اس دشت تنہائی میں

آپ جانتی ہیں کہ مہاجر کا المیہ کیا ہے؟ یہ تنہا ہیں پہلے بھی تنہا تھے اور اب بھی تنہا ہیں۔


Shehla Aijaz September 09, 2016
[email protected]

آپ جانتی ہیں کہ مہاجر کا المیہ کیا ہے؟ یہ تنہا ہیں پہلے بھی تنہا تھے اور اب بھی تنہا ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کے غول میں پہلے بہت سے لوگ شامل تھے، ان میں زیادہ تر پنجاب سے تعلق رکھنے والے وہ لوگ تھے جو قیام پاکستان سے قبل جالندھر اور مشرقی پنجاب کے مختلف علاقوں میں رہائش پذیر تھے، پنجاب پہلے بھی یعنی تقسیم ہند سے پہلے ایک بڑا حصہ تھا اور آج بھی پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔

ذرا غور فرمائیے ہمارے اپنے وزیراعظم میاں نواز شریف کے والد مرحوم میاں شریف جو واقعی اپنے زمانے میں شریف آدمی کے حوالے سے مشہور تھے ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان آئے تھے۔ پنجاب سے آنے والے مہاجرین نے پاکستان آکر صرف پنجاب کے مختلف علاقوں میں ہی نہیں بلکہ سندھ کے مختلف علاقوں میں رہائش اختیار کی، اس کی مثال ہمارے لیجنڈ گلوکار مسعود رانا ہیں ''او ٹانگے والا خیر منگ دا... ٹانگہ لاہور دا ہووے تے بھاویں جھنگ دا'' جی یہی مسعود رانا سندھ میں خیرپور میں تقسیم ہند کے بعد آکر رہائش پذیر ہوئے۔ ظاہر ہے رانا صاحب اس وقت بہت چھوٹے تھے، یعنی ان کے والدین اور ہوسکتا ہے کہ ان کے ساتھ پورا خاندان وہاں بس گیا ہو۔ یہ تو محض ایک مثال ہے لیکن مسعود رانا صاحب مہاجر نہیں کہلائے۔

یہ ایک بہت بڑا ہجوم تھا جو مہاجرین کے بینر تلے پاکستانی سرزمین پر بس گیا تھا لیکن پھر اس میں سے بھی قومیت کے دھارے بنتے گئے اور الگ ہوتے گئے، یہاں تک کہ آپ مشہور مصنفہ قرۃ العین حیدر کا ''آگ کا دریا'' پڑھ کر دیکھ لیں آپ کی سمجھ میں سب آجائے گا کہ مہاجر اور ہمارے پاکستان کا المیہ کیا ہے۔ قرۃ العین صاحبہ نے اس الگ ہونے کے منظرنامے کو بڑے دکھ اور کرب سے تحریر کیا۔ سات ادوار پر مشتمل اس ناول کو جہاں سے شروع کیا تھا، آخر میں محسوس ہوتا ہے کہ وہیں پر ختم کردیا۔ اور اس آخری صفحے پر تحریر تاریخ ملاحظہ فرمائیے، اگست 56... دسمبر 57۔

اس تنہائی کا ذمے دار کون ہے۔ محمد بن قاسم، شہنشاہ بابر یا آخری بے چارہ بادشاہ بہادر شاہ ظفر۔ سب اپنے اپنے حصے کی فصل بو کر، کاٹ کر کھا چکے ہیں، اب ہماری باری ہے۔ لیکن صورتحال یہ ہے کہ طعنے تشنے چل رہے ہیں، آگ کے جس دریا کو پار کرکے یہاں تک پہنچے ہیں اس سے آگے تو بحیرہ عرب ہے۔ کیا وہ ہمارا منتظر ہے، یہاں کوئی اور جو ہمیں اس میں ڈبونے کا منتظر ہے۔ یا یہ وہی اب بھی ہو رہا ہے جو آگ کے دریا کے پہلے دور سے ہوتا ہوا آخری دور تک مصروف ہی رہا۔ جو آگے بڑھ کر حملہ کرنے کے بجائے اندر گھس کر چپکے چپکے آہستگی سے چرکیاں لگاتے رہو، ناسور بن جائے گا کے خود ساختہ مقولے پر عمل کرتے رہے ہیں۔ خیر سے انھیں اب تک کامیابیاں ملتی رہیں کہ کامیابیاں خود اچھال اچھال کر ان کی گودیوں میں پھینکی گئی ہیں۔

''ناسور سے مراد...؟''

اس طویل گفتگو میں پہلی بار سوال کیا گیا۔

پہلی بار اردو، سندھی کے درمیان بھٹو صاحب کے دور میں ایسی جنگ پیدا کی گئی۔ ملیر، سعود آباد کے علاقے خاص کر خون سے سرخ ہوگئے۔ یہ بھٹو صاحب کا ابتدائی دور تھا۔ میں آج بھی انھیں عزت سے بھٹو صاحب یوں کہتی ہوں کہ وہ شخص بلا کا نڈر، بے خوف اور 1974 میں اس شخص نے جو ایک قانون پاس کیا تھا، سچی بات تو یہ ہے کہ ان کے بعد بہت سے آئے اور گئے، پر کسی میں بھی شاید اتنی جرأت نہ ہوئی جو وہ یہ قدم اٹھاتا۔ بہرحال بات کہیں اور سے کہیں چلی جائے گی۔ بھٹو صاحب کے والد خود ساری زندگی ہندوستان میں اعلیٰ منسٹری میں رہے لیکن لاڑکانہ کو بھٹو صاحب نے ایسا بنادیا تھا کہ بقول ہمارے ایک جاننے والے ''جہاں خاک اڑتی تھی وہاں پکے گھر کھڑے ہوگئے، یوں سمجھو کہ سونے کی جھاڑو سے صفائی ہونے لگی ہے۔''

ترقی کا یہ عمل برا نہ تھا پھر مہاجر، اردو بولنے والوں کو چھیل کر الگ کرنے کی کوششیں کیوں کی گئیں؟ یہ تحریک دراصل بھٹو صاحب کے اندر کی نہ تھی، ان کے اردگرد جنھیں اگر افسر بے کار خاص کہہ لیں تو بہتر ہوگا، اس لگائی بجھائی کے عمل کو تعصب کی بلند دیوار کو کھڑا کردیا اس سے کیا ہوا۔ آج بھی ایجوکیشن، کو ایجوکیشن والے تعلیم کے محکمے میں اعلیٰ مقاموں پر فائز ہیں۔

اعلیٰ محکمے نااہلوں سے بھر گئے۔ نہ صرف سندھ بلکہ پنجاب تک اس کا سلسلہ ایسا چلا کہ ملک سے باہر پاکستان کے لیے بات کرنے والے قابل، لائق فائق لوگ ڈھونڈے سے نہیں ملتے۔ پچھلے کئی برسوں سے یہ عمل چل رہا ہے، اس میں کرپشن کی دلدل بھی سمٹ آئی۔ کہاں کہاں کس کس طرح یہاں وہ کچھ ہوچکا ہے جو ہونا نہیں چاہیے تھا۔ نقصان کس کا ہوا۔ اس ملک کا۔ یقین جانیے اگر مہاجروں کی نسلیں احساس محرومی، تنگ دستی اور تعصب کے زہر کی وجہ سے رل گئیں تو ان اعلیٰ خاندانوں کی نسلیں دولت کے نشے، کرسی کے خمار اور کرپشن کے زہر سے برباد ہوئیں۔ کہتے ہیں ناں کہ خدا کسی کو دے کر تو کسی سے لے کر آزماتا ہے۔ دیکھیے آزمائش کا یہ سلسلہ ہے۔ ہم ہرگز خدا سے ناامید نہیں ہیں۔

گویا مہاجرین جو 1947 سے ہجرت کرکے پاکستان آئے تھے ان میں سے تمام قومیتیں جو اس وقت ایک ہجوم کی صورت میں آئے تھے وہ سب سیٹل ہوچکے ہیں۔

بالکل، دیکھیے ناں ہمارے وزیراعظم ماشا اللہ۔ انھیں خدا نے ایک بڑے منصب سے نوازا ہے، ان کے بھائی، صرف یہی نہیں آپ مختلف وزرا اور بڑے بڑے ناموں کو دیکھ لیں۔ مسعود رانا صاحب کی تو میں نے صرف ایک مثال دی تھی بہت سے لوگ آج آرام سے رہ رہے ہیں ۔ مسائل تو ہمارے ساتھ ہیں، کیونکہ ہمیں اردو بولنے والوں کے خانے میں رکھ کر جیسے قید کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

آپ دیکھیے ناں ڈی جی رینجرز بلال صاحب نے بھی کوٹہ سسٹم کو ان دوریوں اور مسائل کا ایسے ہی تو الزام نہیں دیا۔ کسی بھی قابل پڑھے لکھے بچے سے پوچھ لیں وہ یہی کہے گا کہ جاب نہیں ملی۔ کوٹہ کی وجہ سے ایک نسل شکار رہی اور وہ آگ پکتے پکتے لاوا بن گئی۔ الطاف حسین کا جہاں تک سوال ہے وہ خود لندن میں بیٹھے تھے ان کے اپنے اسی آگ کا شکار بن گئے، ان کے حالیہ بیان نے سب کو چونکا دیا۔ ہم بھی یہ کہتے ہیں کہ انھیں ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا لیکن اب اگر ان سے لاتعلقی کے بعد بھی انگلیاں اٹھتی رہیں تو کس کس کے سوالوں کا جواب دیں اور کب تک دیں۔ اب بھی سازش گرم ہے۔ کوئی پاکستان کے خلاف نعرے لگائے تو مہاجر، الطاف حسین کے حق میں بینر لگے تو مہاجر۔ بات پھر وہیں سے شروع ہوتی ہے کہ مہاجر جب یہاں آئے تھے تب بھی تنہا تھے اور اب بھی تنہا ہیں۔

سوال اندر سے ابھر رہے ہیں اور جواب...؟ بہرحال دعا ہے کہ المیہ المیہ نہ رہے۔ پاکستان ہمیشہ سے خوبصورت تھا اور ہمیشہ خوبصورت لہلہاتا رہے (آمین)۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں