قربانی بنی نمائش و کاروبار
بڑھتی مہنگائی کے ساتھ اب قربانی کے جانوروں کی قیمتیں اب ہر سال بڑھتے بڑھتے پہنچ سے باہر ہوچکی ہیں۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے رب کے حضور اپنے بیٹے کی جو قربانی پیش کی تھی اس کی پیروی میں دنیا بھر کے مسلمان عیدالاضحیٰ کے موقع پر مقررہ جانوروں کی قربانی کرتے ہیں جسے سنت ابراہیمی کہا جاتا ہے۔
اس قربانی کی اللہ کے یہاں صرف نیت دیکھی جاتی ہے جب کہ ذبح کیے گئے جانوروں کا گوشت تین حصوں میں تقسیم کرکے بانٹ لیا جاتا ہے جس کا بڑا حصہ ذاتی ضرورت کے لیے بھی استعمال کرلیا جاتا ہے اور عزیزوں اور غریبوں میں بھی تقسیم کرنے کا حکم ہے۔ بڑھتی مہنگائی کے ساتھ اب قربانی کے جانوروں کی قیمتیں اب ہر سال بڑھتے بڑھتے پہنچ سے باہر ہوچکی ہیں۔ کیونکہ اب جانوروں کی پرورش انتہائی منافع بخش کاروبار بن چکی ہے جس میں سرمایہ دار سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ پہلے گاؤں دیہاتوں یا چھوٹے شہروں میں لوگ قربانی کے جانور پالتے تھے اور مناسب منافع پر فروخت کردیتے تھے اور قربانی کی استطاعت رکھنے والے افراد جانور خرید کر سنت ابراہیمی ادا کرتے تھے۔
اب گوشت تو کیا سبزیاں اور دالیں ہی بے حد مہنگی ہوچکی ہیں اور قربانی کا مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ جو لوگ غریب ہیں اور قربانی کی مالی حیثیت نہیں رکھتے انھیں عید قرباں پر کھانے کے لیے گوشت میسر آجائے۔ حقیقی غریبوں کے پاس ریفریجریٹر اور فریج تو ہوتے ہی نہیں، اگر انھیں ضرورت سے زیادہ گوشت مل جائے تو وہ اسے سکھا کر کسی طرح محفوظ کرلیتے ہیں جو کچھ عرصہ چل جاتا ہے اور غریبوں کو سال میں کچھ دن گوشت کھانے کا موقع مل جاتا ہے اور وہ اللہ کا شکر ادا کرکے عمر گزار دیتے ہیں۔
قربانی کے جانوروں کی ملک میں کمی نہیں مگر جب سے قربانی کے جانوروں کو انتہائی منافع بخش کاروبار بنایا گیا ہے تب سے اب سرمایہ داروں نے کیٹل فارم قائم کرلیے ہیں۔ جہاں سال بھر وہ ملک کے مختلف علاقوں کے مشہور جانور پالتے ہیں اور عیدالاضحیٰ کے موقع پر بڑے شہروں میں قائم ہونے والی سرکاری مویشی منڈیوں میں خوبصورت ٹینٹ لگا کر منہ مانگے نرخوں پر فروخت کرتے ہیں۔ ملک کے مختلف علاقے جانوروں کے سلسلے میں مشہور ہیں اور وہاں ہر ہفتے مقررہ دنوں پر مویشی منڈیاں لگتی ہیں۔
اندرون سندھ ضلع نوابشاہ کے تعلقے دوڑ میں ہر ہفتہ لگنے والی مویشی منڈی بکروں کے سلسلے میں خاص طور پر مشہور ہے، جہاں راقم کو گزشتہ سال اور اس سال جانے کا اتفاق ہوا۔ قریبی دوست کے ساتھ جانوروں کی خریداری دیکھی۔ کراچی، لاہور، کوئٹہ، پشاور، حیدرآباد ودیگر بڑے شہروں کے لوگ بڑی تعداد میں بکرے خریدنے دوڑ آتے ہیں، جو تجارتی مقصد سے یا بڑی تعداد میں قربانی کی سستی خریداری کرنا چاہتے ہیں، مگر اب دوڑ سمیت ملک کی دیگر مویشی چھوٹے شہروں کی منڈیوں میں بھی لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے اور دیہی علاقوں کے لوگ بھی کاروباری بن گئے ہیں۔ انھیں پتہ ہے کہ بڑے شہروں کے تاجر یا زیادہ قربانی کرنے والے ان منڈیوں میں آتے ہیں، جہاں دیہی میلوں کا سماں ہوتا ہے اور اچھے بکروں کی قیمت ڈبل بتا کر سودے بازی کرکے گاہک جہاں پھنسے، پھنسا لیتے ہیں۔
ان منڈیوں میں متعلقہ ٹاؤن کمیٹیوں نے بھی لوٹ کھسوٹ مچا رکھی ہے، جہاں مویشی منڈیوں کے ٹھیکے حکومتی وڈیروں نے لے رکھے ہیں اور منڈی لگنے والے روز ان کے لاتعداد مقررہ افراد سودے بازی کے وقت موجود ہوتے ہیں اور سرکاری فیس کے نام پر منہ مانگی رقم وصول کرتے ہیں۔ گزشتہ سال دوڑ منڈی میں فی بکرا ٹیکس دو سو روپے تھا جو اس سال ٹھیکیدار نے بڑھا کر چار سو روپے فی بکرا کردیا ہے اور منڈی کی سڑک کے دونوں طرف اپنے ناکے لگا رکھے ہیں اور رسیدیں واپس لے کر جانے دیتے ہیں۔
اس جبری ٹیکس سے متعلقہ ٹاؤن کمیٹی کو برائے نام پیڑی فیس ملتی ہے اور کئی گنا رقم ٹھیکیدار اور متعلقہ سرکاری عملے کی جیب میں جاتی ہے۔ بقر عید کے موقع پر خریداروں کو زیادہ لوٹا جاتا ہے جب کہ عام دنوں میں خریداری کم ہونے کی وجہ فیس کم ہوتی ہے اور عیدالاضحیٰ کو سیزن بناکر من مانی فیس وصول کی جاتی ہے اور بکرے فروخت کرنے والوں کی کوشش ہوتی ہے کہ پیڑی فیس خریدار ہی کے گلے ڈال دی جائے، وگرنہ آدھے آدھے پر معاملہ طے کرلیا جاتا ہے۔ ملک بھر میں اب مویشی پالنے والے بے شمار فارم ہیں جو بڑے شہروں میں لگنے والی منڈیوں میں جگہ لے کر وہاں وی آئی پی ٹینٹ لگا کر اپنے جانور صفائی اور خوبصورتی سے فروخت کرتے ہیں جب کہ چھوٹے تاجروں کے جانور کھلے آسمان تلے دھوپ میں جلتے ہیں۔
وی آئی پی ٹینٹوں میں جانوروں کے کھڑے بیٹھنے کی جگہیں صاف ستھری اور جانوروں کی خدمت کے لیے افراد مخصوص ہوتے ہیں اور ان وی آئی پی وزنی اور خوبصورت جانوروں کی قیمتیں بھی لاکھوں روپے میں وی آئی پی ہوتی ہیں، جن کا تذکرہ میڈیا پر دیکھ کر خریدار کم اور تماشائی زیادہ آتے ہیں اور ان جانوروں کے ساتھ فخریہ سیفلیاں بنائی جاتی ہیں۔ قربانی کے نام پر اپنے بھرم، امارت کی نمائش کے شوقین امیر لوگ ویسے کسی غریب کی مدد کریں نہ کریں مگر لاکھوں روپوں میں خریدے گئے ان مہنگے جانوروں کی نمائش اپنے بنگلوں کے باہر بڑے فخر سے خصوصی طور پر کرتے ہیں۔
عیدالاضحیٰ کو اب جانور فروخت کرنے والوں نے ہی نہیں بلکہ جانوروں کا چارہ فروخت کرنے والوں، چھریاں بغدے، جانوروں کا آرائشی سامان، چٹائیاں ودیگر سامان فروخت کرنے والوں نے بھی لوٹ کھسوٹ کا ذریعہ بنالیا ہے، جب کہ عید کے موقع پر گوشت کے ساتھ استعمال میں آنے والی سبزیوں، ٹماٹر، لیموں، مرچیں، لہسن، ادرک، کچا پپیتا، دھنیا، پودینا کے نرخ بھی ڈبل کردیے جاتے ہیں۔
