یہ ہے ہندوستان

اپنی کمزوری کے باوجود ہم اپنی آزادی پر ڈٹے ہوئے ہیں اور ہمیں کوئی غیر مسلم ہماری اسلامیت سے باز نہیں رکھ سکتا

Abdulqhasan@hotmail.com

اسے پاکستان کی خوش قسمتی کہیں یا قسمت کی خرابی کہ ہمیں اپنی پیدائش کے ساتھ ہی ایک ایسے پڑوسی کی دشمنی ورثے میں ملی جو آبادی اور رقبے کے لحاظ سے ہم سے بڑا اور غیر مسلم ہونے کی وجہ سے دنیا کی طاقت ور اور بااثر قوموں کا ساتھی ہے جو ایک مسلمان پاکستان کی قدرتی طور پر مخالف ہیں اور جب بھی پاکستان کا ان قوموں سے واسطہ پڑتا ہے تو وہ پاکستان کی مخالف صف میں دکھائی دیتی ہیں۔

اگرچہ ہمیں مسلمان ملکوں کی کمزور سی دوستی ورثے میں ملی لیکن جب بھی ہمارا سامنا غیر مسلم قوموں اور ملکوں سے ہوا ہم بڑی حد تک تنہا ہو گئے کیونکہ یہ ہمارے غیرمسلم مخالفوں کا ساتھ دیتے ہیں۔ ہم ان کی پالیسی کو بدل نہیں سکتے کیونکہ ہم بہرحال مسلمان ہیں اور غیرمسلموں کی طاقت سے مغلوب دنیا میں زندہ ہیں۔ بحمد للہ کہ ایسی کوئی مثال آج تک نہیں ملی کہ پاکستانی مسلمان اپنے غیر مسلم دشمن کے سامنے اس قدر بے بس اور مغلوب ہو جائیں کہ اس کی برتری اور بالادستی کو قبول کر لیں۔

اپنی کمزوری کے باوجود ہم اپنی آزادی پر ڈٹے ہوئے ہیں اور ہمیں کوئی غیر مسلم ہماری اسلامیت سے باز نہیں رکھ سکتا، ہمیں اپنی اسلامیت اس قدر عزیز ہے کہ اس کے لیے ہم ممکن حد تک اپنے موقف پر قائم رہتے ہیں۔ میں نے کئی پاکستانیوں سے سنا کہ کسی وجہ سے کمزور ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنے وجود پر کسی دشمن کا حرف آنے دیں۔ مسلمان ہیں اور مسلمان ہی رہیں گے۔

اور ہمارا مسلمان ہونا ہمارے ایمان کا حصہ ہے کہ جس میں ہماری نجات ہے۔ بہرکیف یہ ایک طویل بحث ہے کہ غیر مسلموں سے مغلوب برصغیر میں ہم اپنے وجود کو ہر قیمت پر باقی رکھیں گے ہمارا یہ وجود ہمارے بہادر بزرگوں نے اس خطے میں قائم کیا تھا اور اس کے لیے قربانیاں دی تھیں تاآنکہ یہ اس خطے کی ایک حقیقت بن گیا۔ ایک ایسی حقیقت جس کو مقامی پڑوسیوں نے بھی مغلوب کرنے کی کوشش کی اور اس خطے پر قابض غیر مسلموں نے بھی اپنے سامراجی دور میں اسے ختم کرنے کے کئی حربے اختیار کیے مگر یہاں کے مسلمانوں نے اپنے ہر دشمن کو ناکام کر دیا اور ان کی کسی اسلام دشمن کوشش کو قدم نہیں جمانے دیا، چنانچہ آج ہندوستان وہ نہیں جس کا خواب نہ صرف یہاں کے ہندوؤں بلکہ سامراجی انگریزوں نے بھی دیکھا تھا۔


جن لوگوں نے یہاں اذان کی آواز بلند کی تھی ان کی آواز اس قدر جاندار تھی کہ بلند ہونے کے بعد گونجنے لگی اور اب تک گونج رہی ہے۔ پاکستان کے بانی حضرت قائداعظم محمد علی جناح نے بالکل درست فرمایا تھا کہ اس سرزمین پر جس نے پہلی بار اذان بلند کی اس نے اس زمین کو اسلام کے حوالے کر دیا۔ یہ آواز آج تک پورے ہندوستان میں گونج رہی ہے اور حیرت ہوتی ہے کہ اس سرزمین کے پہلے موذن کی آواز میں کیا برکت تھی کہ یہ آواز بلند سے بلند تر ہوتی گئی اور ایک ہندو سرزمین کی آواز بن گئی۔ ایسی آواز کہ یہ آج اس کی ایک پہچان بھی ہے اور جب کوئی اس ملک کو 'ہندوستان' کہتا ہے تو کچھ لوگ برا مناتے ہیں کہ یہ کوئی خالص ہندوستان نہیں یہاں مسلمان آبادی کی ایک بھاری اکثریت بھی موجود ہے اور اپنے عقائد اور نظریات پر یقین رکھتی ہے۔اس نے ان نظریات کے لیے اس سرزمین پر جنگیں بھی لڑی ہیں اور اب بھی وہ ان نظریات پر قائم ہے اور ان کے لیے سرفروش۔

ہندوستان جیسا کہ نام سے ظاہر ہے ایک غیر مسلم ملک ہے اور ہندو کی آبادی والا ملک لیکن اس وسیع و عریض ملک کو مسلمانوں نے اپنے نظریات کے مطابق بدلنا چاہا وہ اس میں جزوی طور پر ہی کامیاب رہے لیکن ان کی جدوجہد بے کار نہیں گئی اور ہندوستان میں اذان بھی گونجنے لگی۔ آج یہ ملک مسلمانوں کی اذان کی آواز سے بھی گونجتا ہے اور یہ پتہ دیتا ہے کہ یہاں ہندوؤں کے شانہ بشانہ مسلمان بھی نہ صرف آباد ہیں بلکہ بلند آواز میں آباد ہیں اور دن رات پانچ بار اپنے وجود کا اعلان کرتے ہیں۔

یہ اذان درحقیقت اس بات کا کھلا اعلان ہے کہ ہندوستان خالص ہندو آبادی کا ملک نہیں یہ مسلمانوں کی آواز سے بھی گونجتا ہے اور اس کی سرزمین پر جگہ جگہ ایسے ادارے موجود ہیں جو اسلام کی تبلیغ کے لیے وقف ہیں پھر وہ مقام بھی ہیں جہاں مسلمان اپنا ایمان تازہ کرنے جاتے ہیں۔ غرض ہندوستان نام کا تو ہندو ملک ہے لیکن اس کی آبادی میں مسلمان بھی بہت بڑی تعداد میں موجود ہیں جو یہاں مسلمان مبلغین کے طفیل پیدا ہو گئے اور اپنی اسلامیت کی حفاظت پر کمربستہ چلے آ رہے ہیں۔

ہندو اور مسلمان دونوں قومیں مل جل کر رہتی ہیں اگرچہ ان کے درمیان اختلافات بھی پیدا ہو جاتے ہیں جو ایک قدرتی امر ہے کہ دونوں قومیں بالکل متضاد اور مختلف نظریات رکھتی ہیں۔ ہندو مسلم فسادات بھی ہو جاتے ہیں لیکن یہ قومیں پھر بھی صلح صفائی سے رہتی ہیں اور رہتی چلی آ رہی ہیں۔ صورت حال ایسی ہی رہے گی اور متحدہ ہندوستان ایسا ہی رہے گا۔
Load Next Story