مسلمانوں اوردلتوں پرحملے کرنے والے جنونی گئورکشک گروہ
بھارت میں قدامت پسند ہندو انسان کے مقابلے میں گائے کی زندگی کو زیادہ قیمتی سمجھتے ہیں…تحقیقی رپورٹ
بھارت کے وزیراعظم، نریندر مودی اپنے ملک کو ترقی یافتہ اور سپرپاور بنانا چاہتے ہیں جبکہ وہاں معاشرتی حالت یہ ہوچکی کہ ایک جانور کو انسان پر ترجیح دی جانے لگی ہے۔ حتیٰ کہ گائے کے معاملے میں انسانوں کو بے دردی سے قتل کردیا جاتا ہے۔ کرہ ارض پر انسان اشرف المخلوقات ہے مگر قدامت پسند ہندو گائے کو عظیم تر سمجھتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ کہ ماضی میںگائے کا گوشت ہندومت کے بانیوں، برہمنوں کا من بھاتا کھاجا تھا۔ جب انہوں نے نچلے ہندوستانی طبقوں میں گائے کی مقبولیت دیکھی، تو ان کی حمایت حاصل کرنے کے لیے اس جانور کو دیوتا بنادیا۔ گویا ہندومت میں گائے کی عظمت مذہبی نہیں سیاسی بنیاد رکھتی ہے۔ برہمنوں نے گائے کو اس لیے مقدس و متبرک بنایا تاکہ بدھ مت کو شکست دینے کی خاطر نچلے طبقوں کی حمایت و مدد حاصل کرسکیں۔جب ہندوستان میں مسلم حکومت آئی تو گائے ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین وجہ تنارع بن گئی۔
ہندو ریاستوں میں گائے کے ذبیح پر پابندی عائد تھی جو مسلمانوں کے زیر نگیں آنے سے جاتی رہی۔ تاہم قدامت پسند ہندو مساجد میں سور کی لاش پھینک کر اپنے غصے کا اظہار کرتے۔ جب وہ مسلمانوں کو گائے کا ذبیح کرتے اور عیدالاضحی میں قربانی کرتے دیکھتے، تو انہیں بہت تاؤ آتا۔یہ جان کر حیرت نہیں ہوتی کہ ہندوستان میں گائے کی وجہ سے ہی پہلا باقاعدہ ہندو مسلم فساد ہوا۔ گو مورخین کے نزدیک پہلا فساد 1854ء میں گودھرا، گجرات میں ہوا تھا، مگر اس کی زیادہ تفصیل نہیں ملتی۔ تاہم گائے پر 1893ء میں ہونے والے ہندو مسلم فساد پر توکتب تحریر ہوچکیں۔
ہوا یہ کہ انیسویں صدی میں انگریزوں کی آشیرباد سے برہمنی لیڈر ہندوستان کے بت پرستوں کو متحد کرنے لگے جنہیں بعدازاں ''ہندو'' کہا گیا۔ ان برہمنی لیڈروں میں سب سے نمایاں ایک گجراتی، سوامی دیانند سرسوتی تھا۔ اس نے بت پرستوں کو متحد کرنے کی خاطر گائے کا سہارا لیا اور اس جانور کو متبرک بنا ڈالا۔ سوامی دیانند نے گائے کی حفاظت کے لیے ایک تنظیم ''گاؤ رکشا سبھا'' قائم کی۔ مدعا یہ تھا کہ تنظیم کے ارکان آوارہ پھرنے والی گائیں پکڑ کر انہیں پال پوس سکیں۔ گاؤ رکشا سبھا پنجاب اور شمالی ہندوستان میں بہت مقبول ہوئی۔
شہروں میں تنظیم کے مراکز کھل گئے۔ تنظیم نے ہر جگہ ''گؤ شالائیں'' کھول لیں جہاں آوارہ گائیں رکھی جاتی تھیں۔ سوامی دیانند اسلام اور مسلمانوں کا کٹر دشمن تھا۔ چناں چہ رفتہ رفتہ تنظیم انگریز حکومت سے مطالبہ کرنے لگی کہ ہندوستان میں گائے کے ذبیح پر پابندی لگائی جائے۔ یہ ایک ناروا مطالبہ تھا۔ہندوستان میں لاکھوں مسلمانوں کا روزگار گائے پر منحصر تھا۔ ہزارہا مسلمان گائیں پالتے تھے۔ جب جانور جوان ہوتا، تو وہ اسے بیچ ڈالتے۔ بیشتر قصائی بھی مسلمان تھے۔ غرض گائے کے ذبیح پر پابندی لگتی تو لاکھوں مسلمانوں کا روزگار ختم ہوجاتا۔ اسی لیے گاؤ رکشا سبھا کے لیڈروں نے عدالتوں سے مدد چاہی، تو وہاں ان کی درخواستیں نامنظور کردی گئیں۔
گائے پر پہلا فساد
