ہمیں پھر 6 ستمبر جیسا جذبہ درکار ہے
ہمارے ملک کے بانی رہنماؤں کے نظریات اور امنگیں محض ایک خواب بن کے رہ گئی ہیں۔
ہمارے ملک کے بانی رہنماؤں کے نظریات اور امنگیں محض ایک خواب بن کے رہ گئی ہیں۔ آج ملک بے شمار مسائل میں گھر چکا ہے۔ ملک کو شدت پسندی، دہشت گردی، کرپشن، غربت، مہنگائی، بے روزگاری اور ناخواندگی جیسے ناسور چمٹے ہوئے ہیں۔ اکتوبر 1951ء میں لیاقت علی خان کی شہادت کے فوری بعد ملک میں 'بیورو کریٹ سیاستدان' نمودار ہونا شروع ہوئے۔ ان کو 1958ء میں بغاوت کرنے والے 'فوجی سیاست دان' اور 1977ء کی بغاوت کے بعد 'بزنس مین سیاست دان' جا ملے۔ اس کے بعد ریٹائرڈ عدلیہ کے اعلیٰ عہدیداروں اور جاگیرداروں نے بھی سیاست میں شمولیت اختیار کی جس کے بعد ملک کا سیاسی منظرنامہ یکسر تبدیل ہو کر رہ گیا۔
کسی زمانے میں جو پاکستانی معاشرہ پرامن اور ترقی کی راہ پر گامزن تھا اس کو مختلف قوتوں نے زوال پذیر کرنے کے لیے بھرپور حملے کیے۔ ان قوتوں میں کرپٹ سیاستدان، مذہبی شدت پسند عناصر سب سے پیش پیش تھے۔ ان عوامل کے نتیجے میں پاکستانی معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا۔ نفاق نے جنم لیا حتیٰ کہ 1971ء میں ملک دو حصوں میں بٹ گیا۔ اس تاریخ ساز سانحے سے سبق سیکھ لینا چاہیے تھا خاص طور پر یہ سبق کہ لسانی اور طبقاتی تفریق کے باعث نفاق کو تقویت ملتی ہے لیکن بدقسمتی سے آج بلوچستان کے حالات دیکھتے ہوئے یہ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ کوئی سبق نہیں سیکھا گیا۔ نہ صرف بلوچستان بلکہ سندھ اور کراچی میں بھی علیحدگی کی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ اکیسویں ترمیم کے بعد یہ محسوس ہوتا ہے جیسے یہ ترمیم قومی یکجہتی میں ایک آڑ بن گئی ہو۔
کسی بھی ملک میں قومی یکجہتی کے جذبے کو فروغ دینے کے عمومی طور پر دو قسم کے نظریات پیش کیے جاتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ تمام لوگ جو ایک خطے میں زندگی گزار رہے ہوں وہ سب اس ملک کے مساوی شہری ہیں اور کسی کو بھی کسی دوسرے پر فوقیت حاصل نہیں۔ اسی سلسلے کا دوسرا نظریہ یہ ہے کہ قومی یکجہتی کو فروغ دینے کے لیے مذہب کا سہارا لیا گیا ہے۔ علامہ اقبال نے مسلم لیگ کے 1930ء کے اجلاس میں صدارتی خطبہ دیتے ہوئے اس نظریے کو مسترد کر دیا تھا کہ مسلمانوں کی تقسیم خطے کی بنیاد پر ہونی چاہیے۔
انھوں نے کہا ''کیا یہ ممکن ہے کہ اسلامی طرز زندگی کو آئیڈیل قرار دیا جائے لیکن جب خطے میں تقسیم کی بات آئے تو قومیت کو مذہب پر ترجیح دی جائے؟ خاص طور پر ہندوستان جیسے ملک میں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں۔ اگر کوئی یورپین سیکولرازم کا پرچار کرے تو عجیب نہیں لگتا کیونکہ یورپ میں عیسائیت کو صرف روحانیت کے معاملات تک محدود کر دیا گیا ہے۔'' اسی لیے ایک مسلم قوم کے نظریے کی بنیاد خطے میں مسلمانوں کی تعداد پر نہیں بلکہ اسلام کے معاشرتی اور معاشی خطوط پر قائم ہونی چاہیے۔
ایک ایسے معاشرے میں جمہوریت نہیں پنپ سکتی جہاں اتفاق اور یگانگی نہ ہو خاص طور پر معاشرہ جہاں زیادہ تر سیاست دان جاگیردار ہیں۔ اقرباء پروری کی وجہ سے پڑھی لکھی مڈل کلاس کو سیاست کا حصہ نہیں بننے دیا جاتا۔ ہمارے سیاست دان اقتدار میں لوگوں کے چناؤ پر نہیں آتے بلکہ پیسے کی چمک کے زور پر آتے ہیں اسی لیے مردم شماری کی راہ میں بھی روڑے اٹکائے جاتے ہیں کہ کہیں یہ حقیقت واضح نہ ہو جائے کہ دیہات کی نسبت شہری آبادی کی تعداد میں بھی خاطرخواہ اضافہ ہو چکا ہے کیونکہ اس کا نقصان الیکشن میں سیاست دانوں کو اٹھانا پڑے گا۔
قائداعظم کے سنہری اصولوں میں سے ایک یہ تھا کہ مختلف فرقوں سے تعلق رکھنے والے مسلمان ایک ہو جائیں اور غیرمسلموں کے ساتھ منصفانہ رویہ اختیار کیا جائے۔ ترقی کے لیے ڈسپلن اور نظم و ضبط کی پاسداری ناگزیر ہے لیکن آج ملک کے عوام انتشار کا شکار ہیں۔ بین الاقوامی صفوں میں پاکستان کا تاثر منفی ہے اور پاکستانی میڈیا اس کو مزید بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا ہے تا کہ اور زیادہ بے یقینی پھیلے۔
یہ وقت کا تقاضا ہے کہ پاکستان میں بسنے والی تمام قومیں بے شک اپنی زبان، اپنے مذہب اور اپنے کلچر کی پاسداری کریں لیکن پاکستانی ہونے پر بھی فخر کریں۔ اگر وفاقی نظام کو متوازی راہوں پر دوبارہ استوار کیا جائے تو یقینا ایک فلاحی ریاست وجود میں آ سکتی ہے۔
کرپشن، منافقت، شدت پسندی کی وجہ سے پاکستان کو بہت نقصان جھیلنا پڑا ہے۔ قومی ایکشن پلان پر مکمل عملدرآمد نہ ہونے میں بھی کچھ عوامل کارفرما ہیں۔ میاں محمد نواز شریف جیسے رہنما جن کو پنجاب میں واضح اکثریت حاصل ہے وہ یقینا اس صوبے میں بہت بہتری لا سکتے تھے لیکن ذاتی مفادات کی سیاست، اقرباء پروری، ناہل معاونت اور مذہبی شدت پسندوں پر انحصار کی وجہ سے ان کی مقبولیت خطرے میں ہے۔1965ء کی جنگ کے بعد پاکستان کے پاس قومی یکجہتی کو فروغ دینے کا ایک سنہری موقع تھا۔ پاکستانیوں نے بڑھ چڑھ کر جنگ میں حصہ لیا، شاعروں نے نظمیں لکھیں، لہو گرمانے اور قومی جذبہ ابھارنے والے نغمے گائے گئے۔ لوگوں نے اپنے تفرقات کو بھلا کر فوج کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کیا۔
ملک میں امن وامان کا دور لوٹ آیاجب کہ موجودہ جمہوری نظام ہمارے جانباز سپاہیوں اور شہریوں کی بے پناہ قربانیوں کے باوجود وہ نتائج ظاہر کرنے میں ناکام ہے جن نتائج کی کسی نظام سے توقع کی جا سکتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ریاست کو بدامنی اور طوائف الملوکی کی جانب دھکیل رہے ہیں۔ ہمارے حکمران فوج کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ آئین کے مطابق چلے چہ جائیکہ حکمران خود آئین شکنی کرتے رہیں جب کہ ہماری اعلیٰ عدلیہ نے بھی نشاندہی کی ہے کہ پاکستان کے حقیقی مسائل بری طرز حکمرانی، کرپشن اور میرٹ کی صریح خلاف ورزی کے باعث ہیں تو ہم عوام کب اور کس طرح باری باری نام نہاد جمہوریت کے نام پر برسراقتدار آنے والے کرپٹ اور نااہل حکمرانوں سے نجات حاصل کرینگے؟ ہمیں ایک بار پھر سے 6 ستمبر والا جذبہ درکار ہے جس سے ہم بیرونی دشمنوں سے نہیں بلکہ ان دشمنوں سے نبردآزما ہوں جو اندرونی طو رپر ہماری صفوں میں گھسے بیٹھے ہیں۔
