افغان مہاجرین کے قیام میں توسیع

افغان مہاجرین کا ایشو اپنی حساسیت اور پالیسی سازوں کی عجلت اور عاقبت نااندیشی کے باعث گنجلک ہو گیا


Editorial September 10, 2016
فوٹو: فائل

وفاقی کابینہ کے اجلاس میں دیامر بھاشا ڈیم کی اراضی اور چلاس میں بنجر زمین کے معاوضے کے نرخوں، افغان مہاجرین کے قیام میں 31 مارچ 2017ء تک توسیع کی منظوری دیدی گئی جب کہ سارک کانفرنس میں آنے والے غیر ملکی مہمانوں کی سیکیورٹی کے لیے35 بکتربند گاڑیوں کی تمام ٹیکسوں اور ڈیوٹیوں کے بغیر درآمد کی اجازت اور پاکستان اسٹیل مل کے ملازمین کو دو ماہ کی تنخواہ کی ادائیگی سمیت اقتصادی رابطہ کمیٹی کے 19 نکاتی ایجنڈے کی توثیق کر دی۔

وفاقی کابینہ کا اجلاس جمعہ کو یہاں وزیراعظم ہاؤس میں وزیراعظم محمد نواز شریف کی زیر صدارت ہوا جس میں اہم قومی ایشوز، حکومتی اقدامات و فیصلوں کی منظوری دی گئی، انھوں نے کہا کہ ملک کی دیرپا خوشحالی کے لیے پائیدار ترقیاتی اہداف (ایس ڈی جیز) کا حصول ناگزیر ہے، تاہم افغان مہاجرین کے جبری انخلا پر پیدا شدہ پیچیدہ صورتحال پر پہلی بار وزیراعظم کی جانب سے بیان آیا کہ افغان مہاجرین ہمارے مہمان ہیں، انھیں کسی بھی طرح ہراساں نہ کیا جائے۔

ان کے خدشات دور کرنے کے لیے سیاسی جماعتوں کی قیادت اور افغان نمایندوں کے ساتھ وسیع البنیاد مشاورت کی جائے اور ان کی واپسی کا منصوبہ اس طرح سے بنایا جائے کہ ڈیورنڈ لائن کے آرپار کوئی منفی تاثر پیدا نہ ہو۔ یہی بات اگر 1914ء میں وزیراعظم یا وفاقی کابینہ کی طرف سے مشتہر ہوتی تو برطانوی اخبار ''گارجین'' اور معاصر اخبارات میں افغان مہاجرین کی وطن واپسی کے لیے کریک ڈاؤن، گرفتاریوں اور ان کی املاک کی مبینہ بربادی اور اجتماعی خوف و ہراس کی منفی اور اضطراب انگیز اطلاعات نہ آتیں۔

افغان مہاجرین کا ایشو اپنی حساسیت اور پالیسی سازوں کی عجلت اور عاقبت نااندیشی کے باعث گنجلک ہو گیا، ورنہ کون نہیں جانتا کہ افغان ''مہمانوں'' کی مہربانی کی وجہ سے ملکی معیشت کتنا زیر بار ہوئی، اور سماجی مسائل کے سیاق و سباق میں جرائم کے کتنے اندوہ ناک واقعات غیر ملکی تارکین وطن اور افغان پناہ گزینوں کی وجہ سے رونما ہوئے اور ان کے خلاف کارروائیوں کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلا۔

بہر کیف وزیراعظم نے اب صائب ہدایت دی ہے اس لیے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک کو ان کے انخلا کا معاملہ آیندہ خوش اسلوبی سے ہینڈل کرنا چاہیے۔ بلاشبہ کابینہ کے اجلاس میں پائیدار ترقیاتی اہداف (ایس ڈی جیز) پر موثر عمل درآمد کے لیے مقامی آبادیوں کو مکمل طور پر شریک عمل کرنے کی ضرورت کا ادراک بروقت ہے جب کہ وزیراعظم نے دیامربھاشاڈیم کے متاثرین کو معاوضے کی تقسیم میں شفافیت کو یقینی بنانے کی ہدایت کرتے ہوئے یقین ظاہر کیا کہ پن بجلی کے بڑے منصوبوں کی تعمیر سے ملک کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے اور سیلابوں کی روک تھام میں بہت زیادہ مدد ملے گی۔

علاوہ ازیں نوازشریف نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ حکومت وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقوں کو آئینی، سماجی اور معاشی طور پر ملک کے باقی علاقوں کے برابر لائے گی اور فاٹا میں امتیازی قوانین ختم کیے جائینگے۔ کابینہ نے سائبر کرائم ایکٹ کے تحت درج مقدمات کی تحقیقات کی اہم ذمے داری ایف آئی اے کو سونپنے کی منظوری دیدی۔

وزیراعظم کے دورہ امریکا کے دوران اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے حوالے سے امور زیر غور آئے۔ پاک امریکا تعلقات میں سردمہری کی موجودہ لہر کے پیش نظر وزیراعظم سے قوم توقع رکھتی ہے کہ اپنے مجوزہ خطاب کے ذریعے وہ دنیا پر واضح کر دیں کہ پاکستان خود دہشتگردی کا شکار فرنٹ لائن ملک ہے جس کی قربانیوں کا اعتراف پوری دنیا کو کرنا چاہیے جب کہ بھارت کی ہرزہ سرائیوں سے وہ کسی مغالطہ میں نہ پڑے۔

یہاں یہ امر خوش آیند ہے کہ امریکی کانگریس اور اوباما انتظامیہ کے ماہرین کے حالیہ بیانات پاک امریکا تناؤ، ایٹمی اثاثوں کے تحفظ اور ناکام بھارتی سفارتی پینترے بازیوں کا توڑ ثابت ہوئے ہیں جس کی روشنی میں جراتمندی کے ساتھ سفارتکارانہ پیشرفت کی ضرورت ہے تا کہ مدلل انداز میں پاکستان لگی لپٹی کے بغیر اور ''ٹائیٹ روپ'' واکنگ کے بجائے عالمی برادری پر کشمیر میں ہونے والے یک طرفہ بھارتی مظالم کی وحشیانہ تصویر دکھانے میں بریک تھرو کر سکے۔

واضح رہے ایک ملکی تھنک ٹینک (انسٹیٹیوٹ فار پالیسی ریفارمز) نے امریکا اور بھارت میں گہرے ہوتے ہوئے تعلقات پر تشویش کا بر وقت اظہا ر کیا ہے اور اسے خطے کے لیے خطرہ قرار دیا ہے، انسٹیٹیوٹ فار پالیسی ریفارمز نے اس سلسلے میں ایک مفصل بریف جار ی کیا ہے جو پاکستان کے ایک معروف سفارتکار اور سابق سیکریٹری خارجہ نے زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے تحریر کیا ہے۔ اس تفصیلی اور فکر انگیز بریف میں خطے کے بعض حقائق پر ارباب اختیار کو بہت مفید مشورے دیئے گئے ہیں جن کے مطابق امریکا اور بھار ت کے تعلقات نے اس وقت قوت پکڑنا شروع کی جب 2006ء میں دونوں ممالک نے دو طرفہ جوہری سمجھوتے پر دستخط کیے۔

حال ہی میں امریکا اور بھارت نے ملٹری لاجسٹک کے سلسلے میں ہونے والے معاہدے میں افغانستان کو بھی شامل کر لیا ہے لہٰذا پاکستان کو امریکا اور بھارت کے ان دفاعی معاہدوں پر سخت تحفظات ہیں۔ امید کی جانی چاہیے کہ حکمراں خطے میں تہلکہ خیز تبدیلیوں اور پاکستان مخالف اتحاد میں شامل ملکوں کے عزائم سے خبردار رہیں گے، امریکا کی پاک افغان میتھاڈولوجی کی ناکامی پر امریکی دانشور کرسچین فیئر کا مقالہ چشم کشا ہے۔ پاکستان اعتماد کے ساتھ آگے بڑھے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں