رات کا انتظار کون کرے
ملکی اداروں اور حکومت کے مابین مربوط تعلقات اکثر اوقات تعطل کا شکار رہتے ہیں۔
آج کل دن میں کیا نہیں ہوتا، میری تحریر کا عنوان ''متن'' ہے لیکن واضح نہیں۔ میں کوشش کروں گا کہ آپ تک حاصل تحریرکی وضاحت ہو جائے۔ ملک کی موجودہ صورتحال کو نازک کہنا ایسے پرانے جملے کو دہرانا ہے جسے اس قدر اور اتنی مرتبہ استعمال کیا گیا کہ اب لکھتے ہوئے بھی شرمندگی محسوس ہو رہی ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ ایک بگاڑ کی سی کیفیت جس میں زیادہ حساس سمت کے متعین ہونے کا ہے۔
ملکی اداروں اور حکومت کے مابین مربوط تعلقات اکثر اوقات تعطل کا شکار رہتے ہیں۔ جس کے باعث ایسی منصوبہ بندی نہیں ہو پاتی جو ملک و قوم کی ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔ حکومت کیونکر جمہوری ہے لہٰذا اس کی مجبوریاں ہر جگہ ہر مقام پر موجود۔ اسے کسی کو کہیں کسی کو کہیں نوازنا ہوتا ہے جیسا کہ اس وقت تک ملک میں جمہوریت کا چال چلن ہے پلاٹ پرمٹ دیے بغیر آپ ممبران اسمبلی کو ساتھ نہیں رکھ سکتے۔
جب کہ خود وزیراعظم صاحب اور ان کے وزرا، وزرائے اعلیٰ صاحبان اور ان کے رفقا کے ساتھ بھی پیٹ لگا ہوا ہے۔ اسی طرح کچھ اداروں کے سربراہان کے اہل خانہ بھی ماضی قریب میں کرپشن کا شکار دکھائی دیے۔ اسی ایشو کو لے کر غالباً عمران خان ان دنوں کچھ اپوزیشن جماعتوں کے ہمراہ سڑکوں پر Walking کر رہے ہیں۔ ان کا نعرہ پانامہ لیکس کی تحقیقات ہے۔
الزام محترم وزیراعظم کے اہل خانہ پر ہے۔ عمران خان اور دیگر جماعتوں کا حق ہے کہ وہ اپوزیشن کریں۔ لیکن ایک تو اس کا جائز ہونا ضروری دوسرا بہتر تھا کہ اس کا دائرہ کار اسمبلی ہال ہوتا۔ اگرچہ سڑکوں پر بھی آنا پڑتا ہے۔ اگر حکومتی جماعت اسمبلیز میں اپوزیشن کے جائز مطالبات کو نہیں مان رہی تو کوئی مضائقہ نہیں۔ آپ Street Power کی طرف جائیں۔ میں دراصل اس لیے کہہ رہا ہوں کہ الیکشن میں ڈیڑھ برس رہ گیا۔ حکومت جس نے 2013ء میں عوام سے ڈھیروں وعدے کیے تھے اسے اب وہ پورے کرنے دیے جائیں۔ اور اگر پورے نہیں ہوتے تو حکومت پر یہ ذمے داری عائد ہونے دیں۔ اسے یہ کہنے کا موقع نہ ملے کہ عمران خان کے دھرنے آڑے آ گئے ورنہ تو ہم لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے بالکل قریب تھے اور اگر حکومت ان وعدوں کو کامیابی سے عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہو جائے تو اپوزیشن کو بشمول عمران خان اسے خوش آیند قرار دینا چاہیے۔
حکومت کو مبارک باد دینی چاہیے۔ ساتھ ہی آنے والے الیکشن میں حکومتی فلاحی پروگرامز سے زیادہ اچھے فلاحی و سماجی منصوبوں پر مشتمل پروگرام عوام کو دینا چاہیے یہی جمہوریت کا حسن ہے۔ اس میں وزیر اعظم بننا ہر حال میں بننا کوئی نعرہ نہیں۔ نہ ہی اس سے عوام کو کوئی دلچسپی ہے کیونکہ وزارت عظمیٰ تو آپ کو ملے گی ہمیں کیا؟ ہمیں تو آپ یہ بتائیں اگر ہم بطور وزیر اعظم آپ کا انتخاب کریں تو ہماری بہتری کے لیے ہمارے آنے والی نسلوں کی بہترین کے لیے ترقی کے لیے آپ کے پاس کیا ہے؟ کیا Planning ہے۔ ہم یہ بھی جاننا چاہتے ہیں آج آپ کی احتجاجی مہم سے ہمیں کیا ملے گا؟ دیکھیے محترم ہم پچھلے 70 سالوں سے مسلسل، مستقل بے وقوف بنتے چلے آ رہے ہیں کبھی کسی کے ہاتھوں کبھی کسی کے۔ ہم کیوں آپ کی مہم میں شریک ہوں۔ آپ ''پانامہ لیکس'' پر حکومت کی گرفت کی بات کرتے ہیں پہلے تو ہمیں معلوم نہیں پانامہ کہاں ہے اور لیکس کیا؟ اور پتہ چل بھی جائے تو قبلہ الیکشن میں صرف ڈیڑھ سال کی مدت باقی ہے۔ ہم خود حکومت کو دیکھ لیں گے۔ ہمارا ووٹ ہی تھا ناں جس نے حکومت تشکیل دی۔
ہم ہی تھے جس نے میاں نواز شریف کو وزیر اعظم بنایا۔ ہم ان سے پوچھیں گے ہم نے ان کی جماعت کو ووٹ لندن میں کمپنیز بنانے کے لیے دیے تھے یا پاکستان میں جائز تجارت کے لیے؟ ہمیں ان کو گرفت کرنے دیں ناں۔ ہمارے بچوں کو سرکاری اسپتال میں دوائی تک میسر نہیں۔ ڈاکٹرز سرکار کے ملازم ہوتے ہوئے پرائیویٹ کلینک چلا رہے ہیں۔ آپ علاج کرواتے ہیں تو لندن میں۔ ہم نے آپ کو کھرب پتی سے پدم پتی بنانے کے لیے منتخب کیا تھا یا جھوٹے، دلفریب وعدے کرنے کے لیے۔ محترم عمران خان صاحب عوام کو شاید آپ نہیں جانتے آپ شاید ان کی حقیقی طاقت سے واقف نہیں۔ انھیں کوئی ظالم، جابر حکمران وقتی طور پر دبا تو لیتا ہے لیکن تاریخ میں فراعین کے انجام سے کون واقف نہیں؟ آپ کہیں گے میں بہت پرانی مثال دے رہا ہوں۔
معمر قذافی، حسنی مبارک، صدام حسین اور آخر میں جی بھائی۔ ہاں بھائی حسین۔ ہم نہ ہوں ہمارے بعد۔ تم نہ ہو تمہارے بعد۔ منزل نہیں رہنما بھی نہیں۔ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے۔ اس کی تکلیف کو وہی جانتے ہیں جنھیں یہ پڑ چکی ہے۔ آپ یقین رکھیے۔ گزرے ہوئے 3 سالوں کا ایک ایک دن ہمیں یاد ہے۔ جو کچھ ہم نے سہا۔ برداشت کیا۔ ہم اسی کی بنیاد پر 2018ء میں فیصلہ کریں گے۔ ممکن ہے کہ ہمیں کہیں سہولت بھی ملی ہو۔ حکومت نے سارے نہ سہی کوئی وعدہ پورا بھی کیا ہو۔ لیکن یہ ہمیں کوئی کیوں بتائے؟ آج میڈیا کس قدر فاسٹ ہے۔ آپ ضرور جانتے ہوں گے۔
ہم نے میڈیا کے ذریعے سے سب کچھ دیکھا، سنا اور جو ہم پر بیتی اسے سہا بھی۔ لیکن فیصلہ عوام کو کرنا ہے عوام کو کرنے دیں۔ آپ عوامی فیصلے کو Twist نہیں کر سکتے نہ کوشش کریں۔ میں آپ کو مکمل عوامی یقین کے ساتھ آگاہ کرتا ہوں کہ حکومت نے اپنے 3 سالہ دور حکومت میں عوام کی عدالت میں کیا Image بنایا۔ ہماری آنکھوں میں محفوظ ہے۔ 5 سال کی مدت کسی کو پرکھنے کے لیے کم نہیں۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ضمنی انتخاب کی کامیابی حتمی بھی ثابت ہو گی تو وہ غلط فہمی کا شکار ہے۔
اسے پھر خبر ہی نہیں ملک میں ہو کیا رہا ہے۔ لوگوں کے سوچنے کی سمت کیا ہے۔ فی الحال دھند ہو سکتی ہے۔ لیکن انشا اللہ مجھے اپنی قوم پر مکمل بھروسہ ہے۔ وہ بہت دھوکہ کھا چکے۔ صرف دوسروں سے نہیں اپنے ہاتھوں بھی کم نہیں لیے۔ کوئی پنجابی بن کر لٹا کوئی سندھی، پختون، مہاجر، بلوچ بن کر۔ عصبیت کی دیمک نے پیٹ بھر کر کھایا ہم سب کو جو عوام کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ 20 کروڑ نفوس پر مشتمل عوام۔ لیکن امید ہے کہ ہم جان گئے کون ہماری بربادی کا ذمے دار ہے۔ کن وجوہات نے ہمیں ترقی کرنے سے روک کر بدحالی، مفلوک الحالی کی دلدل میں دھکیل دیا۔
خان صاحب ہم منتظر ہیں۔ درخواست ہے آپ بھی انتظار کریں۔ 2018ء تک ان تمام خرابیوں کو اجاگر کرتے رہیں جو ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہی ہیں۔ کرپشن کو بے نقاب کریں، حکومت کی حقیقی اپوزیشن کریں، ہم بغور آپ کو سن رہے ہیں، دیکھ رہے ہیں لیکن یہ روز مرہ کی ریلیاں، دھرنے، جلسے، جلوس یقین کیجیے کہ لوگ اس قدر تھک چکے ہیں مہنگائی زدہ، خودکشی کرتے ہوئے لوگ، بھوک، افلاس سے دم توڑتے ہوئے، دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری کا شکار لوگ ان سب کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ کم ازکم اس وقت نہیں۔ لہٰذا ہم سب بیک زبان آپ سے ملتمس ہیں۔ براہ کرم اپنے احتجاج کی حد قومی و صوبائی اسمبلیز کو قرار دیجیے۔ دیکھیے آج آپ نے جس ریلی کا آغاز کیا۔ میں پیش گوئی کرتے ہوئے (حالانکہ مجھے نہیں پتہ کل کیا ہو گا) کہہ رہا ہوں عوام کی ایک قلیل تعداد آپ کے ہمراہ ہوگی۔ کیونکہ اکثریت تو 2018ء کے الیکشن کی منتظر ہے۔