اصولی فیصلہ اور وصولی فیصلہ
ج ہی کل میں ریلوے کو راولپنڈی اور کراچی تک محدود کرنے کی خبر بس آیا ہی چاہتی ہے
ہمیں حیرت ہے تعجب ہے بلکہ ساتھ ہی افسوس بلکہ غم و غصہ بھی ہے کہ اتنی بڑی انگشت بدندانی اور ناطقہ سربگریبانی والی خبر آئی بھی چھپ بھی گئی اور اتنی بے تحاشہ تعداد اخباروں کی، کالم نگاروں کی، تجزیہ نگاروں کی ہونے کے باوجود کسی نے نوٹس تک نہیں لیا، سختی سے نہ سہی صرف عام نوٹس تو بنتا تھا، یوں کہیے کہ مردہ زندہ ہو گیا، زندہ درگور نے کبڈی کا میچ جیت لیا یا نر بھینسے نے اٹھارہ کلو دودھ دیا اور ایک مرغے نے بیک وقت سات انڈے دے کر انڈوں کا نہیں بلکہ انڈوں کا ریکارڈ انڈوں سے توڑ دیا، یا حکومت نے سچ بول دیا، کسی منتخب نمایندہ کا منہ ووٹروں نے دیکھ لیا۔
راکھی ساونت نے کپڑے پہن لیے، ملکہ شراوت نے کچھ اوڑھ لیا، اخبار میں ایان علی کی خبر اور میرا کا بیان نہیں آیا، عمران خان نے پورے ایک گھنٹے تک نواز شریف کا نام لیا، پرویز خٹک نے کوئی بیان نہیں دیا، اس قسم کی یہ خبر بھی تھی، لیکن لگتا ہے سارے کالم نگار، تجزیہ نگار اور تبصرہ نگار امریکا کے لتے لینے، بھارت کو کوسنے، کشمیر کو آزاد کرانے، پانامہ کی جگالی کرنے میں کچھ زیادہ ہی مصروف تھے کہ اتنی بڑی خبر آ بھی گئی اور ہواؤں میں بکھر بھی گئی، لیکن کوئی بات نہیں ہم ہیں نا، اس قسم کی نادر و نایاب خبروں کی خبر لینے کے لیے، ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے، خبر یہ ہے کہ حکومت نے ڈیرہ اسماعیل خان، کوہاٹ، بنوں، مردان اور مینگورہ تک ریل چلانے کا اصولی فیصلہ کر لیا ہے۔
یقین جانیں کہ اگر کسی مرغی نے بانگ دی ہوتی، چوہے نے ہاتھی کا بچہ جنا ہوتا، چیونٹی نے ہاتھی کو باکسنگ میں شکست دی ہوتی، کسی لنگڑے نے فٹ بال میچ میں دس گول کیے ہوتے، کسی اندھے نے چاند یا مریخ پر چیونٹی دیکھ لی ہوتی، تو ہم اس پر تھوڑا بہت یقین کر سکتے تھے یہ تو ایسا ہے جیسے کسی مردے کو قبر میں اتارا جا رہا تھا اور اس نے کفن پھاڑ کر ادھر ادھر پھینک بھاگتے ہوئے کہا کہ تم لگے رہو میں ورلڈ ریسلنگ چیمپئن شپ جیت کر لوٹ آؤں گا، ہم نے مارے حیرت کے فوراً اپنے ایک سینئر صحافی سے یہ خبر شیئر کی تو وہ بولا ... اس میں حیران ہونے کی بات کیا ہے ذرا غور سے پڑھو ''اصولی فیصلہ'' کیا گیا ہے۔
آپ یقین کریں ہم خدا کو حاضر ناظر جان کو حلفیہ کہتے ہیں کہ اگر آج سے پہلے ہمیں ''اصولی فیصلہ'' کے بارے میں کچھ معلوم رہا ہو، جس چیز کو ہم آج تک اپنی کم علمی کی بناء پر شیخ چلی کا خواب سمجھتے تھے اس کا سرکاری نام اصولی فیصلہ نکلے گا، اس کا ہمیں سان و گمان تک نہیں تھا حالانکہ ہمارے خیال میں شیخ چلی کے خواب کا کوئی اور نام رکھنا تھا تو خیالی پلاؤ، ہوائی قلعے اور خیالی فیصلہ ہی رکھ لیتے لیکن یہ اصولی فیصلہ ؟ یہ تو ایسا ہے جیسے آپ کنڈولیزا رائس کا نام جوہی چاؤلہ رکھ دیں؟ اس نام یعنی ''اصولی فیصلہ'' کی وجہ غالباً یہ ہے کہ پاکستان میں جو سیاست اور جمہوریت اس وقت رائج ہے اور جس کے بارے میں آج تک علماء فیصلہ نہیں کر پائے کہ اس کا تعلق زندہ سروں کی کس نسل سے ہے اور آیا اسے جاندار کہا جا سکتا ہے یا اس کا تعلق نباتات کے جنگلی گروپ سے ہے۔
اس میں ''اصول اور فیصلہ'' نام کی یہ چیزیں بہت زیادہ مستعمل ہوتی ہیں ایسا کوئی نسخہ سیاست اور جمہوریت میں بنا ہی نہیں جس میں اصولوں یا فیصلوں کا خون جزو اعظم نہ ہو، چونکہ سیاست میں یہ دونوں چیزیں بہت زیادہ کثیر الاستعمال ہیں خاص طور پر توڑنے موڑنے ملیدہ بنانے کچومر نکالنے اور تیاپانچہ کرنے کے لیے سیاست میں اور پھر جمہوریت میں ان سے زیادہ کارآمد اور کوئی چیز نہیں ہے اس لیے ہر پارٹی ان دونوں کے گودام کے گودام بھرے رہتے ہیں کہ بوقت ضرورت انھیں توڑنے موڑنے اور کچومر نکالنے میں کوئی دقت یا دیری نہ ہو، آپ نے اکثر پارٹیوں کے لیڈروں سے سنا ہو گا کہ ہماری پارٹی اصولوں پر سمجھوتہ کرنے کے لیے ہرگز تیار نہیں یا ہماری پارٹی کا فیصلہ اٹل اور ناقابل تنسیخ ہے، اس کی اصل وجہ یہی ہے کہ اصولوں اور فیصلوں کی ان کے ہاں ہمیشہ قلت رہتی ہے توڑنے موڑنے ملیدہ بنانے اور کچومر نکالنے کے لیے ...
ارے اصول اور فیصلے کے اس پرکشش موضوع نے ہمیں اپنے موضوع سے بھٹکا دیا ہم تو اس ''اصولی فیصلہ'' کے بارے میں بات کر رہے تھے جو حکومت نے نا جانے کہاں کہاں تک ریل چلانے کے بارے میں کیا ،کچھ نام تو ہمیں یاد ہیں ڈیرہ اسماعیل خان، کوہاٹ، بنوں اور مینگورہ اب یہ ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ اس فہرست میں گلگت بلتستان اور دیر چترال شامل تھے یا نہیں لیکن کیا فرق پڑتا ہے جب فیصلہ ہی اصولی ہے تو کابل اور تاجکستان ازبکستان بھی ڈال دیجیے اس میں کسی کا جاتا کیا ہے، یہ ہمارے لیے بریکنگ بلکہ شاکنگ نیوز اس لیے ہے کہ ہم تو یہ توقع کر رہے تھے کہ آج ہی کل میں ریلوے کو راولپنڈی اور کراچی تک محدود کرنے کی خبر بس آیا ہی چاہتی ہے کیوں کہ ریلوے کی جو حالت ہے وہ کون نہیں جانتا۔ پشتو میں ایک شعر ہے بلکہ اپنے وقت کا مشہور گانا تھا کہ
دھغے سڑی پہ حال جڑا پکار دہ
چہ پنزہ آمدن اوخرس ئے لس وی
اس کا ترجمہ اردو میں ایک انڈین فلم کا نام بھی ہے ...آمدنی چونی اور خرچہ اٹھنی ... ویسے تو پاکستان میں ہر محکمے کو خسارے کا فلو ہو چکا ہے کیوں کہ ستر سال میں جتنے بھی وزیر منتخب نمایندے اور خادمان پاکستان آئے انھوں نے جی کھول کر ہر محکمے پر اپنے آدمی لادے ہیں۔ ایک زمانے میں محکمہ خاندانی منصوبہ بندی (آج کل نہ جانے اس کا کیا نام ہے) نے بورڈوں اور ہورڈنگوں پر ایک شعر اور ایک تصویر دی ہوئی تھی اوپر ایک پیڑ میں بہت زیادہ پھل دکھائے گئے تھے جن کی وجہ سے پیڑ کی ایک شاخ آدھی ٹوٹ چکی تھی اور گرا ہی چاہتی تھی، نیچے شعر تھا کہ
توڑا شجر کی شاخ کو کثرت ثمر نے
