اسٹیل مل اور نجکاری

امریکا نے کوریا کی جنگ کے بعد پاکستان میں صنعتوں کے قیام کے لیے کئی منصوبے شروع کیے

tauceeph@gmail.com

دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر جاپان تباہ ہو گیا۔ امریکی جنرل ڈگلس میک آرتھر نے جاپان کا انتظام سنبھال لیا۔ جاپان کے بادشاہ ایک دن سائیکل پر سوار ہو کر جنرل میک آرتھر کے دفتر پہنچے اور جنرل سے ملنے کی درخواست کی۔ جنرل میک آرتھر جاپانی بادشاہ سے ملاقات کے لیے تیارہو گئے۔

جاپان کے بادشاہ نے امریکی جنرل کو اسٹیل کے دو آلات پانا اور اسکرو ڈرائیوردکھائے اور درخواست کی کہ جاپانی عوام کو ان آلات کے استعمال کی اجازت دی جائے۔ جنرل میک آرتھر کے لیے یہ درخواست چونکا دینے والی تھی۔ بہرحال جنرل میک آرتھر نے جاپانی بادشاہ کی یہ معصومانہ خواہش پوری کرنے کی اجازت دیدی، یوں جاپان میں ایک دفعہ پھر صنعتی دور کا آغاز ہوا۔ جاپانیوں نے بڑی بڑی اسٹیل ملز قائم کیں اور چند برسوں کے اندر صنعتی کارخانوں کا انبار لگ گیا۔ جاپان صنعتی دور میں داخل ہو گیا، صنعتی انقلاب سے ہی ملک ترقی کرتا ہے۔

کسی ملک میں صنعتی انقلاب کی بنیاد اسٹیل ملز ہوتی ہیں۔ پاکستان سرد جنگ کے آغاز کے ساتھ امریکا کا اتحادی بن گیا۔ امریکا نے کوریا کی جنگ کے بعد پاکستان میں صنعتوں کے قیام کے لیے کئی منصوبے شروع کیے۔ یوں ٹیکسٹائل ملز کا جال ملک میں پھیل گیا۔ پھر چھوٹے چھوٹے اسٹیل کے کارخانے لگ گئے۔ امریکا پاکستان سمیت ترقی پذیر ممالک میں ہیوی اسٹیل ملز کے قیام کے حق میں نہیں تھا۔

امریکی ماہرین کا خیال تھا کہ اسٹیل ملز پاکستان کے لیے مناسب نہیں ہیں جب کہ اقتصادی صنعتی ماہرین کی متفقہ رائے تھی کہ اسٹیل ملز کے قیام سے صنعتی ڈھانچہ مستحکم ہو سکتا ہے۔ ملک میں اسٹیل کے تیار ہونے سے نئے کارخانوں کا جال بچھ سکتا ہے۔ ملک میں تیار ہونے والا اسٹیل دیگر ممالک سے درآمد کردہ اسٹیل سے زیادہ سستا اور پائیدار ہو گا۔ امریکی منصوبہ ساز پاکستان کے صنعتی ڈھانچے کو مستحکم کرنے اور پاکستان کی آزاد معیشت کے حق میں نہیں تھے، یہی وجہ ہے کہ امریکی معیشت سے منسلک بیوروکریسی اور تاجروں نے بڑی اسٹیل ملز کے قیام کی ہمیشہ مخالفت کی۔

سوویت یونین نے اپنے قیام کے بعد سے تیسری دنیا کے ممالک کی آزادی کی تحریکوں کی حمایت کی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکا کے 40 سے زائد ممالک سوویت یونین کی مدد سے آزاد ہوئے تھے۔ سوویت یونین نے ترقی پزیر ممالک کی آزادی کے بعد ان کی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے امداد فراہم کی تھی۔ سوویت یونین کی اس امداد میں اسٹیل ملز کا قیام بھی شامل تھا۔ سوویت یونین نے بھارت کے علاوہ مصر اور ایران وغیرہ میں اسٹیل ملز کے قیام میں بنیادی کردار ادا کیا تھا۔ سوویت یونین نے 50ء کی دہائی میں پاکستان میں اسٹیل ملز کے قیام کے لیے امداد کی پیشکش کی تھی۔

ایوب خان کے دور میں سوویت یونین کی پیشکش کو سنجیدگی سے لیا گیا مگر معاملات دفتری خط و کتابت تک ہی محدود رہے۔ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سوویت یونین اور چین سے اچھے تعلقات کے حامی تھے اور ملک کی معیشت کو مستحکم کرنا چاہتے تھے، جس کے سبب اسٹیل مل کے قیام کے لیے عملی اقدامات ہوئے اور کراچی میں اس کا قیام عمل میں آیا۔ کراچی کی اسٹیل مل 11 لاکھ ٹن سالانہ پیداواری استعداد کی بنیاد پر قائم ہوا۔ اسٹیل ملز کے تکنیکی عملے کو سوویت یونین، مصر اور ایران میں عملی تربیت دی گئی۔

پاکستان اسٹیل مل کے علاوہ اسٹیل بنانے والی تمام ملیں بنیادی طور پر ری رولنگ ملز ہیں۔ پاکستان اسٹیل کے قیام کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ فولاد کی تیاری کے بعد ایسی بنیادی مصنوعات تیار کی جائیں جن سے دیگر ادارے صارفین کے لیے مصنوعات تیارکریں۔ پاکستان اسٹیل کا منصوبہ تین مرحلوں پر مشتمل تھا۔ پہلے مرحلے میں 1.1 ملین پیداوار کا حصول تھا جس کے لیے پاکستان اسٹیل نے 1985ء میں پیداوار کا آغاز کیا تھا۔ دوسرے مرحلے میں پیداواری استعداد 1.5 ملین تک کرنی تھی۔ تیسرے مرحلے میں سالانہ 3 ملین پیداوار کا ہدف پورا کرنا تھا۔


اسٹیل مل کو پہلے تو پروفیشنلز کے ذریعے چلایا گیا پھر اسٹیبلشمنٹ نے اپنے قدم جمائے۔ ملازمین کی بھرتی کے معاملات غیر شفاف ہو گئے۔ برسرِ اقتدار حکومت نے اپنے حامیوں کو ملازمتیں دلائیں، پھر اشیاء کی خریداری اور ٹھیکوں میں گھپلے ہونے لگے اور انتظامی بدعنوانی پھیلتی چلی گئی اور مالیاتی خسارہ بڑھتا چلا گیا۔

برسرِ اقتدار حکومتوں نے اسٹیل مل میں اچھی طرزِ حکومت کو رائج کرنے کے بجائے بدعنوان افراد کی حوصلہ افزائی شروع کر دی، مزدور یونین بھی غیرشفافیت کا شکار ہوئی۔ بعض مزدور رہنماؤں نے اپنے بینک اکاؤنٹس بھرنے کے لیے غیر حاضر مزدور اور اوور ٹائم میں فراڈ، ٹرانسپورٹ میں غبن اور طبی سہولتوں کے غیر قانونی استعمال کی حوصلہ افزائی شروع کر دی۔ ایسے افسروں کو تعینات کیا جانے لگا جو بنیادی طور پر اپنے کام کے اہل نہیں تھے یا بدعنوانی میں ملوث تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اسٹیل مل کا ہر شعبہ انحطاط کا شکار ہوا۔

مزدوروں کے حالات کار کو بہتر کرنے کے لیے زندگی وقف کرنے والے مرزا مقصود کا کہنا ہے کہ پاکستان اسٹیل کا اسپتال جو 2008ء تک مکمل طور پر خودکفیل تھا اور پرائیوٹ مریضوں کے علاج سے ایک کروڑ روپے سالانہ کی آمدنی ہوتی تھی۔ یہ اسپتال آج علاج کی بنیادی سہولتیں تک فراہم کرنے کے قابل نہیں ہے۔ اسٹیل مل میں گزشتہ 14 ماہ سے پیداوار بند ہے۔ ذرایع ابلاغ میں شایع ہونے والی خبروں سے پتہ چلتا ہے کہ سوئی گیس کی کمی اور گیس کا پریشر کم کر دیا گیا تھا جس کی وجہ سے اسٹیل مل کے پلانٹس کو بند کر دیا گیا تھا۔

