ایم کیو ایم کے ووٹروں کا دل جیتئے

ملک کے خلاف بھڑاس نکالنا بھی کوئی نئی بات نہیں ہے اور ان کے قریبی رفقا یہ بات اچھی طرح سے جانتے ہیں


Babar Ayaz September 07, 2016
[email protected]

ایک دوست نے مذاق میں کہا کہ ''ایم کیو ایم کے حوالے سے جو کام پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نہ کر سکی وہ جانی واکر کی ایک بوتل نے کر دکھایا ۔'' سیاسی لوگوں کے بارے میں ہنسی مذاق عام سی بات ہے، مگر جس دن ایم کیو ایم کے گاڈ فادر نے طوفان اٹھایا، اس دن انھوں نے اپنی پسندیدہ بوتل چڑھا رکھی تھی یا نہیں، اس بارے میں یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا، لیکن یہ بات بہر حال یقینی ہے کہ جب وہ ایم کیو ایم کے کارکنوں سے خطاب کرتے ہیں تووہ ان پراپنے اختیار کے نشے میں ضرور ڈوبے ہوئے ہوتے ہیں۔

الطاف حسین کی طرف سے میڈیا یا کسی بھی دوسرے شخص کے خلاف محض ایک بیان، اُن کے کارکنوں کو قانون اپنے ہاتھ میں لے لینے پر اکسانے کے لیے کافی ہوتا ہے۔22 اگست کو صحافیوں اور ان کے دفاتر پر حملہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ ان پر اس سے کہیں زیادہ ایسے سنگین الزامات ہیںکہ انھوں نے مبینہ طور پر اپنے کارکنوں کو اُن لوگوں کو قتل کرنے کے لیے کہا، جنھیں وہ پسند نہیں کرتے۔

ملک کے خلاف بھڑاس نکالنا بھی کوئی نئی بات نہیں ہے اور ان کے قریبی رفقا یہ بات اچھی طرح سے جانتے ہیں تو پھر اس بار ایسی کیا نئی بات ہوئی؟ غالباً اسٹیبلشمنٹ کا خیال ہے کہ ایم کیو ایم کے لیڈر بھارتی ایجنٹ ہیں جو کشمیری علیحدگی پسندوں کو پاکستان کی حمایت کے جواب میں ملک کو عدم استحکام سے دوچار کرنا چاہتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ پچھلے تین سال سے سندھ میں ایم کیو ایم کی طاقت کو کم کرنے کی کوشش کر رہی ہے، مگر اس کام کو آگے بڑھانے میں بہت کم کامیابی ہوئی کیونکہ ایم کیو ایم کو بدستور اپنے ووٹ بینک پرغلبہ حاصل ہے۔اسٹیبلشمنٹ، سیاست کی حرکیات کو خاطر میں لائے بغیر سیاسی جوڑ توڑ کی خواہش مند ہے۔ اس سوال کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے کہ اردو بولنے والے ایم کیو ایم کو ووٹ کیوں دیتے ہیں؟

1980ء کی دہائی میں جنرل ضیا نے اس مقصد کے ساتھ چھوٹی سی آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (APMSO) کی مدد کی تھی کہ اس سے سندھ میں پی پی پی کمزور ہو گی۔ ان دنوں پیپلز پارٹی ہی سب سے بڑی دشمن تھی، اس لیے اس سے نمٹنے کی خاطر ہر طریقہ استعمال کیا گیا۔ اسٹیبلشمنٹ، اس قسم کے جوڑ توڑ کے طویل المدت خطرناک مضمرات کا اندازہ لگائے بغیر محض قلیل المدت مقاصد حاصل کرنے کے لیے ہر جگہ ایسے منفی حربے استعمال کرتی ہے۔

جنرل مشرف نے اپنے دور اقتدار میں اسی ایم کیو ایم کو ایک بار پھر بادشاہ گر کے طور استعمال کیا۔ اُس وقت کسی نے یہ سوال نہیں اٹھایا کہ یہ لوگ محب وطن نہیں ہیں اور انھیں پاکستان سے اپنی وفاداری کو نئے سرے سے ثابت کرنا چاہیے۔

ایم کیو ایم کے گاڈ فادر کی حالیہ خودکش تقریر نے پارٹی کو ایک سنگین صورت حال سے دوچارکر دیا ہے۔ الطاف حسین نے لندن سیکرٹریٹ سے جاری کیے جانے والے ایک بیان میں یہ کہہ کر اپنی باتوں پر معذرت کی کہ وہ اپنے کارکنوں کی گرفتاری اور گمشدگی پر پریشان اور ذہنی دباؤکا شکار تھے، مگر اس سے اگلے ہی روز شمالی امریکا میں کارکنوں سے اپنے خطاب میں انھوں نے کارکنوں کو ہدایت کی کہ وہ پاکستان سے آزادی کے لیے اسرائیل اور بھارت سمیت دوسرے ملکوں سے مدد مانگیں۔

ایم کیو ایم نے کبھی اس علاقے کی وضاحت نہیں کی جس پر ان کی آزاد ریاست قائم ہو گی، عام طور سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ کراچی کو ایک آزاد ریاست کی حیثیت سے الگ کرنا چاہتے ہیں، مگر اس بارے میں کچھ نہیں سوچا گیا کہ اگر کبھی یہ سہانا سپنا پورا بھی ہو گیا تو اندرون سندھ کے شہروں میں اردو بولنے والی آبادی کا کیا بنے گا۔ کیا یہ ویسی ہی غلطی نہیں ہو گی جو ان کے آبا و اجداد نے اپنے لیے علیحدہ وطن کی جدوجہد کے دوران ہندوستان کے مسلم اقلیت والے صوبوں میں کی تھی؟

