صدر فلپائن کا نعرہ حق اور اقوام متحدہ کی حیثیت
’بازاری عورت‘ کا بیٹا کہنے پر امریکی صدر باراک اوباما نے دورہ لاس میں ہی فلپائن کے صدر راڈریگو سے ملنے سے انکارکر دیا
ISLAMABAD:
'بازاری عورت' کا بیٹا کہنے پر امریکی صدر باراک اوباما نے دورہ لاس میں ہی فلپائن کے صدر راڈریگو سے ملنے سے انکارکر دیا، کشیدگی کا یہ سلسلہ گزشتہ ایک ماہ سے جاری ہے جس کے دوران فلپائنی صدر نے امریکا اور اقوام متحدہ کو ان کی اوقات یاد دلائی ہے۔ فلپائن سے امریکا اور اقوام متحدہ کا تنازعہ رواں سال جون میں صدر راڈریگو کا صدارتی منصب سنبھالنے اور اپنے ملک میں منشیات مافیا اور اس کا استعمال کرنے والوں کے خلاف شدید مہم چلانے پر شروع ہوا۔ انسداد منشیات مہم کے تحت مجرموں کو سرعام اور فوری طور پر سزائے موت سنائی گئی ہے، جس پر امریکا نے پہلے تو اقوام متحدہ کے ذریعے فلپائن کی مذمت کروائی جس پر فلپائن کے صدر راڈریگو نے ماہ اگست کے وسط میں نعرہ حق بلند کرتے ہوئے کہا کہ ''اقوام متحدہ فلپائن کے اندرونی معاملات میں مداخلت کررہا ہے۔ شاید ہمیں اقوام متحدہ سے الگ ہونے کا فیصلہ کرنا پڑے۔ انھوں نے نام نہاد یواین اوکا مضحکہ اڑاتے ہوئے اس سے براہ راست کہا کہ ''اگر تم ہماری عزت نہیں کرتے تو ہم بھی تمہیں چھوڑ دیں گے۔
ہم ایک دوسری بین الاقوامی تنظیم کا قیام چاہتے ہیں۔ فلپائن اس سلسلے میں چین اور افریقی ممالک سمیت سب کو مدعو کرے گا۔'' صدر راڈریگو کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ نے فلپائن کے لیے آج تک کچھ نہیں کیا۔ فلپائنی صدر کے اس جرات مندانہ اور تاریخی بیان پر اقوام متحدہ اور امریکا سمیت یورپ کے سینے پر سانپ لوٹ گئے اور مغربی ایوانوں میں لرزہ طاری ہوگیا۔ گزشتہ ہفتے عالمی نام نہاد دہشت گردی کے فالز فلیگ، حملوں کی زد میں فلپائن کو بھی لینے کی کوشش کرلی گئی ہے۔ فلپائن میں جہاں گزشتہ کئی برسوں میں دہشت گردی کے نام پر کوئی حملہ نہیں ہوا وہاں اچانک فلپائنی صدر کے اقوام متحدہ کو چھوڑنے اور نئی اقوام متحدہ تشکیل دینے کا ارادہ ظاہر کرنے پر دھماکے کر دیے گئے جو عالمی سازش کا یقینی حصہ ہے۔
صدر فلپائن کی اس تلخ نوائی کا پس منظر یہ ہے کہ اقوام متحدہ اور اس کے ماہرین کی جانب سے منشیات کا کاروبار کرنے والے اور اسے متعلق مشتبہ افراد کی گرفتاریوں کے سلسلے کو روکنے کا مطالبہ، کیا گیا۔ فلپائنی صدر نے منشیات کے کاروبار سے وابستہ افراد کو ہلاک کرنے پر سکیورٹی اہلکاروں کو تحفظ اور خصوصی انعام فراہم کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ اقوام متحدہ کے خصوصی مندوب الینس کالرمرڈ نے اس حوالے سے فلپائن پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ پڑھیے اور سر دھنیے یعنی تیسری دنیا کی کسی ریاست کا اپنے ملک میں جرائم کا خاتمہ کرنا اقوام متحدہ اور امریکا کے نزدیک بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ تیس جون 2016 کو صدارت کا حلف اٹھانے والے نو منتخب صدر نے بات سولہ آنے درست کہی۔ اگرچہ چند روز بعد انھوں نے اقوام متحدہ کے قیام کی تجویز کو مغربی ممالک بالخصوص امریکا کے دباؤ پرایک مذاق قرار دیدیا مگر ان کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ ایشیا اورافریقہ کے اربوں انسانوں کے دلوں کی آواز ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ علامہ اقبال کے الفاظ میں اقوام متحدہ کی پیشرو جمعیت اقوام یعنی لیگ آف نیشنز کفن چوروں کی انجمن تھی اور یہ الفاظ اقوام متحدہ پر من و عن صادق آتے ہیں۔ یہ اقوام متحدہ ہی تھی جس نے اکتوبر انیس سو سینتالیس کو فلسطین کی ظالمانہ تقسیم سے عالم اسلام کے مرکز میں اسرائیل کا ناسورکاشت کیا اور یہود ونصاری کی دلبر یو این او کے اس فیصلے نے پوری فلسطینی قوم کو بے وطن اور بے گھر کردیا۔ اسرائیل نے جون 1967سے غربِ اردن، بیت المقدس اورجولان کے علاقے پرصریحاً ناجائز قبضہ کر رکھا ہے اور غزہ کی پٹی اسرائیل کے فوجی محاصرے میں ہے۔اقوام متحدہ کی قرارداد 242 اسرائیل کو ان علاقوں سے انخلا کا پابند بناتی ہے مگر امریکی شہ پر ناچنے والا اسرائیل اس کی تعمیل سے مسلسل انکاری ہے اور اقوام متحدہ اپنی قرارداد کی بے حرمتی پر چپ سادھے بیٹھی ہے۔اسی طرح اقوام متحدہ کی قراردادیں تیرہ اگست سن انیس سو اڑتالیس اور پانچ جنوری 1949 ریاست جموں اور کشمیر میں رائے شماری کرانے کا فیصلہ صادرکرتی ہیں مگر بھارت عالمی ادارے میں کیا ہوا رائے شماری کا وعدہ پس پشت ڈال کر مسلمانانِ کشمیر کو محکوم بنائے رکھنے پرکھلی بدمعاشی پر اترا ہوا ہے۔
1982 میں جزائر فاک لینڈ کا مسئلہ پیدا ہوا ۔بحر اوقیانوس جنوبی میں واقع یہ جزائر جنوبی امریکا کے دوسرے بڑے ملک ارجنٹائن سے بہت قریب واقع ہیں، یعنی تقریبا چھ سوکلومیٹرکی دوری پر یہ جزائر ارجنٹائن کی ملکیت میں آنے کے حقدار ہیں، لہذا ارجنٹائن کا ان پر دعویٰ ملکیت فائق تھا لیکن برطانیہ نے اپنے سامراجی دور سے ان جزائر پر قبضہ کر رکھا تھا جب کہ وہ فاک لینڈ سے آٹھ ہزار کلومیٹر دور ہے۔ ارجنٹائن اسپین سے اپنی آزادی اٹھارہ سو اٹھارہ کے بعد سے جزائر فاک لینڈ کی حوالگی کا مطالبہ کرتا آیا ہے مگر غالب طاقت برطانیہ اسے ٹھکراتا رہا۔ ارجنٹائن کی بحریہ نے دو اپریل انیس سو بیاسی کو جزائر فاک لینڈ پر قبضہ کرلیا۔اس پر برطانیہ نے ان جزائر کی بحری و فضائی ناکہ بندی کردی جب کہ وہ بحر اوقیانوس جنوبی میں کئی اور جزائر مثلا سینٹ ہیلینا اور جزائر ساوتھ جارجیا پر بھی آج تک قابض ہے۔
ارجنٹائن کی جانب سے جزائر فاک لینڈ پر قبضے کے اگلے ماہ ہی برطانوی آئرن لیڈی وزیراعظم مارگریٹ تھیچر نے جنگ چھیڑ دی اورسام بہادر یعنی امریکا نے اس کی پشت پناہی کی۔اکیس مئی کو برطانوی فوجیں جزائر فاک لینڈ پر اتریں۔ ارجنٹائن کی فوج نے سرتوڑ مزاحمت کی مگر بدقسمتی سے چودہ جون کو اسے ہتھیار ڈالنے ہی پڑے۔ جنگ میں دونوں ملکوں کا ایک ایک بحری جنگی جہاز غرق ہوا۔برطانیہ کے اس سامراجی ڈاکے پر اقوام متحدہ ایسے خاموش رہی جیسے اسے بھنگ پلا کر سلا دیا گیا ہو۔