دنیا میں گراں باری اولاد غضب ہے
ویسے اگر وہ محکمہ سارے پاکستان کے بجائے صرف سرکاری محکموں کو گراں باری اولاد سے بچا لیتا تو وہ بھی ناجائز اولاد ، ہر محکمے میں اس سفارشی اولاد نے صرف گراں باری ہی پیدا نہیں کی ہے بلکہ وہ اولادیں چونکہ وزیروں مشیروں کی ہوتی تھی اور حد درجہ ''لائق و فائق'' ہوتی تھیں اس لیے ''کام'' کا بھی بیڑہ غرق کر دیتے بلکہ کر رہے ہیں (پہلے سے زیادہ) نقل کر کے پاس ہونے اور ناجائز راستے سے آنے اور فلاں کا بندہ ہونے کی وجہ سے وہ کام کرنے تو نہ آئے تھے نہ آرہے ہیں اور نہ آئیں گے
تصورات کی ہلکی سی خود فریبی ہے
وہ آئے تھے نہ کبھی اور نہ آئے بیٹھے ہیں
اور جس محکمے کا ہم ذکر کر رہے ہیں جس نے چاروں اطراف میں دور مار قسم کی ریل چلانے کا اصولی فیصلہ کر لیا ہے اس کے بارے میں ہم اور کیا بتائیں تو ایک چٹکلا سن لیجیے ۔ ایک شخص دوسرے کوبتا رہا تھا کہ میں نے افریقہ کے صحرا میں ایک مرتبہ شکار کھیلتے ہوئے ایک سانپ کو دیکھا مجھے اپنے تجربے سے معلوم ہوا کہ بے چارا سخت بھوکا پیاسا ہے، وہ بے چارا کچھ دیر تو تڑپا اور پھر بے دم ہو کر لمبا لمبا لیٹ گیا۔ میں نے سوچا اسے کھانے کو کچھ دوں بے چارا سانپ ہے تو کیا ہوا لوگ تو لیڈروں تک کو ووٹ دے دیتے ہیں آخر رحم بھی کوئی چیز ہے۔
اگر وہ سانپ ہے یا لیڈر ہے تو کیا ہوا ہم تو انسان ہیں، چنانچہ میں نے اپنے تھیلے میں ڈھونڈا تو گوشت کا ایک ٹکڑا ملا لیکن جب میں نے ٹکڑا نکال کر سانپ کی طرف دیکھا تو وہ اپنی دم کو منہ میں لے چکا تھا اور آہستہ آہستہ اسے نگل رہا تھا میں تماشا دیکھنے لگا سانپ بدستور اپنی دم کو منہ میں لیے ہوئے نگل رہا تھا ابھی پانچ منٹ بھی نہیں گزرے تھے کہ وہاں کچھ نہیں تھا، سننے والے نے پوچھا مگر وہ سانپ کہاں گیا... بولا اس نے خود کو نگل لیا، دوسرا بولا نگل لیا تو پھر خود یعنی نگلنے والا کہاں گیا۔
شکاری نے کہا تم سمجھ نہیں رہے ہو جب اس نے خود کو نگل لیا تو پھر کیا باقی رہتا۔ ہمارے خیال میں کچھ محکمے بھی اپنی دم کو منہ میں لے چکے ہیں اور ان میں ایک ریلوے کا محکمہ ہے جس میں پھرتے پھراتے وہ خود ہیں اور خرچہ پانی ادھار چل رہا ہے، اب یہ حیرت کی بات ہے یا نہیں کہ جو سانپ خود کو نگل رہا ہے بلکہ آدھے سے زیادہ نگل چکا ہے اس کے بارے میں ایسے ہی اصولی فیصلے ہوتے ہیں اور اصولی فیصلے تو اصولی ہوتے ہیں جیسے پاکستان بنانے والوں نے یہ اصولی فیصلہ کیا تھا کہ ہندوؤں کے ظلم و ستم سے بچنے کے لیے ہمیں ایک الگ ملک چاہیے جہاں کسی کو کسی سے کوئی خطرہ نہیں ہو گا سب بھائی بھائی ہوں گے دانت کاٹی روٹی کو آپس میں بانٹ کر کھائیں گے، ایک دوسرے کی جان و مال کا تحفظ ایسا کریں گے جیسا کہ اپنی جان و مال کی کریں گے کوئی کسی کا نہ حق مارے گا نہ گردن...چوں کہ فیصلہ اصولی تھا اس لیے اب بھی قائم و دائم ہے کیوں کہ اصولی فیصلے کی کوئی ایکسپائری ڈیٹ نہیں ہوتی۔