بھٹوز سے نئی قیادت تک

مقصد بھی ان دشمنوں کا یہی ہے کہ زندگی اتنی تنگ کردی جائے کہ نیچے سے لے کر اوپر تک اندھیرا ہی اندھیرا پھیل جائیں


فرح ناز September 09, 2016
[email protected]

جب بے نظیربھٹو نے پیپلز پارٹی کی کمان سنبھالی تو ان کے اردگرد تقریباً وہی لوگ تھے جو ذوالفقار بھٹوکے وفادار ہونے کا دعویٰ کرتے تھے۔ اس کے باوجود بھٹو کو دار پر چڑھا دیا گیا۔ بے نظیر بھٹو کیونکہ بچپن سے ہی سیاست دیکھ اور سمجھ رہی تھیں اس لیے انھوں نے ضروری سمجھا کہ ان کے پاس ایسے لوگ بھی ہونے چاہئیں جو ان کی بات کو سمجھ سکیں ان میں اور محترمہ میں فاصلے کم ہوں۔

اسی لیے انھوں نے بہت سے لوگوں کو جو ان کے ہم عمر تھے اپنے ساتھ سیاست میں شامل کیا۔ گوکہ جو ان کے اردگرد لوگ تھے وہ تجربہ کار تھے اور پرانے سیاستدان تھے، دراصل یہ فیصلہ دانشمندانہ تھا، کیونکہ سیاست میں دھوکے دہی کا چلن عام ہے۔ ذوالفقارعلی بھٹو پر جن لوگوں پہ تکیہ کیے ہوئے تھے، ان ہی لوگوں نے ان کے ساتھ بے وفائی کی ۔ بہت سے اور ایسے راز تاریخ عیاں کرے گی جو ہمیں معلوم بھی نہیں ہوں گے اور ان رازوں کے افشا ہونے پہ پتا نہیں ہم شرمندہ ہوں گے یا ان ہی روایات کو آگے بڑھائیں گے، پاکستان پچھلے سالوں کی طرح آج بھی نازک دور سے گزر رہا ہے ۔ کل بھی مائیں پریشان اور خوفزدہ ہوتی تھیں آج بھی مائیں پریشان ہوتی ہیں۔

بدقسمتی یہ ہے کہ ہم نے ماضی سے کچھ سیکھا نہیں، کئی اسباق ایسے ہیں جو ہماری قوم کا چال چلن بدل سکتے تھے، مگر ہم وہی کرتے رہے جو کیا کرتے ہیں، تاریخ رونگھٹے کھڑے کردیتی ہے، رلا دیتی ہے مگر وہ نہ جانے کیسے پتھر دل ہیں جن کے دل نرم نہیں ہوتے۔ جدوجہد پاکستان آزادی، ہزاروں شہیدوں کے دم سے سرخ ہے۔ پھر بھی پرچم ہرا اور سفید ہے کیونکہ محبت امن ہی ہماری پہچان تھی۔ہم نے انگریزوں اور ہندوؤں کی سازشوں کا مقابلہ بڑی اعلیٰ ذہانت اور بہادری سے متحد ہوکرکیا، علم وشعور کے ساتھ کیا، اور آخر ایک آزاد ملک حاصل کرکے دم لیا۔ قائد اعظم نے گیارہ اگست کی تقریر میں واضح الفاظ میں کہا تھا کہ پاکستان میں تمام مذاہب اپنی اپنی عبادتوں کے لیے آزاد ہیں۔

مگر شاید آزاد ہوتے ہی سازشیں اور دشمن پاکستان کے ساتھ ساتھ رہے، مشرقی پاکستان بن گیا، بھارت نے جنگیں بھی مسلط کیں، کشمیر کی آزادی آج تک مسئلہ ہے اور بے شمار دشمن کی سازشیں گاہے بگاہے چلتی رہیں، لیاقت علی کا قتل کا معمہ آج تک حل نہیں ہوسکا، اور کئی ایسے قتل جو آج تک معمہ بنے ہوئے ہیں۔ ذوالفقار بھٹو ایک ذہین پڑھے لکھے سیاستدان تھے، مگر ان کے اردگرد جو سیاستدان تھے وہ شاید اس پائے کہ نہیں تھے، بھروسہ کسی نہ کسی پہ توکرنا پڑتا ہے، سو بھٹو نے بھی کیا اور تاریخ کا حصہ بن گئے۔ بے نظیر بھٹو، ذوالفقار علی بھٹو کی ایک ذہین صاحبزادی تھی، جو خوبصورتی کے ساتھ ساتھ ذہانت بھی رکھتی تھی، بچپن سے لے کر آخری ایام تک وہ اس سیاست کو سمجھ سکیں یا نہیں، یا وہ بھی اپنے ارد گرد کے لوگوں کی وجہ سے جان گنوا بیٹھی۔

عملی سیاست کے آغاز کے ساتھ ہی بے نظیر بھٹو نے اپنے ہم عمر پڑھے لکھے لوگوں کو اپنے ساتھ رکھا، کئی ذوالفقارعلی بھٹو کے ساتھیوں کو پیچھے دھکیلا اور اپنے سفر کا آغاز کیا، آج موجودہ پیپلز پارٹی میں وہی لوگ نظر آتے ہیں جو بے نظیر کے ساتھ ساتھ تھے۔ انھوں نے اپنے لیے ایک ٹیم بنائی، ناہید خان ان کی سیکریٹری رہیں آخری لمحے تک۔مخدوم امین فہیم وزیر اعظم بننے کی خواہش رکھتے تھے ساتھ رہے خاندان اور ماں کی خواہش پر آصف زرداری کی شریک حیات بنیں گوکہ فرق بہت واضح تھا۔

کئی سوال اٹھے کئی لوگ اس رشتے پہ حیران ہوئے مگر تقدیر کا مالک تو اللہ ہے ۔ آصف علی زرداری کی نیکی کام آگئی اور وہ ایک خاندانی اور ذہانت سے بھرپورخاتون کے شوہر بن گئے۔ سیاسی جدوجہد کے ساتھ ساتھ بے نظیر بھٹو نے گھریلو امور بھی نمٹائے دو بیٹیوں اور ایک بیٹے کی ماں بنیں۔

اس بے وفا سیاست نے بھٹو خاندان کے ساتھ وفا نہیں کی، گوکہ سندھ کے لوگ ''کل بھی بھٹو زندہ تھا آج بھی بھٹو زندہ ہے''کا نعرہ کل بھی سلوگن تھا ۔ آج بھی سلوگن ہے، بے نظیر کے صاحبزادے بلاول بھٹو آج بھی اپنی والدہ کی طرح یہ نعرہ لگاتے بھی ہیں اور لگواتے بھی ہیں۔ وہ بھی شہید کی بیٹی تھیں یہ بھی شہیدکا بیٹا ہے۔

بھٹو خاندان کی سیاست میں قربانیاں دل میں غم پیدا کرتی ہیں، ایک پورا خاندان اس سیاست کی نذر ہوگیا۔ ماضی سے حال اور حال سے مستقبل کی طرف آج بھی یہ خاندان سفرکر رہا ہے، مگر آج بھٹوز نہیں آصف علی زرداری اس پارٹی کے فیصلے کرتے ہیں، بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ایک سیاسی خلا پیدا ہوگیا، کیونکہ بے نظیر ایک بین الاقوامی طرز فکر رکھنے والی خاتون سیاستدان تھیں، دو مرتبہ وزیر اعظم کے عہدے پر رہنے والی بے انتہا لائق اور ذہین خاتون وہ بھی اپنے اردگرد موجود لوگوں کو نہ سمجھ سکیں، گوکہ ان کے رفقا اور ساتھی ان کو اشارے دیتے تھے، خبروں پر بڑی گہری نظر ہوتے ہوئے وہ اپنے ہی موجود لوگوں کی سازش کا شکار ہوگئیں کہ ہم نے کبھی اپنے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا۔ ہم انسان ہوتے ہوئے بھی جانوروں جیسی خصلت کا شکار ہو رہے ہیں خون پینے اور کچا گوشت کھانے والے بن رہے ہیں، کیا مرد اور کیا عورت کیا بچہ اور کیا بزرگ۔ ایسی نفرتیں ایسی سازشیں جیسے سرحد پر کھڑے ہیں اور سرحد کے پار دشمن کے لیے جال پھیلا رہے ہیں۔

گمراہ کن پیغامات، گمراہ کن تصاویر اس طریقے سے پیش کیے جا رہے ہیں کہ ہر کوئی کہتا ہے کہ پاکستان سے زندہ بھاگ! برین ڈرین تیزی سے جاری ہے۔ مقصد بھی ان دشمنوں کا یہی ہے کہ زندگی اتنی تنگ کردی جائے کہ نیچے سے لے کر اوپر تک اندھیرا ہی اندھیرا پھیل جائیں۔ اور یہ وہی لوگ کھڑے ہیں جنھوں نے ہر دور میں چاپلوسی اور اپنے مفادات کو اہم سمجھا، تمام حکومتوں کے ساتھ رہے، ان کے نظریے سیاسی شخصیات کے ساتھ ساتھ بدلتے رہے، مگر دولت کا حصول اور لوٹ مار کا ان کا نظریہ ان کا دین و ایمان رہا، یہ شکلیں اور لہجہ بدل بدل کر عوام کو دھوکا دیتے رہے، جو بھی بڑی سیاسی شخصیات رہیں یہ لوگ ان کے اردگرد پائے گئے۔ بے نظیر نے کئی نئے لوگوں کو سیاسی طور پر ابھارا جو ان کے وفادار بھی رہے۔

اورکئی پرانے رفقا کو پیچھے کیا، یہی آج کی پکار بھی ہے، وہی پرانی شکلیں جن کا ایجنڈا صرف پاکستان کو نقصان پہنچانا رہا ہے وہی میر و جعفر لوگ جو معصوم انداز سے تمام بنیادوں کو کھوکھلا کرنا چاہتے ہیں ۔اللہ کرے کہ یہ خود ایسے گڑھے کھودیں کہ یہ خود بخود ان میں دفن ہوجائیں۔ نوجوان پڑھی لکھی قیادت جو ایمان کی روشنی سے منور ہو جو رسول پاکؐ کے اصول زندگی کو لے کر چلیں، جو حضرت عمرؓ کے دور کو زندہ کرے، جو انصاف کے تقاضوں کو سمجھیں، وہ سمجھیں کہ آزاد وطن دولت و شان سے کہیں اونچا ہے جو چوری اور غداری سے حاصل ہو، غلامی غلامی ہی ہوتی ہے اور آزادی آزادی ہی ہوتی ہے، ہم ماضی سے سیکھیں اداروں میں مانیٹرنگ کا نظام ہو بھرپور پڑھی لکھی نوجوان قیادت جو وطن عزیز کو چمکا دیں اس روشن ستارے کی طرح جو ہمارے جھنڈے پر ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