پولی ایتھلین میٹیریل ایئرکنڈیشنرکی چھٹی کردے گا
نئے میٹیریل میں سے آبی بخارات کی گزرگاہ کے طور پر سائنس دانوں نے اس میں نینوجسامت کے سوراخ چھوڑ دیے
پاکستان میں گذشتہ چند برسوں کے دوران گرمیوں کی شدت میں اضافہ ہوا ہے۔ ہیٹ اسٹروک کے باعث کئی جانیں بھی ضایع ہوچکی ہیں۔ گلوبل وارمنگ کے باعث موسمی تغیرات سے پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک متأثر ہوئے ہیں۔ ملک میں شدید گرمی کے علاوہ لوگوں کو بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے دہری اذیت کا سامنا ہے۔
گرمی کے موسم میں ایئر کنڈیشنر کا استعمال بڑھ جاتا ہے، لیکن یہ سہولت ہر ایک کو میسر نہیں۔ کوئی اپنی کم زور مالی حالت کے باعث یہ مشین خریدنے کی سکت نہیں رکھتا، تو کوئی اس کے استعمال کی صورت میں خود کو بجلی کے بھاری بل کی ادائیگی کے قابل نہیں سمجھتا اور مشین خریدنے سے خود کو باز رکھتا ہے۔ ملک میں لوگوں کی اکثریت قہر برساتے سورج اور بجلی کی لوگ لوڈ شیڈنگ کے دوران پسینے میں شرابور ہونے پر مجبور ہے، لیکن سائنسی میدان میں بے پناہ ترقی اور ایجادات کی بدولت اس بات کا امکان پیدا ہو گیا ہے کہ مستقبل میں ایئر کنڈیشنر استعمال کیے بغیر ہی ہم گرمی سے نجات حاصل کر لیں۔ حال ہی میں سائنس دانوں نے ایک ایسی زبردست ایجاد کی ہے جو گرمی کا احساس مٹا دے گی!
سائنس دانوں کی یہ ایجاد کوئی مشین نہیں بلکہ کپڑا ہے جو جسم کو ٹھنڈا رکھے گا۔ محققین کا دعویٰ ہے کہ اس کپڑے سے تیار کردہ لباس زیب تن کرنے کے بعد شدید گرمی میں بھی ٹھنڈک کا احساس ہوگا۔ گرمیوں میں پہنے جانے والے عام کپڑے سوتی دھاگے سے بنے ہوتے ہیں، مگر اس کپڑے کی تیاری میں پلاسٹک کے تاروں کا استعمال بھی کیا گیا ہے۔ میٹیریل سائنس اور انجنیئرنگ کے پروفیسر یوئی چوئی کہتے ہیں کہ انھوں نے گرم علاقوں کے لوگوں کی مشکل کو مدنظر رکھتے ہوئے اس ایجاد پر کام شروع کیا۔
تیسری دنیا کے گرم ممالک کے عوام کی اکثریت غریب اور مشکلات سے دوچار ہے، جن کے لیے یہ ایجاد کسی نعمت سے کم نہیں اور اس کے عام دست یاب ہونے پر وہ موسم کی سختی سے نجات حاصل کرسکیں گے۔ پروفیسر یوئی چوئی نے کی یہ ایجاد ترقی یافتہ دنیا کے باسیوں کے لیے بھی نہایت کارآمد ثابت ہو گی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے دنیا بھر میں درجۂ حرارت بڑھتا جارہا ہے۔ اب برطانیہ جیسے ممالک میں بھی گرما میں درجۂ حرارت تیس ڈگری سیلسیئس سے اوپر چلا جاتا ہے جہاں چند برس پہلے تک پارہ بیس ڈگری سے نیچے رہتا تھا۔
پروفیسر یوئی چوئی کے مطابق سوتی کپڑے اگرچہ جسم کو ٹھنڈک کا احساس دلاتے ہیں، مگر یہ انسانی جسم سے خارج ہونے والی زیریں سرخ تاب کاری ( انفرا ریڈ ریڈی ایشن) کو کنٹرول نہیں کرسکتے، جس کی وجہ سے گرمی لگتی ہے اور پسینا بہنے لگتا ہے۔ اسٹینفرڈ یونیورسٹی کی ٹیم نے پروفیسر کی راہ نمائی میں فوٹونکس، کیمسٹری اور نینوٹیکنالوجی سے کام لیتے ہوئے ایسا پولی ایتھلین میٹیریل تیار کیا جس میں حرارتی تاب کاری، آبی بخارات اور ہوا کا گزر ہوسکتا ہے۔ عام کپڑے سے حرارت خارج نہیں ہوتی اور یہی اس کپڑے سے تیار کردہ لباس میں گرمی کا احساس ہونے کی بڑی وجہ ہے۔
نئے میٹیریل میں سے آبی بخارات کی گزرگاہ کے طور پر سائنس دانوں نے اس میں نینوجسامت کے سوراخ چھوڑ دیے۔ اس میٹیریل کی تیاری میں مذکورہ بالا تین سائنسی علوم کے علاوہ محققین نے صحرائے صحارا میں پائی جانے والی ایک چیونٹی سے بھی مدد لی۔ صحارا میں پڑنے والی شدید ترین گرمی میں بھی اس چیونٹی کا جسم ٹھنڈا رہتا ہے۔ محققین نے اس چیونٹی کے قدرتی کولنگ سسٹم کا مطالعہ کرنے کے بعد اسی کی بنیاد پر اپنے میٹیریل کی بُنت میں تبدیلیاں کیں جس کے بعد اس میں توقع کے مطابق جسم کو ٹھنڈا رکھنے کی خوبی پیدا ہوگئی۔ سائنس دانوں کی یہ ایجاد انقلابی ثابت ہوسکتی ہے۔ اگر اس کپڑے کا استعمال عام ہوجاتا ہے تو اس سے ایک طرف تو کروڑوں انسانوں کا بھلا ہوگا، لیکن ایئرکنڈیشنر کی صنعت کو شدید دھچکا بھی پہنچے گا۔
گرمی کے موسم میں ایئر کنڈیشنر کا استعمال بڑھ جاتا ہے، لیکن یہ سہولت ہر ایک کو میسر نہیں۔ کوئی اپنی کم زور مالی حالت کے باعث یہ مشین خریدنے کی سکت نہیں رکھتا، تو کوئی اس کے استعمال کی صورت میں خود کو بجلی کے بھاری بل کی ادائیگی کے قابل نہیں سمجھتا اور مشین خریدنے سے خود کو باز رکھتا ہے۔ ملک میں لوگوں کی اکثریت قہر برساتے سورج اور بجلی کی لوگ لوڈ شیڈنگ کے دوران پسینے میں شرابور ہونے پر مجبور ہے، لیکن سائنسی میدان میں بے پناہ ترقی اور ایجادات کی بدولت اس بات کا امکان پیدا ہو گیا ہے کہ مستقبل میں ایئر کنڈیشنر استعمال کیے بغیر ہی ہم گرمی سے نجات حاصل کر لیں۔ حال ہی میں سائنس دانوں نے ایک ایسی زبردست ایجاد کی ہے جو گرمی کا احساس مٹا دے گی!
سائنس دانوں کی یہ ایجاد کوئی مشین نہیں بلکہ کپڑا ہے جو جسم کو ٹھنڈا رکھے گا۔ محققین کا دعویٰ ہے کہ اس کپڑے سے تیار کردہ لباس زیب تن کرنے کے بعد شدید گرمی میں بھی ٹھنڈک کا احساس ہوگا۔ گرمیوں میں پہنے جانے والے عام کپڑے سوتی دھاگے سے بنے ہوتے ہیں، مگر اس کپڑے کی تیاری میں پلاسٹک کے تاروں کا استعمال بھی کیا گیا ہے۔ میٹیریل سائنس اور انجنیئرنگ کے پروفیسر یوئی چوئی کہتے ہیں کہ انھوں نے گرم علاقوں کے لوگوں کی مشکل کو مدنظر رکھتے ہوئے اس ایجاد پر کام شروع کیا۔
تیسری دنیا کے گرم ممالک کے عوام کی اکثریت غریب اور مشکلات سے دوچار ہے، جن کے لیے یہ ایجاد کسی نعمت سے کم نہیں اور اس کے عام دست یاب ہونے پر وہ موسم کی سختی سے نجات حاصل کرسکیں گے۔ پروفیسر یوئی چوئی نے کی یہ ایجاد ترقی یافتہ دنیا کے باسیوں کے لیے بھی نہایت کارآمد ثابت ہو گی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے دنیا بھر میں درجۂ حرارت بڑھتا جارہا ہے۔ اب برطانیہ جیسے ممالک میں بھی گرما میں درجۂ حرارت تیس ڈگری سیلسیئس سے اوپر چلا جاتا ہے جہاں چند برس پہلے تک پارہ بیس ڈگری سے نیچے رہتا تھا۔
پروفیسر یوئی چوئی کے مطابق سوتی کپڑے اگرچہ جسم کو ٹھنڈک کا احساس دلاتے ہیں، مگر یہ انسانی جسم سے خارج ہونے والی زیریں سرخ تاب کاری ( انفرا ریڈ ریڈی ایشن) کو کنٹرول نہیں کرسکتے، جس کی وجہ سے گرمی لگتی ہے اور پسینا بہنے لگتا ہے۔ اسٹینفرڈ یونیورسٹی کی ٹیم نے پروفیسر کی راہ نمائی میں فوٹونکس، کیمسٹری اور نینوٹیکنالوجی سے کام لیتے ہوئے ایسا پولی ایتھلین میٹیریل تیار کیا جس میں حرارتی تاب کاری، آبی بخارات اور ہوا کا گزر ہوسکتا ہے۔ عام کپڑے سے حرارت خارج نہیں ہوتی اور یہی اس کپڑے سے تیار کردہ لباس میں گرمی کا احساس ہونے کی بڑی وجہ ہے۔
نئے میٹیریل میں سے آبی بخارات کی گزرگاہ کے طور پر سائنس دانوں نے اس میں نینوجسامت کے سوراخ چھوڑ دیے۔ اس میٹیریل کی تیاری میں مذکورہ بالا تین سائنسی علوم کے علاوہ محققین نے صحرائے صحارا میں پائی جانے والی ایک چیونٹی سے بھی مدد لی۔ صحارا میں پڑنے والی شدید ترین گرمی میں بھی اس چیونٹی کا جسم ٹھنڈا رہتا ہے۔ محققین نے اس چیونٹی کے قدرتی کولنگ سسٹم کا مطالعہ کرنے کے بعد اسی کی بنیاد پر اپنے میٹیریل کی بُنت میں تبدیلیاں کیں جس کے بعد اس میں توقع کے مطابق جسم کو ٹھنڈا رکھنے کی خوبی پیدا ہوگئی۔ سائنس دانوں کی یہ ایجاد انقلابی ثابت ہوسکتی ہے۔ اگر اس کپڑے کا استعمال عام ہوجاتا ہے تو اس سے ایک طرف تو کروڑوں انسانوں کا بھلا ہوگا، لیکن ایئرکنڈیشنر کی صنعت کو شدید دھچکا بھی پہنچے گا۔