ترقی کیلئے گمنام ہیروز کی مدد ناگزیر ہے

وطن عزیزمیں قیمتی نگینوں کی کمی نہیں لیکن نظام کی خرابی کیوجہ سےانکو چمکنےکا موقع نہیں ملتااور اکثریت آگےنہیں بڑھ پاتی


ناصر تیموری September 08, 2016
دیگر کاروباری اداروں کو بھی آگے بڑھ کر فلاحی کام سرانجام دینے والوں کی مدد کرنی چاہیے تاکہ یہ لوگ نہ صرف مایوسی سے بچیں بلکہ مثبت انداز سے آگے بڑھ سکیں۔

اِس بات کا جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے کہ ہمارے معاشرے میں قیمتی نگینوں کی قطعی طور پر کمی نہیں لیکن نظام کی خرابی کی وجہ سے اُن کو چمکنے کا موقع ہی میسر نہیں آتا، مختلف قسم کی مشکلات کے سبب اکثریت آگے ہی نہیں بڑھ پاتی۔ لیکن تمام تر پریشانیون اور مشکلات کے باوجود اب بھی بہت سے ایسے لوگ موجود ہیں جو کسی بھی صورت ہمت نہیں ہارتے اور سر دھڑ کی بازی لگادیتے ہیں جس کے نتیجے میں کامیابی ان کے قدم چومتی ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ جو لوگ آنے کے مستحق ہیں اور وہ قومی منظر نامے پر آنے سے صرف اِس لیے محروم رہتے ہیں کہ ایسے لوگوں کو بڑے پیمانے پر عوام، میڈیا اور حکومت کی جانب سے حوصلہ افزائی نہیں ملتی اُن کا کیا کیا جائے؟ ایسے تمام افراد کی مدد کے لیے معاشرے کے ہر ہر فرد کو آگے بڑھ کر اُن کی مدد کرنی چاہیے، صرف لوگوں کو ہی نہیں بلکہ اس حوالے سے کاروباری اداروں کو بھی آگے بڑھنے اور ان کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔

حال ہی میں پاکستان کی معروف موبائل آپریٹر نے معاشرے کے ان گم نام ہیروز کو متعارف کرانے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ اس حوالے سے ان گمنام ہیروز اور ان کے کارنامے دنیا کو روشناس کرانے کے لئے بلاگرز کے ساتھ ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا گیا۔ ان گمنام ہیروز میں بہت سے دلچسپ افراد ہیں۔ مثال کے طور پر 25 سالہ نوجوان محمد محسن علی ہیں جنہوں نے اپنے انتہائی کمزور مالی حالات کو پس پشت ڈال کر بھرپور محنت کی اور گریجویشن میں گولڈ میڈل حاصل کیا، حالانکہ وہ تندور پر کام کرتے ہیں۔ پاکستان کی پہلی ٹرک ڈرائیور خاتون شمیم اختر ہیں۔ تیسری اہم شخصیت صبیحہ زاہد ہیں جو پاکستان کی قومی سائیکلسٹ چیمپیئن ہیں۔ ایک اور اہم شخصیت ثاقب علی کاظمی ہیں جنہوں نے خصوصی طور پر اندرون سندھ پانی کی فراہمی کے لئے غیرمعمولی طور پر کام سر انجام دیا ہے۔ اِن تمام لوگوں نے کامیابی کے لیے کن مشکلات کا سامنا کیا آئیے اُس پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

  • شمیم اختر


ان گمنام ہیروز میں راولپنڈی کی 53 سالہ خاتون شمیم اختر بھی شامل ہیں جو پاکستان کی پہلی ٹرک ڈرائیور ہیں۔ ان سے جب پوچھا گیا کہ آپ کے اندر ٹرک ڈرائیوری جیسے کام کے لئے اتنی ہمت کہاں سے آئی؟ تو شمیم اختر کا جواب انتہائی قابل غور تھا۔ شمیم اخبر نے جواب دیا کہ میں نے اپنی ضرورتوں کو اپنی ہمت بنایا اور محنت کے راستے کا انتخاب کیا، اپنی زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے راولپنڈی کی شمیم اختر نے بتایا کہ 1994 میں انہوں نے ووکیشنل ٹیچنگ کا کورس کیا اور بچیوں کو اسکول میں پڑھانے، سکھانے لگیں۔ کئی سال بعد وہ اسکول کالج میں بدل گیا تو ان کا کام چھوٹ گیا کیونکہ کالج میں پڑھانے کے لئے تعلیم یافتہ ہونا ضروری تھا، اور انہوں نے تو میٹرک بھی نہیں کیا ہوا تھا۔ ان کے پانچ بچے تھے جنہیں پالنے کے لئے انہوں نے گاڑیاں چلانے کی تربیت حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔ بس پھر اپنے پڑوسیوں اور محلے کے افراد سے پیسے جمع کئے اور 2007 میں گاڑی چلانا سیکھ لی، صرف گاڑی چلانا ہی نہیں سیکھی بلکہ اب گاڑی چلانے کا اسکول بھی کھول لیا ہے اور اب تک ایک ہزار مرد و خواتین کو ڈرائیونگ سکھا چکی ہیں۔

2008ء میں انہوں نے شہ زور کا ایل ٹی وی کا کورس کیا۔ وہاں دو شفٹوں میں کلاس ہوتی تھی، لہذا جلد سے جلد لائسنس کے حصول کے لیے انہوں نے ڈبل کلاس لے لی۔ حیران کن بات یہ تھی کہ جب نتیجہ آیا تو 7 مرد فیل ہوگئے تھے جبکہ شمیم اختر پاس ہوگئی تھیں۔ مہنگائی اور محدود آمدن کے باعث انہیں خوف ہوا کہ کہیں ان کے بچوں کی روزی روٹی بند نہ ہوجائے تو پھر 2013ء میں انہوں نے ایل ڈی ٹی کا لائسنس لیا اور پھر پی ایس پی کا کورس کیا۔

وہ بتاتی ہیں کہ انہیں ٹرک چلانا آچکا تھا، اس کا لائسنس موجود تھا۔ باقاعدہ تربیت بھی حاصل کرچکی تھی لیکن جب ٹرک ڈرائیوروں سے کہا کہ انہیں بھی ساتھ ڈرائیور رکھ لیا جائے تو جواب ملا کہ اماں ٹرک کیسے چلاؤ گی تو اُن لوگوں کو بتایا کہ ان کے پاس لائسنس ہے اور انہیں اپنے بچوں کا پیٹ پالنا ہے جس پر وہ راضی ہوگئے۔ جب شمیم اختر سے ٹرک ڈرائیوروں کے ساتھ رہنے اور ان کے طرز زندگی سے متعلق سوال پوچھا گیا تو شمیم اختر نے بتایا کہ ڈرائیوری کے کام میں کبھی رات کو دیر بھی ہوجاتی ہے، کبھی رات کے 12 تو کبھی رات کے 2 بھی بج جاتے ہیں لیکن میرے ساتھی بہت اچھے ہیں۔ ٹرک ڈرائیوری کے کام میں اکثریت پٹھانوں کی ہے۔ وہ میرا احترام کرتے ہیں اور مجھے ماں کہہ کر پکارتے ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ٹرک ڈرائیور غیر اخلاقی کام یا نشہ آور چیزیں استعمال کرتے ہیں تو شمیم اختر نے بتایا کہ وہ صرف نسوار لگاتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ کوئی غلط کام نہیں کرتے۔

