیت اور بڑھا لیتے۔ وہ اسپتالوں کا چکر لگاتے، اپنے دوستوں اور اجنبیوں سے ملاقاتیں کرتے اور ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے اور مشکلوں کو دور کرنے میں خود کو مصروف رکھتے۔
سندھ کے اہم دانشور علی محمد راشدی نے 1930 کا ایک واقعہ لکھا ہے جب انھوں نے جمشید نسروان جی مہتا کو ایک زخمی گدھے کو لے کر جانوروں کے اسپتال کی طرف جاتے دیکھا۔ جمشید کا ڈرائیور ان کی کار کو چیونٹی کی رفتار سے چلاتا ہوا جارہا تھا۔ جانوروں کے اسپتال پہنچ کر انھوں نے گدھے کی مرہم پٹی کرائی اور وٹرنری ڈاکٹر سے کہا کہ وہ ان کے ذاتی خرچ پر گدھے کو اس وقت تک اسپتال میں رکھے جب تک وہ ٹھیک نہ ہوجائے۔ اس کے ساتھ ہی انہو ں نے گدھا گاڑی والے کو بھی کچھ روپے دیے تاکہ گدھے کے ٹھیک ہونے تک اس کے گھر میں فاقے نہ ہوجائیں۔
سیاست میں تشدد ان کے لیے ناقابل برداشت تھا۔ تقسیم سے پہلے کراچی میں ایک ہڑتال ہوئی۔ برطانوی پولیس ہڑتال کو ناکام بنانے پر تلی ہوئی تھی۔ اس نے ایک بچے کو گرفتار کرلیا اور ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے گولی چلانے کے درپے تھی۔ جمشید کو اُس واقعے کی خبر ملی تو وہ فوراً وہاں پہنچے اور ہجوم اور پولیس کے بیچ میں کھڑے ہوگئے۔ انھوں نے پولیس والوں کو للکارا کہ کون ہے جو بچے کو رہا کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اگر گولی چلانی ہے تو پہلے مجھے گولی مارو پھر تمہاری بندوقوں کا رخ کسی اور کی طرف ہو۔
وہ ہجوم اور پولیس کے درمیان کھڑے تھے جب کہ بچہ پولیس کی تحویل میں تھا۔ جمشید کی اس للکار پر پولیس کی بندوقوں کا رخ زمین کی طرف ہوگیا۔ جمشید نے بچے کو اس کے باپ اور دوسرے رشتہ داروں کے حوالے کیا، اس کے بعد ہجوم پُرامن طور پر منتشر ہوگیا اور پولیس والے بھی رخصت ہوئے۔ اس واقعے نے کراچی والوں کے دلوں میں جمشید کے لیے محبت اور عقیدت میں بے پناہ اضافہ کیا۔
وہ 1933ء میں کراچی کے پہلے میئر منتخب ہوئے اور ایک سالہ میئرشپ کے دوران انھوں نے شہر کو جدید خطوط پر بنایا، سجایا اور سنوارا۔ ان کے عہد میں کراچی کی سڑکیں پانی سے دھلتی تھیں اور دوسرے شہروں کے لوگ اس شہر کے نصیبوں پر رشک کرتے تھے۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ جب شہر سے جمشید جیسے لوگ اٹھ جائیں گے تو اس کے رہنے والے شہر کے گلی کوچوں کو خون سے نہلائیں گے۔
1947ء کے فوراً بعد جب لاکھوں لٹے پٹے مہاجرین نے کراچی کا رخ کیا تو یہ پریشاں حال لوگ گمبھیر مسائل سے دوچار تھے۔ مارچ 1949ء میں حسن حبیب اور کراچی کے دوسرے فکر مند شہریوں نے کراچی سوشل گروپ کے نام سے ایک تنظیم بنائی جس کی صدارت جمشید نسروان جی کے سپرد کی۔ انھوں نے اپنی بساط بھر ان لوگوں کی آباد کاری کے لیے کام کیا۔ 1951ء کے آخری دنوں میں انھوں نے اے کے بروہی کے سامنے اپنا دل کھول کر رکھ دیا۔ ''مہاجروں کے مسئلے'' سے نٹمنے کے سلسلے میں وہ حکومت پاکستان کے نامناسب طرز عمل سے خوش نہیں تھے۔ اے کے بروہی نے لکھا ہے کہ میں نے جمشید کو ایک ایسے شخص کے انداز میں بات کرتے دیکھا جس کی روح سخت اذیت کے عالم میں ہو۔ انھوں نے کہا:
''بروہی! آنے والے چند درجن برسوں میں ہمیں نہ صرف محتاج، ناخواندہ اور سماج دشمن افراد کی ایک بڑی تعداد کا مسئلہ درپیش ہوگا بلکہ اس سے بھی بدتر حالات کا۔ ہمارے سامنے بے شمار ذہنی اور نفسیاتی مریضوں کی دیکھ بھال کا مسئلہ بھی ہوگا۔ کیونکہ اگر ہم اس زندگی کا مطالعہ کریں جو مہاجر بچے گزارنے پر مجبور ہیں کہ نہ ان کے بدن پر قمیص ہے اور نہ سر پر چھت جو انھیں تیز ہوا، دھوپ اور بارش سے بچا سکے تو ہم یہ محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتے کہ یہ نسل جو آج نشوونما کی ابتدائی منزل میں ہے، ہمیں مضبوط، صحت مند اور کارآمد شہری فراہم نہیں کرسکے گی بلکہ اس قسم کے افراد پیدا کرے گی جنھیں آنے والے سماجی نظام کا حصہ بنانا ایک ناممکن کام ہوگا''۔