گاؤ رکشا سبھا کی مہم کا یہ نتیجہ نکلا کہ شمالی ہندوستان میں جب بھی مسلمان گائے کا ذبیح کرتے، تو ہندو احتجاج کرنے لگتے۔ ان احتجاجی ہندوؤں کے لیڈر عموماً مقامی برہمن رہنما ہوتے۔ ان کے احتجاج نے اس گاؤ رکشا مہم کو متشدد بنادیا۔شمالی ہندوستان کے قصبے، مؤ (ضلع اعظم گڑھ) میں 70 فیصد آبادی مسلمانوں کی تھی۔ جب گاؤ رکشا سبھا کے ارکان نے انہیں زبردستی گائے کی قربانی سے روکا تو مسلمانوں کو بہت تاؤ آیا اور علاقے میں کشیدگی پھیل گئی۔ 1893ء میں اسی کشیدگی نے ہندو مسلم فساد کو جنم دیا جو تین دن جاری رہا۔ اس فساد میں سات افراد مارے گئے تاہم بعض مورخین مقتولوں کی تعداد دو سو تک لکھتے ہیں۔ اس حقیقت سے عیاں ہے کہ گائے کے معاملے پر ہونے والا پہلا بڑا فساد خوفناک اور خونریز تھا۔
قدامت پسند برہمن لیڈروں کی سرگرمی کے باعث گائے کے معاملے پر ہندو مسلم اختلافات بڑھتے چلے گئے۔ حتیٰ کہ خصوصاً شمالی ہندوستان میں گائے پر دونوں اقوام کے مابین لڑائی جھگڑے معمول بن گئے۔ ایک فساد کے راوی والد محترم، قاسم محمود ہیں۔ وہ کھرکھودہ (اب ضلع سونی پت، ہریانہ) کے باسی تھے۔ اس قصبے میں مسلمانوں کی اچھی خاصی تعداد آباد تھی۔1938ء میں ایک قریبی گاؤں کے مندر میں گائے کی لاش پائی گئی۔ بعدازاں پتا چلا کہ یہ گائے گؤشالہ سے اغوا ہوئی ہے۔ گاؤں والوں نے شور مچادیا کہ کھرکھودہ کے کسی مسلمان نے گائے قتل کی ہے۔
دیکھتے ہی دیکھتے انتقام لینے کی باتیں ہونے لگیں۔اردگرد واقع چالیس دیہات کے ہندوؤں نے اتحاد بنایا اور کھرکھودہ پر حملے کرنے لگے۔ یہ اتحاد ''چالسیہ'' کہلایا۔والد مرحوم بتاتے تھے کہ چار سال تک چالسیہ کے ہندو کھرکھودہ پر وقتاً فوقتاً حملے کرتے رہے۔ جب بھی حملہ ہوتا تو قصبے کے مسلمان مل کر ہندوؤں کا مقابلہ کرتے اور انہیں کاری ضرب لگاتے۔ راقم کے دادا ''بنوٹ'' اور ''گتکا'' چلانا جانتے تھے۔ چناں چہ وہ اکثر لڑائیوں میں شریک رہے اور ڈنڈے کو بطور ہتھیار استعمال کرکے حملہ آوروں کو مار بھگاتے۔ اسی قسم کی لڑائیوں کے باعث ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین خلیج بڑھی اور پاکستان کا قیام ناگزیر ہوگیا۔
بھارت میں عدالتی جنگ
ہندوستان میں برہمنی طبقہ شروع سے امیر اور بااثر رہا اور اکثر برہمن مسلمانوں کو ناپسند کرتے تھے۔ چناں چہ انہوں نے ہندوؤںکو متحد کرنے کی خاطر گائے اور زبان (اردو ہندی تنازع) کا سہارا لیا، تو مسلم دانشوروں خصوصاً علما نے اس روش کو اپنے اسلامی تشخص اور کلچر پر حملہ سمجھا۔لہٰذا وہ قدامت پسند ہندوؤں کے خلاف صف آراء ہوگئے۔ عام مسلمانوں نے بھی اس جنگ میں علما کا ساتھ دیا۔گائے سے نہ صرف ان کا روزگار وابستہ تھا، بلکہ مہنگے بکرے کے گوشت کی جگہ ''بڑے'' کا گوشت سستا پڑتا تھا۔ یوں ہندوستان میں گائے دونوں بڑی قومیتوں کے درمیان اہم وجہ تنازع بن گئی۔ہندوؤں کی جماعت، کانگریس سیکولر تھی۔ تاہم اس کے ہندو لیڈر بھی متعصب نکلے۔ انہوں نے 1893ء کے فساد کا ذمے دار مقامی ہندو لیڈروں کو ٹھہرانے سے انکار کردیا۔ اس پر کانگریس میںشامل مسلمان لیڈروں کو بہت مایوسی ہوئی۔ مورخین نے لکھا ہے کہ اس واقعے کے بعد آہستہ آہستہ مسلمان لیڈر کانگریس چھوڑنے لگے۔ ہندو رہنماؤں نے انہیں واپس لانے کی ٹھوس کوششیں نہیں کیں۔ انہیں خطرہ تھا کہ اس طرح وہ عام ہندوؤں کی حمایت کھوبیٹھیں گے۔
1947ء میں مسلمانان ہند نے اپنا علیحدہ وطن، پاکستان حاصل کرلیا۔ قائداعظم اور دیگر مسلم رہنماؤں کے خدشات درست تھے۔ جلد ہی بھارت میں قدامت پسند ہندو اپنے مذہبی تصّورات و رسومات مسلمانوں پر تھوپنے کی کوشش کرنے لگے۔ حیرت کی بات نہیں کہ اس کی ابتدا ذبیح گائے پر پابندی لگانے سے ہوئی۔ اس کا آغاز 1949ء میں ہوا جب بھارتی ریاست سی پی و برار (اب مدھیہ پردیش) نے ذبیح گائے پر مکمل پابندی عائد کردی۔بھارت کی دیگر ریاستیں بھی رفتہ رفتہ سی پی و برار کے نقش قدم پر چل پڑیں۔ 1955ء میں ریاست بہار اور ریاست اترپردیش میں بھی ذبیح گائے پر مکمل پابندی عائد کردی گئی۔ ان پابندیوں کی وجہ سے تینوں ریاستوں میں مسلمان قصابوں کا کاروبار ٹھپ ہوگیا اور وہ دانے دانے کے محتاج ہوگئے۔ آخر 1958ء میں ریاست بہار کے ایک مسلم قصائی، حنیف قریشی نے مع ساتھیوں کے ان پابندیوں کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا۔
حنیف قریشی کا استدلال یہ تھا کہ ان پابندیوں نے ان کی انفرادی و مذہبی آزادی کو پامال کیا ہے جو ازروئے بھارتی آئین انہیں حاصل ہے۔ پانچ رکنی بینچ نے یہ مقدمہ سنا جس میں تمام جج ہندو تھے۔ انہوں نے قرار دیا کہ جو مویشی (گائے، بیل، بھینس وغیرہ) بوڑھے ہوجائیں، انہیں ذبح کرلینا جائز ہے۔ تاہم جوان مویشی ذبح نہ کیے جائیں۔ یوں ایک طرح سے مسلمانوں کو بوڑھی گائیں ذبح کرنے کی اجازت مل گئی۔ یہ فیصلہ کئی مسلم رہنماؤں کو مخالفانہ لگا، تاہم مجموعی طور پر شکست سے بہتر سمجھا گیا۔
اکیسویں صدی میں قدامت پسند ہندو لیڈر، نریندر مودی ریاست گجرات کا وزیراعلیٰ بن گیا۔ اس کے ایما پر ریاست بھر میں مسلمانوں اور دلتوں کو ذبیح گائے سے زبردستی روکا جانے لگا۔ اس پر مسلم قصائی پھر سپریم کورٹ پہنچ گئے۔ اس بار سات رکنی بڑا بنچ تشکیل دیا گیا۔ اس میں سبھی جج ہندو تھے۔ اس بار انہوں نے ذبیح گائے پر مکمل پابندی عائد کردی۔یوں اکثریتی ہندوؤں نے اقلیتی مسلمانوں پر اپنا فیصلہ تھونپ دیا۔ یہ ایک طرح کا ظلم و جبر ہی ہے۔ گویا ہندوؤں نے مسلمانوں کو مجبور کردیا کہ وہ ذبیح گائے نہ کریں، حالانکہ عید قربان پر یہ آخرالذکر کی مذہبی رسم بھی ہے۔ اس فیصلے نے انفرادی و مذہبی، دونوں قسم کی آزادیوں کو نقصان پہنچایا اور ثابت کردیا کہ بھارت صرف ہندوؤں کا ہے۔ حتیٰ کہ قانون و انصاف کے رکھوالے بھی متعصب نکلے اور انہوں نے اپنے مذہبی رسوم و رواج کو ترجیح دی۔
اس وقت تک پورے بھارت میں قدامت پسند ہندوؤںکی جماعت بی جے پی کا زور کم ہوگیا تھا اور کانگریس اقتدار میں آگئی تھی۔ کانگریس سیکولر ازم کا پرچار کرتی ہے، اسی لیے اس کے دور میں مسلمان بدستور ذبیح گائے کرتے رہے۔ تاہم 2014ء میں نریندر مودی نے وفاقی حکومت سنبھالی تو صورتحال بدل گئی۔اب قدامت پسند ہندو کوشش کرنے لگے کہ بھارت کو ہندو ریاست بنا دیا جائے۔ چناں چہ مسلمانوں کو زبردستی ہندو بنایا گیا۔ مسلمانوں پر ملازمتوں کے دروازے بند ہوگئے۔ اب وہ ہندو محلوں میں گھر نہیں لے سکتے۔ مزید براں جگہ جگہ گائے کی حفاظت کرنے والے ''گؤ رکشا گروپ'' سامنے آنے لگے۔ ان کی واحد ذمے داری مسلمانوں اور دیگر لوگوںکو ذبیح گائے سے روکنا ہے۔ یہ گروپ رفتہ رفتہ متشدد اور جرائم پیشہ گروہوں میں تبدیل ہوگئے۔ ان گروہوں کے ذریعے اب نہ صرف سیاسی مفاد پورے ہوتے ہیں بلکہ ذاتی طور پر پیسا بھی کمایا جاتا ہے۔
بھارت میں گؤ رکشا گروپ کے غنڈے و مذہبی جنونی گائے کا گوشت لے جانے یا کھانے والوںکو مارنے پیٹے لگے۔ حتیٰ کہ پچھلے سال محض اس افواہ پر ہندوؤں نے ایک بوڑھے مسلمان محمد اخلاق کو مار مار کر شہید کرڈالا کہ اس کے گھر گائے کا گوشت رکھا اس واقعے کے بعد تو گؤ رکشا گروہوں کو مارنے پیٹنے کی کھلی چھٹی مل گئی۔ دراصل نریندر مودی دنیا والوں کے سامنے تو ان گروہوں کی مذمت کرتے اور انہیں ''غنڈے'' قرار دیتے ہیں، مگر اندرون خانہ انہیں ہدایت کرتے ہیں کہ ذبیح گائے میں ملوث لوگوں کو خوب مارا پیٹا جائے تاکہ دوسرے خوفزدہ ہوجائیں۔ اس روش سے نریندر مودی مسلمانان بھارت کو یہ سبق پڑھانا چاہتے ہیں کہ یہ ملک صرف ہندوؤںکا ہے اور یہاں رہنے والوں کو ہندومت کی رسوم و رواج پرعمل کرنا پڑے گا۔یاد رہے، 24 بھارتی ریاستوں میں ذبیح گائے پر پابندی عائد ہو چکی۔
دلتوں کی مارپیٹ
دلت یا اچھوت بھارت کا سب سے پسماندہ اور بے بس طبقہ ہے۔ دلتوں کی تعداد تقریباً بیس کروڑ ہے۔ ان میں سے کئی ہندو ہیں مگر نام کے... کیونکہ انہیں مندروں میں جانے کی اجازت نہیں۔ طبقہ بالا کے ہندو دلت عورتوں کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں۔ بھارتی حکومت کے اپنے ''نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو'' کی حالیہ رپورٹ کے مطابق بھارت میں روزنہ چار دلت عورتوں کی بے حرمتی کی جاتی ہے۔دو سال قبل نریندر مودی نے اپنی انتخابی مہم میں دلتوں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ان کے سماجی مقام ومرتبے میں اضافہ کریں گے۔ اسی لیے دلتوں کی بڑی تعداد نے انہیں ووٹ دیئے۔ مگر مودی کے وعدے سراب ثابت ہوئے۔ آج بھی بھارتی دلت ذلت آمیز زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کی زیادہ تر تعداد اترپردیش، مغربی بنگال، بہار، پنجاب، راجستھان، ہریانہ وغیرہ میں آباد ہے۔
بھارتی معاشرے میں کوڑا کرکٹ اٹھانے کے ذمے دار یہی دلت ہیں۔ وہی گائے سمیت مردہ مویشیوں کی لاشیں ٹھکانے لگاتے ہیں۔ تاہم تلف کرنے سے قبل وہ ان کی کھال اتار لیتے ہیں۔ مزید براں بہت سے غیر ہندو دلت گائے کا گوشت بھی کھاتے ہیں۔ اسی لیے گؤ رکشا گروہ دلتوں کو بھی نشانہ بنانے لگے۔ پچھلے دنوں دلتوں کی مارپیٹ کے واقعات بھارتی میڈیا میں بہت نمایاں رہے۔جب محمد اخلاق شہید ہوئے، تو ایک بی جے پی رہنما کا بیان آیا تھا کہ گلی کے کتے بھی مرجاتے ہیں۔ بھارتی حکومت نے مسلمانوں کی دلجوئی کے لیے بیان دینا بھی مناسب نہ سمجھا۔ مگر جب گؤ رکشا گروہوں نے دلتوں کومارا پیٹا، تو نریندر مودی ہوش میں آگئے۔ انہوں نے قرار دیا کہ ان گروہوں میں جرائم پیشہ لوگ شامل ہوچکے جو انہیں بدنام کررہے ہیں۔
نریندر مودی دلتوں کی حمایت میں اسی لیے بولے کہ وہ بیس کروڑ پر مشتمل اس بڑے گروہ کو ''ہندو آبادی'' میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم خاص طور پر اترپردیش میں دلتوں کی بڑی تعداد بی جے پی سے برگشتہ ہوچکی۔ وہاں یہ امکان جنم لے چکا کہ آمدہ ریاستی انتخابات میں دلت رہنما، مایا وتی مسلمانوں سے اتحاد کرکے بی جے پی کو شکست دے سکتی ہے۔
اب مودی حکومت گؤ رکشا گروہوں کی ناک میں نکیل ڈالنے کی کوششیں کررہی ہے، مگر اسے زیادہ کامیابی نہیں ہوئی۔ یہ گروہ اب مقامی طور پر بہت طاقتور بن چکے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق یہ گروہ گوشت کے تاجروں، ٹرانسپورٹروں اور قصائیوں سے بھتا لیتے ہیں جس کی مالیت ماہانہ کروڑوں روپے میں ہے۔ جب مذہب کو ذاتی مفاد اورخواہشات کا وسیلہ بنالیا جائے، تو پھر وہ امن و محبت کا منبع نہیں کاروبار بن جاتا ہے۔ بھارت میں قدامت پسند ہندو اسی منافع بخش کاروبار میں ملوث ہوچکے ہیں۔
دلچسپ بات یہ کہ ماضی میںگائے کا گوشت ہندومت کے بانیوں، برہمنوں کا من بھاتا کھاجا تھا۔ جب انہوں نے نچلے ہندوستانی طبقوں میں گائے کی مقبولیت دیکھی، تو ان کی حمایت حاصل کرنے کے لیے اس جانور کو دیوتا بنادیا۔ گویا ہندومت میں گائے کی عظمت مذہبی نہیں سیاسی بنیاد رکھتی ہے۔ برہمنوں نے گائے کو اس لیے مقدس و متبرک بنایا تاکہ بدھ مت کو شکست دینے کی خاطر نچلے طبقوں کی حمایت و مدد حاصل کرسکیں۔جب ہندوستان میں مسلم حکومت آئی تو گائے ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین وجہ تنارع بن گئی۔
ہندو ریاستوں میں گائے کے ذبیح پر پابندی عائد تھی جو مسلمانوں کے زیر نگیں آنے سے جاتی رہی۔ تاہم قدامت پسند ہندو مساجد میں سور کی لاش پھینک کر اپنے غصے کا اظہار کرتے۔ جب وہ مسلمانوں کو گائے کا ذبیح کرتے اور عیدالاضحی میں قربانی کرتے دیکھتے، تو انہیں بہت تاؤ آتا۔یہ جان کر حیرت نہیں ہوتی کہ ہندوستان میں گائے کی وجہ سے ہی پہلا باقاعدہ ہندو مسلم فساد ہوا۔ گو مورخین کے نزدیک پہلا فساد 1854ء میں گودھرا، گجرات میں ہوا تھا، مگر اس کی زیادہ تفصیل نہیں ملتی۔ تاہم گائے پر 1893ء میں ہونے والے ہندو مسلم فساد پر توکتب تحریر ہوچکیں۔
ہوا یہ کہ انیسویں صدی میں انگریزوں کی آشیرباد سے برہمنی لیڈر ہندوستان کے بت پرستوں کو متحد کرنے لگے جنہیں بعدازاں ''ہندو'' کہا گیا۔ ان برہمنی لیڈروں میں سب سے نمایاں ایک گجراتی، سوامی دیانند سرسوتی تھا۔ اس نے بت پرستوں کو متحد کرنے کی خاطر گائے کا سہارا لیا اور اس جانور کو متبرک بنا ڈالا۔ سوامی دیانند نے گائے کی حفاظت کے لیے ایک تنظیم ''گاؤ رکشا سبھا'' قائم کی۔ مدعا یہ تھا کہ تنظیم کے ارکان آوارہ پھرنے والی گائیں پکڑ کر انہیں پال پوس سکیں۔ گاؤ رکشا سبھا پنجاب اور شمالی ہندوستان میں بہت مقبول ہوئی۔
شہروں میں تنظیم کے مراکز کھل گئے۔ تنظیم نے ہر جگہ ''گؤ شالائیں'' کھول لیں جہاں آوارہ گائیں رکھی جاتی تھیں۔ سوامی دیانند اسلام اور مسلمانوں کا کٹر دشمن تھا۔ چناں چہ رفتہ رفتہ تنظیم انگریز حکومت سے مطالبہ کرنے لگی کہ ہندوستان میں گائے کے ذبیح پر پابندی لگائی جائے۔ یہ ایک ناروا مطالبہ تھا۔ہندوستان میں لاکھوں مسلمانوں کا روزگار گائے پر منحصر تھا۔ ہزارہا مسلمان گائیں پالتے تھے۔ جب جانور جوان ہوتا، تو وہ اسے بیچ ڈالتے۔ بیشتر قصائی بھی مسلمان تھے۔ غرض گائے کے ذبیح پر پابندی لگتی تو لاکھوں مسلمانوں کا روزگار ختم ہوجاتا۔ اسی لیے گاؤ رکشا سبھا کے لیڈروں نے عدالتوں سے مدد چاہی، تو وہاں ان کی درخواستیں نامنظور کردی گئیں۔
گائے پر پہلا فساد
گاؤ رکشا سبھا کی مہم کا یہ نتیجہ نکلا کہ شمالی ہندوستان میں جب بھی مسلمان گائے کا ذبیح کرتے، تو ہندو احتجاج کرنے لگتے۔ ان احتجاجی ہندوؤں کے لیڈر عموماً مقامی برہمن رہنما ہوتے۔ ان کے احتجاج نے اس گاؤ رکشا مہم کو متشدد بنادیا۔شمالی ہندوستان کے قصبے، مؤ (ضلع اعظم گڑھ) میں 70 فیصد آبادی مسلمانوں کی تھی۔ جب گاؤ رکشا سبھا کے ارکان نے انہیں زبردستی گائے کی قربانی سے روکا تو مسلمانوں کو بہت تاؤ آیا اور علاقے میں کشیدگی پھیل گئی۔ 1893ء میں اسی کشیدگی نے ہندو مسلم فساد کو جنم دیا جو تین دن جاری رہا۔ اس فساد میں سات افراد مارے گئے تاہم بعض مورخین مقتولوں کی تعداد دو سو تک لکھتے ہیں۔ اس حقیقت سے عیاں ہے کہ گائے کے معاملے پر ہونے والا پہلا بڑا فساد خوفناک اور خونریز تھا۔
قدامت پسند برہمن لیڈروں کی سرگرمی کے باعث گائے کے معاملے پر ہندو مسلم اختلافات بڑھتے چلے گئے۔ حتیٰ کہ خصوصاً شمالی ہندوستان میں گائے پر دونوں اقوام کے مابین لڑائی جھگڑے معمول بن گئے۔ ایک فساد کے راوی والد محترم، قاسم محمود ہیں۔ وہ کھرکھودہ (اب ضلع سونی پت، ہریانہ) کے باسی تھے۔ اس قصبے میں مسلمانوں کی اچھی خاصی تعداد آباد تھی۔1938ء میں ایک قریبی گاؤں کے مندر میں گائے کی لاش پائی گئی۔ بعدازاں پتا چلا کہ یہ گائے گؤشالہ سے اغوا ہوئی ہے۔ گاؤں والوں نے شور مچادیا کہ کھرکھودہ کے کسی مسلمان نے گائے قتل کی ہے۔
دیکھتے ہی دیکھتے انتقام لینے کی باتیں ہونے لگیں۔اردگرد واقع چالیس دیہات کے ہندوؤں نے اتحاد بنایا اور کھرکھودہ پر حملے کرنے لگے۔ یہ اتحاد ''چالسیہ'' کہلایا۔والد مرحوم بتاتے تھے کہ چار سال تک چالسیہ کے ہندو کھرکھودہ پر وقتاً فوقتاً حملے کرتے رہے۔ جب بھی حملہ ہوتا تو قصبے کے مسلمان مل کر ہندوؤں کا مقابلہ کرتے اور انہیں کاری ضرب لگاتے۔ راقم کے دادا ''بنوٹ'' اور ''گتکا'' چلانا جانتے تھے۔ چناں چہ وہ اکثر لڑائیوں میں شریک رہے اور ڈنڈے کو بطور ہتھیار استعمال کرکے حملہ آوروں کو مار بھگاتے۔ اسی قسم کی لڑائیوں کے باعث ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین خلیج بڑھی اور پاکستان کا قیام ناگزیر ہوگیا۔
بھارت میں عدالتی جنگ
ہندوستان میں برہمنی طبقہ شروع سے امیر اور بااثر رہا اور اکثر برہمن مسلمانوں کو ناپسند کرتے تھے۔ چناں چہ انہوں نے ہندوؤںکو متحد کرنے کی خاطر گائے اور زبان (اردو ہندی تنازع) کا سہارا لیا، تو مسلم دانشوروں خصوصاً علما نے اس روش کو اپنے اسلامی تشخص اور کلچر پر حملہ سمجھا۔لہٰذا وہ قدامت پسند ہندوؤں کے خلاف صف آراء ہوگئے۔ عام مسلمانوں نے بھی اس جنگ میں علما کا ساتھ دیا۔گائے سے نہ صرف ان کا روزگار وابستہ تھا، بلکہ مہنگے بکرے کے گوشت کی جگہ ''بڑے'' کا گوشت سستا پڑتا تھا۔ یوں ہندوستان میں گائے دونوں بڑی قومیتوں کے درمیان اہم وجہ تنازع بن گئی۔ہندوؤں کی جماعت، کانگریس سیکولر تھی۔ تاہم اس کے ہندو لیڈر بھی متعصب نکلے۔ انہوں نے 1893ء کے فساد کا ذمے دار مقامی ہندو لیڈروں کو ٹھہرانے سے انکار کردیا۔ اس پر کانگریس میںشامل مسلمان لیڈروں کو بہت مایوسی ہوئی۔ مورخین نے لکھا ہے کہ اس واقعے کے بعد آہستہ آہستہ مسلمان لیڈر کانگریس چھوڑنے لگے۔ ہندو رہنماؤں نے انہیں واپس لانے کی ٹھوس کوششیں نہیں کیں۔ انہیں خطرہ تھا کہ اس طرح وہ عام ہندوؤں کی حمایت کھوبیٹھیں گے۔
1947ء میں مسلمانان ہند نے اپنا علیحدہ وطن، پاکستان حاصل کرلیا۔ قائداعظم اور دیگر مسلم رہنماؤں کے خدشات درست تھے۔ جلد ہی بھارت میں قدامت پسند ہندو اپنے مذہبی تصّورات و رسومات مسلمانوں پر تھوپنے کی کوشش کرنے لگے۔ حیرت کی بات نہیں کہ اس کی ابتدا ذبیح گائے پر پابندی لگانے سے ہوئی۔ اس کا آغاز 1949ء میں ہوا جب بھارتی ریاست سی پی و برار (اب مدھیہ پردیش) نے ذبیح گائے پر مکمل پابندی عائد کردی۔بھارت کی دیگر ریاستیں بھی رفتہ رفتہ سی پی و برار کے نقش قدم پر چل پڑیں۔ 1955ء میں ریاست بہار اور ریاست اترپردیش میں بھی ذبیح گائے پر مکمل پابندی عائد کردی گئی۔ ان پابندیوں کی وجہ سے تینوں ریاستوں میں مسلمان قصابوں کا کاروبار ٹھپ ہوگیا اور وہ دانے دانے کے محتاج ہوگئے۔ آخر 1958ء میں ریاست بہار کے ایک مسلم قصائی، حنیف قریشی نے مع ساتھیوں کے ان پابندیوں کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا۔
حنیف قریشی کا استدلال یہ تھا کہ ان پابندیوں نے ان کی انفرادی و مذہبی آزادی کو پامال کیا ہے جو ازروئے بھارتی آئین انہیں حاصل ہے۔ پانچ رکنی بینچ نے یہ مقدمہ سنا جس میں تمام جج ہندو تھے۔ انہوں نے قرار دیا کہ جو مویشی (گائے، بیل، بھینس وغیرہ) بوڑھے ہوجائیں، انہیں ذبح کرلینا جائز ہے۔ تاہم جوان مویشی ذبح نہ کیے جائیں۔ یوں ایک طرح سے مسلمانوں کو بوڑھی گائیں ذبح کرنے کی اجازت مل گئی۔ یہ فیصلہ کئی مسلم رہنماؤں کو مخالفانہ لگا، تاہم مجموعی طور پر شکست سے بہتر سمجھا گیا۔
اکیسویں صدی میں قدامت پسند ہندو لیڈر، نریندر مودی ریاست گجرات کا وزیراعلیٰ بن گیا۔ اس کے ایما پر ریاست بھر میں مسلمانوں اور دلتوں کو ذبیح گائے سے زبردستی روکا جانے لگا۔ اس پر مسلم قصائی پھر سپریم کورٹ پہنچ گئے۔ اس بار سات رکنی بڑا بنچ تشکیل دیا گیا۔ اس میں سبھی جج ہندو تھے۔ اس بار انہوں نے ذبیح گائے پر مکمل پابندی عائد کردی۔یوں اکثریتی ہندوؤں نے اقلیتی مسلمانوں پر اپنا فیصلہ تھونپ دیا۔ یہ ایک طرح کا ظلم و جبر ہی ہے۔ گویا ہندوؤں نے مسلمانوں کو مجبور کردیا کہ وہ ذبیح گائے نہ کریں، حالانکہ عید قربان پر یہ آخرالذکر کی مذہبی رسم بھی ہے۔ اس فیصلے نے انفرادی و مذہبی، دونوں قسم کی آزادیوں کو نقصان پہنچایا اور ثابت کردیا کہ بھارت صرف ہندوؤں کا ہے۔ حتیٰ کہ قانون و انصاف کے رکھوالے بھی متعصب نکلے اور انہوں نے اپنے مذہبی رسوم و رواج کو ترجیح دی۔
اس وقت تک پورے بھارت میں قدامت پسند ہندوؤںکی جماعت بی جے پی کا زور کم ہوگیا تھا اور کانگریس اقتدار میں آگئی تھی۔ کانگریس سیکولر ازم کا پرچار کرتی ہے، اسی لیے اس کے دور میں مسلمان بدستور ذبیح گائے کرتے رہے۔ تاہم 2014ء میں نریندر مودی نے وفاقی حکومت سنبھالی تو صورتحال بدل گئی۔اب قدامت پسند ہندو کوشش کرنے لگے کہ بھارت کو ہندو ریاست بنا دیا جائے۔ چناں چہ مسلمانوں کو زبردستی ہندو بنایا گیا۔ مسلمانوں پر ملازمتوں کے دروازے بند ہوگئے۔ اب وہ ہندو محلوں میں گھر نہیں لے سکتے۔ مزید براں جگہ جگہ گائے کی حفاظت کرنے والے ''گؤ رکشا گروپ'' سامنے آنے لگے۔ ان کی واحد ذمے داری مسلمانوں اور دیگر لوگوںکو ذبیح گائے سے روکنا ہے۔ یہ گروپ رفتہ رفتہ متشدد اور جرائم پیشہ گروہوں میں تبدیل ہوگئے۔ ان گروہوں کے ذریعے اب نہ صرف سیاسی مفاد پورے ہوتے ہیں بلکہ ذاتی طور پر پیسا بھی کمایا جاتا ہے۔
بھارت میں گؤ رکشا گروپ کے غنڈے و مذہبی جنونی گائے کا گوشت لے جانے یا کھانے والوںکو مارنے پیٹے لگے۔ حتیٰ کہ پچھلے سال محض اس افواہ پر ہندوؤں نے ایک بوڑھے مسلمان محمد اخلاق کو مار مار کر شہید کرڈالا کہ اس کے گھر گائے کا گوشت رکھا اس واقعے کے بعد تو گؤ رکشا گروہوں کو مارنے پیٹنے کی کھلی چھٹی مل گئی۔ دراصل نریندر مودی دنیا والوں کے سامنے تو ان گروہوں کی مذمت کرتے اور انہیں ''غنڈے'' قرار دیتے ہیں، مگر اندرون خانہ انہیں ہدایت کرتے ہیں کہ ذبیح گائے میں ملوث لوگوں کو خوب مارا پیٹا جائے تاکہ دوسرے خوفزدہ ہوجائیں۔ اس روش سے نریندر مودی مسلمانان بھارت کو یہ سبق پڑھانا چاہتے ہیں کہ یہ ملک صرف ہندوؤںکا ہے اور یہاں رہنے والوں کو ہندومت کی رسوم و رواج پرعمل کرنا پڑے گا۔یاد رہے، 24 بھارتی ریاستوں میں ذبیح گائے پر پابندی عائد ہو چکی۔
دلتوں کی مارپیٹ
دلت یا اچھوت بھارت کا سب سے پسماندہ اور بے بس طبقہ ہے۔ دلتوں کی تعداد تقریباً بیس کروڑ ہے۔ ان میں سے کئی ہندو ہیں مگر نام کے... کیونکہ انہیں مندروں میں جانے کی اجازت نہیں۔ طبقہ بالا کے ہندو دلت عورتوں کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں۔ بھارتی حکومت کے اپنے ''نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو'' کی حالیہ رپورٹ کے مطابق بھارت میں روزنہ چار دلت عورتوں کی بے حرمتی کی جاتی ہے۔دو سال قبل نریندر مودی نے اپنی انتخابی مہم میں دلتوں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ان کے سماجی مقام ومرتبے میں اضافہ کریں گے۔ اسی لیے دلتوں کی بڑی تعداد نے انہیں ووٹ دیئے۔ مگر مودی کے وعدے سراب ثابت ہوئے۔ آج بھی بھارتی دلت ذلت آمیز زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کی زیادہ تر تعداد اترپردیش، مغربی بنگال، بہار، پنجاب، راجستھان، ہریانہ وغیرہ میں آباد ہے۔
بھارتی معاشرے میں کوڑا کرکٹ اٹھانے کے ذمے دار یہی دلت ہیں۔ وہی گائے سمیت مردہ مویشیوں کی لاشیں ٹھکانے لگاتے ہیں۔ تاہم تلف کرنے سے قبل وہ ان کی کھال اتار لیتے ہیں۔ مزید براں بہت سے غیر ہندو دلت گائے کا گوشت بھی کھاتے ہیں۔ اسی لیے گؤ رکشا گروہ دلتوں کو بھی نشانہ بنانے لگے۔ پچھلے دنوں دلتوں کی مارپیٹ کے واقعات بھارتی میڈیا میں بہت نمایاں رہے۔جب محمد اخلاق شہید ہوئے، تو ایک بی جے پی رہنما کا بیان آیا تھا کہ گلی کے کتے بھی مرجاتے ہیں۔ بھارتی حکومت نے مسلمانوں کی دلجوئی کے لیے بیان دینا بھی مناسب نہ سمجھا۔ مگر جب گؤ رکشا گروہوں نے دلتوں کومارا پیٹا، تو نریندر مودی ہوش میں آگئے۔ انہوں نے قرار دیا کہ ان گروہوں میں جرائم پیشہ لوگ شامل ہوچکے جو انہیں بدنام کررہے ہیں۔
نریندر مودی دلتوں کی حمایت میں اسی لیے بولے کہ وہ بیس کروڑ پر مشتمل اس بڑے گروہ کو ''ہندو آبادی'' میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم خاص طور پر اترپردیش میں دلتوں کی بڑی تعداد بی جے پی سے برگشتہ ہوچکی۔ وہاں یہ امکان جنم لے چکا کہ آمدہ ریاستی انتخابات میں دلت رہنما، مایا وتی مسلمانوں سے اتحاد کرکے بی جے پی کو شکست دے سکتی ہے۔
اب مودی حکومت گؤ رکشا گروہوں کی ناک میں نکیل ڈالنے کی کوششیں کررہی ہے، مگر اسے زیادہ کامیابی نہیں ہوئی۔ یہ گروہ اب مقامی طور پر بہت طاقتور بن چکے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق یہ گروہ گوشت کے تاجروں، ٹرانسپورٹروں اور قصائیوں سے بھتا لیتے ہیں جس کی مالیت ماہانہ کروڑوں روپے میں ہے۔ جب مذہب کو ذاتی مفاد اورخواہشات کا وسیلہ بنالیا جائے، تو پھر وہ امن و محبت کا منبع نہیں کاروبار بن جاتا ہے۔ بھارت میں قدامت پسند ہندو اسی منافع بخش کاروبار میں ملوث ہوچکے ہیں۔