مجبور عوام اور اینٹی کرپشن اقدامات
کسی کو خط، کسی کے ساتھ افسران کے پاس جانا اور انھیں انصاف دلوانا یہ سب میں نے اپنے دور میں کیا۔
پہلی مرتبہ حکومت کی جانب سے اینٹی کرپشن کا ہفتہ 3 سے 9 دسمبر تک منایا جا رہا ہے جو انتہائی خوش آیند بات ہے۔ اینٹی کرپشن کی کہانی بھی کچھ عجیب و غریب ہے۔ میں نے اینٹی کرپشن کا نام اس زمانے میں سنا جب سن 1977ء میں میر ے والد مرحوم کامریڈ تاج محمد ابڑو اسپیشل اینٹی کرپشن سکھر مقرر ہوئے، اکثر اوقات والد مرحوم دوستوں سے دوران گفتگو کہا کرتے کہ انگریز سرکار نے اگر اینٹی کرپشن کا ڈپارٹمنٹ نہ بنایا ہوتا تو بیوروکریٹس کرپشن کے ریکارڈ توڑ دیتے، مجھے تو اب اینٹی کرپشن کا جج ہونے کے بعد پتہ چلا ہے کہ آفیسر لاکھوں کے لاکھ کیسے ہضم کر جاتے ہیں اور ان کو اپنے والدین کی میراث سمجھتے ہیں۔
اس زمانے میں، میں نابالغ بچہ تھا اور ان باتوں کو صحیح معنوں میں نہیں سمجھ پایا، لیکن بعد میں خدا کے فضل و کرم سے میں نے 1993ء میں LLB کر کے وکالت شروع کی اور 1994ء کے دوران اخبارات میں اینٹی کرپشن انسپکٹروں کی بھرتی کے لیے LLB کی بنیاد پر اشتہار شایع ہوئے تو میں نے بھی وکیل دوستوں کے کہنے پر درخواست بھیج دی، بعد میں سب مراحل طے کرنے کے بعد میرٹ کی بنیاد پر ٹیسٹ وغیرہ پاس کر کے ٹریننگ کرنے کے بعد 1998ء میں بحیثیت سرکل آفیسر اینٹی کرپشن شہداد پور مقرر ہوا۔
جیسا کہ شہداد کوٹ میرا اپنا گاؤں تھا اس وجہ سے وہاں کے غریب لوگ میرے پاس بڑی تعداد میں آیا کرتے تھے، وہیں پر مجھے بابا سائیں کے کہے ہوئے الفاظ یاد آئے اور ان جملوں کو سمجھنے لگا، میرے خیال میں سندھ کا یہ واحد ڈپارٹمنٹ ہے کہ جس میں اگر سرکل آفیسر نیک نیتی سے کام کرے تو غریب اور مسکین، بے پہنچ افراد کی دعائیں اسے کہاں سے کہاں پہنچا سکتی ہیں، میں اینٹی کرپشن سندھ کی تاریخ کا سب سے چھوٹا سرکل آفیسر ہوں، محنت، شوق اور ایمانداری کے ساتھ اپنا کام سرانجام دیتا رہتا ہوں اگر کوئی بے پہنچ غریب میرے پاس آتا ہے تو میں اس کی دادرسی کے لیے بے حد کوشش کرتا ہوں، کافی افراد کے کام تو فون پر کہنے سے ہی ہو جاتے ہیں۔
کسی کو خط، کسی کے ساتھ افسران کے پاس جانا اور انھیں انصاف دلوانا یہ سب میں نے اپنے دور میں کیا اور کر رہا ہوں۔ لکھنے کا مقصد محض یہ ہے کہ ہمارے صوبہ سندھ کے عوام کی اکثریت ان پڑھ یا تعلیم نہ ہونے کے برابر ہے ان کو یہ بھی نہیں پتہ کہ اگر ان کے ساتھ کوئی آفیسر زیادتی کرتا ہے تو وہ کہاں جائیں، پھر وہ بے سمجھ افراد یا تو وڈیروں، سرداروں، بھوتاروں، پیروں، میروں کے پاؤں پکڑتے ہیں یا پھر وکیل کی معرفت کورٹ میں جا پہنچتے ہیں اور سالوں تک اپنا جیون دکھی بسر کرتے ہیں۔
اگر یہ افراد بھوتاروں، وڈیروں کی اوطاقوں پر جانے کے بجائے فقط ایک سادے کاغذ پر کسی نیک صفت سرکاری آفیسر یا ملازم کی جانب سے ان کے ساتھ کی گئی زیادتی پر درخواست لکھ دیں تو ان کا کام بغیر کسی مدد کے اور اپیل کے ہو جائے، اس فقط ایک درخواست پر ہم انکوائری کر کے ثبوت ہاتھ میں لینے کے بعد فوری طور پر ایف آئی آر کاٹنے کے لیے لکھتے ہیں، ایف آئی آر کاٹنے کی اجازت پہلے گریڈ سے 16 تک ڈپٹی کمشنر اور 17 گریڈ سے اوپر کے لیے چیف سیکریٹری سندھ اجازت دیتا ہے۔