اے کے بروہی کا کہنا تھا کہ میں نے اس سے پہلے کبھی جمشید کو اتنے گمبھیر لہجے میں بات کرتے نہیں دیکھا تھا۔ میں ان کے ملال کے بوجھ تلے دب کر رہ گیا اور میری زبان گنگ ہوگئی۔ 'کراچی کے بادشاہ' کی اس دلی کیفیت کا ایک سبب شاید یہ ہو کہ جس قصبے کو انھوں نے ایک جدید اور متحرک شہر میں بدل دیا تھا، اب اس میں جابجا جھونپڑ پٹیاں تھیں، وہ شہر جس کی فضا میں تر و تازہ اور روح افزا ہوا تیرتی تھی وہاں اب پیشاب کی کھکراند تھی اور وہ ان کے لیے کچھ نہیں کرسکتے تھے۔
کراچی کی اہم سڑکوں پر بعض اہم شخصیات کے شاندار مجسمے نصب تھے۔ اپنے محسنوں کی تعظیم کا ایک انداز، لیکن جیسے ہی کراچی 'دارالسلطنت ' قرار پایا، یہ مجسمے بت پرستی کے زمرے میں آئے، چنانچہ کفار اور مشرکین کی یہ شبیہیں منظر عام سے فوراً ہٹا دی گئیں۔ عنایت یہ کی گئی کہ یہ مجسمے توڑے نہیں گئے۔
کراچی آنے والوں کی پہلی نسل نے ان کے مجسمے ہٹا دیے۔ ان کی یاد کے نقوش دھندلا دیے، کسی کو یاد نہیں رہا کہ لڑکیوں کے اعلیٰ ترین اسکولوں میں سے ایک ماما پارسی گرلز اسکول کی تعمیر میں ایک لاکھ 35 ہزار روپے کی خطیر رقم جمشید نے اپنے والد خان بہادر نسروان جی سے عطیہ کرائی تھی۔ آج کے حسابوں میں دو کروڑ یا شاید اس سے بھی زیادہ کی رقم۔
کراچی کو اختیار کرنے والوں اور دوسرے شہروں سے آنے والوں کی نئی نسل خوش رہے کہ اس نے جمشید نسروان جی کو ایسا خراج عقیدت ادا کیا جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ ہم نے اسوان ڈیم کے تعمیر کے سلسلے میں مصر کے عظیم تاریخی ورثے ابو سمبل کے مندر کو کاٹ کر بلند اور محفوظ مقام پر منتقل کیے جانے کے ناقابل یقین منظر دیکھے تھے۔
اور پھر ہم نے دیکھا کہ انڈس ویلی اسکول کے استادوں اور طالب علموں نے کھارادر میں جمشید جی کے والد کی بنوائی ہوئی 100 برس پرانی ایک وسیع عمارت کی ایک ایک اینٹ کو اپنی جگہ سے اٹھایا اور انڈس ویلی اسکول آف آرٹ اینڈ آرکیٹیکچر کے کیمپس میں یوں جا رکھا جیسے الہ دین نے اپنا جادوئی چراغ رگڑا ہو اور 25 ہزار اسکوائر فٹ کے رقبے پر بنی ہوئی 26 ہزار اینٹوں پر مشتمل عمارت سمندر کے کنارے کھڑی ہوگئی ہو۔ نسروان جی بلڈنگ کو گرانے کا حکم صادر ہوچکا تھا جب شہر کے ایک نامور معمار شاہد عبداللہ نے کہا کہ ہم اس عمارت کی ایک ایک اینٹ اٹھا لائیں گے اور اسے نئے سرے سے بنائیں گے۔
ہم شہروں کی اینٹ سے اینٹ بجانے میں ماہر ہیں لیکن شاہد عبداللہ اور دوسرے ماہرین کی نگرانی میں انڈس ویلی کے طالب علموں نے یہ کارنامہ کر دکھایا۔ ہر اینٹ جس پر ایک نمبر لکھا ہوا تھا، وہ اسی ترتیب سے چُنی گئی، 26 ہزار اینٹوں کو اکھاڑنے، میلوں دور لے جانے اور اپنی جگہ پر جمانے کے دوران صرف 50 اینٹیں ٹوٹیں اور یوں جمشید نسروان جی کے خاندان کی یہ عمارت کراچی کے بیٹوں اور بیٹیوں کے ہاتھوں محفوظ ہوچکی ہے۔ کراچی کے پہلے میئر کی خدمت میں شہر والوں کا ہدیۂ عقیدت۔
وہ بچی جس نے چھ سات برس کی عمر میں ایک گھوڑے کو جمشید نسروان جی کے بنوائے ہوئے 'پیاؤ' سے پانی پیتے دیکھا تھا اور کوچوان کے لبوں سے 'کراچی کا بادشاہ' سنا تھا، آج بھی اس بادشاہ کی تلاش میں ہے جس نے اپنی جادوئی چھڑی سے کراچی کو ایک جدید شہر بنا دیا تھا اور جس کے دور میں سڑکیں پانی سے دھلتی تھیں۔ کراچی کے اس بادشاہ کا سایہ بھی کسی میئر پر پڑجائے تو کیا خوب ہو۔ شہر کے بدن میں چبھی ہوئی سوئیاں کوئی تو نکالے، آنکھوں سے سوئیاں نکالنے کا مرحلہ تو بہت بعد میں آئے گا۔