اس موقع پر قصاب تو خود وی وی آئی پی بن کر جانور ذبح کرنے کے منہ مانگے نرخ مانگتے ہیں جب کہ موسمی قصائیوں کی بھی بھرمار ہوجاتی ہے اور ناتجربہ کار لوگ بھی چھرے چھریاں لے کر پھنس جانے والوں کی جیبیں کاٹتے ہیں۔ عیدالاضحیٰ کا جو حقیقی مقصد ہے وہ زیادہ تر ختم ہوتا جارہا ہے اور بدلے کے بدلے گوشت کی تقسیم بڑھ رہی ہے، جس کی وجہ سے اس گوشت کے حصول کے جو مستحق ہیں وہ گوشت والی عید پر بھی گوشت سے محروم رہنے لگے ہیں۔ یہ بھی ہورہاہے کہ بکرے اپنے لیے رکھ کر گائے کا زیادہ گوشت اپنے قریبی عزیزوں اور دوستوں میں وافر مقدار میں تقسیم کیا جاتا ہے اور جن کے یہاں سے جیسا گوشت آتا ہے اپنا بھرم رکھنے کے لیے ویسا ہی یا اس سے زیادہ اچھا وہاں ترجیحی طور پر زیادہ دیا جاتا ہے۔ بیورو کریسی اور امیروں میں ران کے بدلے ران کے اصول پر عمل کیا جاتا ہے، اس طرح بعض دفعہ اپنی ہی بھیجی ہوئی ران گھوم پھر کر واپس آجاتی ہے۔
جن غریبوں کا حق ہے انھیں بکروں کا نہیں بلکہ گائے، بیل کی ہڈیاں زیادہ گوشت کم یا ناپسندیدہ دے کر سمجھ لیا جاتا ہے کہ سنت ابراہیمی ادا ہوگئی۔ گوشت ذخیرہ کرنے کے لیے ریفریجریٹروں کی خریداری مسلسل بڑھ رہی ہے اور محرم پر حلیم بنانے کے لیے اور بعد میں دعوتیں کرنے کے لیے ایک ماہ سے زیادہ عرصہ تک بھی گوشت محفوظ کیا جانے لگا ہے ۔ کم ہی لوگ ہیں جو گوشت مستحقین میں تقسیم کرتے ہیں وگرنہ مسلمانوں کی یہ سالانہ عید کاروبار کرنے والوں کے لیے کمائی کا ذریعہ یا نمائش بنا دی گئی ہے اور غریبوں کو سال میں بھی پیٹ بھر کر کھانے کے لیے گوشت ملنا مشکل بنایا جا رہا ہے۔
اس قربانی کی اللہ کے یہاں صرف نیت دیکھی جاتی ہے جب کہ ذبح کیے گئے جانوروں کا گوشت تین حصوں میں تقسیم کرکے بانٹ لیا جاتا ہے جس کا بڑا حصہ ذاتی ضرورت کے لیے بھی استعمال کرلیا جاتا ہے اور عزیزوں اور غریبوں میں بھی تقسیم کرنے کا حکم ہے۔ بڑھتی مہنگائی کے ساتھ اب قربانی کے جانوروں کی قیمتیں اب ہر سال بڑھتے بڑھتے پہنچ سے باہر ہوچکی ہیں۔ کیونکہ اب جانوروں کی پرورش انتہائی منافع بخش کاروبار بن چکی ہے جس میں سرمایہ دار سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ پہلے گاؤں دیہاتوں یا چھوٹے شہروں میں لوگ قربانی کے جانور پالتے تھے اور مناسب منافع پر فروخت کردیتے تھے اور قربانی کی استطاعت رکھنے والے افراد جانور خرید کر سنت ابراہیمی ادا کرتے تھے۔
اب گوشت تو کیا سبزیاں اور دالیں ہی بے حد مہنگی ہوچکی ہیں اور قربانی کا مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ جو لوگ غریب ہیں اور قربانی کی مالی حیثیت نہیں رکھتے انھیں عید قرباں پر کھانے کے لیے گوشت میسر آجائے۔ حقیقی غریبوں کے پاس ریفریجریٹر اور فریج تو ہوتے ہی نہیں، اگر انھیں ضرورت سے زیادہ گوشت مل جائے تو وہ اسے سکھا کر کسی طرح محفوظ کرلیتے ہیں جو کچھ عرصہ چل جاتا ہے اور غریبوں کو سال میں کچھ دن گوشت کھانے کا موقع مل جاتا ہے اور وہ اللہ کا شکر ادا کرکے عمر گزار دیتے ہیں۔
قربانی کے جانوروں کی ملک میں کمی نہیں مگر جب سے قربانی کے جانوروں کو انتہائی منافع بخش کاروبار بنایا گیا ہے تب سے اب سرمایہ داروں نے کیٹل فارم قائم کرلیے ہیں۔ جہاں سال بھر وہ ملک کے مختلف علاقوں کے مشہور جانور پالتے ہیں اور عیدالاضحیٰ کے موقع پر بڑے شہروں میں قائم ہونے والی سرکاری مویشی منڈیوں میں خوبصورت ٹینٹ لگا کر منہ مانگے نرخوں پر فروخت کرتے ہیں۔ ملک کے مختلف علاقے جانوروں کے سلسلے میں مشہور ہیں اور وہاں ہر ہفتے مقررہ دنوں پر مویشی منڈیاں لگتی ہیں۔
اندرون سندھ ضلع نوابشاہ کے تعلقے دوڑ میں ہر ہفتہ لگنے والی مویشی منڈی بکروں کے سلسلے میں خاص طور پر مشہور ہے، جہاں راقم کو گزشتہ سال اور اس سال جانے کا اتفاق ہوا۔ قریبی دوست کے ساتھ جانوروں کی خریداری دیکھی۔ کراچی، لاہور، کوئٹہ، پشاور، حیدرآباد ودیگر بڑے شہروں کے لوگ بڑی تعداد میں بکرے خریدنے دوڑ آتے ہیں، جو تجارتی مقصد سے یا بڑی تعداد میں قربانی کی سستی خریداری کرنا چاہتے ہیں، مگر اب دوڑ سمیت ملک کی دیگر مویشی چھوٹے شہروں کی منڈیوں میں بھی لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے اور دیہی علاقوں کے لوگ بھی کاروباری بن گئے ہیں۔ انھیں پتہ ہے کہ بڑے شہروں کے تاجر یا زیادہ قربانی کرنے والے ان منڈیوں میں آتے ہیں، جہاں دیہی میلوں کا سماں ہوتا ہے اور اچھے بکروں کی قیمت ڈبل بتا کر سودے بازی کرکے گاہک جہاں پھنسے، پھنسا لیتے ہیں۔
ان منڈیوں میں متعلقہ ٹاؤن کمیٹیوں نے بھی لوٹ کھسوٹ مچا رکھی ہے، جہاں مویشی منڈیوں کے ٹھیکے حکومتی وڈیروں نے لے رکھے ہیں اور منڈی لگنے والے روز ان کے لاتعداد مقررہ افراد سودے بازی کے وقت موجود ہوتے ہیں اور سرکاری فیس کے نام پر منہ مانگی رقم وصول کرتے ہیں۔ گزشتہ سال دوڑ منڈی میں فی بکرا ٹیکس دو سو روپے تھا جو اس سال ٹھیکیدار نے بڑھا کر چار سو روپے فی بکرا کردیا ہے اور منڈی کی سڑک کے دونوں طرف اپنے ناکے لگا رکھے ہیں اور رسیدیں واپس لے کر جانے دیتے ہیں۔
اس جبری ٹیکس سے متعلقہ ٹاؤن کمیٹی کو برائے نام پیڑی فیس ملتی ہے اور کئی گنا رقم ٹھیکیدار اور متعلقہ سرکاری عملے کی جیب میں جاتی ہے۔ بقر عید کے موقع پر خریداروں کو زیادہ لوٹا جاتا ہے جب کہ عام دنوں میں خریداری کم ہونے کی وجہ فیس کم ہوتی ہے اور عیدالاضحیٰ کو سیزن بناکر من مانی فیس وصول کی جاتی ہے اور بکرے فروخت کرنے والوں کی کوشش ہوتی ہے کہ پیڑی فیس خریدار ہی کے گلے ڈال دی جائے، وگرنہ آدھے آدھے پر معاملہ طے کرلیا جاتا ہے۔ ملک بھر میں اب مویشی پالنے والے بے شمار فارم ہیں جو بڑے شہروں میں لگنے والی منڈیوں میں جگہ لے کر وہاں وی آئی پی ٹینٹ لگا کر اپنے جانور صفائی اور خوبصورتی سے فروخت کرتے ہیں جب کہ چھوٹے تاجروں کے جانور کھلے آسمان تلے دھوپ میں جلتے ہیں۔
وی آئی پی ٹینٹوں میں جانوروں کے کھڑے بیٹھنے کی جگہیں صاف ستھری اور جانوروں کی خدمت کے لیے افراد مخصوص ہوتے ہیں اور ان وی آئی پی وزنی اور خوبصورت جانوروں کی قیمتیں بھی لاکھوں روپے میں وی آئی پی ہوتی ہیں، جن کا تذکرہ میڈیا پر دیکھ کر خریدار کم اور تماشائی زیادہ آتے ہیں اور ان جانوروں کے ساتھ فخریہ سیفلیاں بنائی جاتی ہیں۔ قربانی کے نام پر اپنے بھرم، امارت کی نمائش کے شوقین امیر لوگ ویسے کسی غریب کی مدد کریں نہ کریں مگر لاکھوں روپوں میں خریدے گئے ان مہنگے جانوروں کی نمائش اپنے بنگلوں کے باہر بڑے فخر سے خصوصی طور پر کرتے ہیں۔
عیدالاضحیٰ کو اب جانور فروخت کرنے والوں نے ہی نہیں بلکہ جانوروں کا چارہ فروخت کرنے والوں، چھریاں بغدے، جانوروں کا آرائشی سامان، چٹائیاں ودیگر سامان فروخت کرنے والوں نے بھی لوٹ کھسوٹ کا ذریعہ بنالیا ہے، جب کہ عید کے موقع پر گوشت کے ساتھ استعمال میں آنے والی سبزیوں، ٹماٹر، لیموں، مرچیں، لہسن، ادرک، کچا پپیتا، دھنیا، پودینا کے نرخ بھی ڈبل کردیے جاتے ہیں۔
اس موقع پر قصاب تو خود وی وی آئی پی بن کر جانور ذبح کرنے کے منہ مانگے نرخ مانگتے ہیں جب کہ موسمی قصائیوں کی بھی بھرمار ہوجاتی ہے اور ناتجربہ کار لوگ بھی چھرے چھریاں لے کر پھنس جانے والوں کی جیبیں کاٹتے ہیں۔ عیدالاضحیٰ کا جو حقیقی مقصد ہے وہ زیادہ تر ختم ہوتا جارہا ہے اور بدلے کے بدلے گوشت کی تقسیم بڑھ رہی ہے، جس کی وجہ سے اس گوشت کے حصول کے جو مستحق ہیں وہ گوشت والی عید پر بھی گوشت سے محروم رہنے لگے ہیں۔ یہ بھی ہورہاہے کہ بکرے اپنے لیے رکھ کر گائے کا زیادہ گوشت اپنے قریبی عزیزوں اور دوستوں میں وافر مقدار میں تقسیم کیا جاتا ہے اور جن کے یہاں سے جیسا گوشت آتا ہے اپنا بھرم رکھنے کے لیے ویسا ہی یا اس سے زیادہ اچھا وہاں ترجیحی طور پر زیادہ دیا جاتا ہے۔ بیورو کریسی اور امیروں میں ران کے بدلے ران کے اصول پر عمل کیا جاتا ہے، اس طرح بعض دفعہ اپنی ہی بھیجی ہوئی ران گھوم پھر کر واپس آجاتی ہے۔
جن غریبوں کا حق ہے انھیں بکروں کا نہیں بلکہ گائے، بیل کی ہڈیاں زیادہ گوشت کم یا ناپسندیدہ دے کر سمجھ لیا جاتا ہے کہ سنت ابراہیمی ادا ہوگئی۔ گوشت ذخیرہ کرنے کے لیے ریفریجریٹروں کی خریداری مسلسل بڑھ رہی ہے اور محرم پر حلیم بنانے کے لیے اور بعد میں دعوتیں کرنے کے لیے ایک ماہ سے زیادہ عرصہ تک بھی گوشت محفوظ کیا جانے لگا ہے ۔ کم ہی لوگ ہیں جو گوشت مستحقین میں تقسیم کرتے ہیں وگرنہ مسلمانوں کی یہ سالانہ عید کاروبار کرنے والوں کے لیے کمائی کا ذریعہ یا نمائش بنا دی گئی ہے اور غریبوں کو سال میں بھی پیٹ بھر کر کھانے کے لیے گوشت ملنا مشکل بنایا جا رہا ہے۔