دو ہزار ایک میں اقوام متحدہ نے بدترین کردار کا مظاہرہ کیا جب نائن الیون کے سانحے کی آڑ میں امریکا، برطانیہ اور فرانس وغیرہ نے امارات اسلامی افغانستان پر حملے کا ارادہ کیا تو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے آنا فانا ایک قرارداد منظورکر کے اس حملے کی اجازت دیدی جب کہ ورلڈ ٹریڈ ٹاور اور پینٹاگون حملوں سے افغانستان کا کوئی تعلق نہ تھا۔ دراصل ان فالزفلیگ حملوں کے ذریعے مغربی سامراجیوں کا افغانستان سے اٹھنے والی جہادی تحریک کوکچلنا مقصود تھا لہذا مغرب کی آلہ کار اقوام متحدہ نے فوراً قرارداد منظور کر ڈالی اور یوں افغانستان کی تباہی و بربادی کا راستہ باضابطہ طریقے سے کھول دیا گیا۔ ڈیڑھ سال بعد امریکا و برطانیہ نے عراق پر فوجی چڑھائی کے لیے اقوام متحدہ کی قرارداد کی منظوری کا تکلف بھی گوارا نہ کیا اور اس کے بغیر ہی عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ اقوام متحدہ اس پر بھی ٹس سے مس نہ ہوئی بلکہ ظالموں کی اس مجلس نے بعد میں عراق پر امریکی و برطانوی سامراجی حملے کو سند جواز عطا کی۔
اس وقت چھپن اسلامی ممالک اقوام متحدہ کے رکن ہیں، مگر اس عالمی ادارے نے آج تک عالم اسلام کا کوئی مسئلہ حل نہیں کروایا۔ سوائے کویت کو صدام حسین کے تسلط سے آزاد کرانے کے اور اس میں بھی کویت کے بے پایاں تیل کے ذخائر سے مستفید ہونے کا مغربی مفاد کارفرما تھا۔ اس کے برعکس جنوبی سوڈان کا مسئلہ دیکھیے، مغربی مسیحی ممالک نے وہاں بغاوت کروائی اور پھر اسے سوڈان سے توڑنے کے لیے اقوام متحدہ کو استعمال کیا تاکہ وسطی افریقہ کے اندر ایک اور مسیحی ریاست تشکیل دی جائے۔ اقوام متحدہ نے فورا جنوبی سوڈان میں فوجیں بھیج دیں ۔ جنوری دو ہزار گیارہ میں جنوبی سوڈان میں ریفرنڈم کروایا گیا اور جولائی میں اس نام سے ایک الگ ملک وجود میں آیا۔ جو اپنے قیام سے مسلسل خونریزی اور قبائلی خانہ جنگی کا شکار ہے جس میں لاکھوں افراد مارے جاچکے ہیں اور مسیحی غلبے والے نام نہاد جنوبی سوڈان کا وجود اقوام متحدہ کے لیے کلنک کا ٹیکا بن چکا ہے۔
سوڈان ہی کی طرح ایک اور اسلامی ملک انڈونیشیا سے جزیرہ تیمور کا نصف ''مشرقی تیمور'' کے نام سے الگ کرکے ایک مسیحی ملک بنایا گیا۔ اس میں بھی اقوام متحدہ کو استعمال کیا گیا تاکہ انڈونیشیا کے ساڑھے بارہ ہزارجزائر کے اندر ایک سامراجی اڈا مسیحی مشرقی تیمور کی شکل میں فراہم ہوجائے۔ انڈونیشیا پر دباؤ ڈال کر اقوام متحدہ کی فوجیں انیس سوننانوے میں یہاں اتاری گئیں اور ان کی نگرانی میں باغیوں نے اگست 2001 کے انتخابات جیت لیے اور بیس مئی 2002 کو مشرقی تیمور آزاد ہوگیا مگر وہ آزادی پاکر بھی آج تک پسماندگی اور غربت کے عذاب سے دوچار ہے۔ ان حالات میں اگر صدر فلپائن کی تجویز کے مطابق ایشیااور افریقہ کے ممالک چین کو ساتھ ملا کر ایک نئی اقوام متحدہ تشکیل دیتے ہیں تو وہ امریکی گود نیویارک میں بیٹھی مغربی سامراجی مفادات کی اسیر یو این او سے کہیں زیادہ مفید ثابت ہوگی اور افروایشیا کے آزاد خطے کو مغربی سامراجی استحصال سے نجات بھی مل جائے گی۔
'بازاری عورت' کا بیٹا کہنے پر امریکی صدر باراک اوباما نے دورہ لاس میں ہی فلپائن کے صدر راڈریگو سے ملنے سے انکارکر دیا، کشیدگی کا یہ سلسلہ گزشتہ ایک ماہ سے جاری ہے جس کے دوران فلپائنی صدر نے امریکا اور اقوام متحدہ کو ان کی اوقات یاد دلائی ہے۔ فلپائن سے امریکا اور اقوام متحدہ کا تنازعہ رواں سال جون میں صدر راڈریگو کا صدارتی منصب سنبھالنے اور اپنے ملک میں منشیات مافیا اور اس کا استعمال کرنے والوں کے خلاف شدید مہم چلانے پر شروع ہوا۔ انسداد منشیات مہم کے تحت مجرموں کو سرعام اور فوری طور پر سزائے موت سنائی گئی ہے، جس پر امریکا نے پہلے تو اقوام متحدہ کے ذریعے فلپائن کی مذمت کروائی جس پر فلپائن کے صدر راڈریگو نے ماہ اگست کے وسط میں نعرہ حق بلند کرتے ہوئے کہا کہ ''اقوام متحدہ فلپائن کے اندرونی معاملات میں مداخلت کررہا ہے۔ شاید ہمیں اقوام متحدہ سے الگ ہونے کا فیصلہ کرنا پڑے۔ انھوں نے نام نہاد یواین اوکا مضحکہ اڑاتے ہوئے اس سے براہ راست کہا کہ ''اگر تم ہماری عزت نہیں کرتے تو ہم بھی تمہیں چھوڑ دیں گے۔
ہم ایک دوسری بین الاقوامی تنظیم کا قیام چاہتے ہیں۔ فلپائن اس سلسلے میں چین اور افریقی ممالک سمیت سب کو مدعو کرے گا۔'' صدر راڈریگو کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ نے فلپائن کے لیے آج تک کچھ نہیں کیا۔ فلپائنی صدر کے اس جرات مندانہ اور تاریخی بیان پر اقوام متحدہ اور امریکا سمیت یورپ کے سینے پر سانپ لوٹ گئے اور مغربی ایوانوں میں لرزہ طاری ہوگیا۔ گزشتہ ہفتے عالمی نام نہاد دہشت گردی کے فالز فلیگ، حملوں کی زد میں فلپائن کو بھی لینے کی کوشش کرلی گئی ہے۔ فلپائن میں جہاں گزشتہ کئی برسوں میں دہشت گردی کے نام پر کوئی حملہ نہیں ہوا وہاں اچانک فلپائنی صدر کے اقوام متحدہ کو چھوڑنے اور نئی اقوام متحدہ تشکیل دینے کا ارادہ ظاہر کرنے پر دھماکے کر دیے گئے جو عالمی سازش کا یقینی حصہ ہے۔
صدر فلپائن کی اس تلخ نوائی کا پس منظر یہ ہے کہ اقوام متحدہ اور اس کے ماہرین کی جانب سے منشیات کا کاروبار کرنے والے اور اسے متعلق مشتبہ افراد کی گرفتاریوں کے سلسلے کو روکنے کا مطالبہ، کیا گیا۔ فلپائنی صدر نے منشیات کے کاروبار سے وابستہ افراد کو ہلاک کرنے پر سکیورٹی اہلکاروں کو تحفظ اور خصوصی انعام فراہم کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ اقوام متحدہ کے خصوصی مندوب الینس کالرمرڈ نے اس حوالے سے فلپائن پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ پڑھیے اور سر دھنیے یعنی تیسری دنیا کی کسی ریاست کا اپنے ملک میں جرائم کا خاتمہ کرنا اقوام متحدہ اور امریکا کے نزدیک بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ تیس جون 2016 کو صدارت کا حلف اٹھانے والے نو منتخب صدر نے بات سولہ آنے درست کہی۔ اگرچہ چند روز بعد انھوں نے اقوام متحدہ کے قیام کی تجویز کو مغربی ممالک بالخصوص امریکا کے دباؤ پرایک مذاق قرار دیدیا مگر ان کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ ایشیا اورافریقہ کے اربوں انسانوں کے دلوں کی آواز ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ علامہ اقبال کے الفاظ میں اقوام متحدہ کی پیشرو جمعیت اقوام یعنی لیگ آف نیشنز کفن چوروں کی انجمن تھی اور یہ الفاظ اقوام متحدہ پر من و عن صادق آتے ہیں۔ یہ اقوام متحدہ ہی تھی جس نے اکتوبر انیس سو سینتالیس کو فلسطین کی ظالمانہ تقسیم سے عالم اسلام کے مرکز میں اسرائیل کا ناسورکاشت کیا اور یہود ونصاری کی دلبر یو این او کے اس فیصلے نے پوری فلسطینی قوم کو بے وطن اور بے گھر کردیا۔ اسرائیل نے جون 1967سے غربِ اردن، بیت المقدس اورجولان کے علاقے پرصریحاً ناجائز قبضہ کر رکھا ہے اور غزہ کی پٹی اسرائیل کے فوجی محاصرے میں ہے۔اقوام متحدہ کی قرارداد 242 اسرائیل کو ان علاقوں سے انخلا کا پابند بناتی ہے مگر امریکی شہ پر ناچنے والا اسرائیل اس کی تعمیل سے مسلسل انکاری ہے اور اقوام متحدہ اپنی قرارداد کی بے حرمتی پر چپ سادھے بیٹھی ہے۔اسی طرح اقوام متحدہ کی قراردادیں تیرہ اگست سن انیس سو اڑتالیس اور پانچ جنوری 1949 ریاست جموں اور کشمیر میں رائے شماری کرانے کا فیصلہ صادرکرتی ہیں مگر بھارت عالمی ادارے میں کیا ہوا رائے شماری کا وعدہ پس پشت ڈال کر مسلمانانِ کشمیر کو محکوم بنائے رکھنے پرکھلی بدمعاشی پر اترا ہوا ہے۔
1982 میں جزائر فاک لینڈ کا مسئلہ پیدا ہوا ۔بحر اوقیانوس جنوبی میں واقع یہ جزائر جنوبی امریکا کے دوسرے بڑے ملک ارجنٹائن سے بہت قریب واقع ہیں، یعنی تقریبا چھ سوکلومیٹرکی دوری پر یہ جزائر ارجنٹائن کی ملکیت میں آنے کے حقدار ہیں، لہذا ارجنٹائن کا ان پر دعویٰ ملکیت فائق تھا لیکن برطانیہ نے اپنے سامراجی دور سے ان جزائر پر قبضہ کر رکھا تھا جب کہ وہ فاک لینڈ سے آٹھ ہزار کلومیٹر دور ہے۔ ارجنٹائن اسپین سے اپنی آزادی اٹھارہ سو اٹھارہ کے بعد سے جزائر فاک لینڈ کی حوالگی کا مطالبہ کرتا آیا ہے مگر غالب طاقت برطانیہ اسے ٹھکراتا رہا۔ ارجنٹائن کی بحریہ نے دو اپریل انیس سو بیاسی کو جزائر فاک لینڈ پر قبضہ کرلیا۔اس پر برطانیہ نے ان جزائر کی بحری و فضائی ناکہ بندی کردی جب کہ وہ بحر اوقیانوس جنوبی میں کئی اور جزائر مثلا سینٹ ہیلینا اور جزائر ساوتھ جارجیا پر بھی آج تک قابض ہے۔
ارجنٹائن کی جانب سے جزائر فاک لینڈ پر قبضے کے اگلے ماہ ہی برطانوی آئرن لیڈی وزیراعظم مارگریٹ تھیچر نے جنگ چھیڑ دی اورسام بہادر یعنی امریکا نے اس کی پشت پناہی کی۔اکیس مئی کو برطانوی فوجیں جزائر فاک لینڈ پر اتریں۔ ارجنٹائن کی فوج نے سرتوڑ مزاحمت کی مگر بدقسمتی سے چودہ جون کو اسے ہتھیار ڈالنے ہی پڑے۔ جنگ میں دونوں ملکوں کا ایک ایک بحری جنگی جہاز غرق ہوا۔برطانیہ کے اس سامراجی ڈاکے پر اقوام متحدہ ایسے خاموش رہی جیسے اسے بھنگ پلا کر سلا دیا گیا ہو۔
دو ہزار ایک میں اقوام متحدہ نے بدترین کردار کا مظاہرہ کیا جب نائن الیون کے سانحے کی آڑ میں امریکا، برطانیہ اور فرانس وغیرہ نے امارات اسلامی افغانستان پر حملے کا ارادہ کیا تو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے آنا فانا ایک قرارداد منظورکر کے اس حملے کی اجازت دیدی جب کہ ورلڈ ٹریڈ ٹاور اور پینٹاگون حملوں سے افغانستان کا کوئی تعلق نہ تھا۔ دراصل ان فالزفلیگ حملوں کے ذریعے مغربی سامراجیوں کا افغانستان سے اٹھنے والی جہادی تحریک کوکچلنا مقصود تھا لہذا مغرب کی آلہ کار اقوام متحدہ نے فوراً قرارداد منظور کر ڈالی اور یوں افغانستان کی تباہی و بربادی کا راستہ باضابطہ طریقے سے کھول دیا گیا۔ ڈیڑھ سال بعد امریکا و برطانیہ نے عراق پر فوجی چڑھائی کے لیے اقوام متحدہ کی قرارداد کی منظوری کا تکلف بھی گوارا نہ کیا اور اس کے بغیر ہی عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ اقوام متحدہ اس پر بھی ٹس سے مس نہ ہوئی بلکہ ظالموں کی اس مجلس نے بعد میں عراق پر امریکی و برطانوی سامراجی حملے کو سند جواز عطا کی۔
اس وقت چھپن اسلامی ممالک اقوام متحدہ کے رکن ہیں، مگر اس عالمی ادارے نے آج تک عالم اسلام کا کوئی مسئلہ حل نہیں کروایا۔ سوائے کویت کو صدام حسین کے تسلط سے آزاد کرانے کے اور اس میں بھی کویت کے بے پایاں تیل کے ذخائر سے مستفید ہونے کا مغربی مفاد کارفرما تھا۔ اس کے برعکس جنوبی سوڈان کا مسئلہ دیکھیے، مغربی مسیحی ممالک نے وہاں بغاوت کروائی اور پھر اسے سوڈان سے توڑنے کے لیے اقوام متحدہ کو استعمال کیا تاکہ وسطی افریقہ کے اندر ایک اور مسیحی ریاست تشکیل دی جائے۔ اقوام متحدہ نے فورا جنوبی سوڈان میں فوجیں بھیج دیں ۔ جنوری دو ہزار گیارہ میں جنوبی سوڈان میں ریفرنڈم کروایا گیا اور جولائی میں اس نام سے ایک الگ ملک وجود میں آیا۔ جو اپنے قیام سے مسلسل خونریزی اور قبائلی خانہ جنگی کا شکار ہے جس میں لاکھوں افراد مارے جاچکے ہیں اور مسیحی غلبے والے نام نہاد جنوبی سوڈان کا وجود اقوام متحدہ کے لیے کلنک کا ٹیکا بن چکا ہے۔
سوڈان ہی کی طرح ایک اور اسلامی ملک انڈونیشیا سے جزیرہ تیمور کا نصف ''مشرقی تیمور'' کے نام سے الگ کرکے ایک مسیحی ملک بنایا گیا۔ اس میں بھی اقوام متحدہ کو استعمال کیا گیا تاکہ انڈونیشیا کے ساڑھے بارہ ہزارجزائر کے اندر ایک سامراجی اڈا مسیحی مشرقی تیمور کی شکل میں فراہم ہوجائے۔ انڈونیشیا پر دباؤ ڈال کر اقوام متحدہ کی فوجیں انیس سوننانوے میں یہاں اتاری گئیں اور ان کی نگرانی میں باغیوں نے اگست 2001 کے انتخابات جیت لیے اور بیس مئی 2002 کو مشرقی تیمور آزاد ہوگیا مگر وہ آزادی پاکر بھی آج تک پسماندگی اور غربت کے عذاب سے دوچار ہے۔ ان حالات میں اگر صدر فلپائن کی تجویز کے مطابق ایشیااور افریقہ کے ممالک چین کو ساتھ ملا کر ایک نئی اقوام متحدہ تشکیل دیتے ہیں تو وہ امریکی گود نیویارک میں بیٹھی مغربی سامراجی مفادات کی اسیر یو این او سے کہیں زیادہ مفید ثابت ہوگی اور افروایشیا کے آزاد خطے کو مغربی سامراجی استحصال سے نجات بھی مل جائے گی۔