کسی زمانے میں جو پاکستانی معاشرہ پرامن اور ترقی کی راہ پر گامزن تھا اس کو مختلف قوتوں نے زوال پذیر کرنے کے لیے بھرپور حملے کیے۔ ان قوتوں میں کرپٹ سیاستدان، مذہبی شدت پسند عناصر سب سے پیش پیش تھے۔ ان عوامل کے نتیجے میں پاکستانی معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا۔ نفاق نے جنم لیا حتیٰ کہ 1971ء میں ملک دو حصوں میں بٹ گیا۔ اس تاریخ ساز سانحے سے سبق سیکھ لینا چاہیے تھا خاص طور پر یہ سبق کہ لسانی اور طبقاتی تفریق کے باعث نفاق کو تقویت ملتی ہے لیکن بدقسمتی سے آج بلوچستان کے حالات دیکھتے ہوئے یہ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ کوئی سبق نہیں سیکھا گیا۔ نہ صرف بلوچستان بلکہ سندھ اور کراچی میں بھی علیحدگی کی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ اکیسویں ترمیم کے بعد یہ محسوس ہوتا ہے جیسے یہ ترمیم قومی یکجہتی میں ایک آڑ بن گئی ہو۔
کسی بھی ملک میں قومی یکجہتی کے جذبے کو فروغ دینے کے عمومی طور پر دو قسم کے نظریات پیش کیے جاتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ تمام لوگ جو ایک خطے میں زندگی گزار رہے ہوں وہ سب اس ملک کے مساوی شہری ہیں اور کسی کو بھی کسی دوسرے پر فوقیت حاصل نہیں۔ اسی سلسلے کا دوسرا نظریہ یہ ہے کہ قومی یکجہتی کو فروغ دینے کے لیے مذہب کا سہارا لیا گیا ہے۔ علامہ اقبال نے مسلم لیگ کے 1930ء کے اجلاس میں صدارتی خطبہ دیتے ہوئے اس نظریے کو مسترد کر دیا تھا کہ مسلمانوں کی تقسیم خطے کی بنیاد پر ہونی چاہیے۔
انھوں نے کہا ''کیا یہ ممکن ہے کہ اسلامی طرز زندگی کو آئیڈیل قرار دیا جائے لیکن جب خطے میں تقسیم کی بات آئے تو قومیت کو مذہب پر ترجیح دی جائے؟ خاص طور پر ہندوستان جیسے ملک میں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں۔ اگر کوئی یورپین سیکولرازم کا پرچار کرے تو عجیب نہیں لگتا کیونکہ یورپ میں عیسائیت کو صرف روحانیت کے معاملات تک محدود کر دیا گیا ہے۔'' اسی لیے ایک مسلم قوم کے نظریے کی بنیاد خطے میں مسلمانوں کی تعداد پر نہیں بلکہ اسلام کے معاشرتی اور معاشی خطوط پر قائم ہونی چاہیے۔
ایک ایسے معاشرے میں جمہوریت نہیں پنپ سکتی جہاں اتفاق اور یگانگی نہ ہو خاص طور پر معاشرہ جہاں زیادہ تر سیاست دان جاگیردار ہیں۔ اقرباء پروری کی وجہ سے پڑھی لکھی مڈل کلاس کو سیاست کا حصہ نہیں بننے دیا جاتا۔ ہمارے سیاست دان اقتدار میں لوگوں کے چناؤ پر نہیں آتے بلکہ پیسے کی چمک کے زور پر آتے ہیں اسی لیے مردم شماری کی راہ میں بھی روڑے اٹکائے جاتے ہیں کہ کہیں یہ حقیقت واضح نہ ہو جائے کہ دیہات کی نسبت شہری آبادی کی تعداد میں بھی خاطرخواہ اضافہ ہو چکا ہے کیونکہ اس کا نقصان الیکشن میں سیاست دانوں کو اٹھانا پڑے گا۔
قائداعظم کے سنہری اصولوں میں سے ایک یہ تھا کہ مختلف فرقوں سے تعلق رکھنے والے مسلمان ایک ہو جائیں اور غیرمسلموں کے ساتھ منصفانہ رویہ اختیار کیا جائے۔ ترقی کے لیے ڈسپلن اور نظم و ضبط کی پاسداری ناگزیر ہے لیکن آج ملک کے عوام انتشار کا شکار ہیں۔ بین الاقوامی صفوں میں پاکستان کا تاثر منفی ہے اور پاکستانی میڈیا اس کو مزید بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا ہے تا کہ اور زیادہ بے یقینی پھیلے۔
یہ وقت کا تقاضا ہے کہ پاکستان میں بسنے والی تمام قومیں بے شک اپنی زبان، اپنے مذہب اور اپنے کلچر کی پاسداری کریں لیکن پاکستانی ہونے پر بھی فخر کریں۔ اگر وفاقی نظام کو متوازی راہوں پر دوبارہ استوار کیا جائے تو یقینا ایک فلاحی ریاست وجود میں آ سکتی ہے۔
کرپشن، منافقت، شدت پسندی کی وجہ سے پاکستان کو بہت نقصان جھیلنا پڑا ہے۔ قومی ایکشن پلان پر مکمل عملدرآمد نہ ہونے میں بھی کچھ عوامل کارفرما ہیں۔ میاں محمد نواز شریف جیسے رہنما جن کو پنجاب میں واضح اکثریت حاصل ہے وہ یقینا اس صوبے میں بہت بہتری لا سکتے تھے لیکن ذاتی مفادات کی سیاست، اقرباء پروری، ناہل معاونت اور مذہبی شدت پسندوں پر انحصار کی وجہ سے ان کی مقبولیت خطرے میں ہے۔1965ء کی جنگ کے بعد پاکستان کے پاس قومی یکجہتی کو فروغ دینے کا ایک سنہری موقع تھا۔ پاکستانیوں نے بڑھ چڑھ کر جنگ میں حصہ لیا، شاعروں نے نظمیں لکھیں، لہو گرمانے اور قومی جذبہ ابھارنے والے نغمے گائے گئے۔ لوگوں نے اپنے تفرقات کو بھلا کر فوج کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کیا۔
ملک میں امن وامان کا دور لوٹ آیاجب کہ موجودہ جمہوری نظام ہمارے جانباز سپاہیوں اور شہریوں کی بے پناہ قربانیوں کے باوجود وہ نتائج ظاہر کرنے میں ناکام ہے جن نتائج کی کسی نظام سے توقع کی جا سکتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ریاست کو بدامنی اور طوائف الملوکی کی جانب دھکیل رہے ہیں۔ ہمارے حکمران فوج کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ آئین کے مطابق چلے چہ جائیکہ حکمران خود آئین شکنی کرتے رہیں جب کہ ہماری اعلیٰ عدلیہ نے بھی نشاندہی کی ہے کہ پاکستان کے حقیقی مسائل بری طرز حکمرانی، کرپشن اور میرٹ کی صریح خلاف ورزی کے باعث ہیں تو ہم عوام کب اور کس طرح باری باری نام نہاد جمہوریت کے نام پر برسراقتدار آنے والے کرپٹ اور نااہل حکمرانوں سے نجات حاصل کرینگے؟ ہمیں ایک بار پھر سے 6 ستمبر والا جذبہ درکار ہے جس سے ہم بیرونی دشمنوں سے نہیں بلکہ ان دشمنوں سے نبردآزما ہوں جو اندرونی طو رپر ہماری صفوں میں گھسے بیٹھے ہیں۔