غریبوں کا حصّہ
جو گوشت اسے اپنے پالتو کتوں کو کھلانا گوارا نہیں تھا، وہ گوشت قربانی میں غریبوں کے حصّے کے نام پر بٹنے کیلئے جارہا تھا
''بہت بہت عید مبارک ہو، سر!'' انور کے چہرے پر پھیلی عاجزانہ مسکراہٹ بتا رہی تھی کہ وہ فون پر اپنے باس سے بات کر رہا ہے۔ ''سَر! میں نے یہ پوچھنے کے لیے کال کی تھی کہ آپ کے حصّے کے گوشت کا قیمہ بنوا لوں یا چھوٹی چھوٹی گول بوٹی چلے گی؟ جی جی سر، میں جانتا ہوں کہ آپ کو ران کا گوشت بہت پسند ہے اس لئے میں نے پہلے ہی قصائی سے کہہ کر ایک بکرے کی ران آپ کے لیے الگ کروا دی تھی۔ ارے نہیں نہیں سر! بھلا تکلف کیسا؟ یہ تو ہماری خوش نصیبی ہے۔ ارے شکریہ کہہ کر شرمندہ نہ کریں سر، اپنا خیال رکھئے گا۔ ''اللہ حافظ۔'' کال منقطع ہوچکی تھی مگر انور کے چہرے پر پھیلی مسکراہٹ ابھی بھی وہیں کی وہیں تھی۔
''جی صاحب جی، آپ نے آواز دی تھی؟'' ملازم کی سانس پھولی ہوئی تھی۔
''ہاں! وہ شیخ صاحب کے گھر گوشت دے آئے تھے ناں؟''
''جی صاحب جی! وہ تو میں کب کا دے آیا ہوں، آپ کو عید مبارک کہہ رہے تھے، اور کہہ رہے تھے قربانی سے فارغ ہو کر خود آئیں گے آپ کا حصّہ لے کر، مگر لگتا ہے کہ شام سے پہلے نہیں آسکیں گے کیونکہ جب میں اُن کے گھر گیا تھا تو قصائی نے گائے ذبح کرنے کے لیے گرائی ہی تھی۔'' ملازم نے ایک ہی سانس میں ساری تفصیل بتا دی تھی۔
''اور منیر صاحب کے گھر؟''
''وہ واپڈا والے منیر صاحب، جو ہر سال اونٹ کی قربانی کرتے ہیں؟ میں ابھی اُنہی کے گھر گوشت دے کر آرہا ہوں ۔''
''ہاں ہاں وہی واپڈا والے، اُن کے گھر ذرا زیادہ گوشت دے کر آنا تھا، بہت اچھے آدمی ہیں۔ اُن سے کوئی بھی کام پڑجائے وہ کبھی انکار نہیں کرتے، اور ہمیں تو اُن سے کام پڑتے ہی رہتے ہیں۔''
''اچھا صاحب جی، کیا میں وہ منیر صاحب کے گھر بھی گوشت دے آؤں؟ جو ہماری گلی کے آخر میں رہتے ہیں؟''
''کون، وہ جنہوں نے گھر میں ہی چھوٹی سی کریانہ کی دوکان بنائی ہوئی ہے، کیا انہوں نے اس سال قربانی نہیں کی؟''
''نہیں صاحب جی، ان کا چھوٹا بیٹا بہت بیمار ہوگیا تھا، اس کے علاج پر ہی اتنا خرچہ ہوگیا کہ بکرا لینا تو دور کی بات، بیچارے گائے کی قربانی میں بھی حصّہ نہیں ڈال سکے۔'' ملازم نے بیچارگی سے بتایا۔
''چلو انہیں بعد میں دیکھتے ہیں۔ پہلے یہ دیکھ کر آؤ کہ قصائی نے دیگوں کے لئے گوشت بنا لیا ہے کہ نہیں، اگر نہیں بنایا تو اس سے کہو کہ جلدی بنائے، پکانے میں بھی اچھا خاصا وقت لگے گا اور تھوڑی دیر تک مہمان بھی آنا شروع ہوجائیں گے'' انور نے ملازم کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔
''ٹھیک ہے صاحب جی میں ابھی چیک کرکے آتا ہوں۔ اچھا صاحب جی وہ دروازے پر بھی کچھ بیچارے صبح سے گوشت کے انتظار میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ کچھ عورتیں اور بچے بھی ہیں۔ پہلے انہیں فارغ کردوں تھوڑا تھوڑا گوشت دے کر؟''
''کہا ناں انہیں بعد میں دیکھیں گے، پہلے جو تمہیں کہا گیا ہے وہ کرو، اور وہ چوہدری صاحب کے گھر تو گوشت دے آئے تھے ناں؟''
''نہیں صاحب جی بس ان کا گھر رہ گیا ہے، باقی سب گھروں میں بانٹ آیا ہوں۔ ہاں البتہ ان کے گھر سے گوشت صبح صبح ہی آ گیا تھا۔''
''کیسے جاہل آدمی ہو تم، میں نے تمہیں کہا تھا کہ چوہدری صاحب کے گھر گوشت سب سے پہلے دے کر آنا ہے اور تم کہہ رہے ہو کہ بس انہی کا گھر رہ گیا ہے۔'' انور نے غصّے سے چیختے ہوئے کہا۔ ''اب یہاں کھڑے میرا منہ کیا دیکھ رہے ہو؟ جاؤ ان کے گھر گوشت دے کر آؤ اور ان سے معذرت بھی کرکے آنا کہ یہ سب تمہاری غلطی کی وجہ سے ہوا ہے۔'' ملازم کمرے سے چلا گیا اور انور دوبارہ موبائل فون میں مصروف ہوگیا۔
''ہاں! ہو آئے چوہدری صاحب کے گھر سے؟'' انور نے ملازم کے کمرے میں داخل ہوتے ہی پوچھا۔
''جی صاحب جی! ہو آیا ہوں، معذرت بھی کرلی تھی میں نے اُن سے۔ اور وہ قصائی نے دیگوں کے لئے گوشت بھی بنا دیا ہے اور گھر کے لئے بھی الگ کردیا ہے۔''
''اسے کہنا تھا کہ گھر والے گوشت کی اچھی طرح سے صفائی کرے، ہڈیاں اور چربی بالکل بھی نہیں ہونی چاہیئے۔ بچے پسند نہیں کرتے۔''
''ہاں جی ایسا ہی کیا ہے، بالکل صاف ستھرا گوشت رکھا ہے گھر کے لئے۔ پیچھے اب بس نام کا ہی گوشت بچا ہے بلکہ ساری ہڈیاں اور چھیچھڑے وغیرہ ہی ہیں۔ اگر آپ کہتے ہیں تو وہ شیرو اور موتی (انور کے پالتو کتوں کے نام) کے لئے فریزر میں رکھ دوں، اُن کے آٹھ دس دن بڑے آرام سے نکل جائیں گے؟''
''نہیں! وہ ایسا گوشت کم ہی کھانا پسند کرتے ہیں۔ تم ایسا کرو کہ اس بچے ہوئے گوشت کو چھوٹی چھوٹی تھیلیوں میں ڈال کر باہر بیٹھے لوگوں میں بانٹ دو اور اگرمزید بچ جائے تو اُس دوکان والے کے گھربھی دے آنا جس کا تم بتا رہے تھے کہ اس نے قربانی نہیں کی۔ چلو اس طرح غریبوں کا حصّہ بھی نکل جائے گا'' انور نے اطمینان سے کہا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
''جی صاحب جی، آپ نے آواز دی تھی؟'' ملازم کی سانس پھولی ہوئی تھی۔
''ہاں! وہ شیخ صاحب کے گھر گوشت دے آئے تھے ناں؟''
''جی صاحب جی! وہ تو میں کب کا دے آیا ہوں، آپ کو عید مبارک کہہ رہے تھے، اور کہہ رہے تھے قربانی سے فارغ ہو کر خود آئیں گے آپ کا حصّہ لے کر، مگر لگتا ہے کہ شام سے پہلے نہیں آسکیں گے کیونکہ جب میں اُن کے گھر گیا تھا تو قصائی نے گائے ذبح کرنے کے لیے گرائی ہی تھی۔'' ملازم نے ایک ہی سانس میں ساری تفصیل بتا دی تھی۔
''اور منیر صاحب کے گھر؟''
''وہ واپڈا والے منیر صاحب، جو ہر سال اونٹ کی قربانی کرتے ہیں؟ میں ابھی اُنہی کے گھر گوشت دے کر آرہا ہوں ۔''
''ہاں ہاں وہی واپڈا والے، اُن کے گھر ذرا زیادہ گوشت دے کر آنا تھا، بہت اچھے آدمی ہیں۔ اُن سے کوئی بھی کام پڑجائے وہ کبھی انکار نہیں کرتے، اور ہمیں تو اُن سے کام پڑتے ہی رہتے ہیں۔''
''اچھا صاحب جی، کیا میں وہ منیر صاحب کے گھر بھی گوشت دے آؤں؟ جو ہماری گلی کے آخر میں رہتے ہیں؟''
''کون، وہ جنہوں نے گھر میں ہی چھوٹی سی کریانہ کی دوکان بنائی ہوئی ہے، کیا انہوں نے اس سال قربانی نہیں کی؟''
''نہیں صاحب جی، ان کا چھوٹا بیٹا بہت بیمار ہوگیا تھا، اس کے علاج پر ہی اتنا خرچہ ہوگیا کہ بکرا لینا تو دور کی بات، بیچارے گائے کی قربانی میں بھی حصّہ نہیں ڈال سکے۔'' ملازم نے بیچارگی سے بتایا۔
''چلو انہیں بعد میں دیکھتے ہیں۔ پہلے یہ دیکھ کر آؤ کہ قصائی نے دیگوں کے لئے گوشت بنا لیا ہے کہ نہیں، اگر نہیں بنایا تو اس سے کہو کہ جلدی بنائے، پکانے میں بھی اچھا خاصا وقت لگے گا اور تھوڑی دیر تک مہمان بھی آنا شروع ہوجائیں گے'' انور نے ملازم کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔
''ٹھیک ہے صاحب جی میں ابھی چیک کرکے آتا ہوں۔ اچھا صاحب جی وہ دروازے پر بھی کچھ بیچارے صبح سے گوشت کے انتظار میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ کچھ عورتیں اور بچے بھی ہیں۔ پہلے انہیں فارغ کردوں تھوڑا تھوڑا گوشت دے کر؟''
''کہا ناں انہیں بعد میں دیکھیں گے، پہلے جو تمہیں کہا گیا ہے وہ کرو، اور وہ چوہدری صاحب کے گھر تو گوشت دے آئے تھے ناں؟''
''نہیں صاحب جی بس ان کا گھر رہ گیا ہے، باقی سب گھروں میں بانٹ آیا ہوں۔ ہاں البتہ ان کے گھر سے گوشت صبح صبح ہی آ گیا تھا۔''
''کیسے جاہل آدمی ہو تم، میں نے تمہیں کہا تھا کہ چوہدری صاحب کے گھر گوشت سب سے پہلے دے کر آنا ہے اور تم کہہ رہے ہو کہ بس انہی کا گھر رہ گیا ہے۔'' انور نے غصّے سے چیختے ہوئے کہا۔ ''اب یہاں کھڑے میرا منہ کیا دیکھ رہے ہو؟ جاؤ ان کے گھر گوشت دے کر آؤ اور ان سے معذرت بھی کرکے آنا کہ یہ سب تمہاری غلطی کی وجہ سے ہوا ہے۔'' ملازم کمرے سے چلا گیا اور انور دوبارہ موبائل فون میں مصروف ہوگیا۔
''ہاں! ہو آئے چوہدری صاحب کے گھر سے؟'' انور نے ملازم کے کمرے میں داخل ہوتے ہی پوچھا۔
''جی صاحب جی! ہو آیا ہوں، معذرت بھی کرلی تھی میں نے اُن سے۔ اور وہ قصائی نے دیگوں کے لئے گوشت بھی بنا دیا ہے اور گھر کے لئے بھی الگ کردیا ہے۔''
''اسے کہنا تھا کہ گھر والے گوشت کی اچھی طرح سے صفائی کرے، ہڈیاں اور چربی بالکل بھی نہیں ہونی چاہیئے۔ بچے پسند نہیں کرتے۔''
''ہاں جی ایسا ہی کیا ہے، بالکل صاف ستھرا گوشت رکھا ہے گھر کے لئے۔ پیچھے اب بس نام کا ہی گوشت بچا ہے بلکہ ساری ہڈیاں اور چھیچھڑے وغیرہ ہی ہیں۔ اگر آپ کہتے ہیں تو وہ شیرو اور موتی (انور کے پالتو کتوں کے نام) کے لئے فریزر میں رکھ دوں، اُن کے آٹھ دس دن بڑے آرام سے نکل جائیں گے؟''
''نہیں! وہ ایسا گوشت کم ہی کھانا پسند کرتے ہیں۔ تم ایسا کرو کہ اس بچے ہوئے گوشت کو چھوٹی چھوٹی تھیلیوں میں ڈال کر باہر بیٹھے لوگوں میں بانٹ دو اور اگرمزید بچ جائے تو اُس دوکان والے کے گھربھی دے آنا جس کا تم بتا رہے تھے کہ اس نے قربانی نہیں کی۔ چلو اس طرح غریبوں کا حصّہ بھی نکل جائے گا'' انور نے اطمینان سے کہا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھblog@express.com.pk پر ای میل کریں۔