کیسے بنے وہ قائداعظم
بابائے قوم کی زندگی کے وہ پہلو جنھوںنے اُنھیں برصغیر کے مسلمانوں کا عظیم ترین راہ نما بنادیا
آج قیام پاکستان کے تقریباً 69 سال بعد جب ہم بابائے قوم محمد علی جناح کا یوم وفات منارہے ہیں اور یقیناً روایتی عقیدت و احترام سے منارہے ہیں، تو ایک خیال احساس کمتری کا کوڑا بن کر ذہن پر برس رہا ہے۔
اس شخص کے بارے میں ہم جانتے ہی کیا ہیں؟ یہی کہ وہ 25 دسمبر کو کراچی میں پیدا ہوئے، سندھ مدرسۃ السلام اور پھر لندن میں لنکنزان سے تعلیم حاصل کی، واپس آکر وکالت اور سیاست کا پیشہ اپنایا، اس دوران چودہ نکات بھی پیش کر ڈالے پھر 1940 میں قرار داد پاکستان منظور کرواکر تحریک پاکستان چلائی۔ ''دشمن'' کی عیاریوں اور مکاریوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور پاکستان بنا ڈالا۔ اقبالؒ نے انھیں اپنا جنرل کہا، مسلمانوں نے ملت بن کر ان کا ساتھ دیا مگر گرتی صحت نے انھیں قیام پاکستان کے بعد زیادہ عرصے ہمارے ساتھ رہنے کا موقع نہ دیا وہ چلے گئے، صرف ایک سال بعد، اور پھر وہ حتمی جملہ ''ان کے بعد پاکستان کو قائد اعظم سا کوئی لیڈر نہیں ملا۔''
لیکن ملتا بھی کیسے؟ ہمیں معلوم ہی کہاں ہے کہ ''قائد اعظم'' کیسے بنا جاتا ہے۔ محمد علی جناح اتنے سارے راہبروں کی موجودگی میں ہم سب کے ''قائد اعظم'' کیسے بن گئے؟ وہ کون تھے؟ کیسے تھے؟ کس پس منظر سے ابھرے اور خود اپنی ذات کو سنوارنے کے لیے انھوں نے کیسی جدوجہد کی، جس نے انھیں پورے ہندوستان کے مسلمانوں بل کہ بہت سے روشن ضمیر غیرمسلموں کا بھی آئیڈیل بنادیا۔ کیسی کڑی ریاضت اور استقامت کے بعد انھوں نے کردار کا وہ اسلوب حاصل کیا کہ ان کی سوچ اور راہ نمائی پر ہندوستان بھر کے مسلمانوں کا اعتماد قائم ہوگیا۔
وہ جو بھی زبان بولتے تھے، جس علاقائی یا خاندانی پس منظر سے بھی تعلق رکھتے تھے، جس مکتبۂ فکر کے بھی حامی رہے ہوں گے، سب غیرمتعلق ہوگیا۔ آج کل کے زمانے میں سیاست کے غلاف میں مذہب کی دکان چمکانے والے اور مذہب کے پیراہن میں سیاسی فائدے اٹھانے والے اسی بات پر فخر کرنے کی سچی جھوٹی کوشش فرمارہے ہیں کہ ان کے اجداد میں سے کسی نے محمد علی جناح کو قائد اعظم کا خطاب دیا۔ اس دعوے کی تاریخی حیثیت سے صرف نظر کوئی اس قوم کو یہ بتانے والا ہوتا کہ جناح کو تو قائداعظم قرار دیا ہی جانا تھا، مگر یہ سہرا صرف جناح کے سر ہی کیوں بندھا، بلند نگاہی، سخن دل نوازی اور جاں پر سوزی کی کون سی شمع انھوں نے اپنی سیرت و کردار میں جلائی تھی کہ لوگوں نے آنکھ بند کرکے ان پر یقین کیا، گھر چھوڑے، جائیدادیں ترک کیں، جانیں اور عزتیں بھی قربان کردیں اور آج تک کی نسلوں کو ان قربانیوں پر کوئی افسوس نہیں بل کہ فخر ہے۔
جب کبھی میں نے اس سیرت و کردار کو سمجھنے کی کوشش کی ہے ابتدا ہی سے ایک تاریخی روایت میرے اندر یقین کی جوت سی جگادیتی ہے جس کا تعلق ان کا نام رکھنے کی حکایت سے ہے۔ محمد علی جناح کاٹھیاواڑ (گجرات) سے نقل مکانی کرکے بہتر تجارتی مواقع کے لیے کراچی آکر آباد ہوجانے والے خوجہ گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ خوجہ برادری امن پسند اور حالات کے مطابق چلنے والے تاجروں پر مشتمل تھی جو عموماً ٹکرائو سے دور رہا کرتے کہ تجارتی کام یابی کی کلید بھی یہی ہے اور انہی صفات کی بدولت یہ لوگ کام یاب تاجر تھے۔ چوںکہ ہندومت سے تبدیلیِ مذہب کیے ہوئے تھے، اس لیے اکثر ناموں میں قدیم علاقائی اور خاندانی نسبت نظر آتی تھی۔
جناح کے والد نے پہلے گائوں چھوڑ کر پرولی کے قریب گونڈل کے مقام پر سکونت اختیار کی، پھر کراچی آگئے جہاں ان کا پہلا بیٹا پیدا ہوا، چوںکہ پہلی مرتبہ عام مسلمانوں کی اکثریت والے علاقے میں بودوباش اختیار کی تھی، اس لیے لاڈلے بیٹے کے نام پر بحث تو کئی روز چلی مگر اڑوس پڑوس کی روش سے ہٹ کر نام رکھنے کے بجائے خالص اسلامی نام رکھنے پر ہی اتفاق ہوا۔ ماں باپ کو گمان تھا کہ دو عظیم ناموں کے مرکب نام والا بچہ ''بڑا بادشاہ'' بنے گا۔ شاید یہ محض اتفاق نہیں کہ اس نام والے بے شمار افراد اپنے اپنے میدانوں کے شہ سوار ہی گزرے ہیں۔ کہاجاتا ہے کہ محمد علی کے ساتھ والد کا نام ''جینا بھائی'' لگایا گیا جو گجراتی میں ''دبلے پتلے آدمی'' کو کہتے ہیں جیسا کہ قائد کے والد تھے بھی، تاہم بعد میں والد نے یا خود قائد نے اس کی املا بدل کر ''جناح'' کردیا، جس کے معنی عربی میں ''بازو یا شہ پر'' کے ہیں۔ نام کی تبدیلی اسی ذہنی و نفسیاتی ہجرت کی طرف واضح اشارہ ہے جس نے بعد ازاں محمد علی جناح کو ''اسلامی جمہوریہ پاکستان'' کا بانی بنایا۔
کہا جاتا ہے کہ محمد علی جناح کے والدین جنھوں نے بیٹے کا خاندانی رواج سے ہٹ کر نام رکھتے ہوئے ایک خاص ذہنی انقلاب کا ثبوت دیا تھا اپنے بیٹے کو تعلیمی اور تجارتی میدان میں کام یاب دیکھنے کی شدید آرزو رکھتے تھے لیکن بے حد لاڈ پیار سے پرورش پاتے جناح کا رجحان ابتدا میں تعلیم کی طرف نہیں تھا، وہ کھیل کود میں کہیں زیادہ دل چسپی لیتے تھے اور کہا جاتا ہے کہ اس میں بھی مٹی سے کھیلنا یا گندگی میں رُلنا ان کی نفاست پسند طبیعت پر بار بن جاتا تھا۔ چناںچہ انھوں نے اپنے ہم جولیوں کو گولیوں اور کنچوں کے مقابلے میں کرکٹ کے بلے اور بال سے متعارف کروایا۔
کلاس روم کے اسباق کے مقابلے میں بحیرۂ عرب کے کنارے گھڑ سواری کرنے اور کرکٹ کھیلنے والے جناح کے بارے میں یہ بات شروع سے واضح تھی کہ وہ آسانی سے احکامات قبول کرنے والی فطرت نہیں رکھتے اور خود چیزوں کی اچھائی برائی کو پرکھنے کی کوشش کرتے تھے۔ بہن بھائیوں میں بڑا ہونے کی وجہ سے انھیں گھر میں بھی ایک خاص حیثیت حاصل رہی ہوگی جو استحقاق کے ساتھ ساتھ ایک قسم کا احساسِ ذمے داری بھی لاتی ہے۔ چناںچہ تاریخ کے اوراق کا مطالعہ کرنے سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ تعلیمی میدان میں قابل ذکر کارکردگی کا مظاہرہ نہ کرسکنے پر وہ کہیں نہ کہیں اپنی خودداری پر ٹھیس ضرور محسوس کرتے تھے۔
دوسری طرف والدین نے بھی چوںکہ انھیں امیدوں کا محور بنا رکھا تھا، لہٰذا وہ ان کے مختلف اچھے اسکولوں میں داخلے کے لیے سرگرداں رہے۔ ان کوششوں میں گھر پر گجراتی کی تعلیم سے لے کر سندھ مدرسۃ الاسلام کراچی اور بمبئی کے چرچ مشن ہائی اسکول قابل ذکر ہیں۔ یہی نہیں بل کہ قائداعظم کے والد نے اپنے تجارتی پارٹنر کے مشورے سے بیٹے کو تربیت اور تجربہ حاصل کرنے یا کچھ تجارتی سرگرمیوں کے لیے سمندر پار انگلستان بھیجنا بھی منظور کرلیا۔ شاید یہ اس وقت کا بہت ہی مشکل فیصلہ رہا ہوگا جب ہندوستانی مائیں بیٹوں کو خود سے دور کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتی تھیں۔ طرح طرح کے وسوسوں کے ساتھ ''بیٹا میم نہ لے آئے'' قسم کے خوف بھی اپنے بیٹے پر بھرپور اعتماد کے باوجود لاحق رہے ہوں گے۔ چناںچہ سولہ سالہ محمد علی جناح کو ایمی بائی سے نکاح کے بعد انگلستان روانہ کیا گیا۔ امید غالباً یہی تھی کہ وہاں سے وہ کامیاب تجربہ کار تاجر کے روپ میں لوٹیں گے اور والد کے چمڑے اور کھالوں کے بزنس کو کئی گنا آگے لے جائیں گے۔
تاہم حالات نے کچھ ایسا پلٹا کھایا کہ جناح تجارتی عزائم پورے نہیں کرسکے۔ ادھر کراچی میں والد کے کاروبار کو زوال آگیا جس کا پورا علم شاید جناح کو نہ ہوسکا، لیکن انگلستان کے تنہا سفر نے ان کی خود آگاہی کو ایک نئی جہت عطا کی۔ ساتھ ہی اچھے برے کی تفریق کی صلاحیت کی زبردست پرکھ ہوگئی۔
اصول پسند، کبھی مفاد کے لیے سمجھوتا نہ کرنے والے، حق اور انصاف کے لیے لڑنے کی صلاحیت رکھنے والے، منطق پسند محمد علی جناح پر انکشاف ہوا کہ ان کی ذہنی افتاد تجارت کے پیشے کے لیے موزوں نہیں، البتہ وکالت کا میدان ان کے لیے خوب رہے گا۔ ساتھ ہی انھیں اس بات کا احساس تھا کہ انھیں کسی لا اسکول میں داخلہ مل بھی گیا تو اس موقع سے زبردست فائدہ اٹھانے کے لیے انھیں دیگر طلبا سے جو اعلیٰ تعلیمی پس منظر رکھتے ہوں گے کئی گنا زیادہ محنت کرنے کی ضرورت ہوگی۔
شاید خود آگاہی کے یہ لمحات ہی مستقبل کے قائداعظم کی پیدائش کے تاریخی لمحات تھے۔ ان کے عزم اور کردار کی پختگی، ناممکن کو ممکن کر دکھانے کی صلاحیت اور قائدانہ قابلیت کا امتحان تھا۔ کراچی کے ایک کاٹھیاواڑی گھرانے کا سیدھا سادا ماں باپ کا لاڈلا لڑکا سولہ سال کی عمر میں لندن وارد ہوتا ہے۔ کچھ تجارتی تربیت حاصل کرنے کے لیے اگر یہ لڑکا ان سرگرمیوں میں زیادہ کام یاب نہیں رہا تب بھی واپسی کے راستے بڑے آسان تھے۔ خاندان والوں کی توقعات کا گراف جناح کی حقیقی استعداد سے یقیناً کافی نیچے ہی تھا، مگر جناح نے خود کو سنوارنے اور بنانے کی ٹھان لی۔
لندن کے لا اسکولز میں داخلے کی دوڑ دھوپ شروع کی تو بالآخر نگاہ انتخاب لنکنزان پر کیوں جا لگی؟ کہا جاتا ہے کہ اس اسکول کے ہال میں نام ور قانون دانوں کا ناموں کی فہرست میں حضورﷺ سرفہرست تھے، مگر شاید اس لیے بھی کہ داخلے کے امتحان میں لاطینی سے استثنیٰ دے دیا گیا تھا۔ تاہم انگریزی اور تاریخ کے پرچوں میں اعلیٰ کارکردگی دکھانی تھی۔ جناح نے داخلے کے امتحان کے لیے کتنی محنت کی ہوگی، اس کا حوالہ موجود نہیں، لیکن ان کی گذشتہ استعداد کے پیش نظر انھیں داخلہ مل جانا ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ انھوں نے جان توڑ محنت کی اور محنت کے بعد ملنے والے داخلے نے انھیں لندن کی دیگر رعنائیوں سے اس قدر بے پروا کردیا کہ اگلے چار سال اس لڑکے کو کسی نے برٹش میوزیم لائبریری کے علاوہ شاذ ہی کسی جگہ دیکھا ہوگا۔
البتہ ایک سرگرمی ایسی تھی جس کا باقاعدہ حوالہ کتابوں میں موجود ہے اور وہ ہے لندن میں دادا بھائی نوروجی سے قربت اور پابندی سے ''ہائوس آف کامنز'' کی کارروائیوں میں شرکت۔ دادا بھائی نوروجی اپنی روشن خیالی، مساوی حقوق کے لیے جدوجہد اور تعصب سے عاری سیاست کی وجہ سے جناح کا آئیڈیل بن گئے تھے اور ان کی سیاسی زندگی پر ہمیشہ ان صفات کا عکس رہا۔ کسی موقع پر جناح نے بھی دادا بھائی نوروجی کی طرح ہائوس آف کامنز کا ممبر بن کر مساوی حقوق کی جدوجہد کرنے کی خواہش کا اظہار کیا، تاہم ملک اور خاندان سے وابستہ ذمے داریاں انھیں بلارہی تھیں۔ والدہ اور اہلیہ انتقال کرچکی تھیں اور والد کا کاروبار شدید خسارے سے گزر کر دیوالیہ ہوچکا تھا۔ جناح نے سب سے پہلے خود عدالت میں جرح کی ذمے داری لیتے ہوئے والد کے دفاع کا کام سنبھالا اور انھیں مقدمات سے نجات دلائی۔ اس کے بعد سارے خاندان کو لے کر ممبئی منتقل ہوگئے، جہاں وکالت چلنے کی امید تھی۔
چیمبر آنے جانے کے لیے ان کی جیب میں بس یا ٹرام کا کرایہ تک نہیں ہوتا تھا اور ان کی اونچی فیس کی وجہ سے کوئی بھی ایک نوجوان، خوش پوش، شائستہ نظر آتے نوآموز وکیل کو اپنا مقدمہ سونپنے پر تیار نہ ہوتا تھا۔ ابتدائی دو تین سال اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مارتے ہی گزرے۔ جناح نے فیس کا معیار کم نہیں کیا، وہ اپنے اعلیٰ درجے کے لباس میں روز مقررہ وقت پر پیدل چل کر اپنے چیمبر پہنچ جاتے اور تقریباً سارا دن گزار کر مخصوص وقت پر واپسی کے لیے بھی پیدل روانہ ہوجاتے۔ مالی پریشانیاں، اضطراب یا مایوسی کبھی ان کے چہرے سے عیاں نہیں ہوئیں۔ لوگ اس دراز قد نوجوان کو آتے جاتے دیکھتے تو اس کی جسمانی پھرتی اور دل کش چال پر احترام محسوس کرتے۔ کسی کے دل میں کبھی خیال بھی نہیں آتا ہوگا کہ اس نوجوان کی جیب میں سواری کے لیے کرایہ بھی نہیں ہے۔ اس عرصے میں لندن میں کی گئی کفایت شعاری ہی ان کے کام آئی۔ ممبئی میں جان مولیس ورتھ میکفرسن نے، جو اس وقت کے کار گزار ایڈووکیٹ تھے، جناح کو اپنے چیمبر میں شامل کرلیا تھا۔ اس چیمبر کے وہ پہلے ہندوستانی وکیل تھے اور یہ موقع ان کے لیے اندھیرے میں امید کی کرن تھا، مگر پھر بھی اس موقع نے انھیں بہت زیادہ کام یابی نہیں دلائی۔
البتہ پہلا موقع 1900میں ملا جب انھیں پریزیڈنسی مجسٹریٹ بنایا گیا۔ 24 سالہ نوجوان وکیل کی یہ یقیناً بہت بڑی کام یابی تھی۔ تاہم یہ عہدہ انھیں محض عارضی طور پر سونپا گیا تھا، حریت پسند طبیعت اس عہدے کی متقاضی بھی نہیں تھی۔ چناںچہ چھ ماہ بعد ہی انھوں نے اس ملازمت سے علیحدگی اختیار کرلی۔ اس عرصے میں وہ بہنوں کی شادیوں اور چھوٹے بھائی احمد علی اور بہن فاطمہ کے اسکولوں میں داخلے کے انتظامات سے فارغ ہوچکے تھے۔ چناںچہ اب انھوں نے پوری یکسوئی سے وکالت کی طرف توجہ مبذول کرلی۔ بہت جلد ان کے دن بدلنے لگے کہ عدالت میں ان کی موشگافیاں اپنے جوہر دکھارہی تھیں۔ 1902 میں ان کی آمدنی 2000 روپے سے بڑھ چکی تھی۔ اس کے بعد جب انھیں مستقل پریذیڈنسی مجسٹریٹ کے عہدے کی پیش کش کی گئی، جو بالآخر عدالت عالیہ کا چیف جسٹس بننے کا دروازہ ہے، تو یہ پیشکش انھوں نے یہ کہہ کر مسترد کردی کہ 1500 روپے تو اب میں روز کماسکتا ہوں۔
کہاجاتا ہے کہ ایک مقدمے کی شنوائی کے دوران جج نے 3 مرتبہ جناح کو ''بکواس'' کہہ کر ٹوکا۔ جناح نے جواب میں کہا،''یورلارڈ شپ! آج پورے دن آپ کی زبان سے بکواس کے علاوہ کچھ اور ادا نہیں ہوا۔''
وکالت کے ساتھ ہی جناح کی سیاسی زندگی کی ابتدا ہوگئی تھی۔ لندن سے لوٹنے کے بعد وہ انجمن اسلام کے ممبر بن گئے تھے جو 1897 میں ممتاز تنظیم تھی۔ اس سے پہلے ہی جناح دادا بھائی نوروجی کے قریب تھے جو پارسی اور کانگریسی تھے۔ اس وقت اگرچہ کانگریس میں بال گنگا دھر تلک جیسے قوم پرست بھی تھے، جنھیں بنیادی طور پر ہندونواز سمجھا جاتا تھا مگر فیروز شاہ مہتا، دنشا واچا جیسے افراد سیکولر پارسی گروپ کے نمائندے اور خاصے طاقت ور سمجھے جاتے تھے۔ جناح کے اپنے خاندانی اور ذہنی رجحانات کھلے دل و دماغ کے غیر متعصب، حق پرست اور انسانی مساوات پر یقین رکھنے والے شخص کے تھے۔
وکالت کے لیے وہ عدالت بھی جاتے اور چیمبر پریکٹس بھی کرتے تھے۔ حالات پھرتے ہی وہ ایک بہتر فلیٹ میں منتقل ہوئے تو واسنت نامی ملازم بھی رکھ لیا جوکہ اچھوت تھا۔ قائد کا یہ ملازم چالیس سال سے زیادہ ان کے ساتھ رہا۔ بڑھاپے کی وجہ سے اس نے ملازمت چھوڑی تو جناح نے نہ صرف اسے بہت کچھ دیا بل کہ اس کے گائوں ''ڈیو'' میں اس کے لیے گھر بھی بنوایا۔
وہ انسانی برابری اور مساوات کے قائل تو ہمیشہ سے تھے، تاہم سیاسی زندگی میں ان کی کم زوری یہ تھی کہ وہ ڈرامائی تقریریں کرنے کے ماہر نہیں تھے۔ نہ ہی مخالفین کی دھجیاں اڑاکر ہجوم کو بھڑکانے کا آرٹ انھیں آتا تھا۔ ان کی شخصیت خود میں سمٹے ایسے خوددار شخص کی تھی جو صاف گوئی اور منطق کی بنیاد پر اپنے نظریات کی وضاحت کرنا پسند کرتا تھا۔ بنیادی طور پر وکالت ہی ان کے سیاسی کردار کی کلید تھی کیوںکہ وہ ایک وکیل کی طرح سیاسی باریکیوں اور مسائل کا تجزیہ کرکے قانون کی بنیاد ہی پر حل پیش کرنا پسند کرتے تھے۔ البتہ قانون تفریق پیدا کرے تو ان کے اندر کا انسانیت نواز مساوات پسند پوری توانائی سے بیدار ہوجاتا اور وہ پورے جوش سے حق اور انصاف کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے۔
واضح طور پر 1916 تک وہ ایک ایسی سیاسی آواز تھے جسے لبرل حلقوں میں بڑی پسندیدگی اور قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ ان کے مختلف قوم، برادری اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے دوست ان کے کردار کی پختگی، حق گوئی اور عزم و ہمت کے ساتھ بے تعصبی کو بڑی قدر کی نظر سے دیکھتے تھے۔ ان کی سیاسی جدوجہد تمام ہندوستانیوں کے لیے تھی اور مسائل کا حل انھیں ہندو مسلم اتحاد کی صورت میں نظر آتا، جس کے لیے ان کی بے مثال کوششوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے انھیں ''ہندو مسلم اتحاد کا سفیر اور شہزادہ'' قرار دیا گیا۔
اس شہزادے کی دل کشی اور نفاست نے حسین و جمیل مس رتن بائی کے نازک احساسات کو بھی اپنی گرفت میں لیا اور بالآخر وہ رتن جناح بن کر رہیں۔ یہ تو قائد کی زندگی کا ایک الگ باب ہے، تاہم دل چسپ بات یہ ہے کہ رتن بائی کے والد نے جناح پر رتی کو ورغلانے کا الزام عائد کرتے ہوئے مقدمہ قائم کیا تو رتن نے عدالت میں ببانگ دہل کہا،''جناح نے مجھے نہیں بہکایا، میں نے انھیں ورغلایا ہے۔'' جج نے رتن سے وضاحت چاہی تو انھوں نے کہا،''مسٹر جناح میں جو حسن و جمال، نزاکت و نفاست اور عظمت و شان ہے وہی میری دل چسپی کا مرکز ہے۔'' اس پر مجسٹریٹ نے مسکراکر اثبات میں اپنا سر ہلادیا۔ اس مقدمے میں رتن کے والدین نے ان کے اٹھارہ سال کی ہونے تک حکم امتناعی حاصل کرلیا۔ تاہم وہ جانتے تھے کہ اٹھارہ سال کی ہوتے ہی اس حکم کی حیثیت کالعدم ہوجائے گی۔ چناںچہ انھوں نے جناح کو پیغام بھیجا کہ سول میرج کی صورت میں وہ آشیرباد دینے کو تیار ہیں کیوںکہ اس میں رجسٹرار کے سامنے حلف بھی دینا پڑتا ہے کہ دولہا کسی مخصوص مذہب سے تعلق نہیں رکھتا۔ اس طرح وہ بیٹی کی مسلم برادری میں شادی کے سماجی اثرات سے کسی قدر محفوظ ہوجائیں گے۔ جناح جو اصولوں کے پکے اور معاملات کے سچے تھے انھوں نے ایسی کسی بھی پیش کش کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ یہاں تک کہ رتن حکم امتناعی کی گرفت سے آزاد ہوکر خود ہی جناح کے پاس آکر مشرف بہ اسلام ہوگئیں اور نکاح عمل میں آیا۔ اس کے بعد کے کچھ سال جناح کی ذاتی اور سیاسی زندگی کے خوش گوار ترین سال تھے۔
ہوم رول کی حمایت میں جناح کی سیاسی و قانونی نکتہ دانیوں کو بڑی اہمیت حاصل تھی۔ اس دوران بمبئی کے بدنام گورنر و لنگڈن نے ہوم رول تحریک کے کارکنوں کے بارے میں توہین آمیز الفاظ کہے تو مسٹر اینڈ مسز جناح نے شان دار احتجاجی جلوسوں کی قیادت کی۔ پولیس اور انتظامیہ نے جلوسوں کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کی، مگر لگتا تھا جیسے اس روز شہر جناح کی گرفت میں تھا۔ اس مظاہرے سے جناح کی عظمت میں اضافہ ہوا اور بمبئی کے شہریوں نے ''جناح ہال'' کے نام سے تاریخی عمارت تعمیر کی، جس کا افتتاح مسز سروجنی نائیڈو نے کیا جو خود جناح کے پرجوش پرستاروں میں سے تھیں۔ مسز نائیڈو نے جناح کو مبارک باد دیتے ہوئے لکھا،''امن اور اتحاد کے پیام بر کی قدرومنزلت اس کی زندگی اور ملک میں کی گئی ہے۔''
شاید اس روز کے بعد بحیثیت سیاسی راہ نما ملک گیر سطح پر جناح کی حقیقی قدرومنزلت کا آغاز ہونا تھا، مگر گاندھی جی کی جنوبی افریقا سے واپسی ہوچکی تھی، جس کی بدولت احتجاجی سیاست اور مذہب کی طرف مائل قوم پرستی کا ظہور ہوا، جس نے جناح سے مزاج کے لوگوں کو کسی قدرغیرمتعلق سا کردیا۔ عوامی سطح پر گاندھی کے انداز سیاست اور مذہبی فکر کی پزیرائی نے مسلم قوم پرستوں میں بھی خطرے کی گھنٹی بجادی تھی۔ اب مسئلہ ہندوستان کی آزادی نہیں، آزادی کے بعد مسلمانان ہند کی فکری و مذہبی شناخت کا تھا۔
ان حالات سے جناح کچھ بددل ضرور ہوئے ہوں گے، تاہم مایوس ہرگز نہیں۔ امن، انصاف، مساوات اور اتحاد پر ان کا یقین قائم رہا اور حالات کی نزاکت بھانپتے ہوئے ان کی کوشش مسلسل دور ہوتے اور ایک دوسرے پر سے اعتماد کھوتے ہندوئوں اور مسلمانوں کو قریب لانے میں صرف ہونے لگیں۔ مسلم جذبات کی شدت اور اندیشوں کی گہرائی کو محسوس کرتے ہوئے انھوں نے حقیقت پسندی سے معاملات کا جائزہ لیا۔ اپنے سیاسی آئیڈیلزم کو زمینی حقائق سے مطابقت میں لانا ہی اب ان کی جدوجہد کا محور تھا۔ ان کے چودہ نکات جو مسلم ہندوستان کے مفادات کے تحفظ کی ضمانت ہوسکتے تھے، اسی سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔
شاید یہ متحدہ ہندوستان کی سب سے بڑی بدقسمتی ہے کہ وہ جناح کی دوراندیشی اور حب الوطنی سے فائدہ نہ اٹھاسکا۔ آج بھی اس برصغیر کے عوام سیاسی شعبدہ بازوں کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنے اپنے حقیقی مسائل کے حل سے بہت دور طرح طرح کی لسانی، نسلی اور مذہبی عصبیتوں میں جکڑے ہوئے ہیں۔اس زمانے کے عوام اور سیاسی دانش مند دونوں ہی میں خودغرضی اور تعصب اس حد تک ابھر چکا تھا کہ جناح کے پائے کے لوگوں کی وہاں جگہ نہیں رہی تھی۔ ذاتی زندگی میں عزیز بیوی کی وفات بھی جناح کے لیے ایک گہرا صدمہ تھی اور بالآخر انھوں نے مفاد پرستی اور خود غرض قوم پرستی کی سیاست سے کنارہ کش ہوکر لندن ہی میں سکونت اختیار کرلی۔
