اقلیتوں کا مسئلہ
اقلیتوں کا مسئلہ ایسا نہیں کہ اس پر قارئین کی آرا کو نظر انداز کیا جا سکے۔
میں نے چند روز پہلے اقلیتوں سے حسن سلوک کے عنوان سے کالم لکھا جس پر بعض قارئین کی طرف سے اختلاف رائے کا اظہار کیا گیا ہے، میں عام طور پر اپنے قارئین سے الجھنے کے حق میں نہیں، ہمارے دوست عطاء الحق قاسمی تو قارئین کے شب و ستم سے بے حد نالاں ہیں اور وہ ان کی اخلاقی پستی کی نشاندہی کے لیے کئی کالم وقف کر چکے ہیں۔ ہمارے ساتھی جاوید چوہدری اور برادرم تنویر قیصر شاہد بھی قارئین کے رویے کے شاکی ہیں، اختلاف شائستگی کی حد میں ہو تو یہ معاشرے کے صحت مند ہونے کی علامت ہے مگر جب تمام اخلاقی حدیں پار کر دی جائیں تو کالم نگار بھی آخر انسان ہے، وہ اپنا رد عمل دینے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
اقلیتوں کا مسئلہ ایسا نہیں کہ اس پر قارئین کی آرا کو نظر انداز کیا جا سکے، جن قارئین نے مجھ سے اختلاف کیا، میں نے ان کو جوابی ای میل ڈالیں اور ان کی رائے کے احترام کی یقین دہانی کرائی۔ میرا یہ رویہ بعض قارئین کے لیے غیر متوقع تھا، اس لیے انھوں نے جھٹ معذرت چاہی، میں کسی کو نیچا دکھانے کی کوشش نہیں کرتا لیکن اگر کوئی بات غلط ہو تو اسے غلط ثابت کرنا میرا حق ہے۔ اور مجھے خوشی ہے کہ میرے قارئین نے میرے سچ کو تسلیم کیا۔ یہ ان کی بڑائی ہے۔ مگر اصولی طور پر قارئین کی باتیں درست ہیں۔
میں نے اقلیتوں کے ساتھ حسن سلوک کا ذکر صرف ایک ادارے کے حوالے سے کیا تھا، یہ ادارہ متروکہ وقف املاک بورڈ ہے، اس کے سربراہ آصف ہاشمی ہیں، کسی کو ان کے ساتھ اختلاف ہو سکتا ہے، ان کی ورکنگ پر اعتراض بھی ہو سکتا ہے تو وہ اس کے اظہار میں حق بجانب ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ کسی قاری نے بھی ان کی ذات یا ان کے ادارے کے حوالے سے کوئی شکایت نہیں کی، نہ ان کی کسی بد سلوکی کی طرف کوئی ہلکا سا بھی اشارہ کیا۔ میرا کالم ایسی کسی شکایت کے اظہار کے لیے ایک بہترین فورم ہے، اگر اس ادارے سے کوئی لغزش ہوئی ہے تو یہ ایک سرکاری نہیں، قومی جرم ہے۔
میں اس جرم کا ساتھ نہیں دوں گا اور اس کو بے نقاب کرنے اور متعلقہ فریق کو انصاف دلانے میں اس کے ساتھ کھڑا ہوں گا، میں جانتا ہوں کہ اقلیتوں کی جائیدادوں کے امین اور نگران ہونے کی حیثیت سے ہمارے اوپر کونسی آئینی اور قانونی ذمے داریاں عاید ہوتی ہیں اور خاص طور پر مذہب کے حوالے سے تو میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ ہم کسی اقلیت کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کا خیال بھی دل میں لائیں۔ میں نے نبی اکرم ﷺ کے اپنے طرز عمل کا حوالہ اپنے کالم میں دیا جو شاید جگہ کی تنگ دامانی کی وجہ سے شایع ہونے سے رہ گیا۔ اقلیتیں تو پھر بھی انسان ہیں، اسلام تو اس امر کا مکلف کرتا ہے کہ دریائے نیل کے کنارے کتا بھی بھوکا پیاسا مر جائے تو اسلامی حکومت اس کے لیے جواب دہ ہے۔ جناب رفیق احمد نے پہلا اعتراض یہی یہ کیا ہے کہ میں نے اسوہ حسنہ ﷺ سے کوئی حوالہ نہیں دیا، اس کی وضاحت میں نے اوپر کر دی
ہے۔ عادل محمود صاحب نے کہا ہے کہ پاکستانیوں اور مسلمانوں پر زمین تنگ ہو رہی ہے، اس کے لیے بڑی حد تک ہم خود ہی ذمے دار ہیں، ہمیں ایک ہی اصول اپنانا چاہیے کہ محبت ہر ایک سے، نفرت کسی سے نہیں۔ عادل محمود صاحب نے اپنی پہلی ای میل میں بعض ناروا معاملات کا ذکر ضرور کیا تھا مگر میں نے انھیں جواب میں لکھا کہ کسی ایک کوتاہی کو قومی جرم تصور نہیں کیا جا سکتا، لڑائی جھگڑے اور دنگا فساد کے واقعات معاشرے میں ایک معمول بنتے جا رہے ہیں، کسی کا گھر جلانا، یا جائیداد کو مسمار کرنا ہے تو بری بات مگر آئے روز ہمارے مسلمان بھائی بھی ایک دوسرے کے اوپر ظلم کے پہاڑ توڑتے ہیں، کھیتوں کو خاکستر کر دیتے ہیں اور بستیوں کو کھنڈر میں تبدیل کر دیتے ہیں، سوات، فاٹا اور خیبر پختون خوا کے دوسرے علاقوں میں ہمارے سیکڑوں اسکول راکھ کا ڈھیر بنا دئے گئے، مسجدوں کے جھگڑے عام ہیں تو اس طرح کا کوئی اکا دکا سانحہ کسی اقلیت سے ہو جائے تو اسے بات کا بتنگڑ تو نہیں بنا لینا چاہیے، یہ درست ہے کہ قادیانیوں کی عبادت گاہوں پر حملے ہوئے مگر کتنے مدرسوں، مذہبی جلوسوں اور روضوں تک کو نشانہ بنایا گیا۔
اس لیے اگر بحیثیت مجموعی بات کی جائے تو اقلیتوں کے بارے پاکستان کا ریکارڈ برا نہیں، بلکہ اس پر رشک کیا جا سکتا ہے۔ پی پی پی کے چیئر پرسن نوجوان بلاول بھٹو زرادری نے اسی پس منظر میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ ملک میں اقلیتوں کے ساتھ بہترین سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔ بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے کتنے ہی ادارے فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں تو بجٹ کے موقع پر ایک اقلیتی ممبر کو فنانس منسٹر کا منصب پیش کیا گیا۔ کونسا پاکستانی ہے جو سردار گنگا سنگھ ڈھلوں کے جذبوں سے محبت نہیں کرتا، جان الیگزانڈر صاحب ایسے ہی لاہوریئے ہیں جیسے میاں صلی کا خاندان لاہوریا ہے۔
میں نے بیرام ڈی اواری کا ذکر کیا تھا، وہ محض ایک کاروباری شخص نہیں بلکہ لاہور شہر کی تہذیبی روایات کا مظہر بن چکے ہیں۔ سیسل چوہدری کے ذکر پر ہماری آنکھیں پر نم ہو جاتی ہیں اور سینے فخر سے تن جاتے ہیں۔ ایم ایم عالم کو اگر لاہور کا محافظ قرار دیا گیا تھا تو کراچی کے محافظ کا خطاب کمانڈر لیزلے کے حصے میں آیا جنہوں نے ڈاگ فائٹ میں دشمن کے دو طیارے مار گرائے اور پھر بھارتی ہوا بازوں کو کراچی کا رخ کرنے کی جرات نہیں ہو سکی تھی۔ ونگ کمانڈر مڈل کوٹ نے اکہتر کی جنگ میں شجاعت کی لازوال تاریخ رقم کرتے ہوئے اپنی جان دشمن کے علاقے پر ایک گھمسان کی جنگ میں قربان کی، ایئر کموڈور کیلا ہان، ونگ کمانڈر انتھونی چوہدری، ونگ کمانڈر رولو، ونگ کمانڈر فریزر کی جراتوں کو پاکستانی قوم ہمیشہ سلام پیش کرتی رہے گی۔ ایئر وائس مارشل ایرک ہال اور ایئر وائس مارشل او برائن کی پی اے ایف کی ترقی کے لیے خدمات کو کون فراموش کر سکتا ہے۔
رہا مسئلہ مذہبی جھگڑوں کا جو ماضی قریب کی پیدا وار ہیں، ان میں سے اکثر روایتی دشمنی کا نتیجہ ہیں۔ قرآن پاک کے جلائے جانے کے واقعات پر بھی مقدمے بنے، مگر پاکستان میں ایک عرصے تک مقدس کاغذات کو تلف کرنے کے دو ہی طریقے تھے، یا تو انھیں ایک گڑھے میں رکھ کر جلا دیا جاتا اور راکھ کو زمین میں دبا دیا جاتا یا پھر کسی بوری وغیرہ میں ڈال کر دریائی یا نہری لہروں کی امانت بنا دیا جاتا، مقدس کاغذات کی حرمت کا خیال ضرور رکھنا چاہیے مگر اس کے لیے قانون سازی ہونی چاہیے یا علمائے کرام کو متفقہ فارمولا پیش کرنا چاہیے۔ جہاں تک امریکا یا کسی اور ملک کی گستاخانہ فلم یا کارٹونوں کا مسئلہ ہے، ان کی ذمے داری پاکستانی اقلیتوں پر کسی طور نہیں ڈالی جا سکتی ، وہ تو ان گستاخانہ اقدامات کی مذمت میں پیش پیش ہیں۔ امریکا اور اہل مغرب نے مسلمانوں پر دہشت گردی کا جو لیبل لگا رکھا ہے ، اس کا انتقام ہم اپنی اقلیتوں سے نہیں لے سکتے۔ ایسا کرنے کی صورت میں ہم اپنے گھر کو خراب کر بیٹھیں گے۔
میں واپس متروکہ املاک کے موضوع کی طرف آتا ہوں، ان میں سکھوں کا مسئلہ سر فہرست ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ہم نے جتنی خدمت سکھوں کی کی ہے، اتنی بھارتی حکومت بھی ان سے نہیں کر سکی، اس نے تو الٹا ان کے مقدس مقامات پر فوج کشی کی تھی اور ان کے لیڈروں کو نشانہ بنایا تھا۔ بعض لوگ بھگت سنگھ کو سکھوں کے حوالے سے دیکھنے کی دلیل دیتے ہیں، بھگت سنگھ کو دیکھنا ہے تو آزادی ہند کے پس منظر میں دیکھنا ہو گا اور بر صغیر کی تحریک آزادی میں تو ابوالکلام آزاد کی خدمات کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا، بات تو یہ ہے کہ ہمارا ملک پاکستان ہے، اس کے لیے کسی نے کیا کیا، یہی دیکھا اور پرکھا جائے گا۔ متروکہ وقف املاک کے بورڈ نے آصف ہاشمی کی سربراہی میں اگر سکھوں کی بڑھ چڑھ کر خدمت کی ہے تو اس کی ستائش ہونی چاہیے اور اگر ان سے کوئی کوتاہی رہ گئی ہے تو اس کی نشاندہی کی جائے تا کہ اس کا ازالہ کروایا جا سکے، سکھوں کے متبرک تریں مقامات پاکستان میں ہیں ، ہم ان کی حفاظت اور نگرانی کے مکلف ہیں۔ آصف ہاشمی نے اس سلسلے میں جو کیا ہے، ان کو اس کا کریڈٹ ضرور ملنا چاہیے۔