ایف آئی آر کاٹنے کے بعد تحقیقات شروع کی جاتی ہے اور ایک مرتبہ پھر پکے ثبوت حاصل کر کے کیس کو چالان کیا جاتا ہے اس کام میں وقت ضرور لگتا ہے، لیکن فریادی عرضدار کا کیس مضبوط بن جاتا ہے۔ عموماً عوام میں یہ منفی تاثر بھی پایا جاتا ہے کہ اینٹی کرپشن والوں کو ہم نے درخواست تو دی ہے کافی وقت گزر گیا ہے لیکن کچھ نہیں ہوا، یہ بالکل حقیقت ہے، لیکن اسی دیر میں فریادی کا کیس مزید مضبوط بنا دیا جاتا ہے، ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا والی صورتحال ہوتی ہے۔ ہمارے پاس عام پولیس جیسی لاٹھی والی بات نہیں، ادارے کے پاس قلم ہے، حق والی بات، جب بھی کوئی غریب نا امید ہوتا ہے تو اینٹی کرپشن کے پاس آتا ہے، نجانے کتنے خواتین و مرد روتے آفس آئے اور انصاف ملنے کے بعد ہنسی خوشی لوٹ گئے۔ ہم ڈھنڈورا نہیں پیٹتے۔
اس وقت ملک میں جمہوریت کی بحالی کے بعد وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ اور صوبائی وزیر اینٹی کرپشن عبدالحق بھرٹ جو سرگرمیاں دکھا رہے ہیں ان کی تعریف کی جانی چاہیے۔ ان کی جانب سے مختصر عرصے میں اس ڈپارٹمنٹ کو مضبوط بنانے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات قابل ستائش ہیں، وطن عزیز کی تاریخ میں پہلی مرتبہ 3 دسمبر سے 9 دسمبر تک ہفتہ اینٹی کرپشن منایا جا رہا ہے جس کا مقصد ضلع اور تحصیل سطح پر عوام میں شعور پیدا کرنے کے لیے اور رشوت جیسی لعنت سے بچنے کے لیے سیمینار، ورکشاپ اور لیکچر پروگرامز وغیرہ سندھ حکومت کی جانب سے کرائے جا رہے ہیں اور اس سلسلے میں تمام ڈپٹی کمشنروں نے تمام پروگرامز کو آخری شکل دے دی ہے۔
یہ ایک انتہائی مثبت قدم ہے، ہمارے یہاں دیکھا جائے تو سب سے زیادہ زیادتیاں پولیس اور ریونیو ڈپارٹمنٹ کی جانب سے رہی ہیں، دیہات کے ستم رسیدہ و بے سمجھ عوام کو پولیس بیوقوف بنا کر لوٹ مار کرتی رہتی ہے اور ان کے مویشی بھی فروخت کر دیتی ہے۔ بے چارے عوام پولیس کے خوف سے کچھ نہیں کہتے، انھیں خوف ہوتا ہے کہ پولیس ان پر مزید ٹارچر کے حربے اختیار نہ کرے، یہاں پر میں یہ بات واضح کرتا چلوں کہ ہمارے پاس پولیس کے خلاف بے شمار کیسز داخل ہوئے ہیں جس میں پولیس افسران نے فریادیوں کو معافی کی اپیلیں کی ہیں اور کئی بار پولیس افسران پاک کتاب بھی فریادی کے پاس لے گئے ہیں کہ مہربانی کر کے ہماری صلح کراؤ، اگر ہمارے خلاف کیس داخل ہوئے اور چالان ہوئے تو ہماری ترقیاں نہیں ہوں گی، مجھے کامریڈ جام ساقی کے الفاظ یاد آتے ہیں کہ ''نادر بیٹا! اینٹی کرپشن بھی عدلیہ کی بہن ہے، میں خود وکیل رہا ہوں۔
فریادی کو کورٹ میں جانے کے لیے بھی وکیل کی ضرورت پڑتی ہے، غریب لوگ اپنے گزارے کے لیے اگر آٹا نہ ہو تو وہ مسکین وکیل صاحب کہاں سے لائیں، اگر اس کے برعکس وہ ہمارے پاس آئیں تو ان کے ساتھ انصاف ہو سکتا ہے، اس کا ثبوت گزشتہ حکومتوں کے دوران جس میں اینٹی کرپشن کی جانب سے چیف منسٹروں، منسٹروں اور صوبائی اسمبلی کے اراکین سے لے کر کمشنروں اور بالا افسران کا چالان کیا گیا۔ بات فقط مظلوم و سادہ لوح عوام کو سمجھانے کی ہے کہ اینٹی کرپشن ہے کیا؟ یہ غریب عوام انگریزی الفاظ اینٹی کرپشن کو سمجھتے ہی نہیں، اگر ان کو اچھی طرح سے سمجھایا جائے تو سندھ میں اینٹی کرپشن اوپر سے مسلط کوئی ادارہ نہیں۔
ظلم یا زیادتی اور بدعنوانی ہوئی ہے تو آئو۔ وکیل فیس سرداروں، بھوتاروں، جاگیرداروں، وڈیروں کے پاؤں پڑے بغیر ہی کام ہوجائے گا، دوسرے الفاظ میں یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ یہ ڈپارٹمنٹ ہے ہی غریب مسکین، مجبور افراد کا۔ اعتبار بحال ہو تو بد عنوانی کے خلاف ستم رسیدوں کے لب کھلیں گے اور بہت سارے دکھ دور ہو سکتے ہیں۔