کراچی اور دیگر بڑے شہروں میں شجرکاری گرمی کی لہر روک سکتی ہے
پاکستان دنیا کے ان 10 ممالک میں شامل ہیں جو تیزی سے بدلتی ہوئی آب و ہوا اور اس کے منفی اثرات کے شکار ہیں۔
ماہرینِ ماحولیات نے کہا ہے کہ کراچی میں گرمی کی لہر سے ان علاقوں میں سب سے ذیادہ نوٹ کی گئی ہے جہاں درختوں کی سب سے کم تعداد پائی جاتی ہے۔
ڈاکٹر رفیع الحق کے مطابق سیٹلائٹ نقشوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ جن شہری علاقوں میں درختوں کی قلت ہوتی ہے وہاں درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ درخت مجموعی درجہ حرارت کم کرنے میں مددگار ہوتے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ کراچی میں نئی بس سروس کے راستے میں آنے والے ہزاروں درختوں کو بے دریغ کاٹا جارہا ہے جو ایک تشویشناک امر ہے۔
ڈاکٹر رفیع الحق ماحولیاتی صحافیوں کی ایک تنظیم ' گرین میڈیا انشی ایٹوو' کے تحت منعقدہ ایک تربیتی ورکشاپ سے خطاب کررہے تھے جس کا موضوع ' آب و ہوا میں تبدیلی ( کلائمٹ چینج) کی رپورٹنگ' تھا۔ یہ سیمینار جرمنی کی غیرسرکاری تنظیم فریڈرک نیومان فاؤنڈیشن آف فریڈم ( ایف این ایف) کے تعاون سے کیا گیا تھا۔
اس سے قبل سینیئر صحافی عافیہ سلام نے بتایا کہ پوری دنیا میں آب وہوا میں نمایاں تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں اور پاکستان ان کی وجہ بننے والی گیسوں کے اخراج کا بہت معمولی ذمے دار ہیں لیکن حیرت انگیز طور پر دنیا کے ان 10 ممالک میں شامل ہے جو آب وہوا میں تبدیلی سے شدید متاثر ہورہے ہیں۔ اس کی وجہ بتاتے ہوئے عافیہ سلام نے کہا کہ پاکستان میں ایک جانب ہزاروں گلیشیئرز ہیں ، تو دوسری جانب طویل سمندری پٹی ہے، کہیں ریگستان ہیں تو کہیں میدان ۔ یہ سب ملکر آب و ہوا میں تبدیلی کے اہم محرکات بنتے ہیں۔ اس کی وجہ سے موسمیاتی شدت کے واقعات بہت تیزی سے رونما ہورہے ہیں۔
یہاں قارئین کی دلچسپی کے لیے پاکستان کے ممتاز ماہرِ موسمیات ڈاکٹر غلام رسول کے مرتب کردہ شدید موسمیاتی کیفیات کے غیرمعمولی واقعات کا احول پیش کیا جارہا ہے۔
1: سال 2001، 2003،2007، 2008،2009،2010 اور 2011 میں بادل پھٹ پڑنے ( کلاؤڈ برسٹ ) کے واقعات جو زبردست بارشوں کی وجہ بنے۔
2: 1999 سے 2002 تک طویل خشک سالی
3: 2010 میں تاریخی اور جان لیوا سیلاب جس میں پاکستان کا ایک تہائی حصہ پانی میں ڈوب گیا تھا۔
4: 1999، 2007، 2010 اور 2011 میں سمندری طوفان۔
5: 2006، 2007، 2010 اور 2015 میں گرمی اور حدت کی شدید لہر۔
6: 2005، 2007 اور 2010 میں برف پگھلنے سے سیلاب کے واقعات جن میں بارش کا معمولی دخل تھا۔
اس لحاظ سے پاکستان کئی طرح کے ماحولیاتی اور موسمیاتی آفات کا شکار ہوسکتا ہے۔ کراچی کو درپیش مسائل کا ذکر کرتے ہوئے عافیہ سلام نے کہا کہ شہر میں ٹھوس فضلے کو ٹھکانے لگانے کا کوئی واضح نظام موجود نہیں، شور اور فضائی آلودگی، پانی اور نکاسی کے مسائل ، ٹرانسپورٹ اور گورننس کے مسائل ایک چیلنج کی حیثیت رکھتے ہیں۔
اس کے بعد ڈاکٹر رفیع الحق نے اپنی ایک پریزینٹیشن میں بتایا کہ سیارہ زمین پر 98 فیصد آکسیجن پودے اور درخت پیدا کرتے ہیں اوریہی وجہ ہے کہ پاکستان میں کراچی جیسے گنجان آبادی والے شہروں کے لیے درخت بہت ضروری ہیں۔ ورکشاپ میں موجود ذرائع ابلاغ کے قریباً تمام جہتوں سے تعلق رکھنے والے صحافیوں نے شرکت کی اور پاکستان میں ماحولیات، جنگلی حیات اور آب و ہوا میں تبدیلی کی رپورٹنگ کے فروغ، مسائل اور امکانات پر سیر حاصل تبادلہ خیال کیا ۔
