عیدالاضحی برادران وطن کا خیال رکھئے
قربانی روز اول سے اسلام کا شعار رہی، جس کا مقصد اپنا مال اللہ کی راہ میں قربان کرکے اللہ کی خوشنودی حاصل کرنا ہے
NEW DELHI:
قربانی حضرت ابراہیمؑ کی عظیم اور یادگار ترین سنت ہے، حضرت ابراہیمؑ وہ عظیم المرتبت ہستی ہیں جنھیں دنیا کے بڑے ادیان، یہودیت، عیسائیت اور اسلام نے انتہائی برگزیدہ تسلیم کیا ہے، یہ خدائے واحد بزرگ و برتر کا احسان عظیم ہے کہ اس نے انھیں بے انتہا عظمت و فضیلت اور شرف بزرگی بخشا۔ ''خلیل اللہ اور امام الناس'' کے خطابات سے سرفراز فرمایا اور روئے زمین پر اپنا پہلا گھر بیت اللہ شریف ان ہی کے ہاتھوں تعمیر کرایا۔ لیکن اس انعام و اکرام کو حاصل کرنے کے لیے انھیں جن امتحانوں اور آزمائشوں سے گزرنا پڑا، اس کا تصور تک دل کو دہلا دینے کے لیے کافی ہے، حق و صداقت کے اس علمبردار نبی و پیغمبر نے خدا کی راہ میں جو عظیم قربانیاں پیش کیں، وہ قرآن حکیم نے ابدالاباد تک محفوظ کردی ہیں، رحمۃ اللعالمینؐ کے جد امجد کے ایک ایک کارنامے کو قرآن حکیم نے تفصیل سے بیان کیا ہے۔ قربانی کی یہ رسم عاشقی حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسمٰعیل ؑ ذبیح اللہ کی عملی یادگار ہے، جو اب تک چلی آرہی ہے اور انشا اللہ قیامت تک جاری رہے گی۔
قربانی روز اول سے اسلام کا شعار رہی، جس کا مقصد اپنا مال اللہ کی راہ میں قربان کرکے اللہ کی خوشنودی حاصل کرنا ہے، ایک سرمایہ دار مسلمان پر ہر سال اس کے مال میں جس طرح زکوٰۃ اور صدقہ فطرہ وغیرہ کی ذمے داریاں عائد ہوتی ہیں، اسی طرح عیدالاضحیٰ کے موقع پر قربانی کی ذمے داری بھی اس پر عائد ہوتی ہے۔ قربانی اسلام میں ایک عبادت کا درجہ رکھتی ہے، اس یادگار ابراہیمیؑ کو عملی طور پر امت مسلمہ کے لیے لازم و واجب قرار دے دیا گیا ہے اور ان کے احکام رہتی دنیا تک قرآن و سنت میں محفوظ کردیے گئے ہیں۔ یہ ابدی احکام، ہر زمانے اور ہر دور میں انسان کو اس خلیل الٰہی سبق کی یاد دہانی کراتے رہتے ہیں کہ انسان کو اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردینا ہی انسانیت کی تکمیل اور عبدیت کی معراج ہے۔
عیدالاضحیٰ ماہ ذی الحج کی دسویں، گیارہویں اور بارہویں تاریخ کو واقع ہوتی ہے، ذی الحج کی دسویں تاریخ کو نماز عید کی ادائیگی کے بعد جانوروں کی قربانی کی جاتی ہے اور قربانی کا یہ عمل تین دن تک جاری رہتا ہے۔ قربانی کے لیے جس جانور کا انتخاب کیا جائے وہ صحت مند ہونا چاہیے، اونٹ، گائے، بھینس وغیرہ میں سات حصے کیے جاتے ہیں لیکن بکرا، بکری، بھیڑ، دنبہ میں صرف ایک شخص قربانی کر سکتا ہے۔
قربانی ایسی مستقل عبادت ہے جو ہر صاحب نصاب پر واجب ہے اور جو صاحب نصاب نہ ہو اس کے لیے مستحب ہے لیکن حج میں اس کی فضیلت اور بھی زیادہ ہے اور اس کی کثرت سے مرغوب ہے، خود رسول کریمؑ نے اپنے حج میں 100اونٹوں کی قربانی کی تھی، حضورؐ نے فرمایا کہ قربانی کرنا حضرت ابراہیمؐ کی سنت ہے اور قربانی کے جانور کے ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی ہے۔ حدیث شریف سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قربانی کا جانور جب ذبح ہوتا ہے تو پہلے قطرے پر قربان کرنے والے کے سب گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور قیامت کے دن قربانی کا جانور مع اپنے خون اور گوشت وغیرہ کے لایا جائے گا اور ستر درجے زیادہ وزنی بناکر اعمال کے ترازو میں رکھا جائے گا۔
ایک موقع پر حضور اکرمؐ نے ارشاد فرمایا کہ قربانی کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک قربانی سے بڑھ کر کوئی عمل نہیں ہے، رسول اللہؐ نے خاتون جنت بی بی فاطمۃ الزہرہؓ سے فرمایا کہ بیٹی فاطمہؓ! جاؤ اپنی قربانی پر حاضری دو، کیونکہ اس کے خون سے جونہی پہلا قطرہ زمین پر گرے گا، تمہارے سارے گناہ معاف ہوجائیں گے، نیز وہ جانور (قیامت کے دن) اپنے خون اور گوشت کے ساتھ لایا جائے گا، پھر اسے ستر گنا بھاری کرکے تمہارے میزان عمل میں رکھا جائے گا۔ حضرت ابو سعیدؓ نے یہ عظیم الشان فضیلت سن کر بے ساختہ عرض کیا، یا رسول اللہؐ! کیا یہ فضیلت صرف خاندان نبوت (آل محمدؐ) کے ساتھ خاص ہے؟ کیونکہ (واقعتاً) اس کارخیر کے زیادہ مستحق ہیں یا آل محمدؐ اور تمام مسلمانوں کے لیے ہے؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ یہ (عظیم الشان فضیلت) خاندان نبوت کے لیے تو بطور خاص ہے اور تمام مسلمانوں (میں سے جو قربانی کرے) کے لیے بھی عام ہے۔
حضور اکرم ﷺ نے اپنی اور اپنی تمام امت کی طرف سے قربانی کی، تو امت کو بھی زیبا ہے کہ اپنی قربانی کے ساتھ حضور کریمؐ کی طرف سے بھی قربانی کیا کریں۔ حضرت علی المرتضیٰؓ ہمیشہ ایک بکرا اپنی طرف سے قربان کرتے تھے اور ایک حضور اقدسؐ کی طرف سے۔ کسی نے آپؓ سے دریافت کیا تو آپؓ نے فرمایا مجھے حضورؐ کا ارشاد ہے کہ میں آپؐ کی طرف سے بھی قربانی کروں، اس لیے میں ہمیشہ کرتا رہوں گا۔
ہر سال دنیا بھر کے کروڑوں مسلمان عیدالاضحیٰ کے موقع پر سنت ابراہیمیؑ کو زندہ کرتے ہیں اور اپنے خلوص نیت اور عبدیت کاملہ کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔ 10 ذی الحج وہ مبارک تاریخی دن ہے کہ جب پوری امت مسلمہ اس عظیم واقعہ کی یاد میں عیدالاضحیٰ مناتی، اپنے موسس و مورث اعلیٰ سیدنا حضرت ابراہیمؑ خلیل اللہ کی اس ادا، سنت اور رسم عاشقی کی یاد تازہ کرتی ہے۔
عیدالاضحیٰ تمام مسلمانوں کے لیے خوشی و مسرت اور ذخیرہ آخرت جمع کرنے کا شاندار موقع ہے، تمام صاحب استطاعت مسلمانوں پر یہ حق ہے کہ وہ قربانی کے گوشت سے خود بھی لطف اندوز ہوں اور اپنے اعزہ و احباب اور دیگر غریبوں اور ضرورت مندوں کا بھی خاص خیال رکھیں، کیونکہ یہ عید ان کے لیے بھی ہے، لہٰذا پوری کوشش کیجیے کہ یہ طبقہ عید کی خوشیوں سے پوری طرح بہرہ مند ہو۔ شہروں میں صاحب حیثیت لوگوں کی بڑی تعداد ہوتی ہے اگر وہ کوئی ایسا نظام کرنا چاہیں کہ کم ازکم عید کے دن ہر جگہ مسلمان قربانی کے گوشت سے محظوظ ہوسکیں تو ایسا کیا جاسکتا ہے، بالخصوص ایسے محلوں، علاقوں، گاؤں، دیہات جہاں غربت زیادہ ہوتی ہے یا ایسے مقامات جہاں قربانی کے لیے اطمینان بخش سہولیات نہیں، لوگ قربانی نہیں کرپاتے، وہاں صاحب ثروت حضرات کی پوری کوشش ہونی چاہیے کہ یہ طبقہ عید کی خوشیوں سے محروم نہ رہنے پائے۔
عیدالاضحیٰ کے موقع پر صفائی ستھرائی پر بھی خصوصی توجہ دینی چاہیے، گوشت، چربی، ہڈیاں یا دیگر آلائشات راستوں، نالوں اور سڑکوں پر نہ پھینکیں۔ عید کے دن چونکہ بعض علاقوں میں گوشت کی بہتات ہوتی ہے اس لیے ذرا سی لاپرواہی سے گندگی کا خطرہ اور طرح طرح کی بیماریاں و تعفن پھیلنے کا امکان ہوسکتا ہے، دوسرے ان لوگوں کے لیے جو غیر مسلم ہیں یہ صورتحال باعث تکلیف ہوسکتی ہے، تقریباً ہر جگہ ملی جلی آبادی پائی جاتی ہے، اس لیے برادران وطن کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔ اسلام میں غیر مسلموں کے حقوق بھی بیان کیے گئے ہیں اور صفائی ستھرائی نصف ایمان کا درجہ رکھتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو سنت ابراہیمی کی پیروی اس کے حقیقی تقاضوں کے مطابق کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ قربانی کی اصل روح یہ ہے کہ ہم اللہ کی راہ میں برضا و رغبت ہمہ وقت اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار رہیں، اس پر بھی حق یہ ہے کہ حق ادا نہیں ہوتا۔