جب شمیم اختر سے پوچھا گیا کہ وہ اپنی کامیابی پر مرد ڈرائیوروں کو کیا پیغام دیں گی تو شمیم اختر نے کہا کہ یہ ان کی کامیابی نہیں بلکہ یہ تو ان نوجوانوں نے اُن پر اعتماد کیا اور چلانے کے لئے ٹرک دیا، کیونکہ اُن کے پاس تو ٹرک ہی نہیں تھا، اگر اُن کی مدد نہ کی جاتی تو وہ شاید اپنے بچوں کا پیٹ نہیں پال سکتیں۔



  • محمد محسن علی


اس ضمن میں دوسرے مہمان اور ہیرو محمد محسن علی تھے۔ حافظ آباد سے تعلق رکھنے والے محسن علی گزر بسر اور آمدن کے لئے دن میں تندور پر کام کرتے تھے۔ غربت کی وجہ سے وہ کالج کی پڑھائی کے اخراجات نہیں اٹھاسکتے تھے۔ انہوں نے پرائیوٹ امیدوار کے طور اپنی پڑھائی جاری رکھی۔ وہ چھے مہینے تک راتوں کو پڑھائی کرتے رہے اور بمشکل چار گھنٹے کی نیند لیتے۔ اس بھرپور محنت کے نتیجے میں انہوں نے سال 2012ء میں پنجاب یونیورسٹی کے تحت بی اے/بی ایس سی کے امتحانات میں 800 میں سے 688 نمبر لے کر پہلی پوزیشن حاصل کی اور گولڈ میڈل کے حقدار بن گئے۔

 

یہ شاندار خبر سننے کے بعد ان کے والدین لاہور پہنچے اور انہیں بمشکل یقین آیا کہ ان کے بیٹے نے یہ کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ اِس کامیابی کا نتیجہ یہ نکلا کہ محسن کی کامیابی پر وزیراعلیٰ پنجاب نے محسن کی تعلیم کے تمام اخراجات برداشت کرنے کا اعلان کیا ہے۔ محسن علی نے اپنی کامیابی کے بارے میں بتایا کہ زندگی رونے دھونے سے نہیں گزرتی، اگر میں بھی دیگر لوگوں کی طرح روتا رہتا تو کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا تھا۔ انہوں نے مستقبل کا ارادہ ظاہر کرتے ہوئے بتایا کہ وہ مزید اعلیٰ تعلیم حاصل کریں گے، اِس وقت اُن کا ارادہ ایل ایل بی کرنے کا ہے جبکہ اگلے سال وہ سی ایس ایس کے امتحان میں بھی شریک ہوں گے۔


صبیحہ زاہد

اس تقریب میں تیسری گمنام ہیرو صبیحہ زاہد ہیں جنہوں نے 2013ء میں نیشنل سائیکلنگ چیمپیئن شپ جیتی۔ رواں سال منعقد ہونے والے جنوبی ایشیائی گیمز میں کانسی کے دو تمغے جیتنے والی صبیحہ زاہد کا تعلق ہری پور سے ہے۔ ان سے جب پوچھا گیا کہ لڑکیوں کا پاکستانی معاشرے میں سائیکل چلانا معیوب سمجھا جاتا ہے تو آپ نے اس رویئے کا سامنا کیسے کیا؟ تو ثابیہ زاہد نے بتایا، ہمارے معاشرے میں لڑکیوں کا باہر نکلنا اچھا نہیں سمجھا جاتا جبکہ ہری پور میں لڑکیوں کا سائیکل چلانے کا سوچنا بھی مشکل ہے تاہم میں نے اپنے طور پر ہمت کی۔ ابتداء میں میرے والدین نے سائیکل چلانے کی مخالفت کی لیکن میرے بلند حوصلے کے سامنے مخالفت میں کمی آتی گئی۔ آج میرے گھر پر رولر ہے جس پر وہ پریکٹس کرتی ہیں جبکہ لاہور کے اسپورٹس کمپلیکس میں بھی اُن کو سہولت حاصل ہے۔ صبیحہ اِس وقت آرمی میں کنٹریکٹ پر نوکری بھی کررہی ہیں۔