اب مسئلہ یہ ہے کہ کیا فاروق ستار لندن میں اپنے لیڈر کے خلاف ایک نرم بغاوت کا اعلان کرنے کے بعد پارٹی کو متحد رکھ پائیں گے۔ بہت سے سیاسی پنڈتوں کو شبہ ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان کی طرف سے لندن سیکرٹریٹ اورگاڈ فادر سے لا تعلقی کا اعلان پارٹی کو پابندی سے بچانے کی مخلصانہ کوشش ہے۔ ایم کیو ایم کے حصے بخرے کرنے کا کام اسی دن شروع ہو گیا تھا جس دن اسٹیبلشمنٹ مصطفیٰ کمال اور بھگوڑوں پر مشتمل ان کی ٹیم کو سامنے لائی تھی۔

مگر اسٹیبلشمنٹ نے ایم کیو ایم کے دفاتر کو منہدم کرنے، عزیز آباد میں ان کے اعصابی مرکز کو سیل کرنے، گرفتاری کے بعد اس کے کارکنوں کی آنکھوں پرکپڑا باندھنے، تضحیک اور ان پر تشدد کے جو سخت حربے اختیار کیے، ان سے اردو بولنے والوں کے دل جیتے نہیں جا سکتے۔ اس کے برعکس اس قسم کا سلوک ان کارکنوں کو اپنے ملک سے نفرت اور اس یقین کا جواز فراہم کرتا ہے کہ اگر ان کے لیڈر نے ملک کے خلاف بات کی تو صحیح کیا۔ہماری اسٹیبلشمنٹ اس بات کو نہیں سمجھتی کہ ہمیں طاقت کے استعمال سے نہیں بلکہ دلیل سے پاکستان کے حق میں حمایت حاصل کرنی ہے۔ اگر طاقت سے جیت ممکن ہوتی توبھارت کے عوام کشمیریوں کی حمایت حاصل کر چکے ہوتے ، ہم نے مشرقی پاکستان نہ کھویا ہوتا اور بلوچستان میں آزادی کے لیے پانچویں بار شورش نہ ہوتی۔

ایم کیو ایم نے احساسِ محرومی کے مفروضے پر اپنا ووٹ بینک قائم کیا ہے۔ اس احساس کی بنیاد زیادہ تر اس مفروضے پر ہے کہ مہاجر اب پاکستان کی حکمران نسلی اشرافیہ میں برابر کے حصے دار نہیں رہے۔ انھوں نے ملک قائم ہونے کے بعد جونیئر حکمران پارٹنرکی حیثیت سے برسوں فائدہ اٹھایا، حالانکہ ملک کی آبادی میں ان کا تناسب7% سے کچھ زیادہ تھا۔

وہ اس حقیقت سے سمجھوتہ کرنے میں ناکام رہے کہ 1972ء میں صوبوں کی بحالی اور صوبائی دارالحکومت کی کراچی واپسی کے بعد اقتدار میں سندھیوں کو حصے دار بنانا تھا۔پورے ملک سے تمام قومیتوں کے لوگ کراچی آتے رہے ہیں کیونکہ یہ 1962ء تک وفاقی دارالحکومت تھا اور پاکستان کا تجارتی اور مالیاتی مرکز ہے۔ 1980ء کی دہائی کے وسط تک لوگوں کی آمد کا یہ سلسلہ بہت زیادہ تھا مگر بعد میں سست پڑ گیا۔ تارکین کی آمد میں کمی کی بڑی وجہ یہ رہی کہ گزشتہ تین دہائیوں کے دوران کراچی کی صنعتی افزائش کم ہو گئی اور اس کی وجہ مقامی لوگوں اور ملک کے دوسرے علاقوں سے آئے ہوئے لوگوں کے درمیان نسلی فسادات تھے۔ اس صورت حال سے دوسرے علاقوں کے لوگوں کی یہاں آمد کی حوصلہ شکنی ہوئی۔

ان محرکات کے باوجود 1998ء کے ایک سروے کے مطابق کراچی میں مختلف زبانیں بولنے والوں کا تناسب اس طرح ہے:اردو 48.52 فیصد، پنجابی13.64 فیصد، پشتو11.96 فیصد، سندھی صرف 7.34 فیصد، بلوچی4.34 فیصد، سرائیکی2.11 فیصد اور باقی زبانیں12.09 فیصد۔ ان باقی میں گجراتی اور دوسری زبانیں شامل ہیں، لیکن پچھلے 18 سالوں کے دوران دیہی علاقوں سے نقل مکانی اور صوبائی حکومت پر سندھیوں کے کنٹرول کے مضبوط عوامل کی وجہ سے کراچی میں سندھی آبادی کا تناسب بڑھ گیا ہے۔

ایم کیو ایم اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکار کرتی ہے کہ کراچی میں آبادی کا نسلی تناسب تبدیل ہو چکا ہے اور اختیارات کو اس شہر میں رہنے والے دوسرے نسلی گروپوں کے ساتھ تقسیم کرنا ہو گا۔اب یہ پیپلزپارٹی کی حکومت کا کام ہے کہ وہ اردو بولنے والوں کو مطمئن کرے اور ان کے ووٹ حاصل کرے مگر یوں لگتا ہے کہ انھوں نے چند علاقوں کو چھوڑکرباقی شہر ایم کیو ایم کے حوالے کر دیا ہے۔ اب بھی پی پی پی کی طرف سے ان کے کارکنوں کو اپنے ساتھ ملانے اور ان کے ووٹ حاصل کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی جاتی۔ اردو بولنے والی برادری کو بھی یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ وہ ایک مختلف زبان بولنے والے سندھی ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں