صدر کے 2عہدے کیس فیصلوں پر عمل نہ کرنا آئین کی بنیادیں ہلانے کے مترادف ہے لاہور ہائیکورٹ
اگر صدر کسی کو جوابدہ نہیں تو پھر بھی وہ عدالتی حکم ماننے کے پابند ہیں،آئین پرعمل کرینگے تو ہی ملک میں امن ہو گا
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں لارجر بنچ نے صدر کے دو عہدوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران قرار دیا ہے کہ اگر صدر کسی کو جوابدہ نہیں تو پھر بھی وہ عدالتی حکم ماننے کے پابند ہیں۔
آئین پرعمل کریں گے تو ہی ملک میں ترقی اورامن ہو گا، آئین کے آرٹیکل 2 اور 5 کے تحت عدالتی فیصلوں پر عمل نہ کرنا ملک کے آئین کی بنیادیں ہلانے کے مترادف ہے۔ لارجر بنچ نے صدر زراری کے دو عہدوں کے کیس کی سماعت 10دسمبر تک ملتوی کرتے ہوئے درخواست گزار کو ہدایت کی کہ وہ آئندہ سماعت پر صدراتی استثنیٰ کے متعلق تمام شقوں پر اپنے دلائل پیش کریں ۔گزشتہ روز چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس ناصر سعید شیخ ،جسٹس نجم الحسن،جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس سید منصور علی شاہ پر مشتمل لارجر بنچ نے کیس کی سماعت کی۔
عدالت کے روبرو ایڈیشنل اٹارنی جنرل عبد الحئی گیلانی نے موقف اختیار کیا کہ صدر مملکت کو آئین کے آرٹیکل 248 کے تحت استثنیٰ حاصل ہے لہٰذا صدر کیخلاف کسی قسم کی کارروائی نہیں ہو سکتی۔ درخواست گزار کے وکیل اے کے ڈوگر نے موقف اختیارکیاکہ آئین کے آرٹیکل 204 اور اس کی ذیلی شق 2 کے تحت ہائیکورٹس اور سپریم کورٹ کو بلا امتیاز توہین عدالت کی سزا دینے کا اختیار حاصل ہے جبکہ آئین میں ریاست کا مذہب اسلام ہے جس میں کسی اعلیٰ اور ادنیٰ کو استثنیٰ حاصل نہیں لہٰذاملک میں کسی بھی سرکاری عہدیدار سمیت ہر شخص کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی ہوسکتی ہے۔
یہ استدلال ناقابل فہم ہے کہ صدر پانچ سال کے لئے منتخب ہوجانے کے بعد جو چاہے کرے چاہے وہ قتل بھی کرے اسے استثنیٰ حاصل ہو ۔ اے کے ڈوگر نے توہین عدالت کے تر میمی قانون2012 ء کے حوالے سے کہا کہ اس میں صدر اور گورنر کواستثنیٰ دیا گیا ہے اور وہ جو چاہیں کریں اس کا مطلب یہ ہوا کہ صدر اور گورنر کو ہاتھ نہ لگایا جائے یہ قانون بد نیتی پر مبنی ہے اس سے توآزاد عدلیہ کا تصور ختم ہو جائے گا آزاد عدلیہ کا مطلب یہ ہے کہ وہ کسی بھی غیر قانونی و غیر آئینی کام کو روکے اور آئین کی عملداری کو یقینی بنائیں ۔سپریم کورٹ نے تو واضح کر دیا ہے کہ کسی بھی شخص کو توہین عدالت میں سزا دی جا سکتی ہے ۔
اس موقع پر جسٹس سید منصور علی شاہ نے استفسار کیاکہ کیا دوسرے ممالک کے آئین کے تحت صدر کے خلاف اس نوعیت کی کارروائی کی کوئی مثال موجود ہے جس پر اے کے ڈوگر نے کہا کہ میں صرف یہاں پاکستان کے آئین کی بات کر رہا ہوں۔ اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے کہا کہ دنیا بھر میں کوئی ایسا ملک نہیں جہاں صدر کو اندھا استثنیٰ حاصل ہو آئین کے آرٹیکل 6 اور 204 کے تحت آئین سزا دینے کا اختیار دیتا ہے۔ دوران سماعت عدالت نے سوال کیا کہ کیا صد ر کے خلاف کارروائی اب بھی ہو سکتی ہے؟ جس پر اے کے ڈوگر کا کہنا تھا کہ کسی بھی سرکاری عہدیدارکیخلاف کارروائی ہوسکتی ہے۔
عدالت نے پوچھا کہ اگر صدر قتل کردے تو کیا اس کے خلاف کریمینل کیس بنے گا؟ اے ڈوگر کا کہنا تھا کہ کوئی قاتل صدر نہیں رہ سکتا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے اے کے ڈوگر سے استفسار کیا کہ فرائض کی انجام دہی کے دوران جرم سرزرد ہوجائے تو اسکی کیا صورت بنتی ہے؟ جس پر اے کے ڈوگر نے کہا کہ جرم کا تعین ذاتی یا سرکاری نہیں ہوتا جرم تو جرم ہوتا ہے اورجو جرم آئین کو مسخ کرتا ہو وہ چاہے کوئی بھی کرے وہ شخص سزا کا حق دار ہوجاتا ہے ، جرم ذاتی حیثیت میں ہوتا ہے ۔چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے قرار دیا کہ آئین کے آرٹیکل 2 اور 5 کے تحت عدالتی فیصلوں پر عمل نہ کرنا ملک کے آئین کی بنیادیں ہلانے کے مترادف ہے۔
اے کے ڈوگر نے اپنے دلائل میں کہا کہ توہین عدالت ایکٹ 2012 کے متعلق سپریم کورٹ واضح طور پر یہ قرار دے چکی ہے کہ توہین عدالت کے قانون میں کسی کو استثناء نہیں اور آرٹیکل 2-A اور 5 کے تحت عدلیہ کی آزاد ی کو ختم نہیں کیا جاسکتا، عدلیہ جو بھی فیصلہ دے گی اس پر عملدرآمد کرنا ہے اور آرٹیکل 204 میںکسی بھی شخص کو سزاء دینے کا لفظ استعمال ہوا ہے اور اس میں صدر پاکستان بھی آتے ہیں۔ اے کے ڈوگرکا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 227 کے تحت کوئی بھی قانون قرآن اور سنت کے خلاف نہیں بن سکتا اس لئے اگر صدر کو استثناء حاصل نہیں ہے، اگر یہ مان لیا جائے کہ ایسا کوئی استثناء ہے تو یہ آئین کے آرٹیکل 227 کی خلاف ورزی ہے۔
عدالت نے کیس کی مزید سماعت ملتوی کرتے ہوئے چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے قرار دیا کہ توہین عدالت کے قانون میں کسی کو استثناء نہیں ہے ،عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد کرنا ہے اور جو عدالتی فیصلے پر عملدرآمد نہیں کرتا وہ آئین کے آرٹیکل 2-A, 5، بنیادی حقوق، 189 اور 201 کو توڑتا ہے اور یوں ایسا اقدام آئین کو ہلا دینے کے مترادف ہے۔ لارجربنچ نے صدر زراری کے دو عہدوں کے کیس کی سماعت دس دسمبر (پیر)تک ملتوی کرتے ہوئے درخواست گزار کو ہدایت کی کہ وہ آئندہ سماعت پر صدراتی استثنیٰ کے متعلق تمام شقوں پر اپنے دلائل پیش کریں کہ آیا مدت صدارت کے دوران یا بعدصدر کے خلاف کسی قسم کی کارروائی ہو سکتی ہے۔
دریں اثناء لاہورہائیکورٹ نے قصور سے رکن قومی اسمبلی مظہر حیات کو نااہل قراردینے کے دائر درخواست کی سماعت کے دوران قراردیا ہے کہ اس حوالے سے سپریم کورٹ کی جانب سے اصول متعین ہوچکے ہیں کہ پارلیمنٹ میں صاف اور ایماندار لوگ آنے چاہئیں۔ بعدازاں فاضل جج نے رکن اسمبلی کے وکیل کو بحث کرنے کا آخری موقعہ فراہم کرتے ہوئے سماعت 21دسمبر تک ملتوی کردی۔
آئین پرعمل کریں گے تو ہی ملک میں ترقی اورامن ہو گا، آئین کے آرٹیکل 2 اور 5 کے تحت عدالتی فیصلوں پر عمل نہ کرنا ملک کے آئین کی بنیادیں ہلانے کے مترادف ہے۔ لارجر بنچ نے صدر زراری کے دو عہدوں کے کیس کی سماعت 10دسمبر تک ملتوی کرتے ہوئے درخواست گزار کو ہدایت کی کہ وہ آئندہ سماعت پر صدراتی استثنیٰ کے متعلق تمام شقوں پر اپنے دلائل پیش کریں ۔گزشتہ روز چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس ناصر سعید شیخ ،جسٹس نجم الحسن،جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس سید منصور علی شاہ پر مشتمل لارجر بنچ نے کیس کی سماعت کی۔
عدالت کے روبرو ایڈیشنل اٹارنی جنرل عبد الحئی گیلانی نے موقف اختیار کیا کہ صدر مملکت کو آئین کے آرٹیکل 248 کے تحت استثنیٰ حاصل ہے لہٰذا صدر کیخلاف کسی قسم کی کارروائی نہیں ہو سکتی۔ درخواست گزار کے وکیل اے کے ڈوگر نے موقف اختیارکیاکہ آئین کے آرٹیکل 204 اور اس کی ذیلی شق 2 کے تحت ہائیکورٹس اور سپریم کورٹ کو بلا امتیاز توہین عدالت کی سزا دینے کا اختیار حاصل ہے جبکہ آئین میں ریاست کا مذہب اسلام ہے جس میں کسی اعلیٰ اور ادنیٰ کو استثنیٰ حاصل نہیں لہٰذاملک میں کسی بھی سرکاری عہدیدار سمیت ہر شخص کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی ہوسکتی ہے۔
یہ استدلال ناقابل فہم ہے کہ صدر پانچ سال کے لئے منتخب ہوجانے کے بعد جو چاہے کرے چاہے وہ قتل بھی کرے اسے استثنیٰ حاصل ہو ۔ اے کے ڈوگر نے توہین عدالت کے تر میمی قانون2012 ء کے حوالے سے کہا کہ اس میں صدر اور گورنر کواستثنیٰ دیا گیا ہے اور وہ جو چاہیں کریں اس کا مطلب یہ ہوا کہ صدر اور گورنر کو ہاتھ نہ لگایا جائے یہ قانون بد نیتی پر مبنی ہے اس سے توآزاد عدلیہ کا تصور ختم ہو جائے گا آزاد عدلیہ کا مطلب یہ ہے کہ وہ کسی بھی غیر قانونی و غیر آئینی کام کو روکے اور آئین کی عملداری کو یقینی بنائیں ۔سپریم کورٹ نے تو واضح کر دیا ہے کہ کسی بھی شخص کو توہین عدالت میں سزا دی جا سکتی ہے ۔
اس موقع پر جسٹس سید منصور علی شاہ نے استفسار کیاکہ کیا دوسرے ممالک کے آئین کے تحت صدر کے خلاف اس نوعیت کی کارروائی کی کوئی مثال موجود ہے جس پر اے کے ڈوگر نے کہا کہ میں صرف یہاں پاکستان کے آئین کی بات کر رہا ہوں۔ اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے کہا کہ دنیا بھر میں کوئی ایسا ملک نہیں جہاں صدر کو اندھا استثنیٰ حاصل ہو آئین کے آرٹیکل 6 اور 204 کے تحت آئین سزا دینے کا اختیار دیتا ہے۔ دوران سماعت عدالت نے سوال کیا کہ کیا صد ر کے خلاف کارروائی اب بھی ہو سکتی ہے؟ جس پر اے کے ڈوگر کا کہنا تھا کہ کسی بھی سرکاری عہدیدارکیخلاف کارروائی ہوسکتی ہے۔
عدالت نے پوچھا کہ اگر صدر قتل کردے تو کیا اس کے خلاف کریمینل کیس بنے گا؟ اے ڈوگر کا کہنا تھا کہ کوئی قاتل صدر نہیں رہ سکتا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے اے کے ڈوگر سے استفسار کیا کہ فرائض کی انجام دہی کے دوران جرم سرزرد ہوجائے تو اسکی کیا صورت بنتی ہے؟ جس پر اے کے ڈوگر نے کہا کہ جرم کا تعین ذاتی یا سرکاری نہیں ہوتا جرم تو جرم ہوتا ہے اورجو جرم آئین کو مسخ کرتا ہو وہ چاہے کوئی بھی کرے وہ شخص سزا کا حق دار ہوجاتا ہے ، جرم ذاتی حیثیت میں ہوتا ہے ۔چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے قرار دیا کہ آئین کے آرٹیکل 2 اور 5 کے تحت عدالتی فیصلوں پر عمل نہ کرنا ملک کے آئین کی بنیادیں ہلانے کے مترادف ہے۔
اے کے ڈوگر نے اپنے دلائل میں کہا کہ توہین عدالت ایکٹ 2012 کے متعلق سپریم کورٹ واضح طور پر یہ قرار دے چکی ہے کہ توہین عدالت کے قانون میں کسی کو استثناء نہیں اور آرٹیکل 2-A اور 5 کے تحت عدلیہ کی آزاد ی کو ختم نہیں کیا جاسکتا، عدلیہ جو بھی فیصلہ دے گی اس پر عملدرآمد کرنا ہے اور آرٹیکل 204 میںکسی بھی شخص کو سزاء دینے کا لفظ استعمال ہوا ہے اور اس میں صدر پاکستان بھی آتے ہیں۔ اے کے ڈوگرکا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 227 کے تحت کوئی بھی قانون قرآن اور سنت کے خلاف نہیں بن سکتا اس لئے اگر صدر کو استثناء حاصل نہیں ہے، اگر یہ مان لیا جائے کہ ایسا کوئی استثناء ہے تو یہ آئین کے آرٹیکل 227 کی خلاف ورزی ہے۔
عدالت نے کیس کی مزید سماعت ملتوی کرتے ہوئے چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے قرار دیا کہ توہین عدالت کے قانون میں کسی کو استثناء نہیں ہے ،عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد کرنا ہے اور جو عدالتی فیصلے پر عملدرآمد نہیں کرتا وہ آئین کے آرٹیکل 2-A, 5، بنیادی حقوق، 189 اور 201 کو توڑتا ہے اور یوں ایسا اقدام آئین کو ہلا دینے کے مترادف ہے۔ لارجربنچ نے صدر زراری کے دو عہدوں کے کیس کی سماعت دس دسمبر (پیر)تک ملتوی کرتے ہوئے درخواست گزار کو ہدایت کی کہ وہ آئندہ سماعت پر صدراتی استثنیٰ کے متعلق تمام شقوں پر اپنے دلائل پیش کریں کہ آیا مدت صدارت کے دوران یا بعدصدر کے خلاف کسی قسم کی کارروائی ہو سکتی ہے۔
دریں اثناء لاہورہائیکورٹ نے قصور سے رکن قومی اسمبلی مظہر حیات کو نااہل قراردینے کے دائر درخواست کی سماعت کے دوران قراردیا ہے کہ اس حوالے سے سپریم کورٹ کی جانب سے اصول متعین ہوچکے ہیں کہ پارلیمنٹ میں صاف اور ایماندار لوگ آنے چاہئیں۔ بعدازاں فاضل جج نے رکن اسمبلی کے وکیل کو بحث کرنے کا آخری موقعہ فراہم کرتے ہوئے سماعت 21دسمبر تک ملتوی کردی۔