سانحہ بلدیہ ٹاؤن کو چار برس بیت گئے
دنیا بھر میں ایک برس میں مختلف حادثات وسانحات میں 20 لاکھ محنت کش اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں
ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ایک برس میں مختلف حادثات وسانحات میں 20 لاکھ محنت کش اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں اس بات کو ہم اس طرح سے بھی بیان کرسکتے ہیں کہ ایک ماہ میں جاں بحق ہونے والے محنت کشوں کی تعداد ایک لاکھ چھیاسٹھ ہزار سے زائد ہے جب کہ ان بدنصیب محنت کشوں کی یومیہ تعداد بنتی ہے پانچ ہزار پانچ سوکے لگ بھگ۔
ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ سو فیصد حادثات پر قابو پانا ناممکن ہے مگر اس حقیقت سے بھی انحراف نہیں کیا جاسکتا کہ اگرکام کے دوران حفاظتی اقدامات اٹھائے جائیں اورحفاظتی قوانین پر مکمل عمل کیا جائے تو ان حادثات سے محفوظ رہا جاسکتا ہے جو حادثات محنت کشوں کی جانوں کے ضیاع کا باعث بنتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ عصر حاضر کا محنت کش ہو یا ماضی کا محنت کش ہر دور میں عدم تحفظ کا شکار رہا ہے اور عدم تحفظ کا شکار ہے اسی باعث آئے روز ایک سے ایک بھیانک حادثہ محنت کشوں کا منتظر ہوتا ہے۔
حالیہ چند برسوں پر اگر نظر ڈالی جائے تو جو قابل ذکر حادثات یا سانحات محنت کشوں کی جانوں کے ضیاع کا باعث بنے سانحہ 12 مئی 2007 جوکہ کراچی میں پیش آیا اور 55 محنت کشوں کی شہادت کا سبب بنا، سانحہ رانا پلازہ ڈھاکہ جوکہ 24 اپریل 2013 کو پیش آیا اور بارہ سو محنت کشوں کی جان لے گیا، سانحہ سندر فیکٹری رائے ونڈ روڈ لاہور ، یہ سانحہ بھی 50 سے زائد محنت کشوں کو نگل گیا۔
البتہ ایک اور سانحہ ایسا بھی ہے جس کے ذکر سے ہر آنکھ نم ہوجاتی ہے وہ سانحہ ہے سانحہ گارمنٹ فیکٹری علی انٹرپرائزز بلدیہ ٹاؤن کراچی جو پاکستان کی تاریخ میں 9/11 کی اہمیت اختیارکرچکا ہے سبب اس کا یہ ہے سانحہ گارمنٹ فیکٹری انٹرپرائزز 11 ستمبر 2012 کو پیش آیا یہ سانحہ کیسے رونما ہوا اس پر گزشتہ چار برسوں میں بہت کچھ لکھا جاچکا ہے اور مزید لکھا جا رہا ہے اور امکان یہ ہے کہ آنے والے وقتوں میں بھی مزید بہت کچھ لکھا جائے گا۔
فی الوقت ہم ذکر کریں گے ان وعدوں کا جوکہ سانحہ علی انٹرپرائززکے موقعے پر کیے گئے اور ایفا نہ ہوپائے اور اگر وہ وعدے ایفا ہوئے بھی تو نامکمل کیفیت میں اول جو اس موقعے پر جو وعدہ سامنے آیا وہ وفاقی حکومت کی جانب سے آیا وہ وعدہ تھا سانحہ علی انٹرپرائززکے ایک ایک جاں بحق ہونے والے کے لواحقین کے لیے چار چار لاکھ روپے دینے کا،اس وقت کی وفاقی حکومت نے اپنا وعدہ ایفا کیا اور تمام متاثرین کو اپنے اعلان کردہ وعدے کے مطابق چار چار لاکھ روپے معاوضہ ادا کردیا۔
سندھ حکومت کی جانب سے جو وعدے کیے گئے وہ کچھ یوں تھے ، ہر ایک متاثرہ محنت کش کے خاندان کے لیے تین لاکھ روپے، ایک رہائشی پلاٹ و خاندان کے ایک فرد کے لیے ایک سرکاری ملازمت کا مگر اس وقت کی سندھ حکومت اپنے تمام وعدے پورے نہ کرسکی اور فقط فی کس تین لاکھ روپے تو ادا کر دیے گئے مگر رہائشی پلاٹ و سرکاری ملازمت کے لیے متاثرین آج بھی دربدر ہیں، چونکہ اس وقت کے وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ اپنے عہدے سے سبکدوش ہوچکے ہیں۔
البتہ یہ بات خوش آیند ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اس وقت سندھ میں برسر اقتدار ہے اور سید مراد علی شاہ اس وقت وزیر اعلیٰ سندھ ہیں اور وہ ایک متحرک وزیراعلیٰ سمجھے جاتے ہیں۔ ہم ان سے اس یقین کے ساتھ عرض کریں گے کہ وہ اپنے پیش رو وزیراعلیٰ کا وعدہ ایفا کریں اور ہر ایک متاثرہ خاندان کے لیے ایک ایک رہائشی پلاٹ وسرکاری ملازمت کا اہتمام کریں تاکہ یہ متاثرہ خاندان کسی حد تک آسودگی سے زندگی بسر کرسکیں، وعدہ تو موجودہ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے بھی سانحہ کے بعد متاثرہ فیکٹری کے دورے کے موقعے پر کیا تھا۔
وعدہ یہ تھا کہ ہر متاثرہ خاندان کو حکومت پنجاب کی جانب تین لاکھ روپے ادا کریں گے مگر چار برس بیت گئے اور میاں محمد نواز شریف صاحب کو تین برس وتین ماہ ہوئے ہیں کہ پاکستان کے وزیراعظم کی کرسی پر براجمان ہیں مگر وہ پنجاب حکومت کی جانب سے اپنے اعلان کردہ وعدے کے مطابق متاثرین کو امدادی رقوم دینے کا وعدہ ایفا نہ کرپائے ہم اس امید کے ساتھ محترم وزیر اعظم سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ اپنا وعدہ ایفا کرتے ہوئے ضرور امدادی رقم فراہم کریں گے۔
متاثرین کی مالی امداد کا اعلان تو بعض سرمایہ داروں نے بھی فی کس 2 لاکھ روپے دینے کا کہا تھا مگر ستم یہ ہوا کہ کراچی کی نمایندگی کرنے والی سیاسی جماعت کی روایتی قوم پرستی کے باعث اعلان کردہ رقوم تمام متاثرین تک نہ پہنچ پائیں اورجاری کردہ رقوم فقط اردو بولنے والوں کو ہی مل پائی جب کہ دیگر زبانیں بولنے والے جن میں ہزارے وال، سرائیکی، سندھی، پنجابی و پشتو بولنے والے اس امدادی رقوم سے تادم تحریر محروم ہیں۔
رقوم سے محروم ان لوگوں کی تعداد ہے 94 چنانچہ کیفیت یہ ہے کہ امدادی رقوم سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد بنتی ہے 147 کیونکہ سانحہ گارمنٹ فیکٹری میں آتشزدگی کے باعث شہدا کی تعداد بھی 260 جب کہ 17 وہ شہدا تھے جن کی شناخت DNA ٹیسٹ سے بھی ممکن نہ ہوپائی تھی گویا ان کی نعشیں اس قدر مسخ ہوچکی تھیں۔
بہرکیف اب تازہ ترین کیفیت یہ ہے کہ سانحہ علی انٹرپرائزز کے سلسلے میں تین مقدمات زیر سماعت ہیں ایک مقدمہ کراچی کی عدالت میں عام عدالت سے خصوصی عدالت میں منتقل ہوا ہے گویا اب یہ مقدمہ دہشت گردی کے تحت چلایا جائے گا یہ مقدمہ ہے قتل اقدام قتل و بھتہ خوری کا چنانچہ اب امید رکھنی چاہیے کہ متاثرین کو انصاف ضرور ملے گا اور اس بات کا تعین بھی ہوسکے گا کہ فیکٹری میں ہونے والی آتشزدگی حادثہ تھی یا تخریب کاری اگر یہ آتشزدگی تخریب تھی تو تمام ذمے داران کو سزا ضرور ملے گی جب کہ دوسرا مقدمہ جوکہ متاثرین کی جانب سے اٹلی کی عدالت میں دائر کیا گیا ہے۔
یہ مقدمہ رینا کمپنی پر دائرکیا گیا ہے جس نے سانحے سے محض 10 یوم قبل حفاظتی اقدامات کو تسلی بخش قرار دے کر وہاں پر موجود تمام حفاظتی آلات کو قابل استعمال قرار دیتے ہوئے سب اچھا کی رپورٹ دی تھی جب کہ ایک مقدمہ جرمنی کی عدالت میں کے آئی کے کمپنی کے خلاف بھی متاثرین کی جانب سے دائر کیا گیا جس کے لیے فیکٹر میں مال تیار کیا جاتا تھا دونوں مقدمات میں موقف اختیار کیا گیاہے،
رینا کمپنی اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے اور کے آئی کے جرمنی کمپنی اپنی ذمے داری پوری کرتے لواحقین کو معقول معاوضہ ادا کریں گوکہ یہ عمل ایک طویل و صبر آزما ہے مگر ہم امید کرتے ہیں کہ شہدا کے لواحقین اپنے حق کے حصول تک جدوجہد جاری رکھیں گے ۔ اس عزم کے ساتھ کہ تمام قسم کے صنعتی و سماجی جبر کے خلاف جدوجہد جاری رہے گی تا وقت یہ کہ جبر کا نظام زمین بوس نہ ہوجائے و عدل و مساوات کا نظام قائم نہ ہوجائے۔