اسٹیل مل کے بحران سے اس کے کارکن براہِ راست متاثر ہوئے ہیں۔ مہینوں تنخواہیں نہیں ملتیں، وفاقی کابینہ کی مداخلت پر عید الفطر کے موقعے پر تنخواہیں ملی تھیں، اب عید الاضحی کے موقعے پر تنخواہوں کی ادائیگی کی گئی ہے۔ اس زبوں حالی کے باوجود اعلیٰ افسران کی مراعات برقرار ہیں۔ افسران کو گاڑیاں اور دیگر سہولتیں مل رہی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ روس نے اسٹیل مل کی مشینری کو تبدیل کرنے اور جدید ٹیکنالوجی فراہم کرنے کی پیشکش کی تھی مگر برسرِ اقتدار حکومتوں نے روس کی پیشکش کو سنجیدگی سے نہیں لیا، اگر مل کی مشینری کو اپ گریڈ کیا جاتا تو اسٹیل مل دوبارہ اپنے پاؤں پرکھڑی ہو سکتی تھی۔ روس کی مدد سے بھارت، مصر، ایران اور میکسیکو وغیرہ میں قائم اسٹیل ملز اپنی استعداد کے مطابق کام کر رہی ہیں۔

مسلم لیگ ن کی حکومت بنیادی طور پر سرکاری شعبے کے خلاف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت قومی اداروں کو نجی شعبے کے حوالے کر کے حاصل ہونے والی رقم کو اپنے مخصوص منصوبوں کے لیے استعمال کرنا چاہتی ہے۔ مسلم لیگ کی حکومت اسٹیل مل کو نجی شعبے کے حوالے کرنا چاہتی ہے۔ حکومت نے 18 ویں ترمیم کے تحت صوبائی خودمختاری کا احترام کرتے ہوئے سندھ کی حکومت کو پیشکش کی کہ وہ اسٹیل مل کا انتظام سنبھال لے۔ سندھ حکومت نے اس تجویزکا سنجیدگی سے جائزہ نہیں لیا۔ اب حکومت نے اسٹیل مل کا معاملہ نجکاری کمیشن کے سپرد کیا ہے۔ کمیشن نے اس بارے میں کوئی کارروائی نہیں کی ہے۔

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ 18 ویں ترمیم کے نفاذ کے بعد مشترکہ مفاد کونسل کی منظوری سے اسٹیل مل کی نجکاری ممکن ہے مگر پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، جمعیت علمائے اسلام، جماعت اسلامی اور دیگر جماعتیں اس قومی اثاثے کو فروخت کرنے کے حق میں نہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری میں تعمیراتی منصبوں میں اسٹیل کا استعمال بڑھ جائے گا۔ یہ ضرورت اسٹیل مل ہی پوری کر سکتی ہے۔ 9 ہزار مزدور اور 3 ہزار افسروں کے خاندانوں کا روزگار وابستہ ہونے کے علاوہ ملک کے صنعتی ڈھانچے کی ترقی بھی اس سے منسلک ہے۔

اگرچہ قومی سیاسی جماعتیں اسٹیل مل کی نجکاری کے حق میں نہیں ہیں مگر وہ اس معاملے پر کوئی تحریک چلانے کے حق میں بھی نظر نہیں آتیں۔ ملک میں ٹریڈ یونین تحریک کمزور ہو گئی ہے۔ مرزا مقصود اور ان کے ساتھیوں نے اسٹیل مل کی نجکاری کے خلاف قومی جماعتوں سے رابطہ کر کے فضاء ہموارکرنے کی کوشش کی ہے مگر مزدور تحریک کے کمزور ہونے اور قومی سیاسی جماعتوں کے ایجنڈا میں عوام شامل نہ ہونے کی بناء پر یہ جماعتیں تحریک کی حمایت کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کوئی مربوط مزدور تحریک شروع نہیں ہو سکی۔

ملک میں قومی اداروں کی نجکاری کو روکنا ہے تومزدور تحریک کو کثیرالجہتی جدوجہد کرنا ہو گی۔اولاً خسارے میں چلنے والے قومی اداروں کو منافع بخش بنانے کے لیے جدوجہد کرنا ہو گی اور ثانیاً ملک بھر کے مزدوروں کو متحد ہو کر جدوجہد کرنا ہو گی ورنہ نجکاری کا عمل جاری رہے گا اور پاکستان میں صنعتی ڈھانچہ قائم کرنے کا محض خواب رہ جائے گا۔
Load Next Story