ثاقب علی کاظمی

اس تقریب میں چوتھے گم نام ہیرو ثاقب علی کاظمی ہیں۔ جو پیشے کے اعتبار سے پہلے بینکر تھے تاہم انہوں نے اپنی ملازمت چھوڑ دی اور فلاحی کاموں کا آغاز کیا۔ انہوں نے میرا کراچی میری ذمہ داری پروجیکٹ کا آغاز کیا جس کا مقصد یہ تھا کہ سیاستدانوں اور حکمراں طبقے پر انحصار کرنے کے بجائے لوگوں کی توجہ انفرادی طور پر معاشرے میں بہتری کی جانب مبذول کرائی جائے۔ انہوں نے اندرون سندھ پینے کے پانی کی فراہمی کے منصوبے پر کام شروع کیا۔ وہ بتاتے ہیں کہ انہیں کبھی اندازہ بھی نہیں تھا کہ اتنا اچھا کام کرنے پر اتنی شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے حالانکہ اس سے قبل وہ کراچی سے باہر کبھی نہیں گیا تھا۔ ثاقب نے بتایا کہ کراچی میں تو لوگ بہت اچھے حال میں رہ رہے ہین، لیکن اندرون سندھ میں پینے کے پانی کے لئے لوگوں بالخصوص خواتین کو دو دو گھنٹے تک سفر کرنا پڑتا ہے۔ اِس سے بھی تکلیف دہ امر یہ ہے کہ غربت کی وجہ سے خواتین کو یہ سارا سفر ننگے پاؤں کرنا پڑتا ہے جس کے باعث ان کے پاؤں پر چھالے پڑجاتے ہیں۔

ثاقب علی کاظمی نے بتایا کہ پانی کی فراہمی کے حوالے سے وڈیروں/جرگہ سسٹم کی جانب سے رکاوٹ کبھی اس طرح سے ہوتی ہے کہ پانچ لوگ آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ پانی کا پمپ نہیں لگا سکتے حالانکہ وہ ان کی جگہ نہیں ہوتی۔ انہیں آج تک اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ وہ لوگ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ تاہم گزشتہ سات سال کے دوران ہم ملک بھر میں 320 واٹر پمپس لگا چکے ہیں جن میں گھارو، ٹھٹہ اور بدین نمایاں ہیں۔ ہمارے کام کرنے کا طریقہ کچھ یوں ہے کہ مقامی انجینئر کو ذمہ داری دے دیتے ہیں، اگر انجینئر نہ ہو تو مقامی پلمبر کو ذمہ داری دیتے ہیں اور واٹر پمپ گاؤں کی ملکیت میں دے دیا جاتا ہے۔

تعلیم کے حوالے سے ثاقب کاظمی اور ان کی ٹیم نے گھارو میں بہترین معیار کا ایک اسکول تعمیر کیا ہے جس میں 150 بچے زیر تعلیم ہیں۔ وہ بچے بہترین انگریزی بولتے ہیں۔ انہیں امید ہے کہ بڑے ہوکر وہ بچے ان روایتی دشواریوں سے بخوبی نمٹ لیں گے۔ وہاں ان بچوں کو مفت تعلیم اور یونیفارم فراہم کیا جاتا ہے۔ ان کو زبان پر عبور کی تربیت دی جاتی ہے تاکہ وہ بڑے ہوکر معاشرے میں نمایاں طور پر اپنا حصہ ڈال سکیں۔

ثاقب کاظمی نے مزید بتایا کہ انہوں نے ایک ماڈل گاؤں کی ذمہ داری لی ہوئی ہے جہاں تمام بنیادی ضروریات ہیں۔ وہاں مکمل طور پر شمسی توانائی کے ذریعے بجلی حاصل کی جاتی ہے۔ ہر دو تین ماہ بعد میڈیکل کیمپ لگتے ہیں جن میں بہت سی بیماریوں کا علاج ہوتا ہے۔ وہاں چھوٹے موٹے کاروبار کی سہولت بھی فراہم کی جارہی ہے جیسے پولٹری وغیرہ۔ غرض یہ کہ اگر اس ماڈل گاؤں کے آس پاس والے علاقے دیکھیں تو آپ کو بہت زیادہ فرق نظر آتا ہے۔



  • پروین سعید


بلاگرز کے ساتھ اس نشست میں کھانا گھر پروجیکٹ چلانے والی پروین سعید خصوصی طور پر شریک ہوئیں جو سرجانی ٹاؤن کے قریب پسماندہ علاقے خدا کی بستی میں تین روپے میں لوگوں کو کھانا فراہم کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ کورنگی میں بھی وہ کھانا گھر چلا رہی ہیں۔ انہوں نے 15 سال قبل کھانا گھر پروجیکٹ کا آغاز کیا۔ اس پروجیکٹ کے آغاز کی بنیاد ایک خبر بنی جس میں ایک ماں نے بھوک کی وجہ سے اپنے دو بچوں کو مار دیا تھا۔

ایم اے صحافت کی ڈگری رکھنے والی پروین سعید کا دلچسپ فلسفہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ منشیات اور اسٹریٹ کرائمز کی سب سے بڑی وجوہات میں بھوک شامل ہے۔ بھوک سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ انہوں نے یہ اچھی خبر بھی سنائی کہ وہ عید کے بعد کھانا گھر کے دو نئے پک اپ پوائنٹس کھولنے والی ہیں۔ پروین سعید نے لوگوں سے کھانے کے بدلے تین روپے کی معمولی رقم وصولی کے بارے میں بتایا کہ اس کے پیچھے بھی ایک سوچ ہے۔ ایک وقت کا کھانا تین روپے میں فراہم کرنے کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کی عزت نفس مجروح نہ ہو۔ وہ کھانا کھانے کے لئے کام بھی کریں ورنہ لوگ مفت کے کھانے کی قدر نہیں کرتے۔ انہوں نے اخراجات سے متعلق سوال پر بتایا کہ ان کے ماہانہ 8 لاکھ سے 9 لاکھ روپے تک اخراجات آتے ہیں۔

انہوں نے ایک تکلیف دہ پہلو کی جانب توجہ بھی مبذول کرائی کہ والدین کے جگر کا ٹکڑا ان کی اولاد ہوتی ہے، والدین اپنے بچوں کے ہر طرح کے لاڈ اٹھاتے ہیں لیکن وہی بچے بڑے ہوکر اپنے والدین کو اکیلا چھوڑ دیتے ہیں۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ حال ہی میں ایسی 20 مائیں ہیں جنہیں کھانا گھر نے گود لیا ہے اور وہ مائیں انہیں اپنی ماں کی طرح عزیز ہیں۔

سماجی رہنما پروین سعید نے بتایا کہ اس رمضان کے دوران مذکورہ موبائل آپریٹر کی مہم کی وجہ سے عید پر ہمیں عوام کا بھرپور تعاون حاصل ہوا۔ ہم نے اس رمضان لوگوں کو راشن اور کپڑے بھی دیئے، یہی نہیں بلکہ لوگوں کو افطاری کرائی اور بچوں کو عید کی تیاری بھی کرائی۔



آخر میں میرا پیغام بس یہی ہے کہ ہمارے معاشرے میں دیگر کاروباری اداروں کو بھی آگے بڑھ کر فلاحی کام سرانجام دینے والوں کے ہاتھ مضبوط کرنے چاہیے۔ اس کے نتیجے میں نہ صرف معاشرے مثبت انداز سے آگے بڑھتے ہیں بلکہ لوگوں کے اندر بھی اپنا حصہ ڈالنے کا جذبہ بیدار ہوتا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھblog@express.com.pk پر ای میل کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں