کوٹہ سسٹم کا خاتمہ نوشتہ دیوار ہے

جو کام سیاستدانوں کے کرنے کا تھا اس پر ان کے منہ پر سیاسی مصلحت کے تالے پڑے رہے

najmalam.jafri@gmail.com

جو کام سیاستدانوں کے کرنے کا تھا اس پر ان کے منہ پر سیاسی مصلحت کے تالے پڑے رہے مگر جو ذاتی مفاد اور سیاسی بازی گری سے لاتعلق ہیں انھوں نے وہ کام کردیا، یعنی ڈی جی رینجرز بلال اکبر نے کوٹہ سسٹم کو کراچی اور سندھ کی بدامنی کی اصل وجہ قرار دیتے ہوئے، اہلیت پر ملازمتیں دینے کی ضرورت پر زور دیا۔ تو اب ہر ایک کو یاد آیا کہ سندھ میں تقریباً چالیس سال سے یہ غیر منصفانہ نظام رائج ہے۔ اس سلسلے میں سیاستدانوں کی مصلحت کا تو کچھ جواز بنتا ہے مگر صحافت کا نہیں۔ آج جو صحافی اس موضوع پر (مجھ سمیت) لکھ رہے ہیں انھیں پہلے کیوں خیال نہ آیا؟ مگر خیر دیر سے ہی سہی اور کسی کی بھی وجہ سے اس موضوع پر غور و فکر کا آغاز تو ہوا۔

اس بحث سے قطع نظر کہ کوٹہ سسٹم کس نے نافذ کیا؟ کیوں کیا؟ یقیناً نیت صاف ہوگی، کچھ وقتی تقاضے ہوں گے، دس سال کی مدت اس نظام کا نفاذ کوئی بڑا مسئلہ نہیں تھا مگر اس کی غیر ضروری طوالت نے انتہائی غیر مناسب بلکہ غیر حقیقی اثرات مرتب کیے۔ اگر دیہی سندھ میں تعلیم کا فقدان تھا تو اس کا علاج کوٹہ سسٹم نہ تھا، بلکہ وہاں تعلیمی ادارے قائم کرنا، اچھے اور مخلص اساتذہ کو ترجیحی مراعات فراہم کرکے وہاں معیار تعلیم کو بہتر بنانا اور ہر ضلع کی سطح پر وہاں کے افراد کو بہترین تعلیمی سہولیات مہیا کرنا اس کا حل تھا۔ کوٹہ سسٹم کے نفاذ سے جو فوائد حاصل کرنا مقصد تھے ان کے بجائے نقصان ہی ہوا۔ کیونکہ اس نظام کے تحت غیر تعلیم یافتہ افراد، نااہل، ملکی و غیر ملکی جدید علوم سے ناآشنا افراد کو محض شہری پڑھے لکھے، مہذب، باشعور اور حالات حاضرہ سے واقف لوگوں پر ترجیح دی گئی۔ اس طرح ملک کے تمام اداروں کو سفارشی نااہلوں کے حوالے کرکے تباہ کیا گیا جو بتدریج پورے ملکی حالات کے انحطاط کا باعث بنا۔

یہ بات بھی قابل غور ہے کہ یہ نظام محض صوبہ سندھ ہی میں نافذ کیا گیا جب کہ دوسرے صوبے اس سے مستثنیٰ رہے جب کہ دیہی علاقے تو تمام ہی صوبوں میں ہیں اور سب کی حالت یکساں ہی ہے مگر لگتا ہے کہ سندھ میں کوٹہ سسٹم کا نفاذ دیہی عوام کی ترقی و بہتری کے بجائے صرف غیر سندھی یا نئے سندھیوں کو پیچھے دھکیلنے کے لیے رائج کیا گیا تھا۔ کیونکہ دیہی علاقوں کے حالات میں کوئی واضح بہتری بھی سامنے نہ آسکی۔ رہی دوسرے صوبوں کی بات تو وہاں کوٹہ سسٹم کے نفاذ کے بغیر بھی یہی کام جاگیرداروں اور ان کے منظور نظر ٹولے نے محض جاگیردار، سردار اور چوہدری صاحبان کی خوشی کی خاطر ان کے اقربا، پسندیدہ، نااہل افراد کو باصلاحیت اور اہل افراد پر ترجیح دے کر کردیا۔ اصل مسئلہ درحقیقت وہ بدنیتی ہے جو حقدار کا حق چھین کر اپنے مفادات سے وابستہ افراد کو حقدار بنانے کا ہے۔ اسلام معاشرتی بگاڑ کی بنیاد حق کو حقدار سے چھیننے کے عمل کو قرار دیتا ہے مگر اب تومذہب بھی دنیاوی مصلحتوں اور نظریہ ضرورت کا نام رہ گیا ہے، معاذ اللہ۔


آج کل آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت غدار بنانے کی فیکٹری کی کارکردگی عروج پر ہے، جس نے حکومت اور اس کے کارندوں کے خلاف ایک لفظ ادا کیا اس کو غدار قرار دینا ایک عام بات ہوگئی ہے۔ مگر جو اپنی جاگیریں بڑھانے اور اپنے اختیارات بچانے بلکہ ان کا ناجائز استعمال کرنے کے اقدامات کریں، ان کو آرٹیکل چھ کے تحت گرفت میں نہ لانا بھی ایک طرح کی نہیں بلکہ اصل غداری ہے، جس کو ہمارے وطن عزیز میں عین حب الوطنی قرار دیا جاتا ہے اور اس عمل میں سیاستداں ہی نہیں دوسرے لوگ بھی شریک ہیں۔ ہمارے ایک معتبر سینئر صحافی معاصر اخبار میں لکھتے ہیں کہ ''عوامی لیگ جب بنگالیوں کی حق تلفی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے مذموم پروپیگنڈے میں مصروف تھی''۔ گویا یہ حقیقت نہ تھی محض پروپیگنڈا تھا۔

تاریخ اور حقائق کو جب پڑھے لکھے بلکہ حکومت کے چوتھے ستون کی طرف سے مسخ کرنے کی یوں باضابطہ کوشش کی جائے گی تو ملک سدھار کی بجائے بگاڑ کی سمت ہی گامزن ہوگا، کیونکہ یہ تو طے ہے کہ ''حقیقت چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے''۔ صحافت کا فرض حکمرانوں اور تمام ملکی ذمے دار اداروں کے غلط اقدام کے خلاف بھرپور آواز اٹھانا ہے نہ کہ ان پر پردہ ڈالنا اور خود کو بے حد شفاف، غیر جانبدار اور محب وطن ظاہر کرنا؟ جب کہ یہی حضرات جب چاہیں خود اقرار کریں کہ ''سقوط ڈھاکہ ہمارے رویوں کے باعث رونما ہوا'' یعنی ابن الوقتی ہی معتبر صحافت قرار پاتی ہے اس پر مستزاد وہ سمجھتے ہیں کہ عوام اور قارئین کا حافظہ اس قدر ناقص ہے کہ وہ بھول گئے ہوں گے کہ کل ان کے خیالات کیا تھا۔ غرض جس کو دیکھو غیر ذمے دارانہ سرگرمیوں میں مصروف ہے۔

بڑے ممالک، بڑی طاقتیں دنیا کا نقشہ تبدیل کرنے پر تلی بیٹھی ہیں اور ہم ہیں کہ سربراہ مملکت سے لے کر عوام کے ہر طبقے تک حالات پر نظر رکھنے کے بجائے ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں اور عذر یہ کہ یہ سب ملکی مفاد کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ مگر افسوس 70 سال میں صد فی صد شرح خواندگی کے بجائے جہالت کو برقرار رکھنا ہمارے شہنشاہی نظام حکومت کی مجبوری ہے۔ اگر پوری قوم کم ازکم بنیادی تعلیم ہی حاصل کرلیتی تو اقتدار اور دولت محض چند ہاتھوں میں مرتکز ہوسکتا تھا؟ کوئی بھی سسٹم چاہے وہ کوٹہ سسٹم ہی کیوں نہ ہو، دیہی عوام جو اپنے اپنے وڈیرے، جاگیردار یا سردار کے زیر اثر ہیں وہ اس وقت تک کسی بھی نظام سے فیض یاب نہیں ہوسکتے جب تک ملک میں جاگیردارانہ نظام ختم اور عوامی نظام حکومت حقیقی معنوں میں رائج نہ ہوجائے۔ جمہوریت کے نام پر چند افراد کی آمریت اور جمہور کی تذلیل کا نظام جاری رہے گا تو صورتحال میں کوئی تبدیلی رونما ہونا دیوانے کے خواب کے برابر ہے۔

سیاستدان تو اپنے مفاد کے پیش نظر اس انداز فکر کو اپنانے کی کوشش بھی نہیں کرسکتے مگر ڈی جی رینجرز بلال اکبر نے جو بات کہی ہے وہ نوشتہ دیوار ہے۔ حکمرانوں کی جانب سے دکھاوے کی کارکردگی کے بجائے عملی اقدامات ناگزیر ہوچکے ہیں کیونکہ بیرونی دشمنوں کا مقابلہ اندرون ملک امن و امان اور ملی یکجہتی کے بغیر ناممکن ہے۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب تمام صوبوں کے عوام کو یکساں مواقع فراہم کیے جائیں اور کوئی بھی احساس محرومی یا احساس کمتری کا شکار نہ ہو۔
Load Next Story