یہ احسان نہیں

اشرافیہ ان ادھورے اقدامات کے ذریعے عوام کو یہ تاثر دے رہی ہے کہ وہ عوام پر بڑی مہربانی کر رہی ہے۔


Zaheer Akhter Bedari December 07, 2012
[email protected]

ہمارے میڈیا نے ازخود غلامی کے طویل عرصے کے بعد جو آزادی حاصل کی ہے وہ اتنی امیچور ہے کہ اسے اب تک بادشاہانہ دور اور جمہوری دور کی ذمے داریوں میں پائے جانے والے فرق کا بھی پورا ادراک نہیں۔ ہمارے میڈیا نے جہاں اور بہت ساری اصطلاحیں ایجاد کی ہیں ان ہی میں ایک بڑی دلچسپ اور قابل توجہ اصطلاح ''ازخود نوٹس لے لینے'' کی ہے۔ ازخود نوٹس لے لینے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ازخود نوٹس لینے والے نے بڑا کرم کیا ، بڑی مہربانی کی ہے۔

حالانکہ ازخود نوٹس کا عمومی اور اصل مطلب و مفہوم اپنی ذمے داریوں سے لاعلمی اور کوتاہی کے علاوہ کچھ نہیں۔ اگر اس قسم کی اصطلاحیں بادشاہوں اور آمروں کے دور میں استعمال ہوتیں تو اس کا ایک جواز ہوتا تھا کہ ظل الٰہی یا ظل سبحانی نے کسی مظلوم کی دادرسی کرکے بڑا کرم کیا، لیکن جمہوری معاشروں میں خواہ وہ اشرافیائی جمہوریت یا وڈیرہ شاہی جمہوریت ہی کیوں نہ ہو سیاسی، قانونی، عدالتی، انتظامی ہر شعبے کے ادنیٰ ترین اہلکار سے لے کر اعلیٰ ترین عہدیدار تک سب عوام کے ملازم اور عوام کے تنخواہ دار ہوتے ہیں اور ان کی یہ ذمے داری اور ڈیوٹی ہوتی ہے کہ اپنے اپنے شعبوں کے بارے میں انھیں مکمل معلومات ہوں اور وہ ان معلومات کی روشنی میں عوام کے مسائل اپنی ذمے داری اور ملازمت کے تقاضے کے طور پر حل کریں نہ کہ ''ازخود نوٹس لینے'' کے احسان کے طور پر۔

یہ ازخود نوٹس لینے کا احسان اب اوپر سے سفر کرتا ہوا اس قدر نیچے آگیا ہے کہ اگر کوئی ایس ایچ او اپنے علاقے میں موجود جرائم کے کسی اڈے کے خلاف کوئی کارروائی کرتا ہے تو میڈیا میں اس خدمت کا ذکر ''ازخود نوٹس لے لینے'' کے حوالے سے کیا جاتا ہے، اگر کسی ٹاؤن کا ناظم اپنے علاقے کے سیوریج کے مسئلے پر کوئی اقدام کرتا ہے تو اس کے سر پر بھی ''ازخود نوٹس'' کا سہرا باندھ دیا جاتا ہے۔

اگر کوئی جج (حالانکہ از خود نوٹس عدالتی تصور اور عملی کارروائی سے عبارت ہے ) کسی مظلوم کی دادرسی کے لیے کوئی اقدام کرتا ہے تو اسے بھی ''ازخود نوٹس'' کے ایوارڈ سے نوازا جاتا ہے۔ وزرائے کرام، سی ایم حضرات اور کمشنروں کے نوٹس کی اہمیت تو اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ نوٹس زدہ شخص اس کرم نوازی پر تاحیات ممنون و شکر گزار رہتا ہے۔ صدر اور وزیر اعظم قسم کے ''آئی کونوں'' کا ازخود نوٹس تو اتنا متبرک ہوتا ہے کہ جدید رعایا اسے آنکھوں سے اور سینے سے لگا کر رکھتی ہے اور اس کرم نوازی کے شکرانے کے طور پر نفلیں ادا کرتی ہے اور اپنی اولاد کو یہ وصیت اور نصیحت کرتی ہے کہ وہ تاحیات اس کرم نوازی کے لیے کرم کرنے والوں کی آل اولاد کے لیے دعائے خیر کرتے رہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ 2007 کے بعد حاصل ہونے والی آزادی نے ہمارے میڈیا کو اس قدر طاقتور بنادیا ہے کہ 65 سال سے سریا لگی گردنیں بھی اب لچک رہی ہیں۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ اشرافیہ کا طبقہ اب بھی مختلف حیلے بہانوں سے ایسے مجرب نسخے استعمال کر رہا ہے جو رعایا پر اس کے مظالم کو مہربانیوں میں تبدیل کر دیتے ہیں۔ کیا ''ازخود نوٹس'' کی مہربانی کا تعلق بھی ان ہی نسخوں سے ہے؟ ہمارا آزاد میڈیا عوام کے مسائل اور عوام پر ہونے والے مظالم کو تو بھرپور طریقے سے اجاگر کر رہا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ عوام کے ووٹوں پر پلنے والی اشرافیہ کو خادموں کے بجائے آقاؤں کے روپ میں پیش کرکے اور ان کی آل اولاد کو سیاسی ولی عہدوں کا درجہ دے کر ہمارے جدید بادشاہی نظام کی بالواسطہ یا بلاواسطہ پرورش بھی کر رہا ہے۔ اس قسم کی مبہم یا دوغلی ذہنیت کی وجہ یہ نظر آتی ہے کہ ہم ہزاروں سال کی فکری غلامی سے ابھی تک نہیں نکل سکے ہیں اور رعایا سے عوام بننے کے پروسس سے گزر رہے ہیں۔

دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں ''ازخود نوٹس'' کی برخود غلط اصطلاح کا رواج اس لیے ختم ہوگیا ہے کہ ان ملکوں کے عوام رعایا سے عوام بننے کا پروسس مکمل کرچکے ہیں اور انھوں نے اپنے ووٹ کی رسی سیاستدان کی گردنوں میں اس طرح ڈال رکھی ہے کہ ان گردنوں میں سریوں کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہ جاتی۔ ان ملکوں کے سیاسی کلچر کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ حکمران عوام کے خادم اور ملازم ہوتے ہیں اور اس حوالے سے ان کی یہ ذمے داری بنتی ہے کہ وہ اپنے علاقوں کے عوام کے ہر مسئلے سے واقف ہوں اور ان مسئلوں کو اپنی ذمے داری کے طور پر حل کریں نہ کہ رحم اور مہربانی کے طور پر۔ طرز فکر میں ان تبدیلیوں کا براہ راست تعلق سماجی اور سیاسی ترقی سے ہوتا ہے۔ ازخود نوٹس کی توضیح و تشریح کا مقصد کسی اچھے کام کی حوصلہ شکنی ہرگز نہیں بلکہ اس کا واحد مقصد یہ ہے کہ ''ازخود نوٹس لینا'' ہر نوٹس لینے والے کی ذمے داری ہے، مہربانی نہیں۔ اسی طرح نوٹس زدہ مظلوم کو یہ احساس دلانا ہے کہ ازخود نوٹس کے ذریعے اس پر جو توجہ دی جارہی ہے وہ کوئی مہربانی یا خیرات نہیں بلکہ اس کا حق ہے۔

ہمارے سیاسی کلچر میں کسی مسئلے کا مکمل حل تلاش نہیں کیا جاتا بلکہ اس کو جزوی طور پر حل کرکے اس کا پروپیگنڈہ اس طرح کیا جاتا ہے کہ ایک پورا مسئلہ حل کردیا گیا ہے۔ اس کی تازہ مثالیں کچھ نوجوانوں میں لیپ ٹاپ کی تقسیم، آٹو رکشے کا بانٹنا، محتاجوں میں مختلف حوالوں سے ماہانہ ہزار روپوں کی سخاوت، سرکاری زمینوں کی معمولی سی تقسیم ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا چند ہزار لیپ ٹاپ کی تقسیم سے ان چار پانچ کروڑ نوجوانوںکی ضرورت پوری ہوجاتی ہے جو لیپ ٹاپ کے مستحق ہیں؟ کیا ہزار دو ہزار رکشے بانٹنے سے ان لاکھوں بے روزگاروں کی ضرورت پوری ہوجاتی ہے جو بے روزگاری سے تنگ آکر غلط اور تباہ کن راستوں پر جارہے ہیں؟ کیا لاکھ دو لاکھ ایکڑ زمین ہاریوں میں بانٹنے سے وڈیرہ شاہی نظام ختم ہوجائے گا؟ کیا دو چار لاکھ غریبوں کو ماہانہ ایک ہزار روپے دینے سے ملک میں موجود محتاجی اور غربت ختم ہوجائے گی؟ ہرگز نہیں۔ لیکن اشرافیہ ان ادھورے اقدامات کے ذریعے عوام کو یہ تاثر دے رہی ہے کہ وہ عوام پر بڑی مہربانی کر رہی ہے، حالانکہ ان سارے مہربانی کے کاموں میں جو پیسہ استعمال ہورہا ہے وہ عوام کا ہے۔

ادھورے اور پروپیگنڈے کے کاموں میں ایک کام وڈیروں کی نجی جیلوں سے عشروں بعد ہاریوں کے خاندانوں کی رہائی ہے۔ میڈیا یہ تو بتاتا ہے کہ پچاس ہاریوں کو وڈیروں کی جیل سے رہا کرالیا گیا اور محترم عدالت نے انھیں اپنی مرضی سے آزاد زندگی گزارنے کی اجازت دے دی۔ لیکن نجی جیلوں کے مالکان کو سزا دینے کی کوئی خبر میڈیا میں نہیں آتی؟ ہم اور ہمارا معاشرہ جس مقام پر کھڑے ہیں وہ مقام ہر طرف سے استحصال، ظلم، ناانصافی، انتہا پسندی کے شعلوں میں گھرا ہوا مقام ہے۔ ایسی خطرناک صورت حال میں فرائض کو مہربانیوں کی شکل میں پیش کرنا اور خاندانی بادشاہتوں کو جمہوریت کے طور پر پیش کرنا عوام دشمنی کے علاوہ کیا ہوسکتا ہے؟ اب میڈیا کو متضاد اور گتھم گتھا آوازوں کے شور کے بجائے صاف اور اونچی آوازیں پوری قوت سے بولنا چاہئیں تاکہ خادم اور مخدوم کے چہرے صاف نظر آئیں اور عوام درست سمت میں سوچنے کے اہل ہوسکیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں