پانی ابالنے والا اسفنج تیار
وسیع پیمانے پر استعمال سے صنعتوں کو گیس کے بڑے بڑے چولھوں سے نجات مل سکتی ہے
پانی اُبالنے کی ضرورت پیش آئے تو ہم پتیلا بھر کر چُولھے پر رکھ دیتے ہیں۔ یہ چولھا گیس کا بھی ہوسکتا ہے اور اس کام کے لیے برقی ہیٹر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ گاؤں دیہات میں آگ جلانے کے لیے لکڑیوں اور اُپلوں کا استعمال کیا جاتا ہے، مگر اب سائنس دانوں نے ایک ایسی حیرت انگیز شے ایجاد کرلی ہے، جسے پانی میں ڈال دیا جائے تو کچھ ہی دیر بعد وہ اُبلنے لگتا ہے۔
بس شرط یہ ہے کہ پانی سے بھرا پتیلا یا کوئی بھی برتن دُھوپ میں رکھا ہوا ہو۔ یعنی وہ ایجاد، دھوپ میں اپنا کام دکھائے گی۔ آگ کے بغیر پانی کو اُبال ڈالنے والی یہ انوکھی شے ایک اسفنج ہے جسے مشہور زمانہ میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی ( ایم آئی ٹی ) کے سائنس دانوں اور انجنیئروں پر مشتمل ٹیم نے تخلیق کیا ہے۔ اس کی تخلیق میں سائنس دانوں نے فوم، حرارت کے موصل مادّے، اور ببل ریپ ( پلاسٹک میٹیریل جس پر بُلبلے اُبھرے ہوتے ہیں اور جو نازک اشیا کی محفوظ پیکنگ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ) کا استعمال کیا۔
سائنس دانوں کو یقین ہے کہ ان کی ایجاد گھریلو صارفین کے لیے ہی سود مند ثابت نہیں ہو گی بلکہ صنعتی میدان میں بھی اس کا استعمال کئی مراحل آسان کر دے گا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اسفنج گھروں سے زیادہ صنعتوں کے لیے زیادہ کارآمد ثابت ہوگا۔ صنعتوں میں پانی کو بھاپ بنانے کے لیے عام طور پر گیس کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ دھوپ سے بھی یہ کام لیا جاتا ہے، جس کے لیے مہنگے عدسے اور آئینے لگائے جاتے ہیں تاکہ وہ شمسی شعاعوں کو پانی پر مرتکز کرسکیں۔ دونوں ہی طریقے مہنگے ہیں، تاہم سائنس دانوں کا دعویٰ ہے کہ اسفنج کی مدد سے پانی گرم کرنے پر کئی گنا کم لاگت آئے گی۔
بنیادی طور پر یہ اسفنج تانبے کا ایک ٹکڑا ہے جس میں برقی مقناطیسی طیف کے بیش تر حصوں کو جذب کرلینے کی صلاحیت پیدا کی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب اسے دھوپ میں رکھا جاتا ہے تو یہ حرارت جذب کرتا ہے۔ جب اس پر سے پانی گزارا جاتا ہے تو حرارت کی وجہ سے وہ گرم ہونے لگتا ہے، یہاں تک کہ بھاپ بن جاتا ہے۔ اسفنج کے اوپر ببل ریپ کی تہ چڑھائی گئی ہے جس میں سے گزر کر شمسی شعاعیں اسفنج پر مرتکز ہوجاتی ہیں اور اس کے درجۂ حرارت میں اضافہ کرتی ہیں۔
ایم آئی ٹی سے وابستہ سائنس دانوں جارج نی اور گانگ چین کے ذہن میں پانی کو دھوپ کی مدد سے گرم کر دینے والے اسفنج کا خیال دو سال قبل آیا تھا۔ اس کے بعد وہ تحقیق میں مصروف ہو گئے اور دو برس کی محنت کے بعد اپنے ڈیزائن کو عملی شکل دینے میں کام یاب ہوئے۔ کاربن فوم اور ببل ریپ پر مشتمل پانی پر تیرنے والی ڈیوائس ننھے ننھے سوراخوں کے ذریعے پانی جذب کرتی ہے اور پھر دھوپ کی شکل میں خود پر پڑنے والی پچاسی فی صد حرارتی توانائی کو بھاپ میں تبدیل کردیتی ہے۔ فی الحال سائنس دانوں نے اسفنج کے آزمائشی تجربات کیے ہیں اور اب ان کی توجہ اسے مزید بہتر بنانے پر ہے۔
ابتدا میں سائنس دانوں نے ببل ریپ کے بجائے اس ڈیوائس میں گریفائٹ کا استعمال کیا تھا، مگر انھوں نے دیکھا کہ گریفائٹ سے کام لینے کے باوجود بھی حرارت کی بڑی مقدار ضایع ہورہی تھی۔ اس موڑ پر محققین کو کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کون سا میٹیریل استعمال کیا جائے جس سے حرارت کا ضیاع کم سے کم ہوجائے۔ ایک روز گانگ چین گھر میں بیٹھا اسی مسئلے پر غور کررہا تھا کہ اچانک اس کی نظر کھڑکی سے باہر باغیچے میں کوئی سرگرمی انجام دیتی اپنی بیٹی پر پڑی۔ غور کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ کیاریوں پر بنے ہوئے جنگلے کو ببل ریپ سے ڈھانپ رہی ہے۔
یہ دیکھ کر اچانک گانگ کو خیال آیا کہ کیوں نہ ببل ریپ کو گریفائٹ کی جگہ پر استعمال کیا جائے۔ یہ بات پہلے ہی اس کے علم میں تھی کہ ببل ریپ روشنی کو مرتکز کرتا ہے۔ اس نے ایسا ہی کیا اور نتیجہ اس کی توقع سے بھی بڑھ کر برآمد ہوا۔ گانگ اور اس کے ساتھی آزمائشی تجربات کے بعد اب اپنی ایجاد میں مزید بہتری لانے کے لیے تحقیق اور تیاری کا کام کررہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آئندہ برس یہ ایجاد عام فروخت کے لیے پیش کی جاسکتی ہے۔
بس شرط یہ ہے کہ پانی سے بھرا پتیلا یا کوئی بھی برتن دُھوپ میں رکھا ہوا ہو۔ یعنی وہ ایجاد، دھوپ میں اپنا کام دکھائے گی۔ آگ کے بغیر پانی کو اُبال ڈالنے والی یہ انوکھی شے ایک اسفنج ہے جسے مشہور زمانہ میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی ( ایم آئی ٹی ) کے سائنس دانوں اور انجنیئروں پر مشتمل ٹیم نے تخلیق کیا ہے۔ اس کی تخلیق میں سائنس دانوں نے فوم، حرارت کے موصل مادّے، اور ببل ریپ ( پلاسٹک میٹیریل جس پر بُلبلے اُبھرے ہوتے ہیں اور جو نازک اشیا کی محفوظ پیکنگ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ) کا استعمال کیا۔
سائنس دانوں کو یقین ہے کہ ان کی ایجاد گھریلو صارفین کے لیے ہی سود مند ثابت نہیں ہو گی بلکہ صنعتی میدان میں بھی اس کا استعمال کئی مراحل آسان کر دے گا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اسفنج گھروں سے زیادہ صنعتوں کے لیے زیادہ کارآمد ثابت ہوگا۔ صنعتوں میں پانی کو بھاپ بنانے کے لیے عام طور پر گیس کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ دھوپ سے بھی یہ کام لیا جاتا ہے، جس کے لیے مہنگے عدسے اور آئینے لگائے جاتے ہیں تاکہ وہ شمسی شعاعوں کو پانی پر مرتکز کرسکیں۔ دونوں ہی طریقے مہنگے ہیں، تاہم سائنس دانوں کا دعویٰ ہے کہ اسفنج کی مدد سے پانی گرم کرنے پر کئی گنا کم لاگت آئے گی۔
بنیادی طور پر یہ اسفنج تانبے کا ایک ٹکڑا ہے جس میں برقی مقناطیسی طیف کے بیش تر حصوں کو جذب کرلینے کی صلاحیت پیدا کی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب اسے دھوپ میں رکھا جاتا ہے تو یہ حرارت جذب کرتا ہے۔ جب اس پر سے پانی گزارا جاتا ہے تو حرارت کی وجہ سے وہ گرم ہونے لگتا ہے، یہاں تک کہ بھاپ بن جاتا ہے۔ اسفنج کے اوپر ببل ریپ کی تہ چڑھائی گئی ہے جس میں سے گزر کر شمسی شعاعیں اسفنج پر مرتکز ہوجاتی ہیں اور اس کے درجۂ حرارت میں اضافہ کرتی ہیں۔
ایم آئی ٹی سے وابستہ سائنس دانوں جارج نی اور گانگ چین کے ذہن میں پانی کو دھوپ کی مدد سے گرم کر دینے والے اسفنج کا خیال دو سال قبل آیا تھا۔ اس کے بعد وہ تحقیق میں مصروف ہو گئے اور دو برس کی محنت کے بعد اپنے ڈیزائن کو عملی شکل دینے میں کام یاب ہوئے۔ کاربن فوم اور ببل ریپ پر مشتمل پانی پر تیرنے والی ڈیوائس ننھے ننھے سوراخوں کے ذریعے پانی جذب کرتی ہے اور پھر دھوپ کی شکل میں خود پر پڑنے والی پچاسی فی صد حرارتی توانائی کو بھاپ میں تبدیل کردیتی ہے۔ فی الحال سائنس دانوں نے اسفنج کے آزمائشی تجربات کیے ہیں اور اب ان کی توجہ اسے مزید بہتر بنانے پر ہے۔
ابتدا میں سائنس دانوں نے ببل ریپ کے بجائے اس ڈیوائس میں گریفائٹ کا استعمال کیا تھا، مگر انھوں نے دیکھا کہ گریفائٹ سے کام لینے کے باوجود بھی حرارت کی بڑی مقدار ضایع ہورہی تھی۔ اس موڑ پر محققین کو کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کون سا میٹیریل استعمال کیا جائے جس سے حرارت کا ضیاع کم سے کم ہوجائے۔ ایک روز گانگ چین گھر میں بیٹھا اسی مسئلے پر غور کررہا تھا کہ اچانک اس کی نظر کھڑکی سے باہر باغیچے میں کوئی سرگرمی انجام دیتی اپنی بیٹی پر پڑی۔ غور کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ کیاریوں پر بنے ہوئے جنگلے کو ببل ریپ سے ڈھانپ رہی ہے۔
یہ دیکھ کر اچانک گانگ کو خیال آیا کہ کیوں نہ ببل ریپ کو گریفائٹ کی جگہ پر استعمال کیا جائے۔ یہ بات پہلے ہی اس کے علم میں تھی کہ ببل ریپ روشنی کو مرتکز کرتا ہے۔ اس نے ایسا ہی کیا اور نتیجہ اس کی توقع سے بھی بڑھ کر برآمد ہوا۔ گانگ اور اس کے ساتھی آزمائشی تجربات کے بعد اب اپنی ایجاد میں مزید بہتری لانے کے لیے تحقیق اور تیاری کا کام کررہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آئندہ برس یہ ایجاد عام فروخت کے لیے پیش کی جاسکتی ہے۔