قربانی کس کی کرنی ہے
جانور کی کھال لینے کے لیے تو ہر کوئی پہنچ جاتا ہے، لیکن اسکی باقیات کو کراچی شہر کیطرح کوئی اپنانے پر تسلیم نہیں ہوتا۔
VILNIUS:
قربانی کا دن قریب آتا ہے تو جانوروں کی تلاش میں تیزی آجاتی ہے، اب چونکہ پاکستان میں جانوروں کی کوئی کمی نہیں اس لئے ہونا تو یہ چاہیے کہ جانوروں کو تلاش کرنے کے بجائے انسانوں کو تلاش کیا جائے۔ لیکن کیا کریں انسانوں کی قربانی جائز نہیں ورنہ حکمرانوں نے تو عوام کو قربانی کا بکرا سمجھ رکھا ہے۔ عید، بقرعید کا بھی انتظار نہیں کرتے اور اپنی بچت کی چھری چلا دیتے ہیں۔ حکمرانوں کے پاس ایسے قصائی وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں جو عوام کی کھال تک اتار لیتے ہیں اور پتا بھی نہیں چلنے دیتے۔
آج کل جانوروں کے ساتھ بھی انسانوں جیسا سلوک کیا جارہا ہے۔ قربانی کے جانوروں کو ایسے گاڑی میں بھر کر لایا جاتا ہے، جیسے انسانوں کو بسوں اور ویگنوں میں ٹھونسا جاتا ہے۔ انسانوں کی طرح جانوروں میں بھی کچھ وی آئی پی اعلیٰ نسل کے جانور ہوتے ہیں جو پستہ، بادام، اخروٹ کھاتے ہیں۔ جسے ہم جیسے انسان صرف دور سے دیکھ کر اپنا دل بہلا لیتے ہیں۔ ان کے ساتھ سیلفیاں لے کر فخر سے شیئر کی جاتی ہیں جیسے یہ جانور نہ ہوں سیاستدان یا سیلیبریٹی ہوں جن کے ساتھ ہر کوئی سیلفی لینا پسند کرتا ہے۔
قربانی کے جانوروں کو بھی انسانوں کی طرح ڈاکٹر میسر نہیں آتے، جس کی وجہ سے وہ انسانوں کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ جن کے گلے پر چھری تو لٹک ہی رہی ہے پتہ نہیں کب چل جائے۔ جن کے پاس پیسہ ہوتا ہے وہ تو جانور پسند کرتے ہیں لیکن باقی سب تلاش کرتے ہیں، اور اس وقت تک کرتے ہیں جب تک جانور خود نہ کہنے لگے کہ بابا مجھے اب لے بھی جاؤ میں جس مشکل سے یہاں پہنچا ہوں اب واپس اسی طرح مر کر بھی نہیں جاؤں گا۔ پھر بالاآخر جب یہ جانورگھر والے ہوجاتے ہیں تو ان کی خوب آؤ بھگت کی جاتی ہے۔ بھوکے پیاسے جانوروں کی تو گویا عید ہی ہوجاتی ہے۔ پھر یہ بھی انسانوں کی طرح اتنا کھا جاتے ہیں کہ جسے ہضم بھی نہیں کرپاتے اور پھر کچھ اِس طرح منہ بند کرلیتے ہیں جیسے منہ میں نسوار یا گٹکا دبا لیا ہو۔ لاکھ کوشش کرلو پھر یہ منہ نہیں کھولتے۔
ان کو پانی سے خوب غسل دیا جاتا ہے اور پھر انہیں یوں پاک صاف کیا جاتا ہے جیسے انہوں نے عید کی نماز پڑھنی ہو۔ جانور کو دلہن کی طرح سجایا جاتا ہے اور پھر اسے لے کر بڑے فخر سے محلہ میں یوں گھمایا جاتا ہے، جیسے شادی کے بعد دلہن کی منہ دکھائی کی رسم ادا کی جارہی ہو۔ پھر جب یہ دلہن یا دلہا رسی تڑوا کر بھاگ جائے تو محلہ میں ایک شور مچ جاتا ہے۔ اب قربانی کے جانور کو کیا پتا کہ انسانوں کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک ہوتا ہے۔ قربانی کے جانور سے تو اس کی رضامندی بھی نہیں پوچھی جاتی جیسے وہ کوئی لڑکی ہو جس کے منہ میں زبان نہیں۔ آج کل تو شادی کے رشتہ کے لئے جو لوگ جاتے ہیں ان کے پاس بھی جانوروں کو پسند کرنے کا ہی تجربہ ہوتا ہے۔ بس منہ کھول کر دانت چیک نہیں کئے جاتے باقی سب ویسے ہی ہوتا ہے۔
ذکر ہو رہا تھا قربانی کے جانور کا اور ہم لے بیٹھے ہیں شادی کے جانو، نہیں انسان کا۔ قربانی تو بہرحال دونوں کی ہوتی ہے وہ اور بات ہے کہ بقرعید والا جانور صرف ایک بار چھری کے نیچے آتا ہے۔ عید سے پہلے جانور تلاش کئے جاتے ہیں اور عید کے دن قصائی۔
میرے نزدیک چھوٹی عید درزیوں کی ہوتی ہے تو بڑی عید قصائیوں کی ہوتی ہے۔ لوگ ایسے ہی کہتے ہیں کہ عید تو بچوں کی ہوتی ہے۔ عید کے دن ہر کوئی چھری پکڑ کر قصائی بن جاتا ہے کیونکہ اس سے خوب پیسہ ملتا ہے۔ بس چھری ہی تو پھیرنی ہے چاہے الٹی پھیرو یا سیدھی۔ بیچارا جانور انسانوں کی طرح تڑپتا ہے جس کی نہ جان نکلتی ہے اور نہ ہی جان میں جان آتی ہے۔ پورا سال حلال حرام کا فتویٰ لگانے والے عید کے دن پتا نہیں کہاں ہوتے ہیں؟
سارا سال لوگ حرام کھاتے ہیں تو پھر عید والے دن کیسے حلال کھا سکتے ہیں؟ جانور کی کھال لینے کے لیے کوئی نہ کوئی پہنچ ہی جاتا ہے، لیکن فائدہ اٹھا کر اس کی باقیات کو کراچی شہر کی طرح کوئی اپنانے پر تسلیم نہیں ہوتا۔ پھر قربانی کے گوشت میں سے کھرا اور کھوٹا الگ کر کے تقسیم کا عمل شروع ہوتا ہے۔ جو گوشت محلہ میں تقسیم ہوتا ہے وہ محلہ میں ایک گھر سے دوسرے گھر میں گھومتا رہتا ہے اور باقی گوشت فریزر میں اگلے عید تک کے لئے محفوظ کرلیا جاتا ہے۔ اس طرح قربانی کی رسم تو ادا ہوجاتی ہے لیکن اس میں روح ابراہیمی کہیں بھی دیکھنے کو نہیں ملتی اور مل بھی کیسے سکتی ہے کہ روح دکھائی نہیں دیتی اور ہم سائنس پڑھنے والے صرف اس ہی پر یقین رکھتے ہیں جو ہمیں دکھائی دے۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرہ کو درد دکھائی نہیں دیتا۔ معاشرہ میں احساس دکھائی نہیں دیتا۔ کاش عید کے دن ہم اپنی ذاتی انا قربان کریں۔ اپنے تکبر کو قربان کریں اور اپنے حسد کو قربان کریں لیکن یہ سب اسی وقت ہوگا جب ہم قربانی کی نیت کریں گے، اور ہاں قربانی تو پورا سال ہونی چاہیئے لیکن ہم پتا نہیں کیوں صرف عید کے دن قربانی کرتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
قربانی کا دن قریب آتا ہے تو جانوروں کی تلاش میں تیزی آجاتی ہے، اب چونکہ پاکستان میں جانوروں کی کوئی کمی نہیں اس لئے ہونا تو یہ چاہیے کہ جانوروں کو تلاش کرنے کے بجائے انسانوں کو تلاش کیا جائے۔ لیکن کیا کریں انسانوں کی قربانی جائز نہیں ورنہ حکمرانوں نے تو عوام کو قربانی کا بکرا سمجھ رکھا ہے۔ عید، بقرعید کا بھی انتظار نہیں کرتے اور اپنی بچت کی چھری چلا دیتے ہیں۔ حکمرانوں کے پاس ایسے قصائی وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں جو عوام کی کھال تک اتار لیتے ہیں اور پتا بھی نہیں چلنے دیتے۔
آج کل جانوروں کے ساتھ بھی انسانوں جیسا سلوک کیا جارہا ہے۔ قربانی کے جانوروں کو ایسے گاڑی میں بھر کر لایا جاتا ہے، جیسے انسانوں کو بسوں اور ویگنوں میں ٹھونسا جاتا ہے۔ انسانوں کی طرح جانوروں میں بھی کچھ وی آئی پی اعلیٰ نسل کے جانور ہوتے ہیں جو پستہ، بادام، اخروٹ کھاتے ہیں۔ جسے ہم جیسے انسان صرف دور سے دیکھ کر اپنا دل بہلا لیتے ہیں۔ ان کے ساتھ سیلفیاں لے کر فخر سے شیئر کی جاتی ہیں جیسے یہ جانور نہ ہوں سیاستدان یا سیلیبریٹی ہوں جن کے ساتھ ہر کوئی سیلفی لینا پسند کرتا ہے۔
قربانی کے جانوروں کو بھی انسانوں کی طرح ڈاکٹر میسر نہیں آتے، جس کی وجہ سے وہ انسانوں کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ جن کے گلے پر چھری تو لٹک ہی رہی ہے پتہ نہیں کب چل جائے۔ جن کے پاس پیسہ ہوتا ہے وہ تو جانور پسند کرتے ہیں لیکن باقی سب تلاش کرتے ہیں، اور اس وقت تک کرتے ہیں جب تک جانور خود نہ کہنے لگے کہ بابا مجھے اب لے بھی جاؤ میں جس مشکل سے یہاں پہنچا ہوں اب واپس اسی طرح مر کر بھی نہیں جاؤں گا۔ پھر بالاآخر جب یہ جانورگھر والے ہوجاتے ہیں تو ان کی خوب آؤ بھگت کی جاتی ہے۔ بھوکے پیاسے جانوروں کی تو گویا عید ہی ہوجاتی ہے۔ پھر یہ بھی انسانوں کی طرح اتنا کھا جاتے ہیں کہ جسے ہضم بھی نہیں کرپاتے اور پھر کچھ اِس طرح منہ بند کرلیتے ہیں جیسے منہ میں نسوار یا گٹکا دبا لیا ہو۔ لاکھ کوشش کرلو پھر یہ منہ نہیں کھولتے۔
ان کو پانی سے خوب غسل دیا جاتا ہے اور پھر انہیں یوں پاک صاف کیا جاتا ہے جیسے انہوں نے عید کی نماز پڑھنی ہو۔ جانور کو دلہن کی طرح سجایا جاتا ہے اور پھر اسے لے کر بڑے فخر سے محلہ میں یوں گھمایا جاتا ہے، جیسے شادی کے بعد دلہن کی منہ دکھائی کی رسم ادا کی جارہی ہو۔ پھر جب یہ دلہن یا دلہا رسی تڑوا کر بھاگ جائے تو محلہ میں ایک شور مچ جاتا ہے۔ اب قربانی کے جانور کو کیا پتا کہ انسانوں کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک ہوتا ہے۔ قربانی کے جانور سے تو اس کی رضامندی بھی نہیں پوچھی جاتی جیسے وہ کوئی لڑکی ہو جس کے منہ میں زبان نہیں۔ آج کل تو شادی کے رشتہ کے لئے جو لوگ جاتے ہیں ان کے پاس بھی جانوروں کو پسند کرنے کا ہی تجربہ ہوتا ہے۔ بس منہ کھول کر دانت چیک نہیں کئے جاتے باقی سب ویسے ہی ہوتا ہے۔
ذکر ہو رہا تھا قربانی کے جانور کا اور ہم لے بیٹھے ہیں شادی کے جانو، نہیں انسان کا۔ قربانی تو بہرحال دونوں کی ہوتی ہے وہ اور بات ہے کہ بقرعید والا جانور صرف ایک بار چھری کے نیچے آتا ہے۔ عید سے پہلے جانور تلاش کئے جاتے ہیں اور عید کے دن قصائی۔
میرے نزدیک چھوٹی عید درزیوں کی ہوتی ہے تو بڑی عید قصائیوں کی ہوتی ہے۔ لوگ ایسے ہی کہتے ہیں کہ عید تو بچوں کی ہوتی ہے۔ عید کے دن ہر کوئی چھری پکڑ کر قصائی بن جاتا ہے کیونکہ اس سے خوب پیسہ ملتا ہے۔ بس چھری ہی تو پھیرنی ہے چاہے الٹی پھیرو یا سیدھی۔ بیچارا جانور انسانوں کی طرح تڑپتا ہے جس کی نہ جان نکلتی ہے اور نہ ہی جان میں جان آتی ہے۔ پورا سال حلال حرام کا فتویٰ لگانے والے عید کے دن پتا نہیں کہاں ہوتے ہیں؟
سارا سال لوگ حرام کھاتے ہیں تو پھر عید والے دن کیسے حلال کھا سکتے ہیں؟ جانور کی کھال لینے کے لیے کوئی نہ کوئی پہنچ ہی جاتا ہے، لیکن فائدہ اٹھا کر اس کی باقیات کو کراچی شہر کی طرح کوئی اپنانے پر تسلیم نہیں ہوتا۔ پھر قربانی کے گوشت میں سے کھرا اور کھوٹا الگ کر کے تقسیم کا عمل شروع ہوتا ہے۔ جو گوشت محلہ میں تقسیم ہوتا ہے وہ محلہ میں ایک گھر سے دوسرے گھر میں گھومتا رہتا ہے اور باقی گوشت فریزر میں اگلے عید تک کے لئے محفوظ کرلیا جاتا ہے۔ اس طرح قربانی کی رسم تو ادا ہوجاتی ہے لیکن اس میں روح ابراہیمی کہیں بھی دیکھنے کو نہیں ملتی اور مل بھی کیسے سکتی ہے کہ روح دکھائی نہیں دیتی اور ہم سائنس پڑھنے والے صرف اس ہی پر یقین رکھتے ہیں جو ہمیں دکھائی دے۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرہ کو درد دکھائی نہیں دیتا۔ معاشرہ میں احساس دکھائی نہیں دیتا۔ کاش عید کے دن ہم اپنی ذاتی انا قربان کریں۔ اپنے تکبر کو قربان کریں اور اپنے حسد کو قربان کریں لیکن یہ سب اسی وقت ہوگا جب ہم قربانی کی نیت کریں گے، اور ہاں قربانی تو پورا سال ہونی چاہیئے لیکن ہم پتا نہیں کیوں صرف عید کے دن قربانی کرتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھblog@express.com.pk پر ای میل کریں۔