سارک کی بے عملی
قومی مفادات کی برتری کے حوالے سے تقسیم دنیا میں علاقائی مفادات پر مشتمل تنظیموں نے علاقائی مسائل حل کرنے کی کوششیں کیں
قومی مفادات کی برتری کے حوالے سے تقسیم دنیا میں علاقائی مفادات پر مشتمل تنظیموں نے علاقائی مسائل حل کرنے کی کوششیں کیں لیکن یہ کوششیں محض جزوی طور پر ہی کامیاب ہو سکیں یا پھر ناکام ہو گئیں۔ سارک جنوبی ایشیا کے ملکوں کی تنظیم ہے جس کا بنیادی مقصد ممبر ملکوں کی اقتصادی ترقی میں معاونت کرنا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قومی مفادات کے نامعقول کلچر کو علاقائی تنظیموں کی وجہ سے کچھ ترقی کے مواقع فراہم ہوئے لیکن سارک جیسی علاقائی تنظیمیں اپنے ممبر ملکوں کی اقتصادی ترقی میں نمایاں کردار اس لیے ادا نہیں کر سکیں کہ تنظیم کے دو بڑے ملکوں ہندوستان، پاکستان کے درمیان سیاسی اختلافات کی وجہ سے سارک ہمیشہ بے عملی کا شکار رہی، علاقائی تنظیمیں اس وقت کامیاب ہو سکتی ہیں جب ان کے درمیان سیاسی اختلافات نہ ہوں یا کم از کم سیاسی اختلافات کو ثانوی حیثیت حاصل ہو۔
بدقسمتی یا حکمرانوں کی تنگ نظری کی وجہ سے علاقائی مسائل حل ہونے میں دشواریاں لاحق ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کشمیر کا مسئلہ سب سے بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے اور اس مسئلے کی بنیاد نام نہاد قومی مفادات ہیں، سرمایہ دارانہ نظام نے جس ''قومی مفادات'' کے فلسفے کو جنم دیا ہے یہی فلسفہ ملکوں کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ قومی مفادات کا حقیقی مطلب اشرافیائی مفادات ہیں۔ مثلاً اگر کشمیر کا مسئلہ کشمیریوں کی مرضی کے مطابق حل ہوتا ہے تو دونوں ملکوں کے عوام کو اس حل سے کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا لیکن سرمایہ دارانہ معیشت کے حامل ملکوں میں اشرافیائی مفادات کو اولیت حاصل ہے اور ان مفادات کے تحفظ کے لیے قومی ریاستوں کا تصور ضروری ہے لہٰذا قومی ریاستیں قومی مفادات کا پرچم ہاتھ میں تھام کر قومی مفادات کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔
قومی مفادات کے تانے بانے براہ راست سرمایہ دارانہ مفادات سے وابستہ ہوتے ہیں مثلاً ہندوستان اور پاکستان مسئلہ کشمیر کو قومی مفادات سے وابستہ کرتے ہیں تو بالواسطہ طور پر قومی مفادات کے تحفظ کا مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے اور جب قومی مفادات کا مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے تو قومی سلامتی پہلی ضرورت بن جاتی ہے اور قومی سلامتی کے لیے بڑی فوج اور ہتھیاروں کی ضرورت ناگزیر ہو جاتی ہے اور ہتھیار مغرب کے ترقیاتی ملکوں کی بنیادوں کی صنعت کی پیداوار ہیں۔ ہتھیاروں کی صنعت پر جو کھربوں ڈالر کا سرمایہ لگا ہوا ہے وہ سرمایہ نہ کسی مزدور نے لگایا ہے، نہ کسان نے، نہ غریب طبقات نے، یہ بھاری سرمایہ بڑے سرمایہ داروں کا لگایا ہوا ہے جس سے سرمایہ کار اربوں ڈالر کا منافع حاصل کرتے ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان کا شمار دنیا کے پسماندہ ترین ملکوں میں ہوتا ہے جہاں 80 فیصد آبادی دو وقت کی روٹی کے لیے محتاج ہے۔ ایسے پسماندہ ملکوں میں دفاع کے نام پر اربوں ڈالر لٹانا غریب طبقات کی غربت میں اضافے کے علاوہ کیا ہو سکتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ علاقائی تنظیموں کے قیام سے قومی مفادات علاقائی مفادات میں بدل جاتے ہیں لیکن علاقائی مفادات اس وقت بامعنی ہوتے ہیں جب علاقائی تنظیموں کے ممبر ممالک کے درمیان علاقائی جھگڑے نہ ہوں۔ اگر علاقائی تنظیموں کے ارکان کے درمیان علاقائی تنازعات پیدا ہو جاتے ہیں تو ایسی تنظیمیں ناکامی اور انتشار کا شکار ہو جاتی ہیں۔ سارک کی تنظیم بے شک جنوبی ایشیا کے غریب ملکوں کی ترقی میں ایک موثر کردار ادا کر سکتی ہے لیکن بھارت اور پاکستان کے درمیان موجود سیاسی اختلافات نے سارک کی ترقی کا پہیہ جام کر رکھا ہے، حال ہی میں اسلام آباد میں ہونے والی سارک کے وزرائے داخلہ کی کانفرنس بھی دونوں ملکوں کے درمیان موجود اختلافات کی نذر ہو گئی۔
ہتھیاروں کی خرید و فروخت میں جہاں سامراجی ملکوں کے سرمایہ داروں کو اربوں کا فائدہ ہوتا ہے وہیں ہتھیار کے خریدار ملکوں کے سول اور فوجی اشرافیہ بھی اربوں روپوں کی کرپشن کا ارتکاب کرتی ہے، ان سودوں میں کمیشن اور کک بیکس کے نام پر اشرافیہ اربوں روپے کما لیتی ہے۔ آج ہمارے ملک میں کرپشن کی جو وبا پھیلی ہوئی ہے اس میں بالواسطہ طور پر کمیشن اور کک بیکس کا بڑا حصہ شامل ہے۔ بھارت کے حکمران طبقے نے کشمیر کو قومی مفادات کا ایک فراڈ حصہ بنا کر رکھ دیا ہے اور یہ تنازعہ دونوں ملکوں کے ڈیڑھ ارب کے لگ بھگ عوام کی غربت میں اضافے کا سبب بن رہا ہے اور سامراجی ملک دونوں ملکوں کے اختلافات کو اپنے سیاسی اور معاشی فائدوں کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ بھارت سے امریکا کا دفاعی معاہدہ چین کے خلاف بھارت کی حمایت ان ہی سامراجی مفادات کا ایک حصہ ہے۔
ہم یہاں پاکستان کا حوالہ اس لیے نہیں دے سکتے کہ پاکستان لیاقت علی خان مرحوم کے دور ہی سے امریکا کا باجگزار ملک بنا ہوا ہے، بغداد پیکٹ، سیٹو، سینٹو جیسے فوجی گٹھ جوڑ کا پاکستان ایک محرک فریق رہا ہے اور یہ سارے فوجی معاہدے سوشلسٹ بلاک کے اور بالواسطہ طور پر سوشلسٹ معیثت کے خلاف رہے ہیں۔ اس مسئلے کے حل میں دونوں ملکوں کے عوام اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ لیکن مسئلہ کشمیر کو ایک ہوا بنا کر دونوں ملکوں کے عوام کے ایک دوسرے سے آزادانہ میل جول پر ویزا پاسپورٹ کے ایسے سخت پہرے بٹھا دیے ہیں کہ دونوں ملکوں کے عوام کا ایک دوسرے سے ملنا ناممکن بنا دیاگیا ہے۔ علاقائی تنظیمیں اگرچہ ملکوں کی ترقی میں ایک کردار ادا کر سکتی ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ کسی بھی ترقی کے ثمرات کو عوام تک پہنچنے نہیں دیا جاتا، خواہ وہ سارک ہو یا اقتصادی راہداری کا منصوبہ اس قسم کے منصوبے اشرافیہ کی لوٹ مار کا ذریعہ تو بن سکتے ہیں لیکن عوام کی خوشحالی کا ذریعہ نہیں بن سکتے۔