اردو آج بھی زندہ ہے
اردو اور انگریزی درجات کی دو عملی نے خود نظام تعلیم کو نقصان پہنچایا۔
3 نومبر 1947ء کو کراچی میں ہونے والی پہلی تعلیمی کانفرنس، جس کی صدارت نوزائیدہ مملکت پاکستان کے پہلے وزیر تعلیم جناب فضل الرحمٰن کر رہے تھے، کی منظور کردہ تجاویز میں یہ تجویز بھی شامل تھی کہ اردو پاکستان کی سرکاری زبان ہو گی لیکن بعد ازاں ملک کو درپیش پے درپے مسائل کے باعث سرکاری مراسلت ا و ر ذریعہ تعلیم اردو زبان میں رائج کرنے کے لیے معیاری کوششوں کا فقدان رہا۔ حصول پاکستان کے بعد قائداعظم محمد علی جناح نے بھی اسی عزم کا اظہار کیا تھا کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہو گی۔ اردو پاکستان کے عوام کے لیے ایک نئی زبان ہرگز نہیں ہے بلکہ غیر منقسم ہندوستان میں اردو مسلمانوں کی زبان سمجھی جاتی تھی اور یہی وجہ تھی کہ 1867ء میں ہندوئوں نے بنارس میں اردو زبان کے خلاف تحریک چلائی تھی، ان کا خیال تھا کہ عدالتوں میں اردو جو مستعمل تھی اسے ختم کر کے ہندی زبان کو رائج کر دیا جائے۔
اردو اور انگریزی درجات کی دو عملی نے خود نظام تعلیم کو نقصان پہنچایا۔ انگریزی اسکولوں کا قیام اور غیر ممالک کی مطبوعہ انگریزی درسی کتب کا رجحان قومی زبان اردو کے ساتھ مذاق کے مترادف نظر آیا۔ اگرچہ انگریزی تعلیمی اداروں کی موجودگی کے باوجود علم و ادب سے تعلق رکھنے والے کچھ تعلیمی و تحقیقی ادارے بھی یہاں اردو کی ترویج کے لیے کوشاں اور سرگرم عمل رہے اور مختلف حکومتوں کی سطح پر بھی اردو کو سرکاری زبان کی حیثیت سے رائج کرنے کے سلسلے میں بنیادی ضرورتوں کی تکمیل کی گئی تاہم اردو کو وہ ترقی نہ مل سکی جو اس کا حق تھا۔ اردو زبان کی ترقی کے لیے جو اقدامات حکومتی سطح پر ہونے چاہیے تھے وہ آج بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔
ماہرین نفسیات کے مطابق انسان اپنی زبان میں زیادہ بہتر طور پر سمجھ سکتا ہے اور بیان بھی کر سکتا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد اردو کو قومی زبان قرار دینا اس امر کی طرف واضح دلالت کرتا ہے کہ اردو زبان پاکستان کا تشخص اور پہچان تھی۔ اردو نے تحریک پاکستان میں زبردست کردار ادا کیا لیکن پاکستان بننے کے بعد بھی اردو زبان کو اس کا صحیح مقام نہ مل سکا۔ آج بھی پبلک سروس کمیشن اور سی ایس ایس کے امتحانات انگریزی میں ہوتے ہیں، بینکنگ کا کاروبار، میڈیکل، انجینیئرنگ اور اعلیٰ سائنس کی تعلیم انگریزی زبان میں ہوتی ہے۔ دفاتر میں سرکاری زبان کے طور پر انگریزی استعمال ہو رہی ہے۔ پوشیدہ طاقتوں نے اردو کو اس کا جائز مقام حاصل کرنے سے آج تک روکے رکھا ہے۔
ملک کا متمول طبقہ بھی او لیول، اے لیول، انگلستان اور امریکی یونیورسٹیوں میں اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم انگریزی زبان میں دلانے کی روایت پر عمل پیرا ہے۔ یہی وہ ذہنیت ہے جس کی وجہ سے اردو زبان کے ساتھ سوتیلی ماں والا سلوک کیا جا رہا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ انگریزی بین الاقوامی زبان ہے لیکن اس کے بہانے اردو کو اس کے جائز حق سے محروم رکھنا غلامانہ ذہنیت کی غمازی کرتا ہے۔ باوجود تمام ناروا سلوک کے، خوشی اس بات کی ہے کہ اردو آج بھی زندہ ہے اور سانسیں لے رہی ہے لیکن یہ اردو کے ادیبوں اور دانشوروں کے لیے خوش فہمی کا مقام نہیں ہے، کیونکہ اس کی بقا کا سبب نہ تو سرکاری سرپرستی ہے نہ ہی اردو کا دم بھرنے اور اس کی روٹی کھانے والے ادیبوں اور دانشوروں کے قول و فعل کی ہم آہنگی ہے، بلکہ یہ زبان اگر آج بھی زندہ ہے تو اس کا کریڈٹ بھی خود اسی کو جاتا ہے، کیونکہ یہ بلا کی ہٹ دھرم واقع ہوئی ہے۔
لیکن سوال یہ اٹھتا ہے، کب تک؟ سرکار کی بے اعتنائی تو خیر یہ شروع سے جھیلتی آئی ہے لیکن اپنوں کی سرد مہری کا جواز کیا ہے؟ اردو اکادمیاں جنھیں ہم اردو کے مقبرے بھی کہہ سکتے ہیں ہر سال چند اردو مسودوں کو مالی تعاون و توصیفی اسناد، اور کچھ کتابوں کو انعامات سے نوازتی ہیں۔ نہ معلوم اس کام کے لیے کوئی ضابطہ، کوئی کلیہ اور کوئی اصول بھی مدنظر رکھا جاتا ہے یا نہیں؟ یا پھر بغیر جانچے پرکھے یہ سارے کام نمٹا لیے جاتے ہیں۔ قلم کار کی علمی صلاحیت اور اس کے تخلیقی معیار کو ملحوظ بھی رکھا جاتا ہے یا فقط اکادمی کے بڑے عہدیداران کی صوابدید پر فیصلہ چھوڑ دیا جاتا ہے کہ وہ کسے انعام یا امداد کا حقدار سمجھتے ہیں اور کسے نہیں؟
اردو کے فروغ کے لیے کتنے ہی اشاعتی ادارے میدان میں ہیں لیکن یہاں بھی محسوس یہ ہوتا ہے کہ اندھا بانٹے ریوڑیاں کے مصداق اپنے لوگوں سے فرمائش کر کے تخلیقات طلب کر لی جاتی ہیں اور بقیہ لوگوں کو ایک لمبی قطار کے سپرد کر دیا جاتا ہے۔ شاید یہ عوامی تاثر درست ہو کہ یہ ادارے صرف اردو زبان کے تحفظ کا ڈھنڈورا پیٹا کرتے ہیں سچ کیا ہے یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ اردو کا اصل ہمدرد کون ہے؟ اس کا تعین درست سمت میں آج تک ہو ہی نہیں سکا۔ ہمدردان اردو وہ طبقہ ہے جن کے بچے انگریزی اسکولوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔ اردو زبان کی ناقدری کا رونا رونے والا یہ وہ طبقہ ہے جس کے پاس فرصت کے علاوہ سب کچھ ہے۔ انھیں مشاعروں اور سیمیناروں کی صدارت بھی کرنی ہوتی ہے، عوام کو اردو لکھنے پڑھنے کی تلقین بھی کرنی ہوتی ہے، موقع بہ موقع اردو کی زبوں حالی پر میڈیا کے سامنے مرثیہ بھی پڑھنا ہوتا ہے، یہی نہیں بلکہ سرکاری وفد کا رکن بن کر بیرون ملک سفر بھی کرنا پڑتا ہے۔
اب اتنی عظیم مصروفیات کے بعد ان سے یہ تقاضا کرنا کہ وہ اپنے بچوں کو اردو اسکولوں کی قربان گاہ پر بھینٹ بھی چڑھا دیں یہ زیادتی ہو گی، ایسی قربانیوں کے لیے غریب عوام جو پہلے سے موجود ہیں۔ ہر سال اردو کے سیکڑوں شعری اور نثر ی مجموعے شایع ہوتے ہیں، درجنوں رسائل ملک کے طول و عرض سے نکل رہے ہیں۔ سارے رسائل کے مدیران اور ادیب اس بات کا اکثر رونا روتے رہتے ہیں کہ اردو پڑھنے والے قارئین کی تعداد بتدریج گھٹ رہی ہے، لیکن کیوں گھٹ رہی ہے؟ اس کی تہہ تک جانے کی کوئی زحمت نہیں کر رہا۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ قارئین کو کوسنے کی جگہ خود اپنا محاسبہ کیوں نہیں کرتے؟ سنجیدہ ادب کے نام پر آج جو کچھ لکھا جا رہا ہے وہ دلچسپ اور خیال افروز ہے بھی یا نہیں؟ ادب میں بقراطیت ہمیشہ اور ہر جگہ قابل قبول نہیں ہوتی۔
سچ پوچھیے تو آج کا اردو قاری بھوکوں مر رہا ہے۔ آج فراق، جوش، عصمت، منٹو اور فیض کے بعد ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔ جاسوسی کہانیاں پہلے بھی لکھی جاتی تھیں اور آج بھی لکھی جا رہی ہیں، تفریحی ادب پہلے بھی شایع ہوتا تھا آج بھی ہو رہا ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ جو مقبولیت ابن صفی کو حاصل ہوئی وہ اور کسی کو نہ مل سکی۔ ابن صفی کو سب پڑھتے تھے کیا سنجیدہ اور کیا غیر سنجیدہ۔ اردو کا قاری آرٹ اور نان آرٹ کا فرق جانتا ہے، وہ تفریحی ادب اور سنجیدہ ادب کے درمیان خط امتیاز بھی کھینچ سکتا ہے لیکن آج سنجیدہ ادب کے نام پر جو کچھ پڑھانے کی کوشش کی جا رہی ہے قاری اسے پڑھنے کو تیار نہیں ہے کیونکہ وہ ریا کار نہیں ہے۔
اسے ایسا ادب پڑھ کر رسائل میں اپنا مراسلہ نہیں شایع کرانا ہے، ساختیات پر اسے کوئی مضمون قلم بند نہیں کرنا ہے نہ ہی کسی سیمینار میں کسی افسانے کی تحلیل نفسی کرنی ہے۔ اردو کے بے لوث قاری کے نز دیک تو ادب کا مطالعہ ہی تزکیہ نفس ہے، مسرت کے دو پل ہیں اور محسوسات کے وہ زینے ہیں جن سے نیچے اتر کر وہ خود اپنی ذات کے ابوالہول سے مخاطب ہوتا ہے اور اسے زیر کرتا ہے لیکن آج علامت نگاری اور تجریدیت کے ساتھ ساتھ ادھ کچری زبان اور بے رس اسلوب نے ادب کو نہ صرف مجروح کیا ہے بلکہ اسے قاری کے لیے وصل بے لذت بھی بنا دیا ہے۔
حقیقت کی آنکھ سے دیکھا جائے تو زبان اظہار کا ذریعہ ہے اور زبان ثقافت کا بنیادی عنصر ہے۔ اردو آج بھی اپنے جمہوری حق سے محروم ہے تو اس کا ذمے دار کون ہے؟ اردو زبان کی ترقی و ترویج کے خلاف متحرک پوشیدہ طاقتیں یا اردو زبان کے نام نہاد ہمدرد و خیر خواہ یا پھر گردش کرتی حکومتیں؟ آج قومی زبان کے ساتھ جو ناانصافی ہو رہی ہے لوگ سمجھتے ہیں کہ بس یہ صرف ایک زبان کے ساتھ نا انصافی ہے۔ یہ ایک زبان کے ساتھ ہی نہیں بلکہ پوری نسل، پوری قوم اور پاکستان کے حال و مستقبل کے ساتھ نا انصافی اور مذاق بھی ہے۔ آج کا نوجوان قومی زبان کی اہمیت سے نابلد ہے۔ آج ہماری نئی نسل کو نہ تو صحیح طرح سے انگریزی آتی ہے نہ ہی اردو۔ ذرا سوچیے، اس کا انجام کیا ہو گا؟