ڈاکٹر رفیع الحق کے مطابق سیٹلائٹ نقشوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ جن شہری علاقوں میں درختوں کی قلت ہوتی ہے وہاں درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ درخت مجموعی درجہ حرارت کم کرنے میں مددگار ہوتے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ کراچی میں نئی بس سروس کے راستے میں آنے والے ہزاروں درختوں کو بے دریغ کاٹا جارہا ہے جو ایک تشویشناک امر ہے۔
ڈاکٹر رفیع الحق ماحولیاتی صحافیوں کی ایک تنظیم ' گرین میڈیا انشی ایٹوو' کے تحت منعقدہ ایک تربیتی ورکشاپ سے خطاب کررہے تھے جس کا موضوع ' آب و ہوا میں تبدیلی ( کلائمٹ چینج) کی رپورٹنگ' تھا۔ یہ سیمینار جرمنی کی غیرسرکاری تنظیم فریڈرک نیومان فاؤنڈیشن آف فریڈم ( ایف این ایف) کے تعاون سے کیا گیا تھا۔
اس سے قبل سینیئر صحافی عافیہ سلام نے بتایا کہ پوری دنیا میں آب وہوا میں نمایاں تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں اور پاکستان ان کی وجہ بننے والی گیسوں کے اخراج کا بہت معمولی ذمے دار ہیں لیکن حیرت انگیز طور پر دنیا کے ان 10 ممالک میں شامل ہے جو آب وہوا میں تبدیلی سے شدید متاثر ہورہے ہیں۔ اس کی وجہ بتاتے ہوئے عافیہ سلام نے کہا کہ پاکستان میں ایک جانب ہزاروں گلیشیئرز ہیں ، تو دوسری جانب طویل سمندری پٹی ہے، کہیں ریگستان ہیں تو کہیں میدان ۔ یہ سب ملکر آب و ہوا میں تبدیلی کے اہم محرکات بنتے ہیں۔ اس کی وجہ سے موسمیاتی شدت کے واقعات بہت تیزی سے رونما ہورہے ہیں۔
یہاں قارئین کی دلچسپی کے لیے پاکستان کے ممتاز ماہرِ موسمیات ڈاکٹر غلام رسول کے مرتب کردہ شدید موسمیاتی کیفیات کے غیرمعمولی واقعات کا احول پیش کیا جارہا ہے۔
1: سال 2001، 2003،2007، 2008،2009،2010 اور 2011 میں بادل پھٹ پڑنے ( کلاؤڈ برسٹ ) کے واقعات جو زبردست بارشوں کی وجہ بنے۔
2: 1999 سے 2002 تک طویل خشک سالی
3: 2010 میں تاریخی اور جان لیوا سیلاب جس میں پاکستان کا ایک تہائی حصہ پانی میں ڈوب گیا تھا۔
4: 1999، 2007، 2010 اور 2011 میں سمندری طوفان۔
5: 2006، 2007، 2010 اور 2015 میں گرمی اور حدت کی شدید لہر۔
6: 2005، 2007 اور 2010 میں برف پگھلنے سے سیلاب کے واقعات جن میں بارش کا معمولی دخل تھا۔
اس لحاظ سے پاکستان کئی طرح کے ماحولیاتی اور موسمیاتی آفات کا شکار ہوسکتا ہے۔ کراچی کو درپیش مسائل کا ذکر کرتے ہوئے عافیہ سلام نے کہا کہ شہر میں ٹھوس فضلے کو ٹھکانے لگانے کا کوئی واضح نظام موجود نہیں، شور اور فضائی آلودگی، پانی اور نکاسی کے مسائل ، ٹرانسپورٹ اور گورننس کے مسائل ایک چیلنج کی حیثیت رکھتے ہیں۔
اس کے بعد ڈاکٹر رفیع الحق نے اپنی ایک پریزینٹیشن میں بتایا کہ سیارہ زمین پر 98 فیصد آکسیجن پودے اور درخت پیدا کرتے ہیں اوریہی وجہ ہے کہ پاکستان میں کراچی جیسے گنجان آبادی والے شہروں کے لیے درخت بہت ضروری ہیں۔ ورکشاپ میں موجود ذرائع ابلاغ کے قریباً تمام جہتوں سے تعلق رکھنے والے صحافیوں نے شرکت کی اور پاکستان میں ماحولیات، جنگلی حیات اور آب و ہوا میں تبدیلی کی رپورٹنگ کے فروغ، مسائل اور امکانات پر سیر حاصل تبادلہ خیال کیا ۔