محمد علی جناح کی غیرموجودگی میں یہ احساس کچھ درد دل رکھنے والے مسلم اکابرین میں جاگا کہ قوم کی راہ نمائی اور کٹھن مرحلے پر حوصلہ افزائی کا فرض اصل میں صرف اور صرف محمد علی جناح جیسا شخص ادا کرسکتا ہے، جو حق گوئی، بے باکی اور اصول پسندی کے ساتھ دقیق قانونی مسائل اور انگریزی طرزفکر و سیاست سے پوری طرح آشنائی رکھتا ہے۔ اس موقع پر یقیناً یہ محمد جناح کا مسلمانان ہند پر احسان ہے کہ انھوں نے لندن کی پرسکون و پرتعیش زندگی کو خیرباد کہہ کر قوم کی راہ نمائی کا کام سنبھالا اور مسلم لیگ کو مسلمانوں کے دل کی آواز بنادیا۔ اس سے پہلے عوامی سیاست میں مسلم لیگ کی نہ کوئی نمائندہ حیثیت تھی، نہ ہی عام مسلمان، نوابوں اور جاگیرداروں کی اس جماعت کو اپنے مسائل کا حل سمجھتا تھا۔
قائداعظم کو کبھی یہ غلط فہمی نہیں ہوئی کہ وہ مذہبی امور میں بھی رائے دے سکتے ہیں۔ پٹنہ کے ایک جلسے میں ایک شخص نے ''مولانا محمد علی جناح زندہ باد'' کا نعرہ لگایا تو وہ فوراً کھرے ہوگئے اور انھوں نے دونوں ہاتھ بلند کرکے نفی میں حرکت دیتے ہوئے کہا ''نہیں بابا ہم مولانا نہیں ہیں، ہم مسٹر جناح ہیں۔''
جب قائد نے مسلم لیگ کی باگ ڈور سنبھالی اور پھر اس کو بالآخر تحریک پاکستان کے ناگزیر مقصد کی طرف گام زن کیا تو وہ یقیناً خود کو ذہنی و جسمانی طور پر اس بار کو اٹھانے کے لیے تیار اور آمادہ محسوس کررہے تھے، مگر جب تپ دق نے ان کے پھیپھڑوں کو مکمل طور پر اپنی گرفت میں لیا تو انھوں نے اپنی تمام تر طاقت اپنی مضبوط قوت ارادی میں مرکوز کردی۔ اس نحیف و نزار جسم میں بلا کی قوت ارادی تھی، جسمانی کم زوری کا شدید احساس ہی قائد کی مضبوط اور قابل رشک حد تک یقین محکم سے بھرپور زندگی کا راز تھا۔ جیسا کہ سعادت حسن منٹو نی قائد کے ڈرائیور محمد حنیف آزاد سے لیے گئے انٹرویو میں ان کا خاکہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے،''ان کے چلنے پھرنے، اٹھنے بیٹھنے، کھانے پینے اور بولنے سوچنے میں یہ قوت ہر وقت کارفرما رہتی تھی۔''
کچھ عجیب تو نہیں کہ جب قائد نے کہا ''ایمان، اتحاد اور تنظیم'' تو وہ اپنی ہی ذاتی زندگی سے اخذ کیے ہوئے تجربات، ایک درس کی صورت اس قوم کے سامنے پیش کررہے تھے، جس کے وہ بابائے قوم تھے، حقیقت یہ ہے کہ جب انھوں نے مسلمانان ہند کی راہ نمائی کا فریضہ اپنے سر لا تو ان کا مقدمہ ایک وکیل ہی کی طرح لڑا ان کے بہترین مفاد کے لیے گفتگو کرتے، بات جیت میں مخالفین کی عیاری اور دوغلے پن کو بھانپتے وہ ہر روز اس نتیجے پر پہنچتے جارہے تھے جس کا خواب اقبال نے دیکھا تھا، مگر جو خود نوجوان اور آئیڈیلسٹ محمد علی جناح کی ابتدائی سوچ سے کہیں مختلف تھا۔ وہ اپنے موکل یعنی ہندوستان کے مسلمانوں کی پریشانیوں، اندیشوں اور بقا کے لیے جنگ کو ایک قانونی حیثیت 1929 میں ہی دے چکے تھے، جب انھوں نے اپنے چودہ نکات پیش کیے، لیکن متعصب کانگریسی راہ نمائوں کی نگاہوں پر درحقیقت تعصب کی پٹی چڑھی تھی اور وہ مسلمانوں کے اندیشوں اور احساسات کو سرے سے کوئی اہمیت دینے پر تیار نہیں تھے۔
جناح کے ساتھ خط و کتابت میں جواہر لال نہرو نے متعدد مرتبہ اس امر پر تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہوئے لا علمی کا اظہار کیا کہ برصغیر میں فی الواقعہ کوئی مسلم مسئلہ یا فرقہ وارانہ کشیدگی وجود بھی رکھتی ہے۔ درحقیقت محمد علی جناح کا روشن ضمیر ایک قوم کے ساتھ ہوتی اس ناانصافی کو برداشت کرنے پر تیار نہیں تھا جس میں اس کا منفرد وجود زبردستی ایک ایسی اکثریت میں گم کرنے کی سازش کی جارہی تھی جو اس کے ہیروز کو بھی اپنا تاریخی دشمن سمجھتی تھی اور جس کے متبرک جانور اور مویشی مسلمانوں کی عام غذا تھے۔ اس ٹکرائو کی ممکنہ صورت حال سے بچنے کا حتمی راستہ ایک علیحدہ ریاست کی تشکیل میں پوشیدہ تھا، جس کے بارے میں شاید خود محمد علی جناح نے بھی اپنے ابتدائی سیاسی کیریئر میں نہیں سوچا تھا کہ ان کا انداز سیاست تو برصغیر کے ہر انسان کو غلامی سے رہائی دلانے کا تھا۔
منطق اور قانون کی ہر کسوٹی پر پرکھ کر بالآخر محمد علی جناح نے اپنی زندگی کا سب سے برا مقدمہ پاکستان کی صورت میں لڑا اور یہ مقدمہ جیت کر انھوں نے صرف برصغیر کا نقشہ ہی نہیں بلکہ تاریخ کا دھارا بھی بیل ڈالا۔ ان کی نیک نیتی اور سچائی ہی ان کا ہتھیار تھی کہ باقی تو بہت کچھ مخالفوں کے ساتھ تھا۔ قراردادِ پاکستان کی منظوری کے بعد کے سات سال جہاں ہر روز ان کی سیاسی بصیرت کا کڑا امتحان بنے رہے تھے کہ انگریزوں اور ہندوئوں دونوں سے ہی نمٹنا آسان نہ تھا، وہیں دن بدن گرتی صحت کچھ کم مایوس کن نہ تھی۔
جناح نے پہلی جنگ اپنی صحت سے ہی لڑی اور اس کے بعد اپنے بیرونی دشمنوں کی طرف متوجہ ہوئے اس کے ساتھ انھوں نے اپنی ہی زندگی سے اخذ کیا ایک اور سبق اپنی قوم کو دیا کہ ''انسان کی پہلی شکست اپنے آپ سے ہوتی ہے۔ اس کے بعد وہ دوسروں سے ہارتا ہے۔'' اپنی زندگی کے سب سے بڑے مقصد پاکستان کو حاصل کرکے جب قائد نے کہا،''پاکستان کا آئین قرآن ہے۔'' تو یہ بھی ان کی شدید محنت اور برٹش میوزیم لائبریری میں کیے گئے دقیق مطالعے سے اخذشدہ ایک نتیجہ تھا اور بالآخر وہ یہ کہہ گئے،''آپ کے ملک کی بنیادیں مضبوطی سے رکھ دی گئی ہیں۔
اب یہ آپ کا کام ہے کہ اس پر عمارت تعمیر کریں۔ بلند سے بلند اور مضبوط سے مضبوط تر۔'' تب بھی درحقیقت وہ یقین محکم اس قوم کے حوالے کررہے تھے کہ ملک کی نظریاتی اور آئینی قدریں مضبوط اور منطقی ہیں۔ اگر نہ ہوتیں تو وہ اپنے مخالفین کو اس کے لیے کیوںکر قائل کرپاتے۔ تاہم انھیں عمارت کی تعمیر کا موقع زندگی نہیں دے رہی تھی، مگر اس کے لیے وہ قوم سے امید رکھتے تھے اور پھر اس بے لاگ، بے تعصب شخص کے منہ سے یہ سننے میں آتا ہے کہ ''آپ آزاد ہیں کہ اپنی مسجدوں میں جائیں، آپ آزاد ہیں کہ اپنے مندروں اور چرچ میں جائیں'' تو دل اس احساس طمانیت سے بھر جاتا ہے کہ صداقت پسند محمد علی جناح کا منطق پسند انسانیت نواز ذہن جانتا تھا کہ وہ ایک اسلامی ریاست کے بانی ہیں، جس کا وجود اﷲ تعالیٰ کے تمام بندوں کے لیے فلاح اور رحمت کا سرچشمہ ہے۔ صداقت اور حق کی یہ پرکھ ہی محمد علی جناح کو تمام اہل پاکستان کا قائداعظم بناتی ہے، برصغیر کے شمال مغرب میں موجود خطۂ ارض کو یہاں بسنے والے تمام انسانوں کے لیے ایک فلاحی ریاست کا وجود بخشنے والے قائداعظم محمد علی جناح کے درجات بلند ہوں اور اس قوم کو ان کے کردار کی روشنی میں موجودہ عہد کے رہبروں کو جانچنے کی بصیرت عطا ہو۔ (آمین)
سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
اس شخص کے بارے میں ہم جانتے ہی کیا ہیں؟ یہی کہ وہ 25 دسمبر کو کراچی میں پیدا ہوئے، سندھ مدرسۃ السلام اور پھر لندن میں لنکنزان سے تعلیم حاصل کی، واپس آکر وکالت اور سیاست کا پیشہ اپنایا، اس دوران چودہ نکات بھی پیش کر ڈالے پھر 1940 میں قرار داد پاکستان منظور کرواکر تحریک پاکستان چلائی۔ ''دشمن'' کی عیاریوں اور مکاریوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور پاکستان بنا ڈالا۔ اقبالؒ نے انھیں اپنا جنرل کہا، مسلمانوں نے ملت بن کر ان کا ساتھ دیا مگر گرتی صحت نے انھیں قیام پاکستان کے بعد زیادہ عرصے ہمارے ساتھ رہنے کا موقع نہ دیا وہ چلے گئے، صرف ایک سال بعد، اور پھر وہ حتمی جملہ ''ان کے بعد پاکستان کو قائد اعظم سا کوئی لیڈر نہیں ملا۔''
لیکن ملتا بھی کیسے؟ ہمیں معلوم ہی کہاں ہے کہ ''قائد اعظم'' کیسے بنا جاتا ہے۔ محمد علی جناح اتنے سارے راہبروں کی موجودگی میں ہم سب کے ''قائد اعظم'' کیسے بن گئے؟ وہ کون تھے؟ کیسے تھے؟ کس پس منظر سے ابھرے اور خود اپنی ذات کو سنوارنے کے لیے انھوں نے کیسی جدوجہد کی، جس نے انھیں پورے ہندوستان کے مسلمانوں بل کہ بہت سے روشن ضمیر غیرمسلموں کا بھی آئیڈیل بنادیا۔ کیسی کڑی ریاضت اور استقامت کے بعد انھوں نے کردار کا وہ اسلوب حاصل کیا کہ ان کی سوچ اور راہ نمائی پر ہندوستان بھر کے مسلمانوں کا اعتماد قائم ہوگیا۔
وہ جو بھی زبان بولتے تھے، جس علاقائی یا خاندانی پس منظر سے بھی تعلق رکھتے تھے، جس مکتبۂ فکر کے بھی حامی رہے ہوں گے، سب غیرمتعلق ہوگیا۔ آج کل کے زمانے میں سیاست کے غلاف میں مذہب کی دکان چمکانے والے اور مذہب کے پیراہن میں سیاسی فائدے اٹھانے والے اسی بات پر فخر کرنے کی سچی جھوٹی کوشش فرمارہے ہیں کہ ان کے اجداد میں سے کسی نے محمد علی جناح کو قائد اعظم کا خطاب دیا۔ اس دعوے کی تاریخی حیثیت سے صرف نظر کوئی اس قوم کو یہ بتانے والا ہوتا کہ جناح کو تو قائداعظم قرار دیا ہی جانا تھا، مگر یہ سہرا صرف جناح کے سر ہی کیوں بندھا، بلند نگاہی، سخن دل نوازی اور جاں پر سوزی کی کون سی شمع انھوں نے اپنی سیرت و کردار میں جلائی تھی کہ لوگوں نے آنکھ بند کرکے ان پر یقین کیا، گھر چھوڑے، جائیدادیں ترک کیں، جانیں اور عزتیں بھی قربان کردیں اور آج تک کی نسلوں کو ان قربانیوں پر کوئی افسوس نہیں بل کہ فخر ہے۔
جب کبھی میں نے اس سیرت و کردار کو سمجھنے کی کوشش کی ہے ابتدا ہی سے ایک تاریخی روایت میرے اندر یقین کی جوت سی جگادیتی ہے جس کا تعلق ان کا نام رکھنے کی حکایت سے ہے۔ محمد علی جناح کاٹھیاواڑ (گجرات) سے نقل مکانی کرکے بہتر تجارتی مواقع کے لیے کراچی آکر آباد ہوجانے والے خوجہ گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ خوجہ برادری امن پسند اور حالات کے مطابق چلنے والے تاجروں پر مشتمل تھی جو عموماً ٹکرائو سے دور رہا کرتے کہ تجارتی کام یابی کی کلید بھی یہی ہے اور انہی صفات کی بدولت یہ لوگ کام یاب تاجر تھے۔ چوںکہ ہندومت سے تبدیلیِ مذہب کیے ہوئے تھے، اس لیے اکثر ناموں میں قدیم علاقائی اور خاندانی نسبت نظر آتی تھی۔
جناح کے والد نے پہلے گائوں چھوڑ کر پرولی کے قریب گونڈل کے مقام پر سکونت اختیار کی، پھر کراچی آگئے جہاں ان کا پہلا بیٹا پیدا ہوا، چوںکہ پہلی مرتبہ عام مسلمانوں کی اکثریت والے علاقے میں بودوباش اختیار کی تھی، اس لیے لاڈلے بیٹے کے نام پر بحث تو کئی روز چلی مگر اڑوس پڑوس کی روش سے ہٹ کر نام رکھنے کے بجائے خالص اسلامی نام رکھنے پر ہی اتفاق ہوا۔ ماں باپ کو گمان تھا کہ دو عظیم ناموں کے مرکب نام والا بچہ ''بڑا بادشاہ'' بنے گا۔ شاید یہ محض اتفاق نہیں کہ اس نام والے بے شمار افراد اپنے اپنے میدانوں کے شہ سوار ہی گزرے ہیں۔ کہاجاتا ہے کہ محمد علی کے ساتھ والد کا نام ''جینا بھائی'' لگایا گیا جو گجراتی میں ''دبلے پتلے آدمی'' کو کہتے ہیں جیسا کہ قائد کے والد تھے بھی، تاہم بعد میں والد نے یا خود قائد نے اس کی املا بدل کر ''جناح'' کردیا، جس کے معنی عربی میں ''بازو یا شہ پر'' کے ہیں۔ نام کی تبدیلی اسی ذہنی و نفسیاتی ہجرت کی طرف واضح اشارہ ہے جس نے بعد ازاں محمد علی جناح کو ''اسلامی جمہوریہ پاکستان'' کا بانی بنایا۔
کہا جاتا ہے کہ محمد علی جناح کے والدین جنھوں نے بیٹے کا خاندانی رواج سے ہٹ کر نام رکھتے ہوئے ایک خاص ذہنی انقلاب کا ثبوت دیا تھا اپنے بیٹے کو تعلیمی اور تجارتی میدان میں کام یاب دیکھنے کی شدید آرزو رکھتے تھے لیکن بے حد لاڈ پیار سے پرورش پاتے جناح کا رجحان ابتدا میں تعلیم کی طرف نہیں تھا، وہ کھیل کود میں کہیں زیادہ دل چسپی لیتے تھے اور کہا جاتا ہے کہ اس میں بھی مٹی سے کھیلنا یا گندگی میں رُلنا ان کی نفاست پسند طبیعت پر بار بن جاتا تھا۔ چناںچہ انھوں نے اپنے ہم جولیوں کو گولیوں اور کنچوں کے مقابلے میں کرکٹ کے بلے اور بال سے متعارف کروایا۔
کلاس روم کے اسباق کے مقابلے میں بحیرۂ عرب کے کنارے گھڑ سواری کرنے اور کرکٹ کھیلنے والے جناح کے بارے میں یہ بات شروع سے واضح تھی کہ وہ آسانی سے احکامات قبول کرنے والی فطرت نہیں رکھتے اور خود چیزوں کی اچھائی برائی کو پرکھنے کی کوشش کرتے تھے۔ بہن بھائیوں میں بڑا ہونے کی وجہ سے انھیں گھر میں بھی ایک خاص حیثیت حاصل رہی ہوگی جو استحقاق کے ساتھ ساتھ ایک قسم کا احساسِ ذمے داری بھی لاتی ہے۔ چناںچہ تاریخ کے اوراق کا مطالعہ کرنے سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ تعلیمی میدان میں قابل ذکر کارکردگی کا مظاہرہ نہ کرسکنے پر وہ کہیں نہ کہیں اپنی خودداری پر ٹھیس ضرور محسوس کرتے تھے۔
دوسری طرف والدین نے بھی چوںکہ انھیں امیدوں کا محور بنا رکھا تھا، لہٰذا وہ ان کے مختلف اچھے اسکولوں میں داخلے کے لیے سرگرداں رہے۔ ان کوششوں میں گھر پر گجراتی کی تعلیم سے لے کر سندھ مدرسۃ الاسلام کراچی اور بمبئی کے چرچ مشن ہائی اسکول قابل ذکر ہیں۔ یہی نہیں بل کہ قائداعظم کے والد نے اپنے تجارتی پارٹنر کے مشورے سے بیٹے کو تربیت اور تجربہ حاصل کرنے یا کچھ تجارتی سرگرمیوں کے لیے سمندر پار انگلستان بھیجنا بھی منظور کرلیا۔ شاید یہ اس وقت کا بہت ہی مشکل فیصلہ رہا ہوگا جب ہندوستانی مائیں بیٹوں کو خود سے دور کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتی تھیں۔ طرح طرح کے وسوسوں کے ساتھ ''بیٹا میم نہ لے آئے'' قسم کے خوف بھی اپنے بیٹے پر بھرپور اعتماد کے باوجود لاحق رہے ہوں گے۔ چناںچہ سولہ سالہ محمد علی جناح کو ایمی بائی سے نکاح کے بعد انگلستان روانہ کیا گیا۔ امید غالباً یہی تھی کہ وہاں سے وہ کامیاب تجربہ کار تاجر کے روپ میں لوٹیں گے اور والد کے چمڑے اور کھالوں کے بزنس کو کئی گنا آگے لے جائیں گے۔
تاہم حالات نے کچھ ایسا پلٹا کھایا کہ جناح تجارتی عزائم پورے نہیں کرسکے۔ ادھر کراچی میں والد کے کاروبار کو زوال آگیا جس کا پورا علم شاید جناح کو نہ ہوسکا، لیکن انگلستان کے تنہا سفر نے ان کی خود آگاہی کو ایک نئی جہت عطا کی۔ ساتھ ہی اچھے برے کی تفریق کی صلاحیت کی زبردست پرکھ ہوگئی۔
اصول پسند، کبھی مفاد کے لیے سمجھوتا نہ کرنے والے، حق اور انصاف کے لیے لڑنے کی صلاحیت رکھنے والے، منطق پسند محمد علی جناح پر انکشاف ہوا کہ ان کی ذہنی افتاد تجارت کے پیشے کے لیے موزوں نہیں، البتہ وکالت کا میدان ان کے لیے خوب رہے گا۔ ساتھ ہی انھیں اس بات کا احساس تھا کہ انھیں کسی لا اسکول میں داخلہ مل بھی گیا تو اس موقع سے زبردست فائدہ اٹھانے کے لیے انھیں دیگر طلبا سے جو اعلیٰ تعلیمی پس منظر رکھتے ہوں گے کئی گنا زیادہ محنت کرنے کی ضرورت ہوگی۔
شاید خود آگاہی کے یہ لمحات ہی مستقبل کے قائداعظم کی پیدائش کے تاریخی لمحات تھے۔ ان کے عزم اور کردار کی پختگی، ناممکن کو ممکن کر دکھانے کی صلاحیت اور قائدانہ قابلیت کا امتحان تھا۔ کراچی کے ایک کاٹھیاواڑی گھرانے کا سیدھا سادا ماں باپ کا لاڈلا لڑکا سولہ سال کی عمر میں لندن وارد ہوتا ہے۔ کچھ تجارتی تربیت حاصل کرنے کے لیے اگر یہ لڑکا ان سرگرمیوں میں زیادہ کام یاب نہیں رہا تب بھی واپسی کے راستے بڑے آسان تھے۔ خاندان والوں کی توقعات کا گراف جناح کی حقیقی استعداد سے یقیناً کافی نیچے ہی تھا، مگر جناح نے خود کو سنوارنے اور بنانے کی ٹھان لی۔
لندن کے لا اسکولز میں داخلے کی دوڑ دھوپ شروع کی تو بالآخر نگاہ انتخاب لنکنزان پر کیوں جا لگی؟ کہا جاتا ہے کہ اس اسکول کے ہال میں نام ور قانون دانوں کا ناموں کی فہرست میں حضورﷺ سرفہرست تھے، مگر شاید اس لیے بھی کہ داخلے کے امتحان میں لاطینی سے استثنیٰ دے دیا گیا تھا۔ تاہم انگریزی اور تاریخ کے پرچوں میں اعلیٰ کارکردگی دکھانی تھی۔ جناح نے داخلے کے امتحان کے لیے کتنی محنت کی ہوگی، اس کا حوالہ موجود نہیں، لیکن ان کی گذشتہ استعداد کے پیش نظر انھیں داخلہ مل جانا ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ انھوں نے جان توڑ محنت کی اور محنت کے بعد ملنے والے داخلے نے انھیں لندن کی دیگر رعنائیوں سے اس قدر بے پروا کردیا کہ اگلے چار سال اس لڑکے کو کسی نے برٹش میوزیم لائبریری کے علاوہ شاذ ہی کسی جگہ دیکھا ہوگا۔
البتہ ایک سرگرمی ایسی تھی جس کا باقاعدہ حوالہ کتابوں میں موجود ہے اور وہ ہے لندن میں دادا بھائی نوروجی سے قربت اور پابندی سے ''ہائوس آف کامنز'' کی کارروائیوں میں شرکت۔ دادا بھائی نوروجی اپنی روشن خیالی، مساوی حقوق کے لیے جدوجہد اور تعصب سے عاری سیاست کی وجہ سے جناح کا آئیڈیل بن گئے تھے اور ان کی سیاسی زندگی پر ہمیشہ ان صفات کا عکس رہا۔ کسی موقع پر جناح نے بھی دادا بھائی نوروجی کی طرح ہائوس آف کامنز کا ممبر بن کر مساوی حقوق کی جدوجہد کرنے کی خواہش کا اظہار کیا، تاہم ملک اور خاندان سے وابستہ ذمے داریاں انھیں بلارہی تھیں۔ والدہ اور اہلیہ انتقال کرچکی تھیں اور والد کا کاروبار شدید خسارے سے گزر کر دیوالیہ ہوچکا تھا۔ جناح نے سب سے پہلے خود عدالت میں جرح کی ذمے داری لیتے ہوئے والد کے دفاع کا کام سنبھالا اور انھیں مقدمات سے نجات دلائی۔ اس کے بعد سارے خاندان کو لے کر ممبئی منتقل ہوگئے، جہاں وکالت چلنے کی امید تھی۔
چیمبر آنے جانے کے لیے ان کی جیب میں بس یا ٹرام کا کرایہ تک نہیں ہوتا تھا اور ان کی اونچی فیس کی وجہ سے کوئی بھی ایک نوجوان، خوش پوش، شائستہ نظر آتے نوآموز وکیل کو اپنا مقدمہ سونپنے پر تیار نہ ہوتا تھا۔ ابتدائی دو تین سال اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مارتے ہی گزرے۔ جناح نے فیس کا معیار کم نہیں کیا، وہ اپنے اعلیٰ درجے کے لباس میں روز مقررہ وقت پر پیدل چل کر اپنے چیمبر پہنچ جاتے اور تقریباً سارا دن گزار کر مخصوص وقت پر واپسی کے لیے بھی پیدل روانہ ہوجاتے۔ مالی پریشانیاں، اضطراب یا مایوسی کبھی ان کے چہرے سے عیاں نہیں ہوئیں۔ لوگ اس دراز قد نوجوان کو آتے جاتے دیکھتے تو اس کی جسمانی پھرتی اور دل کش چال پر احترام محسوس کرتے۔ کسی کے دل میں کبھی خیال بھی نہیں آتا ہوگا کہ اس نوجوان کی جیب میں سواری کے لیے کرایہ بھی نہیں ہے۔ اس عرصے میں لندن میں کی گئی کفایت شعاری ہی ان کے کام آئی۔ ممبئی میں جان مولیس ورتھ میکفرسن نے، جو اس وقت کے کار گزار ایڈووکیٹ تھے، جناح کو اپنے چیمبر میں شامل کرلیا تھا۔ اس چیمبر کے وہ پہلے ہندوستانی وکیل تھے اور یہ موقع ان کے لیے اندھیرے میں امید کی کرن تھا، مگر پھر بھی اس موقع نے انھیں بہت زیادہ کام یابی نہیں دلائی۔
البتہ پہلا موقع 1900میں ملا جب انھیں پریزیڈنسی مجسٹریٹ بنایا گیا۔ 24 سالہ نوجوان وکیل کی یہ یقیناً بہت بڑی کام یابی تھی۔ تاہم یہ عہدہ انھیں محض عارضی طور پر سونپا گیا تھا، حریت پسند طبیعت اس عہدے کی متقاضی بھی نہیں تھی۔ چناںچہ چھ ماہ بعد ہی انھوں نے اس ملازمت سے علیحدگی اختیار کرلی۔ اس عرصے میں وہ بہنوں کی شادیوں اور چھوٹے بھائی احمد علی اور بہن فاطمہ کے اسکولوں میں داخلے کے انتظامات سے فارغ ہوچکے تھے۔ چناںچہ اب انھوں نے پوری یکسوئی سے وکالت کی طرف توجہ مبذول کرلی۔ بہت جلد ان کے دن بدلنے لگے کہ عدالت میں ان کی موشگافیاں اپنے جوہر دکھارہی تھیں۔ 1902 میں ان کی آمدنی 2000 روپے سے بڑھ چکی تھی۔ اس کے بعد جب انھیں مستقل پریذیڈنسی مجسٹریٹ کے عہدے کی پیش کش کی گئی، جو بالآخر عدالت عالیہ کا چیف جسٹس بننے کا دروازہ ہے، تو یہ پیشکش انھوں نے یہ کہہ کر مسترد کردی کہ 1500 روپے تو اب میں روز کماسکتا ہوں۔
کہاجاتا ہے کہ ایک مقدمے کی شنوائی کے دوران جج نے 3 مرتبہ جناح کو ''بکواس'' کہہ کر ٹوکا۔ جناح نے جواب میں کہا،''یورلارڈ شپ! آج پورے دن آپ کی زبان سے بکواس کے علاوہ کچھ اور ادا نہیں ہوا۔''
وکالت کے ساتھ ہی جناح کی سیاسی زندگی کی ابتدا ہوگئی تھی۔ لندن سے لوٹنے کے بعد وہ انجمن اسلام کے ممبر بن گئے تھے جو 1897 میں ممتاز تنظیم تھی۔ اس سے پہلے ہی جناح دادا بھائی نوروجی کے قریب تھے جو پارسی اور کانگریسی تھے۔ اس وقت اگرچہ کانگریس میں بال گنگا دھر تلک جیسے قوم پرست بھی تھے، جنھیں بنیادی طور پر ہندونواز سمجھا جاتا تھا مگر فیروز شاہ مہتا، دنشا واچا جیسے افراد سیکولر پارسی گروپ کے نمائندے اور خاصے طاقت ور سمجھے جاتے تھے۔ جناح کے اپنے خاندانی اور ذہنی رجحانات کھلے دل و دماغ کے غیر متعصب، حق پرست اور انسانی مساوات پر یقین رکھنے والے شخص کے تھے۔
وکالت کے لیے وہ عدالت بھی جاتے اور چیمبر پریکٹس بھی کرتے تھے۔ حالات پھرتے ہی وہ ایک بہتر فلیٹ میں منتقل ہوئے تو واسنت نامی ملازم بھی رکھ لیا جوکہ اچھوت تھا۔ قائد کا یہ ملازم چالیس سال سے زیادہ ان کے ساتھ رہا۔ بڑھاپے کی وجہ سے اس نے ملازمت چھوڑی تو جناح نے نہ صرف اسے بہت کچھ دیا بل کہ اس کے گائوں ''ڈیو'' میں اس کے لیے گھر بھی بنوایا۔
وہ انسانی برابری اور مساوات کے قائل تو ہمیشہ سے تھے، تاہم سیاسی زندگی میں ان کی کم زوری یہ تھی کہ وہ ڈرامائی تقریریں کرنے کے ماہر نہیں تھے۔ نہ ہی مخالفین کی دھجیاں اڑاکر ہجوم کو بھڑکانے کا آرٹ انھیں آتا تھا۔ ان کی شخصیت خود میں سمٹے ایسے خوددار شخص کی تھی جو صاف گوئی اور منطق کی بنیاد پر اپنے نظریات کی وضاحت کرنا پسند کرتا تھا۔ بنیادی طور پر وکالت ہی ان کے سیاسی کردار کی کلید تھی کیوںکہ وہ ایک وکیل کی طرح سیاسی باریکیوں اور مسائل کا تجزیہ کرکے قانون کی بنیاد ہی پر حل پیش کرنا پسند کرتے تھے۔ البتہ قانون تفریق پیدا کرے تو ان کے اندر کا انسانیت نواز مساوات پسند پوری توانائی سے بیدار ہوجاتا اور وہ پورے جوش سے حق اور انصاف کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے۔
واضح طور پر 1916 تک وہ ایک ایسی سیاسی آواز تھے جسے لبرل حلقوں میں بڑی پسندیدگی اور قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ ان کے مختلف قوم، برادری اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے دوست ان کے کردار کی پختگی، حق گوئی اور عزم و ہمت کے ساتھ بے تعصبی کو بڑی قدر کی نظر سے دیکھتے تھے۔ ان کی سیاسی جدوجہد تمام ہندوستانیوں کے لیے تھی اور مسائل کا حل انھیں ہندو مسلم اتحاد کی صورت میں نظر آتا، جس کے لیے ان کی بے مثال کوششوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے انھیں ''ہندو مسلم اتحاد کا سفیر اور شہزادہ'' قرار دیا گیا۔
اس شہزادے کی دل کشی اور نفاست نے حسین و جمیل مس رتن بائی کے نازک احساسات کو بھی اپنی گرفت میں لیا اور بالآخر وہ رتن جناح بن کر رہیں۔ یہ تو قائد کی زندگی کا ایک الگ باب ہے، تاہم دل چسپ بات یہ ہے کہ رتن بائی کے والد نے جناح پر رتی کو ورغلانے کا الزام عائد کرتے ہوئے مقدمہ قائم کیا تو رتن نے عدالت میں ببانگ دہل کہا،''جناح نے مجھے نہیں بہکایا، میں نے انھیں ورغلایا ہے۔'' جج نے رتن سے وضاحت چاہی تو انھوں نے کہا،''مسٹر جناح میں جو حسن و جمال، نزاکت و نفاست اور عظمت و شان ہے وہی میری دل چسپی کا مرکز ہے۔'' اس پر مجسٹریٹ نے مسکراکر اثبات میں اپنا سر ہلادیا۔ اس مقدمے میں رتن کے والدین نے ان کے اٹھارہ سال کی ہونے تک حکم امتناعی حاصل کرلیا۔ تاہم وہ جانتے تھے کہ اٹھارہ سال کی ہوتے ہی اس حکم کی حیثیت کالعدم ہوجائے گی۔ چناںچہ انھوں نے جناح کو پیغام بھیجا کہ سول میرج کی صورت میں وہ آشیرباد دینے کو تیار ہیں کیوںکہ اس میں رجسٹرار کے سامنے حلف بھی دینا پڑتا ہے کہ دولہا کسی مخصوص مذہب سے تعلق نہیں رکھتا۔ اس طرح وہ بیٹی کی مسلم برادری میں شادی کے سماجی اثرات سے کسی قدر محفوظ ہوجائیں گے۔ جناح جو اصولوں کے پکے اور معاملات کے سچے تھے انھوں نے ایسی کسی بھی پیش کش کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ یہاں تک کہ رتن حکم امتناعی کی گرفت سے آزاد ہوکر خود ہی جناح کے پاس آکر مشرف بہ اسلام ہوگئیں اور نکاح عمل میں آیا۔ اس کے بعد کے کچھ سال جناح کی ذاتی اور سیاسی زندگی کے خوش گوار ترین سال تھے۔
ہوم رول کی حمایت میں جناح کی سیاسی و قانونی نکتہ دانیوں کو بڑی اہمیت حاصل تھی۔ اس دوران بمبئی کے بدنام گورنر و لنگڈن نے ہوم رول تحریک کے کارکنوں کے بارے میں توہین آمیز الفاظ کہے تو مسٹر اینڈ مسز جناح نے شان دار احتجاجی جلوسوں کی قیادت کی۔ پولیس اور انتظامیہ نے جلوسوں کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کی، مگر لگتا تھا جیسے اس روز شہر جناح کی گرفت میں تھا۔ اس مظاہرے سے جناح کی عظمت میں اضافہ ہوا اور بمبئی کے شہریوں نے ''جناح ہال'' کے نام سے تاریخی عمارت تعمیر کی، جس کا افتتاح مسز سروجنی نائیڈو نے کیا جو خود جناح کے پرجوش پرستاروں میں سے تھیں۔ مسز نائیڈو نے جناح کو مبارک باد دیتے ہوئے لکھا،''امن اور اتحاد کے پیام بر کی قدرومنزلت اس کی زندگی اور ملک میں کی گئی ہے۔''
شاید اس روز کے بعد بحیثیت سیاسی راہ نما ملک گیر سطح پر جناح کی حقیقی قدرومنزلت کا آغاز ہونا تھا، مگر گاندھی جی کی جنوبی افریقا سے واپسی ہوچکی تھی، جس کی بدولت احتجاجی سیاست اور مذہب کی طرف مائل قوم پرستی کا ظہور ہوا، جس نے جناح سے مزاج کے لوگوں کو کسی قدرغیرمتعلق سا کردیا۔ عوامی سطح پر گاندھی کے انداز سیاست اور مذہبی فکر کی پزیرائی نے مسلم قوم پرستوں میں بھی خطرے کی گھنٹی بجادی تھی۔ اب مسئلہ ہندوستان کی آزادی نہیں، آزادی کے بعد مسلمانان ہند کی فکری و مذہبی شناخت کا تھا۔
ان حالات سے جناح کچھ بددل ضرور ہوئے ہوں گے، تاہم مایوس ہرگز نہیں۔ امن، انصاف، مساوات اور اتحاد پر ان کا یقین قائم رہا اور حالات کی نزاکت بھانپتے ہوئے ان کی کوشش مسلسل دور ہوتے اور ایک دوسرے پر سے اعتماد کھوتے ہندوئوں اور مسلمانوں کو قریب لانے میں صرف ہونے لگیں۔ مسلم جذبات کی شدت اور اندیشوں کی گہرائی کو محسوس کرتے ہوئے انھوں نے حقیقت پسندی سے معاملات کا جائزہ لیا۔ اپنے سیاسی آئیڈیلزم کو زمینی حقائق سے مطابقت میں لانا ہی اب ان کی جدوجہد کا محور تھا۔ ان کے چودہ نکات جو مسلم ہندوستان کے مفادات کے تحفظ کی ضمانت ہوسکتے تھے، اسی سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔
شاید یہ متحدہ ہندوستان کی سب سے بڑی بدقسمتی ہے کہ وہ جناح کی دوراندیشی اور حب الوطنی سے فائدہ نہ اٹھاسکا۔ آج بھی اس برصغیر کے عوام سیاسی شعبدہ بازوں کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنے اپنے حقیقی مسائل کے حل سے بہت دور طرح طرح کی لسانی، نسلی اور مذہبی عصبیتوں میں جکڑے ہوئے ہیں۔اس زمانے کے عوام اور سیاسی دانش مند دونوں ہی میں خودغرضی اور تعصب اس حد تک ابھر چکا تھا کہ جناح کے پائے کے لوگوں کی وہاں جگہ نہیں رہی تھی۔ ذاتی زندگی میں عزیز بیوی کی وفات بھی جناح کے لیے ایک گہرا صدمہ تھی اور بالآخر انھوں نے مفاد پرستی اور خود غرض قوم پرستی کی سیاست سے کنارہ کش ہوکر لندن ہی میں سکونت اختیار کرلی۔
محمد علی جناح کی غیرموجودگی میں یہ احساس کچھ درد دل رکھنے والے مسلم اکابرین میں جاگا کہ قوم کی راہ نمائی اور کٹھن مرحلے پر حوصلہ افزائی کا فرض اصل میں صرف اور صرف محمد علی جناح جیسا شخص ادا کرسکتا ہے، جو حق گوئی، بے باکی اور اصول پسندی کے ساتھ دقیق قانونی مسائل اور انگریزی طرزفکر و سیاست سے پوری طرح آشنائی رکھتا ہے۔ اس موقع پر یقیناً یہ محمد جناح کا مسلمانان ہند پر احسان ہے کہ انھوں نے لندن کی پرسکون و پرتعیش زندگی کو خیرباد کہہ کر قوم کی راہ نمائی کا کام سنبھالا اور مسلم لیگ کو مسلمانوں کے دل کی آواز بنادیا۔ اس سے پہلے عوامی سیاست میں مسلم لیگ کی نہ کوئی نمائندہ حیثیت تھی، نہ ہی عام مسلمان، نوابوں اور جاگیرداروں کی اس جماعت کو اپنے مسائل کا حل سمجھتا تھا۔
قائداعظم کو کبھی یہ غلط فہمی نہیں ہوئی کہ وہ مذہبی امور میں بھی رائے دے سکتے ہیں۔ پٹنہ کے ایک جلسے میں ایک شخص نے ''مولانا محمد علی جناح زندہ باد'' کا نعرہ لگایا تو وہ فوراً کھرے ہوگئے اور انھوں نے دونوں ہاتھ بلند کرکے نفی میں حرکت دیتے ہوئے کہا ''نہیں بابا ہم مولانا نہیں ہیں، ہم مسٹر جناح ہیں۔''
جب قائد نے مسلم لیگ کی باگ ڈور سنبھالی اور پھر اس کو بالآخر تحریک پاکستان کے ناگزیر مقصد کی طرف گام زن کیا تو وہ یقیناً خود کو ذہنی و جسمانی طور پر اس بار کو اٹھانے کے لیے تیار اور آمادہ محسوس کررہے تھے، مگر جب تپ دق نے ان کے پھیپھڑوں کو مکمل طور پر اپنی گرفت میں لیا تو انھوں نے اپنی تمام تر طاقت اپنی مضبوط قوت ارادی میں مرکوز کردی۔ اس نحیف و نزار جسم میں بلا کی قوت ارادی تھی، جسمانی کم زوری کا شدید احساس ہی قائد کی مضبوط اور قابل رشک حد تک یقین محکم سے بھرپور زندگی کا راز تھا۔ جیسا کہ سعادت حسن منٹو نی قائد کے ڈرائیور محمد حنیف آزاد سے لیے گئے انٹرویو میں ان کا خاکہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے،''ان کے چلنے پھرنے، اٹھنے بیٹھنے، کھانے پینے اور بولنے سوچنے میں یہ قوت ہر وقت کارفرما رہتی تھی۔''
کچھ عجیب تو نہیں کہ جب قائد نے کہا ''ایمان، اتحاد اور تنظیم'' تو وہ اپنی ہی ذاتی زندگی سے اخذ کیے ہوئے تجربات، ایک درس کی صورت اس قوم کے سامنے پیش کررہے تھے، جس کے وہ بابائے قوم تھے، حقیقت یہ ہے کہ جب انھوں نے مسلمانان ہند کی راہ نمائی کا فریضہ اپنے سر لا تو ان کا مقدمہ ایک وکیل ہی کی طرح لڑا ان کے بہترین مفاد کے لیے گفتگو کرتے، بات جیت میں مخالفین کی عیاری اور دوغلے پن کو بھانپتے وہ ہر روز اس نتیجے پر پہنچتے جارہے تھے جس کا خواب اقبال نے دیکھا تھا، مگر جو خود نوجوان اور آئیڈیلسٹ محمد علی جناح کی ابتدائی سوچ سے کہیں مختلف تھا۔ وہ اپنے موکل یعنی ہندوستان کے مسلمانوں کی پریشانیوں، اندیشوں اور بقا کے لیے جنگ کو ایک قانونی حیثیت 1929 میں ہی دے چکے تھے، جب انھوں نے اپنے چودہ نکات پیش کیے، لیکن متعصب کانگریسی راہ نمائوں کی نگاہوں پر درحقیقت تعصب کی پٹی چڑھی تھی اور وہ مسلمانوں کے اندیشوں اور احساسات کو سرے سے کوئی اہمیت دینے پر تیار نہیں تھے۔
جناح کے ساتھ خط و کتابت میں جواہر لال نہرو نے متعدد مرتبہ اس امر پر تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہوئے لا علمی کا اظہار کیا کہ برصغیر میں فی الواقعہ کوئی مسلم مسئلہ یا فرقہ وارانہ کشیدگی وجود بھی رکھتی ہے۔ درحقیقت محمد علی جناح کا روشن ضمیر ایک قوم کے ساتھ ہوتی اس ناانصافی کو برداشت کرنے پر تیار نہیں تھا جس میں اس کا منفرد وجود زبردستی ایک ایسی اکثریت میں گم کرنے کی سازش کی جارہی تھی جو اس کے ہیروز کو بھی اپنا تاریخی دشمن سمجھتی تھی اور جس کے متبرک جانور اور مویشی مسلمانوں کی عام غذا تھے۔ اس ٹکرائو کی ممکنہ صورت حال سے بچنے کا حتمی راستہ ایک علیحدہ ریاست کی تشکیل میں پوشیدہ تھا، جس کے بارے میں شاید خود محمد علی جناح نے بھی اپنے ابتدائی سیاسی کیریئر میں نہیں سوچا تھا کہ ان کا انداز سیاست تو برصغیر کے ہر انسان کو غلامی سے رہائی دلانے کا تھا۔
منطق اور قانون کی ہر کسوٹی پر پرکھ کر بالآخر محمد علی جناح نے اپنی زندگی کا سب سے برا مقدمہ پاکستان کی صورت میں لڑا اور یہ مقدمہ جیت کر انھوں نے صرف برصغیر کا نقشہ ہی نہیں بلکہ تاریخ کا دھارا بھی بیل ڈالا۔ ان کی نیک نیتی اور سچائی ہی ان کا ہتھیار تھی کہ باقی تو بہت کچھ مخالفوں کے ساتھ تھا۔ قراردادِ پاکستان کی منظوری کے بعد کے سات سال جہاں ہر روز ان کی سیاسی بصیرت کا کڑا امتحان بنے رہے تھے کہ انگریزوں اور ہندوئوں دونوں سے ہی نمٹنا آسان نہ تھا، وہیں دن بدن گرتی صحت کچھ کم مایوس کن نہ تھی۔
جناح نے پہلی جنگ اپنی صحت سے ہی لڑی اور اس کے بعد اپنے بیرونی دشمنوں کی طرف متوجہ ہوئے اس کے ساتھ انھوں نے اپنی ہی زندگی سے اخذ کیا ایک اور سبق اپنی قوم کو دیا کہ ''انسان کی پہلی شکست اپنے آپ سے ہوتی ہے۔ اس کے بعد وہ دوسروں سے ہارتا ہے۔'' اپنی زندگی کے سب سے بڑے مقصد پاکستان کو حاصل کرکے جب قائد نے کہا،''پاکستان کا آئین قرآن ہے۔'' تو یہ بھی ان کی شدید محنت اور برٹش میوزیم لائبریری میں کیے گئے دقیق مطالعے سے اخذشدہ ایک نتیجہ تھا اور بالآخر وہ یہ کہہ گئے،''آپ کے ملک کی بنیادیں مضبوطی سے رکھ دی گئی ہیں۔
اب یہ آپ کا کام ہے کہ اس پر عمارت تعمیر کریں۔ بلند سے بلند اور مضبوط سے مضبوط تر۔'' تب بھی درحقیقت وہ یقین محکم اس قوم کے حوالے کررہے تھے کہ ملک کی نظریاتی اور آئینی قدریں مضبوط اور منطقی ہیں۔ اگر نہ ہوتیں تو وہ اپنے مخالفین کو اس کے لیے کیوںکر قائل کرپاتے۔ تاہم انھیں عمارت کی تعمیر کا موقع زندگی نہیں دے رہی تھی، مگر اس کے لیے وہ قوم سے امید رکھتے تھے اور پھر اس بے لاگ، بے تعصب شخص کے منہ سے یہ سننے میں آتا ہے کہ ''آپ آزاد ہیں کہ اپنی مسجدوں میں جائیں، آپ آزاد ہیں کہ اپنے مندروں اور چرچ میں جائیں'' تو دل اس احساس طمانیت سے بھر جاتا ہے کہ صداقت پسند محمد علی جناح کا منطق پسند انسانیت نواز ذہن جانتا تھا کہ وہ ایک اسلامی ریاست کے بانی ہیں، جس کا وجود اﷲ تعالیٰ کے تمام بندوں کے لیے فلاح اور رحمت کا سرچشمہ ہے۔ صداقت اور حق کی یہ پرکھ ہی محمد علی جناح کو تمام اہل پاکستان کا قائداعظم بناتی ہے، برصغیر کے شمال مغرب میں موجود خطۂ ارض کو یہاں بسنے والے تمام انسانوں کے لیے ایک فلاحی ریاست کا وجود بخشنے والے قائداعظم محمد علی جناح کے درجات بلند ہوں اور اس قوم کو ان کے کردار کی روشنی میں موجودہ عہد کے رہبروں کو جانچنے کی بصیرت عطا ہو۔ (آمین)
سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا