لاڑکانہ کا ایدھی حافظ عبدالکریم پہوڑ
سندھ میں سماجی خدمت کا کام پاکستان بننے سے بھی بہت پہلے ہوتا رہا ہے جس میں ہندو اور مسلمان پیش پیش رہے ہیں۔
KARACHI:
سندھ میں سماجی خدمت کا کام پاکستان بننے سے بھی بہت پہلے ہوتا رہا ہے جس میں ہندو اور مسلمان پیش پیش رہے ہیں۔ آج میں اس شخص کے بارے میں کچھ کہوں گا جس نے اپنا وقت، پیسہ، جذبہ اور ٹیلنٹ سماجی خدمت کے لیے وقف کر دیا تھا۔ نہ کبھی صبح دیکھی، نہ رات اور نہ کبھی بارش یا طوفان، اس نے جب بھی کہیں کسی کو مصیبت میں دیکھا نکل پڑتے تھے اور سماجی کاموں کو مزید بہتر اور تیز بنانے کے لیے انھوں نے کچھ دوستوں کا گروپ بھی بنایا تھا۔
اس شخص کا نام تھا عبدالکریم پہوڑ۔ جسے میں نے خود بچپن میں کئی مرتبہ کبھی پیدل اور کبھی سائیکل پر دیکھا، ایک ہاتھ میں لوہے کا بڑا گھنٹہ ہوتا تھا اور کوئی نہ کوئی بچہ اس کے ساتھ نظر آتا تھا۔ وہ بڑی زوردار آواز میں کہتا تھا کہ یہ بچہ انھیں فلاں جگہ سے ملا ہے، جو اپنا نام فلاں بتاتا ہے، جس کسی کا بھی ہے وہ اسے لے جائے یا پھر اگر اس بچے کے ماں باپ کو دیر سے پتہ لگے تو وہ اس کے گھر آ کر اپنے بچے کو لے جا سکتے ہیں۔ جب تک بچے کا وارث نہیں مل جاتا تھا وہ اسے اپنے گھر پر رکھتے تھے اور صبح کو کام کاج پر جاتے اسے اپنے ساتھ لے جاتے تھے اور اسی دوران پھر پورے شہر کا چکر لگاتے تھے اور وہی الفاظ دہراتے ہوئے پورا دن گزر جاتا تھا۔ بچوں کے وارث سے کبھی کوئی معاوضہ نہیں لیا اور الٹا انھیں کھانا وغیرہ کھلاتے تھے۔
وہ 1931ء میں لاڑکانہ شہر میں پیدا ہوئے۔ بچپن میں ہی انھیں دینی تعلیم سے بڑا لگاؤ تھا، اس لیے انھوں نے قرآن پاک حفظ کر لیا اور صرف پرائمری کی دو جماعتیں پڑھ سکے۔ ان کے والد عبداللہ خان جو ٹیچر تھے، نے عبدالکریم کو کاروبار کے لیے اسلامی کتابوں کی دکان کھول کر دی۔ عبدالکریم کو بچپن ہی سے سماجی کاموں سے بڑا پیار تھا، اس لیے وہ محلے میں چھوٹے موٹے کام کر دیا کرتے تھے۔
1932ء میں خاکسار بننے کی خواہش ظاہر کی، وہ خاکسار تحریک کے رہنما علامہ عنایت اللہ کی پروقار شخصیت سے بڑے متاثر تھے۔ وہ جب خاکسار بننے کے لیے لاڑکانہ شہر کے انچارج کے پاس گئے تو انھیں منع کر دیا، جس پر انھوں نے اپنے خون سے علامہ کو ممبر بننے کے لیے خط لکھا جس پر انھیں ایک دم خاکسار تحریک کا ممبر بنا دیا گیا۔ اس نے بڑی جلدی جانباز کا ٹائٹل حاصل کیا اور محنت اور جذبے سے کام کرتے کرتے لاڑکانہ ضلع کے سالار بن گئے۔
وہ انسانیت کے بڑے علمبردار تھے، بغیر کسی مذہب، نسل، ذات، رنگ ہر ایک کے کام آتے تھے، وہ بہت بلند اخلاق تھے شہر کا ہر شخص ان کی عزت اور احترام کرتا تھا۔ اس زمانے میں بھی اگر کوئی لاوارث لاش ہوتی تو پولیس یا لوگ ان کے حوالے کرتے تھے اور وہ اپنی جیب سے اس لاش کے کفن دفن کا انتظام کرتے۔ بہت ساری لاشیں ایسی بھی ہوتی تھیں کہ ان کی سڑاند سے لوگ دور بھاگ جاتے تھے مگر یہ اس لاش کو نہلاتے خود تھے۔ ایک مرتبہ ایک ڈاکو کی لاش کو کوئی بھی غسل دینے اور اسے دفن کرنے کو تیار نہیں تھا، کیونکہ وہ لاش کئی دنوں سے کہیں پڑی ہوئی تھی۔ انھوں نے اس ڈاکو کو غسل دیا، اسے کفن پہنایا، اس کی نماز جنازہ خود پڑھائی۔
1950ء میں جب مواصلات کی سہولتیں کم تھیں، اس لیے ریلوے نظام کو اہمیت تھی اور زیادہ تر لوگ ٹرین کے ذریعے سفر کرتے تھے، جب ٹرین کسی ریلوے اسٹیشن پر رکتی تھی تو لوگ وہاں پر پانی بھی پیتے تھے اور کچھ اور چیزیں خریدنے کے لیے پلیٹ فارم پر آجاتے تھے۔ عبدالکریم کا یہ معمول تھا کہ وہ خاص طور پر دوپہر کو جب کوئی ٹرین لاڑکانہ ریلوے اسٹیشن پر رکتی تھی وہ ایک بڑا ڈرم پانی کا بھر کر وہاں رکھتے تھے، اس میں برف ڈال کر ٹھنڈا کرتے اور اس میں سے ایک بالٹی میں پانی ڈال کر گلاس سے ہر ایک کے پاس جا کر گرمیوں میں مسافروں کو پانی پلاتے تھے۔ اس کے علاوہ ایک بڑا کنستر ابلے ہوئے چنوں کا اپنے ساتھ لاتے اور کاغذ میں ڈال کر لوگوں کو کھانے کے لیے دیتے تھے۔
1942ء میں سندھ میں ایک بہت بڑا سیلاب آیا جس سے بہت زیادہ نقصان ہوا۔ لوگ اپنے گاؤں اور گھروں میں ڈوب رہے تھے، انھیں وہاں سے نکالنے کے لیے اس وقت کی انگریز سرکار کام کر رہی تھی لیکن اس وقت عبدالکریم بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ کچھ کشتیاں کرائے پر لے کر نکل پڑے اور وہاں سے محصور لوگوں کو بحفاظت لاڑکانہ شہر میں پہنچایا اور ان کے کھانے پینے اور رہنے کا بندوبست کے لیے مخیر حضرات کا تعاون بھی حاصل کیا۔ اس زمانے میں انھوں نے خاص طور پر خاکسار تحریک کو ذمے داریوں میں شامل کیا اور ان کی طرف سے بھی کیمپ لگائے، اس کے بعد لاڑکانہ میں ایک محلہ قافلہ سرائے کے نام سے وجود میں آیا اور سیلاب کے متاثرین وہیں رہ گئے اور اپنے گھر بنا ڈالے۔ اس کے علاوہ جب لاڑکانہ شہر میں یا اس کے اطراف میں کہیں بھی کوئی آگ لگنے کا واقعہ ہوتا تو یہ وہاں اپنے لوگوں کے ساتھ ایک دم پہنچ جاتے تھے۔
اس شخصیت کا ایک اور پہلو بھی بڑا دلچسپ ہے کہ اسے اسٹیج ڈراموں میں اداکاری کرنے کا بڑا شوق تھا۔ عبدالکریم بڑے خوبصورت تھے اور اس میں ٹیلنٹ بھی تھا، اس لیے وہ ہمیشہ ہیرو کے کردار ادا کرتے تھے۔ وہ لوگوں کے پسندیدہ فنکار تھے اور اس کا ڈرامہ ضرور دیکھنے آتے تھے۔ اس زمانے میں اسٹیج ڈرامے لوگوں کے لیے ایک بڑی تفریح ہوا کرتی تھی۔
لوگوں نے عبدالکریم کی یہ سماجی خدمتیں دیکھ کر انھیں میونسپل کمیٹی لاڑکانہ میں الیکشن لڑنے کے لیے آمادہ کیا۔ وہ لاڑکانہ شہر میں میونسپل کمیٹی کے ممبر بن گئے اور اب اور بھی زیادہ احسن اور وزن کے ساتھ لوگوں کی خدمت کرنے لگے، وہ صبح سویرے نماز پڑھ کر سیدھا اپنے یونٹ کا دورہ کرتے جس کے ساتھ صفائی کا عملہ ساتھ ہوتا تھا۔ اس نے اپنے علاقے میں گلیوں کو پختہ کیا، روشنی کا انتظام بہتر بنایا اور چوکیداری نظام کو اور بہتر کرنے کے لیے کئی مرتبہ راتوں کو خود آ کر نگرانی کرتے تھے۔
اس زمانے میں میڈیا اتنا نہیں تھا کہ وہ کسی کے کام کو سراہے، مگر لوگ خود دیکھ کر کام کرنے والے کا احترام کرتے تھے جو اس کے لیے ایک سند اور ایوارڈ ہوتا تھا۔ ہمارے اپنے لوگوں نے تو ان اہم شخصیات کو اور ان کی خدمات کو بھلا دیا ہے مگر ایک ایسا بھی ایڈمنسٹریٹر میونسپل کمیٹی لاڑکانہ تھا جس کا تعلق سندھ سے نہیں تھا، اس نے اس شخص کے بارے میں سننے کے بعد لاڑکانہ شہر میں ایک یادگار عبدالکریم پہوڑ کے نام سے بنوائی۔ میں حکومت سندھ سے یہ عرض کروں گا کہ وہ عبدالکریم پہوڑ کی صدارتی ایوارڈ کے لیے نامزدگی کرے تا کہ ہم میں یہ اعتماد پیدا ہو کہ آخرت میں تو اچھے اور سماجی لوگوں کو اجر ملے گا لیکن اگر اس دنیا میں بھی انھیں اس طرح کے ایوارڈ ان کے مرنے کے بعد بھی دیے جائیں تو اچھے سماجی کارکنوں کی ہمت افزائی ہو گی۔ وہ اس دنیا سے 24 مارچ 1984ء میں ہم سے صرف جسمانی طور پر الگ ہوگئے مگر اب بھی ہمارے ذہنوں میں زندہ ہیں۔
سندھ میں سماجی خدمت کا کام پاکستان بننے سے بھی بہت پہلے ہوتا رہا ہے جس میں ہندو اور مسلمان پیش پیش رہے ہیں۔ آج میں اس شخص کے بارے میں کچھ کہوں گا جس نے اپنا وقت، پیسہ، جذبہ اور ٹیلنٹ سماجی خدمت کے لیے وقف کر دیا تھا۔ نہ کبھی صبح دیکھی، نہ رات اور نہ کبھی بارش یا طوفان، اس نے جب بھی کہیں کسی کو مصیبت میں دیکھا نکل پڑتے تھے اور سماجی کاموں کو مزید بہتر اور تیز بنانے کے لیے انھوں نے کچھ دوستوں کا گروپ بھی بنایا تھا۔
اس شخص کا نام تھا عبدالکریم پہوڑ۔ جسے میں نے خود بچپن میں کئی مرتبہ کبھی پیدل اور کبھی سائیکل پر دیکھا، ایک ہاتھ میں لوہے کا بڑا گھنٹہ ہوتا تھا اور کوئی نہ کوئی بچہ اس کے ساتھ نظر آتا تھا۔ وہ بڑی زوردار آواز میں کہتا تھا کہ یہ بچہ انھیں فلاں جگہ سے ملا ہے، جو اپنا نام فلاں بتاتا ہے، جس کسی کا بھی ہے وہ اسے لے جائے یا پھر اگر اس بچے کے ماں باپ کو دیر سے پتہ لگے تو وہ اس کے گھر آ کر اپنے بچے کو لے جا سکتے ہیں۔ جب تک بچے کا وارث نہیں مل جاتا تھا وہ اسے اپنے گھر پر رکھتے تھے اور صبح کو کام کاج پر جاتے اسے اپنے ساتھ لے جاتے تھے اور اسی دوران پھر پورے شہر کا چکر لگاتے تھے اور وہی الفاظ دہراتے ہوئے پورا دن گزر جاتا تھا۔ بچوں کے وارث سے کبھی کوئی معاوضہ نہیں لیا اور الٹا انھیں کھانا وغیرہ کھلاتے تھے۔
وہ 1931ء میں لاڑکانہ شہر میں پیدا ہوئے۔ بچپن میں ہی انھیں دینی تعلیم سے بڑا لگاؤ تھا، اس لیے انھوں نے قرآن پاک حفظ کر لیا اور صرف پرائمری کی دو جماعتیں پڑھ سکے۔ ان کے والد عبداللہ خان جو ٹیچر تھے، نے عبدالکریم کو کاروبار کے لیے اسلامی کتابوں کی دکان کھول کر دی۔ عبدالکریم کو بچپن ہی سے سماجی کاموں سے بڑا پیار تھا، اس لیے وہ محلے میں چھوٹے موٹے کام کر دیا کرتے تھے۔
1932ء میں خاکسار بننے کی خواہش ظاہر کی، وہ خاکسار تحریک کے رہنما علامہ عنایت اللہ کی پروقار شخصیت سے بڑے متاثر تھے۔ وہ جب خاکسار بننے کے لیے لاڑکانہ شہر کے انچارج کے پاس گئے تو انھیں منع کر دیا، جس پر انھوں نے اپنے خون سے علامہ کو ممبر بننے کے لیے خط لکھا جس پر انھیں ایک دم خاکسار تحریک کا ممبر بنا دیا گیا۔ اس نے بڑی جلدی جانباز کا ٹائٹل حاصل کیا اور محنت اور جذبے سے کام کرتے کرتے لاڑکانہ ضلع کے سالار بن گئے۔
وہ انسانیت کے بڑے علمبردار تھے، بغیر کسی مذہب، نسل، ذات، رنگ ہر ایک کے کام آتے تھے، وہ بہت بلند اخلاق تھے شہر کا ہر شخص ان کی عزت اور احترام کرتا تھا۔ اس زمانے میں بھی اگر کوئی لاوارث لاش ہوتی تو پولیس یا لوگ ان کے حوالے کرتے تھے اور وہ اپنی جیب سے اس لاش کے کفن دفن کا انتظام کرتے۔ بہت ساری لاشیں ایسی بھی ہوتی تھیں کہ ان کی سڑاند سے لوگ دور بھاگ جاتے تھے مگر یہ اس لاش کو نہلاتے خود تھے۔ ایک مرتبہ ایک ڈاکو کی لاش کو کوئی بھی غسل دینے اور اسے دفن کرنے کو تیار نہیں تھا، کیونکہ وہ لاش کئی دنوں سے کہیں پڑی ہوئی تھی۔ انھوں نے اس ڈاکو کو غسل دیا، اسے کفن پہنایا، اس کی نماز جنازہ خود پڑھائی۔
1950ء میں جب مواصلات کی سہولتیں کم تھیں، اس لیے ریلوے نظام کو اہمیت تھی اور زیادہ تر لوگ ٹرین کے ذریعے سفر کرتے تھے، جب ٹرین کسی ریلوے اسٹیشن پر رکتی تھی تو لوگ وہاں پر پانی بھی پیتے تھے اور کچھ اور چیزیں خریدنے کے لیے پلیٹ فارم پر آجاتے تھے۔ عبدالکریم کا یہ معمول تھا کہ وہ خاص طور پر دوپہر کو جب کوئی ٹرین لاڑکانہ ریلوے اسٹیشن پر رکتی تھی وہ ایک بڑا ڈرم پانی کا بھر کر وہاں رکھتے تھے، اس میں برف ڈال کر ٹھنڈا کرتے اور اس میں سے ایک بالٹی میں پانی ڈال کر گلاس سے ہر ایک کے پاس جا کر گرمیوں میں مسافروں کو پانی پلاتے تھے۔ اس کے علاوہ ایک بڑا کنستر ابلے ہوئے چنوں کا اپنے ساتھ لاتے اور کاغذ میں ڈال کر لوگوں کو کھانے کے لیے دیتے تھے۔
1942ء میں سندھ میں ایک بہت بڑا سیلاب آیا جس سے بہت زیادہ نقصان ہوا۔ لوگ اپنے گاؤں اور گھروں میں ڈوب رہے تھے، انھیں وہاں سے نکالنے کے لیے اس وقت کی انگریز سرکار کام کر رہی تھی لیکن اس وقت عبدالکریم بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ کچھ کشتیاں کرائے پر لے کر نکل پڑے اور وہاں سے محصور لوگوں کو بحفاظت لاڑکانہ شہر میں پہنچایا اور ان کے کھانے پینے اور رہنے کا بندوبست کے لیے مخیر حضرات کا تعاون بھی حاصل کیا۔ اس زمانے میں انھوں نے خاص طور پر خاکسار تحریک کو ذمے داریوں میں شامل کیا اور ان کی طرف سے بھی کیمپ لگائے، اس کے بعد لاڑکانہ میں ایک محلہ قافلہ سرائے کے نام سے وجود میں آیا اور سیلاب کے متاثرین وہیں رہ گئے اور اپنے گھر بنا ڈالے۔ اس کے علاوہ جب لاڑکانہ شہر میں یا اس کے اطراف میں کہیں بھی کوئی آگ لگنے کا واقعہ ہوتا تو یہ وہاں اپنے لوگوں کے ساتھ ایک دم پہنچ جاتے تھے۔
اس شخصیت کا ایک اور پہلو بھی بڑا دلچسپ ہے کہ اسے اسٹیج ڈراموں میں اداکاری کرنے کا بڑا شوق تھا۔ عبدالکریم بڑے خوبصورت تھے اور اس میں ٹیلنٹ بھی تھا، اس لیے وہ ہمیشہ ہیرو کے کردار ادا کرتے تھے۔ وہ لوگوں کے پسندیدہ فنکار تھے اور اس کا ڈرامہ ضرور دیکھنے آتے تھے۔ اس زمانے میں اسٹیج ڈرامے لوگوں کے لیے ایک بڑی تفریح ہوا کرتی تھی۔
لوگوں نے عبدالکریم کی یہ سماجی خدمتیں دیکھ کر انھیں میونسپل کمیٹی لاڑکانہ میں الیکشن لڑنے کے لیے آمادہ کیا۔ وہ لاڑکانہ شہر میں میونسپل کمیٹی کے ممبر بن گئے اور اب اور بھی زیادہ احسن اور وزن کے ساتھ لوگوں کی خدمت کرنے لگے، وہ صبح سویرے نماز پڑھ کر سیدھا اپنے یونٹ کا دورہ کرتے جس کے ساتھ صفائی کا عملہ ساتھ ہوتا تھا۔ اس نے اپنے علاقے میں گلیوں کو پختہ کیا، روشنی کا انتظام بہتر بنایا اور چوکیداری نظام کو اور بہتر کرنے کے لیے کئی مرتبہ راتوں کو خود آ کر نگرانی کرتے تھے۔
اس زمانے میں میڈیا اتنا نہیں تھا کہ وہ کسی کے کام کو سراہے، مگر لوگ خود دیکھ کر کام کرنے والے کا احترام کرتے تھے جو اس کے لیے ایک سند اور ایوارڈ ہوتا تھا۔ ہمارے اپنے لوگوں نے تو ان اہم شخصیات کو اور ان کی خدمات کو بھلا دیا ہے مگر ایک ایسا بھی ایڈمنسٹریٹر میونسپل کمیٹی لاڑکانہ تھا جس کا تعلق سندھ سے نہیں تھا، اس نے اس شخص کے بارے میں سننے کے بعد لاڑکانہ شہر میں ایک یادگار عبدالکریم پہوڑ کے نام سے بنوائی۔ میں حکومت سندھ سے یہ عرض کروں گا کہ وہ عبدالکریم پہوڑ کی صدارتی ایوارڈ کے لیے نامزدگی کرے تا کہ ہم میں یہ اعتماد پیدا ہو کہ آخرت میں تو اچھے اور سماجی لوگوں کو اجر ملے گا لیکن اگر اس دنیا میں بھی انھیں اس طرح کے ایوارڈ ان کے مرنے کے بعد بھی دیے جائیں تو اچھے سماجی کارکنوں کی ہمت افزائی ہو گی۔ وہ اس دنیا سے 24 مارچ 1984ء میں ہم سے صرف جسمانی طور پر الگ ہوگئے مگر اب بھی ہمارے ذہنوں میں زندہ ہیں۔