فیس بُک سے حوالات تک
موبائل فون کی سروس نہ ہونے سے کسی کے گھر طوفان نہیں آیا۔
KARACHI:
رحمن ملک نے دو تین دن موبائل سروس پر پابندی عائد کر دی تو ایک طوفان کھڑا ہو گیا، سب کو اپنی فکر ستانے لگی، ہر ایک اپنا راگ الاپنے لگا سب کے منہ کھل گئے۔ رحمٰن ملک کو اتنا بُرا کہا گیا کہ توبہ۔۔۔۔۔! پر ملک صاحب چپ رہے، سوشل نیٹ ورک پر نجانے کیا کچھ نہیں کہا گیا اور تو اور منچلوں نے اچھے بھلے ملک صاحب کی تصاویر کا بھی خوب حشر کیا۔ ملک صاحب پھر بھی کہتے رہے کہ سیکیورٹی کی وجہ سے موبائل فونز کی سروس نو اور دس محرم کو بند رہے گی۔
یہ سروس رات بارہ بجے کے بعد اور صبح 6 بجے سے پہلے تک کھلی رہی جب کہ بہت سے علاقے اس نعمت سے بھی محروم رہے، لیکن نہ آسمان ٹوٹا اور نہ زمین پھٹی، موبائل فون کی سروس نہ ہونے سے کسی کے گھر طوفان نہیں آیا، کسی کا گھر آگ لگنے سے نہیں جلا' کسی ٹریفک کے حادثے کا خدانخواستہ کوئی زخمی پریشان نہیں ہوا، لیکن ہم بہت ناشکرے ہیں، ذرا نہیں چوکتے، فوراً ترترانے لگتے ہیں اور یہ فیس بُک کی نئی لت کیا لگی کہ دل کے جلے سب فیس بُک اور ٹوئیٹر پر جھونک دیتے ہیں، پر بھلا ہو ان لوگوں کا جو بہت کچھ برداشت کر لیتے ہیں، لوگوں کے طعنے، مذاق، کارٹون اور نجانے کیا کیا کچھ۔
پاکستان دہشت گردی کے ہاتھوں سخت پریشان ہے، یہاں لوگوں کی جان و مال محفوظ نہیں ہے، یہ درست ہے کہ ہم واقعی حالات کے ہاتھوں پریشان ہیں، یہ بم دھماکے جان کا وبال بن گئے ہیں اور خودکش بمبار بن بلائے مہمان بن کر نہ صرف عوام بلکہ قانون نافذ کرنے والوں کے سروں پر بھی خوف کی تلوار بن کر لٹک گئے ہیں۔ ایسے میں چاروں جانب خوف اور دہشت ہو، اپنے پرائے کی پہچان بھی ختم ہو جاتی ہے، اغواء کی وارداتوں میں غیر تو غیر اپنے بھی دشمن بن کر وار کرتے ہیں، ذرا اخبار اٹھا کر پڑھیں یا نیوز چینلز پر ملاحظہ کریں، یہی ہو رہا ہے، ہم اپنے صدر کو بہت بُرا کہتے ہیں، رحمٰن ملک کے سوشل نیٹ ورک پر صدر زرداری کے بارے میں کیا کیا دیکھنے کو ملتا ہے، کارٹون، لطیفے، مزاحیہ شعر، طنز بھرے جملے اور نجانے کیا کیا کچھ، جس کے دل میں جو آتا ہے کہہ دیتا ہے۔
کیا بچہ کیا بڑا، پر کوئی اعتراض نہیں اٹھتا، کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آتی، اس لیے کہ ہمارے یہاں آزادی ہے، ہم آزاد ہیں، کوئی پولیس والا آدھی رات کو ہمارے گھر کا دروازہ نہیں دھڑ دھڑاتا کہ چلو تھانے تم نے فیس بُک پر فلاں فلاں کے بارے میں کیا لکھا یا اسے لائیک کیا؟ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ فیس بُک پر ہمارے تمام سیاستدانوں، فنکاروں اور دوسری مشہور شخصیات کے متعلق نجانے کیا کچھ ہم پڑھتے رہتے ہیں، لیکن کوئی گرفتاری یا ہراساں کرنے والی بات ان تمام فضولیات لکھنے والوں اور پسند کرنے والوں کے خلاف سنائی نہیں دیتی، پھر بھی ہم اپنے آپ کو صراحت پسند کہتے ہیں، یہ زیادتی ہے، ابھی ہم اتنے بھی صراحت پسند نہیں ہیں، ہماری لگامیں تو بہت دور دور تک کھلی ہوئی ہیں۔
حال ہی میں بال ٹھاکرے اس دنیا سے رخصت ہوئے، موصوف نے جو کچھ انڈیا میں غیر ہندوؤں کے ساتھ کیا اس تاریخ سے کون واقف نہیں؟ یہ الگ بات ہے کہ ان کی اپنی پوتی نے بھی ایک مسلمان لڑکے سے شادی کی، لیکن شاید ان کی ناپسندیدگی صرف ان لوگوں کے لیے تھی جو ان کی ذات پات، برادری کے اصولوں پر پورا اترتی تھی، اب چاہے وہ مسلمان ہو یا عیسائی، مخالف ہونا ضروری تھا۔ ویسے تو کوئی سرکاری کرسی ان کے پاس نہ تھی، لیکن جب دنیا سے گزرے تو ان کے غم میں شہر بھر کی دکانیں بند کرا دی گئیں اور یہ بات بہت سے پڑھے لکھے لوگوں کو ناگوار گزری اور جس طرح ہمارے لوگ فیس بُک پر نجانے کیا کچھ لکھتے رہتے ہے ایسے ہی اکیس بائیس سالہ شاہین ڈھڈا نے بھی لکھ ڈالا۔
لیکن اتنا برا بھی نہیں جتنا کہ ہماری نئی نسل صدر زرداری اور رحمٰن ملک کے لیے لکھتی رہی ہے، شاہین کی سہیلی رینو کی غلطی اتنی تھی کہ اس نے نہ صرف اپنی سہیلی کی بات کو (لائیک) کلک کر دیا، ابھی تو بے چاری نے اپنے خیالات کا اظہار بھی نہ کیا تھا، بس پھر کیا تھا پولیس حرکت میں آ گئی، شاید اسی لیے بھی کہ یہ حرکت بال ٹھاکرے کی ناپسندیدہ قوم کی لڑکی کی جانب سے کی گئی تھی، بس شاہین اور رینو کو دھر لیا گیا، ٹی وی پر خبریں چلیں، لڑکیوں کے بیانات آئے، معافی تلافی ہوئی اور پھر جان بخشی ہوئی۔ ایک غیر سرکاری انسان کی شان میں معمولی سی بے ادبی تھی یا شاہین کے اپنے کھلے ذہن کے خیالات کو لگام لگانا ضروری سمجھا گیا اور لگام لگی تو ایسی کہ اس جیسے بہت سے نوجوان خوفزدہ بھی ہوئے اور بلبلائے بھی، لیکن غصے سے۔
شاہین ڈھڈا کا کیس میڈیا پر سامنے آیا تو ممبئی کے ہی دو اچھے بھلے انسان وی راڈ اور مایانک (Mayank) میں بھی ہمت پیدا ہوئی اور انھوں نے پہلی بار میڈیا کے سامنے آ کر اپنا دکھڑا رویا۔ پچھلے برس ان دونوں حضرات نے جو اچھی خاصی ملازمت کرتے تھے فیس بُک پر کانگریس کے رہنماؤں کے خلاف کچھ ناگوار خیالات کا اظہار کر دیا، بس پھر کیا تھا، حکومتی ادارے حرکت میں آ گئے اور 2011ء مئی میں انھیں گرفتار کر لیا گیا۔ رات ایک بجے کسی خطرناک مجرم کی طرح اچانک پولیس نے ان کے گھر پر چھاپہ مارا، ہتھیاروں سے لیس پولیس موبائل کسی شریف آدمی کے گھر پر ریڈ کرے تو معاشرے میں اس کی کیا عزت رہ جاتی ہے یہی کہ موصوف نے ضرور کوئی بڑا جرم کیا، قتل، ڈکیتی یا بدعنوانی، لیکن ان تمام جرائم میں سے تو ایسا کچھ بھی نہ تھا۔
دونوں اشخاص کو پولیس نے بارہ دن تک اپنی حراست میں رکھا اور پھر کہیں جا کر ضمانت پر انھیں رہائی ملی، دونوں بے چارے اپنی نوکری سے بھی فارغ کر دیے گئے اور ان کے پاسپورٹ بھی ضبط کر لیے گئے۔ 2011ء مئی کے بعد سے اب نومبر 2012ء میں ان دونوں نے بہت سوچ بچار کے بعد اپنے لب کھولے۔ کیا واقعی ان دونوں کے جرم اتنے ہی بڑے تھے کہ انھیں حوالات میں قید کیا جاتا اور نوکریوں سے برخاست کیا جاتا؟ شاہین ڈھڈا کے کیس کے بعد یہ دوسرا کیس میڈیا کے سامنے آیا تو بھارت کے وزیر سبل نے اس سلسلے میں اتنا ہی کہا کہ ابھی اس قانون میں مزید اصلاحات کی ضرورت ہے، لیکن ان اصلاحات کو کب نافذ کیا جائے گا اس بات کا ابھی کچھ علم نہیں، بھارت جیسے سیکولر ملک میں جہاں ویسے تو شخصی اور مذہبی آزادی کا بڑا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے، لیکن آئی ٹی ٹیکنالوجی میں اتنی ترقی کرنے کے بعد اس قسم کی قدغن لگانا کچھ مضحکہ خیز سا لگتا ہے۔
اس سے یہ بات تو واضح ہو گئی کہ طاقت کا غلط استعمال اور سرکار کے خلاف لب کھولنے والوں کے لیے بھارتی حکومت کے پاس سب داؤ پیچ ہیں۔ اگر پاکستان میں بھی اسی طرح کی صورتحال پیدا کر دی جائے تو ذرا سوچیے ہر دوسرے گھر میں گرفتاری عمل میں آئے گی اس لیے بہت سے لطیفے، تصاویر اور دلچسپ مزاحیہ شعروں کو پسند کر کے کلک دبانے کی غلطی تو آپ نے بھی کی ہے اور ہم نے بھی۔ اب اتنا تو ہم مان گئے کہ ابھی ہمارے ملک میں اتنا بھی اندھیر نہیں ہے۔ مگر اس کے باوجود یہ کہا گیا کہ
اس آزادی نے مجھ کو کیا دیا ہے
فقط آزاد ہو کر رہ گیا ہوں
رحمن ملک نے دو تین دن موبائل سروس پر پابندی عائد کر دی تو ایک طوفان کھڑا ہو گیا، سب کو اپنی فکر ستانے لگی، ہر ایک اپنا راگ الاپنے لگا سب کے منہ کھل گئے۔ رحمٰن ملک کو اتنا بُرا کہا گیا کہ توبہ۔۔۔۔۔! پر ملک صاحب چپ رہے، سوشل نیٹ ورک پر نجانے کیا کچھ نہیں کہا گیا اور تو اور منچلوں نے اچھے بھلے ملک صاحب کی تصاویر کا بھی خوب حشر کیا۔ ملک صاحب پھر بھی کہتے رہے کہ سیکیورٹی کی وجہ سے موبائل فونز کی سروس نو اور دس محرم کو بند رہے گی۔
یہ سروس رات بارہ بجے کے بعد اور صبح 6 بجے سے پہلے تک کھلی رہی جب کہ بہت سے علاقے اس نعمت سے بھی محروم رہے، لیکن نہ آسمان ٹوٹا اور نہ زمین پھٹی، موبائل فون کی سروس نہ ہونے سے کسی کے گھر طوفان نہیں آیا، کسی کا گھر آگ لگنے سے نہیں جلا' کسی ٹریفک کے حادثے کا خدانخواستہ کوئی زخمی پریشان نہیں ہوا، لیکن ہم بہت ناشکرے ہیں، ذرا نہیں چوکتے، فوراً ترترانے لگتے ہیں اور یہ فیس بُک کی نئی لت کیا لگی کہ دل کے جلے سب فیس بُک اور ٹوئیٹر پر جھونک دیتے ہیں، پر بھلا ہو ان لوگوں کا جو بہت کچھ برداشت کر لیتے ہیں، لوگوں کے طعنے، مذاق، کارٹون اور نجانے کیا کیا کچھ۔
پاکستان دہشت گردی کے ہاتھوں سخت پریشان ہے، یہاں لوگوں کی جان و مال محفوظ نہیں ہے، یہ درست ہے کہ ہم واقعی حالات کے ہاتھوں پریشان ہیں، یہ بم دھماکے جان کا وبال بن گئے ہیں اور خودکش بمبار بن بلائے مہمان بن کر نہ صرف عوام بلکہ قانون نافذ کرنے والوں کے سروں پر بھی خوف کی تلوار بن کر لٹک گئے ہیں۔ ایسے میں چاروں جانب خوف اور دہشت ہو، اپنے پرائے کی پہچان بھی ختم ہو جاتی ہے، اغواء کی وارداتوں میں غیر تو غیر اپنے بھی دشمن بن کر وار کرتے ہیں، ذرا اخبار اٹھا کر پڑھیں یا نیوز چینلز پر ملاحظہ کریں، یہی ہو رہا ہے، ہم اپنے صدر کو بہت بُرا کہتے ہیں، رحمٰن ملک کے سوشل نیٹ ورک پر صدر زرداری کے بارے میں کیا کیا دیکھنے کو ملتا ہے، کارٹون، لطیفے، مزاحیہ شعر، طنز بھرے جملے اور نجانے کیا کیا کچھ، جس کے دل میں جو آتا ہے کہہ دیتا ہے۔
کیا بچہ کیا بڑا، پر کوئی اعتراض نہیں اٹھتا، کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آتی، اس لیے کہ ہمارے یہاں آزادی ہے، ہم آزاد ہیں، کوئی پولیس والا آدھی رات کو ہمارے گھر کا دروازہ نہیں دھڑ دھڑاتا کہ چلو تھانے تم نے فیس بُک پر فلاں فلاں کے بارے میں کیا لکھا یا اسے لائیک کیا؟ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ فیس بُک پر ہمارے تمام سیاستدانوں، فنکاروں اور دوسری مشہور شخصیات کے متعلق نجانے کیا کچھ ہم پڑھتے رہتے ہیں، لیکن کوئی گرفتاری یا ہراساں کرنے والی بات ان تمام فضولیات لکھنے والوں اور پسند کرنے والوں کے خلاف سنائی نہیں دیتی، پھر بھی ہم اپنے آپ کو صراحت پسند کہتے ہیں، یہ زیادتی ہے، ابھی ہم اتنے بھی صراحت پسند نہیں ہیں، ہماری لگامیں تو بہت دور دور تک کھلی ہوئی ہیں۔
حال ہی میں بال ٹھاکرے اس دنیا سے رخصت ہوئے، موصوف نے جو کچھ انڈیا میں غیر ہندوؤں کے ساتھ کیا اس تاریخ سے کون واقف نہیں؟ یہ الگ بات ہے کہ ان کی اپنی پوتی نے بھی ایک مسلمان لڑکے سے شادی کی، لیکن شاید ان کی ناپسندیدگی صرف ان لوگوں کے لیے تھی جو ان کی ذات پات، برادری کے اصولوں پر پورا اترتی تھی، اب چاہے وہ مسلمان ہو یا عیسائی، مخالف ہونا ضروری تھا۔ ویسے تو کوئی سرکاری کرسی ان کے پاس نہ تھی، لیکن جب دنیا سے گزرے تو ان کے غم میں شہر بھر کی دکانیں بند کرا دی گئیں اور یہ بات بہت سے پڑھے لکھے لوگوں کو ناگوار گزری اور جس طرح ہمارے لوگ فیس بُک پر نجانے کیا کچھ لکھتے رہتے ہے ایسے ہی اکیس بائیس سالہ شاہین ڈھڈا نے بھی لکھ ڈالا۔
لیکن اتنا برا بھی نہیں جتنا کہ ہماری نئی نسل صدر زرداری اور رحمٰن ملک کے لیے لکھتی رہی ہے، شاہین کی سہیلی رینو کی غلطی اتنی تھی کہ اس نے نہ صرف اپنی سہیلی کی بات کو (لائیک) کلک کر دیا، ابھی تو بے چاری نے اپنے خیالات کا اظہار بھی نہ کیا تھا، بس پھر کیا تھا پولیس حرکت میں آ گئی، شاید اسی لیے بھی کہ یہ حرکت بال ٹھاکرے کی ناپسندیدہ قوم کی لڑکی کی جانب سے کی گئی تھی، بس شاہین اور رینو کو دھر لیا گیا، ٹی وی پر خبریں چلیں، لڑکیوں کے بیانات آئے، معافی تلافی ہوئی اور پھر جان بخشی ہوئی۔ ایک غیر سرکاری انسان کی شان میں معمولی سی بے ادبی تھی یا شاہین کے اپنے کھلے ذہن کے خیالات کو لگام لگانا ضروری سمجھا گیا اور لگام لگی تو ایسی کہ اس جیسے بہت سے نوجوان خوفزدہ بھی ہوئے اور بلبلائے بھی، لیکن غصے سے۔
شاہین ڈھڈا کا کیس میڈیا پر سامنے آیا تو ممبئی کے ہی دو اچھے بھلے انسان وی راڈ اور مایانک (Mayank) میں بھی ہمت پیدا ہوئی اور انھوں نے پہلی بار میڈیا کے سامنے آ کر اپنا دکھڑا رویا۔ پچھلے برس ان دونوں حضرات نے جو اچھی خاصی ملازمت کرتے تھے فیس بُک پر کانگریس کے رہنماؤں کے خلاف کچھ ناگوار خیالات کا اظہار کر دیا، بس پھر کیا تھا، حکومتی ادارے حرکت میں آ گئے اور 2011ء مئی میں انھیں گرفتار کر لیا گیا۔ رات ایک بجے کسی خطرناک مجرم کی طرح اچانک پولیس نے ان کے گھر پر چھاپہ مارا، ہتھیاروں سے لیس پولیس موبائل کسی شریف آدمی کے گھر پر ریڈ کرے تو معاشرے میں اس کی کیا عزت رہ جاتی ہے یہی کہ موصوف نے ضرور کوئی بڑا جرم کیا، قتل، ڈکیتی یا بدعنوانی، لیکن ان تمام جرائم میں سے تو ایسا کچھ بھی نہ تھا۔
دونوں اشخاص کو پولیس نے بارہ دن تک اپنی حراست میں رکھا اور پھر کہیں جا کر ضمانت پر انھیں رہائی ملی، دونوں بے چارے اپنی نوکری سے بھی فارغ کر دیے گئے اور ان کے پاسپورٹ بھی ضبط کر لیے گئے۔ 2011ء مئی کے بعد سے اب نومبر 2012ء میں ان دونوں نے بہت سوچ بچار کے بعد اپنے لب کھولے۔ کیا واقعی ان دونوں کے جرم اتنے ہی بڑے تھے کہ انھیں حوالات میں قید کیا جاتا اور نوکریوں سے برخاست کیا جاتا؟ شاہین ڈھڈا کے کیس کے بعد یہ دوسرا کیس میڈیا کے سامنے آیا تو بھارت کے وزیر سبل نے اس سلسلے میں اتنا ہی کہا کہ ابھی اس قانون میں مزید اصلاحات کی ضرورت ہے، لیکن ان اصلاحات کو کب نافذ کیا جائے گا اس بات کا ابھی کچھ علم نہیں، بھارت جیسے سیکولر ملک میں جہاں ویسے تو شخصی اور مذہبی آزادی کا بڑا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے، لیکن آئی ٹی ٹیکنالوجی میں اتنی ترقی کرنے کے بعد اس قسم کی قدغن لگانا کچھ مضحکہ خیز سا لگتا ہے۔
اس سے یہ بات تو واضح ہو گئی کہ طاقت کا غلط استعمال اور سرکار کے خلاف لب کھولنے والوں کے لیے بھارتی حکومت کے پاس سب داؤ پیچ ہیں۔ اگر پاکستان میں بھی اسی طرح کی صورتحال پیدا کر دی جائے تو ذرا سوچیے ہر دوسرے گھر میں گرفتاری عمل میں آئے گی اس لیے بہت سے لطیفے، تصاویر اور دلچسپ مزاحیہ شعروں کو پسند کر کے کلک دبانے کی غلطی تو آپ نے بھی کی ہے اور ہم نے بھی۔ اب اتنا تو ہم مان گئے کہ ابھی ہمارے ملک میں اتنا بھی اندھیر نہیں ہے۔ مگر اس کے باوجود یہ کہا گیا کہ
اس آزادی نے مجھ کو کیا دیا ہے
فقط آزاد ہو کر رہ گیا ہوں