کراچی کے مسائل
شہری منصوبہ بندی کے ماہر عارف حسن کی تحقیق کے مطابق 1941 میں کراچی کی آبادی ساڑھے چار لاکھ سے قدرے کم تھی
شہری منصوبہ بندی کے ماہر عارف حسن کی تحقیق کے مطابق 1941 میں کراچی کی آبادی ساڑھے چار لاکھ سے قدرے کم تھی جب کہ 2011 میں کراچی کی آبادی دو کروڑ سے زیادہ ہو چکی تھی۔ 1998 کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی کل آبادی کا دس فیصد حصہ کراچی میں رہتا ہے۔ پاکستان کے انکم ٹیکس کا باسٹھ فیصد حصہ کراچی دیتا ہے۔ بڑے پیمانے کے مینوفیکچرنگ شعبے میں چالیس فیصد روزگار کراچی فراہم کرتا ہے۔ کراچی کی محنت کش آبادی کا 75 فیصد حصہ غیر رسمی شعبے یعنی گارمنٹس، چمڑے، پارچہ بافی، قالین بافی، ہلکی پھلکی انجینئرنگ کی صنعتوں میں کام کرتا ہے۔
ہم نے اپنے نو آبادیاتی آقاؤں اور یو این او کی پالیسیوں سے فلاحی مملکت اور سوشل ہاؤسنگ کا تصور اپنایا تھا، لیکن ہم اس پر عملدرآمد میں کامیاب نہیں ہوپائے کیونکہ یہ ایک بہت مہنگا ماڈل تھا، ہمارے پاس نہ اتنے مالی وسائل تھے، نہ صلاحیت تھی، نہ سیاسی عزم تھا۔ ہم نے کم آمدنی والی آبادیوں کے چھوٹے چھوٹے جزیرے بنائے، جن پر بالآخر متوسط طبقات کا قبضہ ہوگیا۔ لیکن اس نظریے کی سماجی اقدار ہمارے ماسٹر پلان، زمین کے استعمال کے منصوبوں اور اکیڈمک اداروں میں برقرار رہیں۔ عارف حسن کے بقول نیو لبرل ازم شہری ترقی کے ڈرامے کے اداکاروں کے ذخیرہ الفاظ، تصورات اور باہمی تعلقات میں بنیادی تبدیلیاں لایا ہے۔
سرمائے کی نقل و حرکت پر پابندی اٹھنے کے بعد سے دنیا بھر میں اسمگلروں کے گروہ اب رئیل اسٹیٹ کے کاروبار کی طرف متوجہ ہوگئے ہیں۔ اس کے نتیجے میں سرمایہ کاری میں تو اضافہ ہوا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ غریب دشمنی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ منصوبے اور پالیسیاں بناتے وقت کوئی غریبوں کے بارے میں نہیں سوچتا۔جمہوری حکومت کی تعریف تو یہ ہے کہ وہ عوام کی ہوتی ہے، عوام کے لیے ہوتی ہے، عوام کی طرف سے ہوتی ہے، لیکن ہمارے ہاں حکومت صرف اشرافیہ کی ہوتی ہے۔
جسے عوام کے مسائل کا کچھ پتا نہیں ہوتا۔ جمہوری حکومت کی تین سطحیں ہوتی ہیں: مرکزی، صوبائی اور مقامی۔کراچی میں کچرے کے ڈھیر، ابلتے گٹر، ٹوٹی پھوٹی سڑکوں اور پانی کی کمی کو دیکھ کر کوئی مقامی حکومتوں کی اہمیت اور ضرورت سے انکار نہیں کرسکتا، مگر اس کا کیا کیجئے کہ صوبائی حکومتیں مرکز سے اپنے اختیارات لینے کے لیے تو بہت شور مچاتی ہیں، مگر خود نچلی سطح پر اختیارات کی منتقلی انھیں ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ سندھ میں تو دو پارٹیوں کی باہمی چپقلش نے حالات زیادہ ہی خراب کردیے ہیں، مگر سپریم کورٹ کے کہنے پر بلدیاتی انتخابات کرانے ہی پڑے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ منتخب میئر وسیم اختر جیل میں ہیں۔ تقریب حلف برداری میں انھیں سخت سیکیورٹی پروٹوکول میں باغ قائداعظم لایا گیا اور سب نے ایک خوشگوار حیرت کے ساتھ انھیں ''جئے متحدہ، جئے بھٹو، جئے عمران خان'' کا نعرہ لگاتے ہوئے سنا۔
بلدیاتی امور کے ماہرین کے مطابق کراچی میں سب سے بڑا مسئلہ زمین کے استعمال کا ہے، یعنی رہائشی اور تفریحی اور کھیلوں کے لیے مختص زمینوں کا اندھادھند کاروباری مقاصد کے لیے استعمال۔ اب آپ سوچئے اگر ایک رہائشی پلاٹ دس افراد کے رہنے کے لیے ہو اور اس پر آپ دس منزلہ عمارت بنا دیں، نچلی منزل پر دکانیں بنادیں تو اب آپ کو دو سو افراد کے لیے پانی، بجلی، گیس، کچرا اٹھانے اور پارکنگ کی سہولت فراہم کرنا ہوگی جو نہیں فراہم کی جاتی اور یوں ان گنت مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ قانون کے مطابق اس طرح کے کاروباری منصوبوں کے بجٹ کا 33 فیصد حصہ انفرااسٹرکچر کی سہولتوں پر خرچ کیا جانا چاہیے، لیکن قانون کی کون پروا کرتا ہے۔اگر آپ نے ''ربن کمرشلائزیشن'' RIBBON COMMERCIALIZATION کی اصطلاح نہیں سن رکھی تو آپ کو بتاتے چلیں کہ یہ ایک کھیل کے میدان یا ایک منزلہ گھر کے سامنے ایک کئی منزلہ اونچی عمارت بنانے کی اجازت دینے کو کہتے ہیں۔ یہ اونچی عمارت اس ایک منزلہ گھر کے مکینوں کے لیے ہواؤں کا راستہ روک دیتی ہے، ان کی پرائیویسی ختم ہوجاتی ہے۔
کراچی میں ربن کمرشلائزیشن کا آغاز نعمت اﷲ کی میئرشپ میں ہوا، پھر مصطفیٰ کمال آئے تو انھوں نے محمودآباد کے سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ کو ختم کرکے ایک ہاؤسنگ سوسائٹی بنادی۔ ان کے بعد پیپلز پارٹی کی گورنمنٹ نے ایک ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن آفیسر کو یہ اختیارات دے رکھے ہیں کہ وہ جس پلاٹ یا عمارت کو چاہے کاروباری مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی اجازت دے دے۔ تجاوزات کی بھرمار اس کے علاوہ ہے، پبلک پارک اور فٹ پاتھ بھی اس سے نہیں بچے ہیں۔ ایسا کرنے والوں میں کار شورومز، ریستوراں، اسٹالز، سی این جی اسٹیشنز نمایاں ہیں۔
شہری منصوبہ بندی کے ماہر فرحان احمد کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ کراچی کے لیے کبھی منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔ 1952 میں عظیم تر کراچی منصوبہ، 1958 میں عظیم تر کراچی آبادکاری منصوبہ، 1974-85 کراچی ترقیاتی منصوبہ، 2020 کراچی ترقیاتی منصوبہ، 2020 کراچی اسٹرٹیجک ترقیاتی منصوبہ بنایا گیا۔ لیکن ان منصوبوں پر عملدرآمد کے اختیارات کسی کے پاس نہیں تھے۔
سندھ کی محرومیوں کی بات بہت کی جاتی ہے لیکن ماہرین شہری منصوبہ بندی کہتے ہیںکہ ساتویں این ایف سی ایوارڈ میں سندھ کو بہت پیسہ ملا ہے۔ اصل مسئلہ کرپشن اور بیڈ گورننس یا خراب طرز حکمرانی ہے۔ شفافیت کا فقدان ہے۔ آمدن و خرچ کا آڈٹ نہیں ہوتا۔ ترقیاتی فنڈز کا صرف پانچ فیصد ترقیاتی کاموں پر خرچ ہوتا ہے اور پچانوے فیصد سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کی جیب میں چلا جاتا ہے۔ اب معلومات تک رسائی کا قانون بن چکا ہے، اس لیے شہریوں کو چاہیے کہ وہ ترقیاتی منصوبوں کے بجٹ کے بارے میں معلومات طلب کریں۔
مقامی حکومتوں کو مالیاتی اور انتظامی طور پر بااختیار بنایا جائے، اس کے ساتھ احتساب اور شفافیت کو یقینی بنایا جائے۔اکنامک انٹیلی جنس یونٹ کے اشاریوں کے مطابق کراچی کا شمار دنیا میں رہنے کے سب سے کم قابل یعنی بدترین شہروں میں ہوتا ہے۔ جب کہ میلبورن رہنے کے لیے بہترین شہر قرار دیا گیا ہے۔ اس اسکورنگ میں شہری سہولتوں کی دستیابی کے ساتھ امن عامہ کی صورتحال کا بھی بہت دخل ہے۔ سیاسی استحکام، طبی سہولتوں کی فراہمی، ثقافتی سرگرمیاں، ماحولیاتی پائیداری، تعلیم اور انفرااسٹرکچر اس میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ظاہر ہے ہماری خواہش ہوگی کہ کراچی کا شمار بھی دنیا کے بہترین شہروں میں ہو۔ اس کے لیے مقامی حکومت کا فعال اور بااختیار ہونا بہت ضروری ہے، مگر چند روز قبل ایک پروگرام میں منتخب نمایندوں کو یہ کہتے ہوئے سنا:
''کونسلر گٹر کا ڈھکن لگانے کا بھی اختیار نہیں رکھتا''
''واٹر بورڈ سٹی گورنمنٹ کے پاس نہیں ہے''
''کچرا اٹھانے والا عملہ ہمارے ماتحت نہیں ہے''
ابھی تو کراچی دنیا کے ایک سو چالیس شہروں میں سے ایک سو چھتیسواں بدترین شہر ہے لیکن مقامی حکومت کو اختیارات نہیں دیے گئے تو کراچی کو آخری نمبر پر آنے میں دیر نہیں لگے گی۔ اگر آپ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے ماہرین سے بات کریں گے تو وہ کہیں گے کہ کراچی کا اسکور بڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ یہاں حبیب پلازہ جیسی بلند و بالا عمارتیں تعمیر کی جائیں، امن عامہ کی صورتحال بہتر بنائی جائے اور ایسی سہولتیں فراہم کی جائیں کہ دیگر ملکوں کی ٹیمیں یہاں میچ کھیلنے آئیں، عالمی مقابلے منعقد کیے جائیں، ثقافتی سرگرمیوں کو فروغ دیا جائے، ایسی دستکاری اور صنعتی مصنوعات تیار کی جائیں جن کی عالمی منڈی میں مانگ ہو، سیاحت کے فروغ کے لیے اقدامات کیے جائیں۔
یہ سب باتیں بہت اچھی ہیں لیکن ان میں غریبوں کا کوئی ذکر نہیں، جنھیں اٹھا کر شہر سے باہر پھینک دیا جاتا ہے اور جو دو تین گھنٹے بسوں میں دھکے کھا کر کام کی جگہ پر پہنچتے ہیں کیونکہ آج تک کوئی بھی حکومت پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم نہیں بناسکی ہے۔ وہ بنیادی سہولتوں سے محروم کچی آبادیوں میں زندگی گزارتے ہیں۔ اشرافیہ کو یاد رکھنا چاہیے کہ متذکرہ بالا کوئی بھی کام ان غریب محنت کشوں کے بغیر پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ غربت انسانوں پر تشدد کی بدترین شکل ہے اور سماجی انصاف کے بغیر نہ امن قائم ہوگا اور نہ ترقی ہوگی۔
ہم نے اپنے نو آبادیاتی آقاؤں اور یو این او کی پالیسیوں سے فلاحی مملکت اور سوشل ہاؤسنگ کا تصور اپنایا تھا، لیکن ہم اس پر عملدرآمد میں کامیاب نہیں ہوپائے کیونکہ یہ ایک بہت مہنگا ماڈل تھا، ہمارے پاس نہ اتنے مالی وسائل تھے، نہ صلاحیت تھی، نہ سیاسی عزم تھا۔ ہم نے کم آمدنی والی آبادیوں کے چھوٹے چھوٹے جزیرے بنائے، جن پر بالآخر متوسط طبقات کا قبضہ ہوگیا۔ لیکن اس نظریے کی سماجی اقدار ہمارے ماسٹر پلان، زمین کے استعمال کے منصوبوں اور اکیڈمک اداروں میں برقرار رہیں۔ عارف حسن کے بقول نیو لبرل ازم شہری ترقی کے ڈرامے کے اداکاروں کے ذخیرہ الفاظ، تصورات اور باہمی تعلقات میں بنیادی تبدیلیاں لایا ہے۔
سرمائے کی نقل و حرکت پر پابندی اٹھنے کے بعد سے دنیا بھر میں اسمگلروں کے گروہ اب رئیل اسٹیٹ کے کاروبار کی طرف متوجہ ہوگئے ہیں۔ اس کے نتیجے میں سرمایہ کاری میں تو اضافہ ہوا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ غریب دشمنی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ منصوبے اور پالیسیاں بناتے وقت کوئی غریبوں کے بارے میں نہیں سوچتا۔جمہوری حکومت کی تعریف تو یہ ہے کہ وہ عوام کی ہوتی ہے، عوام کے لیے ہوتی ہے، عوام کی طرف سے ہوتی ہے، لیکن ہمارے ہاں حکومت صرف اشرافیہ کی ہوتی ہے۔
جسے عوام کے مسائل کا کچھ پتا نہیں ہوتا۔ جمہوری حکومت کی تین سطحیں ہوتی ہیں: مرکزی، صوبائی اور مقامی۔کراچی میں کچرے کے ڈھیر، ابلتے گٹر، ٹوٹی پھوٹی سڑکوں اور پانی کی کمی کو دیکھ کر کوئی مقامی حکومتوں کی اہمیت اور ضرورت سے انکار نہیں کرسکتا، مگر اس کا کیا کیجئے کہ صوبائی حکومتیں مرکز سے اپنے اختیارات لینے کے لیے تو بہت شور مچاتی ہیں، مگر خود نچلی سطح پر اختیارات کی منتقلی انھیں ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ سندھ میں تو دو پارٹیوں کی باہمی چپقلش نے حالات زیادہ ہی خراب کردیے ہیں، مگر سپریم کورٹ کے کہنے پر بلدیاتی انتخابات کرانے ہی پڑے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ منتخب میئر وسیم اختر جیل میں ہیں۔ تقریب حلف برداری میں انھیں سخت سیکیورٹی پروٹوکول میں باغ قائداعظم لایا گیا اور سب نے ایک خوشگوار حیرت کے ساتھ انھیں ''جئے متحدہ، جئے بھٹو، جئے عمران خان'' کا نعرہ لگاتے ہوئے سنا۔
بلدیاتی امور کے ماہرین کے مطابق کراچی میں سب سے بڑا مسئلہ زمین کے استعمال کا ہے، یعنی رہائشی اور تفریحی اور کھیلوں کے لیے مختص زمینوں کا اندھادھند کاروباری مقاصد کے لیے استعمال۔ اب آپ سوچئے اگر ایک رہائشی پلاٹ دس افراد کے رہنے کے لیے ہو اور اس پر آپ دس منزلہ عمارت بنا دیں، نچلی منزل پر دکانیں بنادیں تو اب آپ کو دو سو افراد کے لیے پانی، بجلی، گیس، کچرا اٹھانے اور پارکنگ کی سہولت فراہم کرنا ہوگی جو نہیں فراہم کی جاتی اور یوں ان گنت مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ قانون کے مطابق اس طرح کے کاروباری منصوبوں کے بجٹ کا 33 فیصد حصہ انفرااسٹرکچر کی سہولتوں پر خرچ کیا جانا چاہیے، لیکن قانون کی کون پروا کرتا ہے۔اگر آپ نے ''ربن کمرشلائزیشن'' RIBBON COMMERCIALIZATION کی اصطلاح نہیں سن رکھی تو آپ کو بتاتے چلیں کہ یہ ایک کھیل کے میدان یا ایک منزلہ گھر کے سامنے ایک کئی منزلہ اونچی عمارت بنانے کی اجازت دینے کو کہتے ہیں۔ یہ اونچی عمارت اس ایک منزلہ گھر کے مکینوں کے لیے ہواؤں کا راستہ روک دیتی ہے، ان کی پرائیویسی ختم ہوجاتی ہے۔
کراچی میں ربن کمرشلائزیشن کا آغاز نعمت اﷲ کی میئرشپ میں ہوا، پھر مصطفیٰ کمال آئے تو انھوں نے محمودآباد کے سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ کو ختم کرکے ایک ہاؤسنگ سوسائٹی بنادی۔ ان کے بعد پیپلز پارٹی کی گورنمنٹ نے ایک ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن آفیسر کو یہ اختیارات دے رکھے ہیں کہ وہ جس پلاٹ یا عمارت کو چاہے کاروباری مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی اجازت دے دے۔ تجاوزات کی بھرمار اس کے علاوہ ہے، پبلک پارک اور فٹ پاتھ بھی اس سے نہیں بچے ہیں۔ ایسا کرنے والوں میں کار شورومز، ریستوراں، اسٹالز، سی این جی اسٹیشنز نمایاں ہیں۔
شہری منصوبہ بندی کے ماہر فرحان احمد کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ کراچی کے لیے کبھی منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔ 1952 میں عظیم تر کراچی منصوبہ، 1958 میں عظیم تر کراچی آبادکاری منصوبہ، 1974-85 کراچی ترقیاتی منصوبہ، 2020 کراچی ترقیاتی منصوبہ، 2020 کراچی اسٹرٹیجک ترقیاتی منصوبہ بنایا گیا۔ لیکن ان منصوبوں پر عملدرآمد کے اختیارات کسی کے پاس نہیں تھے۔
سندھ کی محرومیوں کی بات بہت کی جاتی ہے لیکن ماہرین شہری منصوبہ بندی کہتے ہیںکہ ساتویں این ایف سی ایوارڈ میں سندھ کو بہت پیسہ ملا ہے۔ اصل مسئلہ کرپشن اور بیڈ گورننس یا خراب طرز حکمرانی ہے۔ شفافیت کا فقدان ہے۔ آمدن و خرچ کا آڈٹ نہیں ہوتا۔ ترقیاتی فنڈز کا صرف پانچ فیصد ترقیاتی کاموں پر خرچ ہوتا ہے اور پچانوے فیصد سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کی جیب میں چلا جاتا ہے۔ اب معلومات تک رسائی کا قانون بن چکا ہے، اس لیے شہریوں کو چاہیے کہ وہ ترقیاتی منصوبوں کے بجٹ کے بارے میں معلومات طلب کریں۔
مقامی حکومتوں کو مالیاتی اور انتظامی طور پر بااختیار بنایا جائے، اس کے ساتھ احتساب اور شفافیت کو یقینی بنایا جائے۔اکنامک انٹیلی جنس یونٹ کے اشاریوں کے مطابق کراچی کا شمار دنیا میں رہنے کے سب سے کم قابل یعنی بدترین شہروں میں ہوتا ہے۔ جب کہ میلبورن رہنے کے لیے بہترین شہر قرار دیا گیا ہے۔ اس اسکورنگ میں شہری سہولتوں کی دستیابی کے ساتھ امن عامہ کی صورتحال کا بھی بہت دخل ہے۔ سیاسی استحکام، طبی سہولتوں کی فراہمی، ثقافتی سرگرمیاں، ماحولیاتی پائیداری، تعلیم اور انفرااسٹرکچر اس میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ظاہر ہے ہماری خواہش ہوگی کہ کراچی کا شمار بھی دنیا کے بہترین شہروں میں ہو۔ اس کے لیے مقامی حکومت کا فعال اور بااختیار ہونا بہت ضروری ہے، مگر چند روز قبل ایک پروگرام میں منتخب نمایندوں کو یہ کہتے ہوئے سنا:
''کونسلر گٹر کا ڈھکن لگانے کا بھی اختیار نہیں رکھتا''
''واٹر بورڈ سٹی گورنمنٹ کے پاس نہیں ہے''
''کچرا اٹھانے والا عملہ ہمارے ماتحت نہیں ہے''
ابھی تو کراچی دنیا کے ایک سو چالیس شہروں میں سے ایک سو چھتیسواں بدترین شہر ہے لیکن مقامی حکومت کو اختیارات نہیں دیے گئے تو کراچی کو آخری نمبر پر آنے میں دیر نہیں لگے گی۔ اگر آپ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے ماہرین سے بات کریں گے تو وہ کہیں گے کہ کراچی کا اسکور بڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ یہاں حبیب پلازہ جیسی بلند و بالا عمارتیں تعمیر کی جائیں، امن عامہ کی صورتحال بہتر بنائی جائے اور ایسی سہولتیں فراہم کی جائیں کہ دیگر ملکوں کی ٹیمیں یہاں میچ کھیلنے آئیں، عالمی مقابلے منعقد کیے جائیں، ثقافتی سرگرمیوں کو فروغ دیا جائے، ایسی دستکاری اور صنعتی مصنوعات تیار کی جائیں جن کی عالمی منڈی میں مانگ ہو، سیاحت کے فروغ کے لیے اقدامات کیے جائیں۔
یہ سب باتیں بہت اچھی ہیں لیکن ان میں غریبوں کا کوئی ذکر نہیں، جنھیں اٹھا کر شہر سے باہر پھینک دیا جاتا ہے اور جو دو تین گھنٹے بسوں میں دھکے کھا کر کام کی جگہ پر پہنچتے ہیں کیونکہ آج تک کوئی بھی حکومت پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم نہیں بناسکی ہے۔ وہ بنیادی سہولتوں سے محروم کچی آبادیوں میں زندگی گزارتے ہیں۔ اشرافیہ کو یاد رکھنا چاہیے کہ متذکرہ بالا کوئی بھی کام ان غریب محنت کشوں کے بغیر پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ غربت انسانوں پر تشدد کی بدترین شکل ہے اور سماجی انصاف کے بغیر نہ امن قائم ہوگا اور نہ ترقی ہوگی۔