سیکولر قوتوں کی سرد جنگ

لندن میں ایک بیکری والے نے اپنی دکان پر یہ بورڈ آویزاں کر دیا کہ ہمارے یہاں کے کیک ملکہ برطانیہ شوق سے کھاتی ہیں۔

jabbar01@gmail.com

لندن میں ایک بیکری والے نے اپنی دکان پر یہ بورڈ آویزاں کر دیا کہ ہمارے یہاں کے کیک ملکہ برطانیہ شوق سے کھاتی ہیں۔ قریب کے بیکری والے کو اس کا یہ عمل اچھا نہ لگا اس نے اپنی دکان پر یہ بورڈ آویزاں کر دیا ''اے اللہ ہماری ملکہ کی صحت کی حفاظت فرما''۔ آپ اسے لطیفہ سمجھیں گے مگر کچھ اسی طرح کی سرد جنگ ہمارے سیکولر اور دینی طبقے کے مابین جاری ہے۔

سیکولر عناصر کے نزدیک سیکولرازم ایک ایسا سیاسی نظام ہے جس میں ریاست کے تمام شہریوں کو کسی امتیاز کے بغیر برابری کی بنیاد پر مساوی حقوق حاصل ہوتے ہیں۔ دینی عناصر کی جانب سے اسے لادینی قرار دینا اور یہ تاثر دینا کہ ایسی ریاست کے قیام سے لوگ مذہب یا مذہبی عقائد سے لاتعلق ہو جاتے ہیں کسی طرح درست نہیں یہ بات حقائق کے بالکل منافی ہے۔ یورپ میں عرصہ دراز سے سیکولر نظام رائج ہے لیکن وہاں کی قومی ریاستوں کے شہری بحیثیت مجموعی اپنے مذہبی عقائد سے منحرف نہیں ہوئے۔

اسی طرح ترکی نے سیکولرازم کو بطور نظریہ مقبول کیا تو اس کے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ رہا۔ اس لیے اس نظام کو مذہب دشمن قرار دینا درست بات نہیں۔ یہ نظام مذہب کے خلاف نہیں بلکہ مذہب کو ریاستی امور سے دور رکھتا ہے۔ یعنی ریاست مذہب کے معاملے میں غیر جانبدار ہوتی ہے۔ اس لیے اس نظام کو لادینی قرار دینے کے بجائے اسے انسان دوست سمجھنا چاہیے۔ سیکولرازم کا ترجمہ جب لادینی نظام کیا جاتا ہے تو اس سے اس کا منفی پہلو اجاگر ہوتا ہے نتیجے کے طور پر انسان کا اس نظام کے حوالے سے زاویہ نگاہ بھی غلط ہو جاتا ہے۔ اس لیے سیکولرازم کا ترجمہ لادینی ریاست کے بجائے دنیاوی ریاست کیا جانا چاہیے۔

دینی عناصر کے نزدیک شیطان نے ہر دور میں ایسی نت نئی تراکیب اور اصطلاحات واضح کی ہیں جو بظاہر نہایت پرکشش اور دلفریب نظر آتی ہیں لیکن یہ انسانی ہلاکت اور تباہی کے لیے مہلک ترین حربے ثابت ہوئے ہیں۔ بے راہ روی ، عریانی اور فحاشی کو آرٹ کا نام دیا جانا۔ منافقت، دھوکا دہی، مکاری اور فریب کو ڈپلومیسی جیسے نام دیا جانا اس کی مثالیں ہیں۔ اسی طرح انسانی خیالات و افکار کو بے لگام کر کے اس کو اخلاقی اقدار سے بیگانہ اور گمراہ کرنے کے عمل کو آزادی فکر کا نام دے دیا گیا ہے۔ معاشی استحصال کا نام کیپٹل ازم رکھ دیا گیا۔

ہر ایک کو امیر نہیں بنایا جا سکتا لہٰذا آسان طریقہ یہ ہے کہ سب کو غریب کر دیا جائے اس عمل کا نام سوشلزم رکھ دیا گیا ہے ہر وہ چیز جو پہلے سے چلی آتی ہو وہ اپنے اندر افادیت کے چاہے کتنے ہی پہلو رکھتی ہو اسے رد کر دینا آزاد خیالی قرار پایا۔ آپ آگے جانا چاہتے ہیں کوئی آپ کے راستے میں حائل ہے تو آپ اس کی گردن پر اپنا پاؤں رکھ کرآگے جا سکتے ہیں اس بے اصولی، ناانصافی اور ظلم و جبر کا نام قومی مفاد رکھ دیا گیا۔ ذہنی غلامی اور چاپلوسی کو رواداری کا نام دے کر فروغ دیا گیا۔ جمہوریت کو اکثریت کی حکمرانی کا خوش کن نام دے کر اقلیتی گروہ کو عوام الناس پر مسلط کر دیا گیا۔


اس طرح سیکولرازم ہے جسے انسان دوستی کا خوشنما نام دے کر پیش کیا جاتا ہے۔ سیکولرازم ایک لادینی نظریہ ہے جو اپنے مزاج میں الہامی ہدایت کا حریف رہا ہے۔ اس نظام میں قانون شکنی کو گناہ کے بجائے سماجی جرم تصورکیا جاتا ہے۔ قانون کو اس کے روحانی اور اخلاقی پس منظر سے کاٹ دیا جائے تو اس میں خود احتسابی کا عمل ختم ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے معاشرہ اخلاقی اور روحانی طور پر بانجھ ہو جاتا ہے۔ سیکولرازم کا مزاج کچھ اس طرح کا ہے کہ اس کے تحت جو تعلیم دی جاتی ہے اس سے انسانی ذہن کچھ اس طرح کا بن جاتا ہے کہ تعلیم کے بعد دہریت نہیں تو کم از کم آدمی دین کی طرف سے بے عملی کا شکار ضرور ہو جاتا ہے اس صورت میں اسے لادینی قرار نہ دیا جائے تو پھر کیا نام دیا جانا چاہیے۔

یہ ہے دونوں جانب کا نقطہ نظر کون درست ہے اور کون غلط اس کا فیصلہ پڑھنے والے خود کر سکتے ہیں۔ میری ذاتی رائے میں یہ زاویہ نگاہ کا فرق ہے ہر شخص کا ادراک اس کے خیالات اور تصورات پر مبنی ہوتا ہے۔ اس میں غیر شعوری طور پر اس کے نظریات کی بھرپور آمیزش ہوتی ہے۔ مثلاً ایک صحافی سے سوال کیا جائے کہ ''زبان'' کیا ہے تو صحافی کا جواب ہو گا ''زبان'' ابلاغ کا ایک ذریعہ ہے۔ جب یہی سوال ایک ڈاکٹر سے کیا جائے تو اس کا جواب ہو گا زبان گوشت کا ایک لوتھڑا اور جسم کا ایک عضو ہے۔ اسی طرح جب یہ سوال کیا جائے کہ جراثیم کی وجوہات کیا ہیں تو ایک عالم دین کا جواب ایک ماہر نفسیات کے جواب سے مختلف ہو گا اور ایک ماہر نفسیات کا جواب ایک سیاست دان کے جواب سے مختلف ہو گا۔ ایک عالم دین اپنا نقطہ نظر قرآن وسنت کی روشنی میں پیش کرتا ہے جب کہ سیکولر عناصر اپنے نقطہ نظر کو عقلی دلائل کی روشنی میں پیش کرتے ہیں۔

اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کسی شے کو جانچنے اور اس کے تجزیہ کرنے کے پیمانے ہر شعبہ زندگی کے الگ الگ ہیں ہر انسان اپنے تجربات اور اپنی سوچ کے تحت فیصلہ کرتا ہے۔ اس ضمن میں درست رویہ یہ ہے کہ ذاتی طور پر آپ کے خیالات چاہے کچھ بھی ہوں جب آپ دوسروں کی بات سنیں تو اپنی سوچ اور فکر سے بالکل لاتعلق ہو کر اس کے نقطہ نظر کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ اس طرز عمل کی بدولت آدمی اپنی سوچ کے خول سے باہر نکلتا ہے اسے معلوم ہوتا ہے کہ جو وہ سوچتا ہے وہ پورا سچ یا حتمی حقیقت نہیں۔ اس طرح اسے کسی معاملے کا پوری طرح ادراک حاصل ہوتا ہے جس سے درست عمل کی راہیں ملنے میں مدد ملتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں اس کے بالکل برعکس معاملہ ہے۔

یہ میرا ذاتی مشاہدہ ہے معاشرے میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو وہی کچھ سننا چاہتے ہیں جسے وہ درست سمجھتے ہیں یعنی اپنے مخالف نظریات سننے کے لیے تیار نہیں۔ معاشرے میں بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو موضوع سے ہٹ کر گفتگو کرتے ہیں بہت کم لوگ ایسے دیکھنے میں آتے ہیں جو موضوع کے اندر رہتے ہوئے گفتگو کر سکیں ان میں بھی بہت کم تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو اپنے ذاتی خیالات سے الگ ہو کر دوسروں کی بات کو سن سکیں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جن کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ جیسے ہی ان کا مخاطب اپنی بات ختم کرے وہ فوراً اس کی نفی کر سکیں۔

خیال رہے کہ اس رویے میں جہاں موروثی جذبات ایک اہم عنصر ہے وہاں ذاتی مفادات کا عنصر ایک اہم کردار رہا ہے۔ تاہم یہ رویہ معاشرے کے لیے مثبت لائحہ عمل مرتب کرنے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ ہمیں اس رویے سے گریز کرنا چاہیے۔ جب تک ہم اس رویے میں تبدیلی نہیں لائیں گے معاشرے میں مختلف عناصر کے مابین سرد جنگ جاری رہے گی۔ سرد جنگ کے خاتمے کے لیے ہمیں اپنے رویوں کو بدلنا ہو گا۔
Load Next Story