قائداعظم اور اقلیتیں
بابائے قوم کے خیالات کو مکمل نظریے کے طور پر تسلیم کیا جانا چاہیے
''آپ میں سے ہر ایک قطع نظر اس حقیقت سے کہ اس کا تعلق کس برادری سے ہے، قطع نظر اس حقیقت سے کہ ماضی میں اس کے آپ کے ساتھ کیا تعلقات تھے، قطع نظر اس حقیقت سے کہ اس کا رنگ، نسل یا عقیدہ کیا ہے، اول، دوم اور آخر اس ریاست کا شہری ہے، جس کے مساوی حقوق، استحقاق اور فرائض ہیں۔'' (قائداعظم:11 اگست 1947ء)
پاکستان کے وجود میں آنے سے تین روز قبل، قانون ساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کے دوران، قائداعظم نے نہ صرف یہ کہ ریاست کی سیاسی بنیادوں کی وضاحت کی بلکہ اقلیتوں کے بارے میں اپنی حتمی رائے کا خلاصہ بھی پیش کیا۔
اسی تقریر میں قائداعظم نے ملک کی تقسیم کو ''بھارت کے آئینی مسئلے کا واحد حل'' قرار دیا۔ اس تمام عرصے کے دوران برصغیر کی آئینی پیش رفت اور نو آبادیاتی تسلط سے آزادی کے متعلق بحث میں مرکزی حیثیت اس مسئلے ہی کی رہی کہ اقلیتوں کا کیا مقام ہے۔ مسلم راہ نماؤں نے آغاز تحفظات کے مطالبہ سے کیا۔ جب ان مطالبات پر کوئی سمجھوتا ممکن نہ ہوسکا اور مسلم لیگ نے 1937-39ء میں کانگریس کے زیرحکم رانی صوبوں میں مسلم اقلیت کے خلاف سلوک کو انتہائی بھیانک محسوس کیا تو اس نے مسلم اکثریت کے علاقوں میں سیلف رول (خودمختاری) کا مطالبہ کرنا شروع کردیا۔
یوں اقلیتوں کے حقوق ایک ایسا معاملہ تھا جو طویل سیاسی کیریئر کے دوران قائداعظم کی توجہ کا مرکز بنارہا۔ خاص طور پر 1934ء کے بعد جب انہوں نے مسلم لیگ کی قیادت مستقل طور پر سنبھال لی۔ 11 اگست 1947ء کو ان کا یہ تبصرہ کہ مذہب، خالق اور فرد کے درمیان ایک ذاتی معاملہ ہے اور حکومت کا اس سے کوئی واسطہ نہیں، ان کے بنیادی عقیدے کا حصہ تھا۔ لیکن ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ اقلیتوں کے متعلق ان کے خیالات کئی سالوں میں ایک ارتقائی عمل سے گزرنے کے بعد پروان چڑھے۔
1920ء کی دہائی میں مسلم لیگ کے اقلیتوں کے بارے میں تحفظات کے دائرہ کار میں جداگانہ انتخاب (بشرط یہ کہ کوئی فرقہ ان کا مطالبہ کرے) اور منتخب عہدوں اور خدمات میں شراکت کے علاوہ، اقلیتوں کی ''مکمل مذہبی آزادی مثلاً عقیدے، عبادت کرنے، تہواروں کو منانے، پروپیگنڈہ، تنظیم بنانے اور تعلیم کی آزادی'' کے حقوق شامل تھے۔ قائداعظم نے 1926ء میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کے موقع پر آئینی ڈھانچے کے متعلق قرارداد میں اقلیتوں کو ناموافق قانون سازی سے بچانے کے لیے جو اضافی شق متعارف کی تھی، اس میں یہ تحفظات شامل تھے۔
1928ء کے اجلاس میں متن کو مزید جامع بناکر اس کی وضاحت کی گئی۔ 1937ء میں اس وقت اس بات کی تصدیق ہوگئی کہ ان تحفظات کا تقاضا مسلمانوں کے لیے ہی نہیں بل کہ تمام اقلیتی برادریوں کے لیے کیا جارہا تھا، جب مولانا حسرت موہانی کی طرف سے پیش کردہ قرارداد کو مسلم لیگ نے ان الفاظ میں منظور کرلیا:
''انڈیا میں خود مختار جمہوری ریاستوں کے وفاق کی شکل میں مکمل آزادی کا نظام، جس میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے حقوق اور مفادات کو آئینی طور پر موثر اور جامع تحفظ فراہم کیا جائے گا۔''
1930ء کی دہائی میں قائداعظم نے اقلیتوں کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار ان الفاظ میں کیا کہ یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے نہ کہ مذہبی۔ مثال کے طور پر 1935ء میں آئینی اصلاحات کے بارے میں پارلیمانی کمیٹی کی رپورٹ کے متعلق بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے اتفاق کیا کہ مذہب کو سیاست میں دخل اندازی کی اجازت نہیں دینی چاہیے اور کہا، ''مذہب صرف بندے اور خدا کے درمیان ایک معاملہ ہے۔ اقلیتوں سے متعلقہ سوال ہے اور ایک سیاسی مسئلہ ہے۔ اقلیتوں کا مطلب حقائق کا مجموعہ ہے۔ ہوسکتا ہے اقلیت کا مذہب، مملکت کے دیگر شہریوں سے مختلف ہو۔ ان کی زبان بھی مختلف ہوسکتی ہے۔ ان کی نسل بھی مختلف ہوسکتی ہے۔ ان کی ثقافت بھی مختلف ہوسکتی ہے اور ان تمام عناصر، مذہب، ثقافت، نسل، زبان، فنون، موسیقی وغیرہ کا مجموعہ اقلیت کو مملکت میں ایک علیحدہ وجود کی شکل فراہم کرتا ہے اور اس علیحدہ وجود کو تحفظات کی ضرورت ہے۔''
اس کے بعد قائداعظم نے اقلیت کے مقام اور حیثیت کو اس کی تعداد اور زیرتسلط رقبے سے منسوب کرنا شروع کردیا اور 1939ء میں انہوں نے اعلان کیا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو اکثر غلط طور پر اقلیت کا نام دیا جاتا ہے... جس طرح کہ مغرب میں عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔ وہ نارتھ ویسٹ اور بنگال میں ایک اکثریت کی حیثیت رکھتے ہیں... اس ساری پٹی میں جو کراچی سے لے کر کلکتہ تک پھیلی ہوئی ہے، برصغیر کے صرف اسی حصہ میں رہنے والی آبادی برطانیہ کی آبادی سے دوگنا ہے اور رقبے میں یہ علاقہ برطانیہ سے 10 گنا بڑا ہے۔'' اقلیت کی حیثیت پر تعداد اور رقبے کا اثر مزید دوبار قائداعظم کے زیربحث آیا۔
اول: جب قرارداد لاہور منظور ہونے کے بعد انہوں نے سکھوں کو بتایا کہ بھارت کے مقابلے میں وہ نارتھ ویسٹرن مسلم زون میں بہتر رہیں گے۔ انہوں نے کہا،''مجھے یقین ہے کہ وہ (سکھ) متحدہ ہندوستان یا واحد مرکزی حکومت کے مقابلے میں نارتھ ویسٹ مسلم علاقے میں کہیں زیادہ بہتر زندگی بسر کریں گے، کیوںکہ واحد مرکزی حکومت کے ماتحت ان کی آواز نہ سنائی دینے کے برابر ہوگی۔ پنجاب، کسی بھی صورت میں ایک آزاد اور خود مختار یونٹ ہوگا اور بہرحال انہیں پنجاب ہی میں رہنا ہے۔ متحدہ ہندوستان میں ان کی حیثیت محض صفر کے برابر ہوگی جب کہ مسلم مملکتوں میں جو خود مختار ریاست بھی شامل ہوگی اس میں سکھوں کا مقام عزت و آبرو کا حامل ہوگا اور وہ کاروبار مملکت میں مؤثر کردار ادا کریں گے۔''
دوسرا موقع 1942ء میں اس وقت آیا جب قائداعظم نے انڈین مسلمانوں کو دو زمروں میں تقسیم کیا وہ زیربحث رقبے اور ان علاقوں میں جہاں وہ اکثریت میں تھے ''قومی گروپ'' کی حیثیت رکھتے تھے جب کہ دیگر علاقوں میں (مثال کے طور پر یوپی، جہاں وہ آبادی کا 14 فی صد تھے اور بکھرے ہوئے تھے) ان کی حیثیت ''ذیلی قومی گروپ'' کی تھی جو اس چیز سے زیادہ کا تقاضا نہیں کرسکتے جو کسی مذہبی حکومت کی طرف سے اقلیت کا جائز حصہ ہے۔
جب پاکستان نے حقیقت کا روپ دھارا تو قائداعظم نے اقلیتوں کے متعلق اپنے خیالات کو مزید واضح کیا۔ انہوں نے ایسا اس ریاست کے حوالے سے کیا جس کے بارے میں انہوں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ وہ ایک ''عوامی جمہوریت'' ہوگی اور جہاں آئین، عوام کی مرضی کے مطابق تشکیل پائے گا وہ اقلیتوں کی سلامتی اور ان کے تحفظ سے بھی آگے چلے گئے۔ اقلیتوں کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار انہوں نے اپنی 11 اگست کی تقریر میں کیا۔
جب انہوں نے کہا کہ حکومت کا اولین فرض امن و امان قائم کرنا ہے،''تاکہ عوام کی زندگی، جائیداد اور ان کے مذہبی عقائد کو مکمل تحفظ حاصل ہو۔'' اس رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہ ''اس حوالے سے اقلیتوں کے مسائل کو نظرانداز کرنا ناممکن ہے، چاہے وہ ایک مملکت میں رہ رہی ہوں یا دوسری مملکت میں'' قائداعظم نے اعلان کیا کہ ''ہمارے پاس صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم کلی طور پر شہریوں کی فلاح و بہبود اور ان کے سُکھ اور آرام کو اپنی توجہ کا مرکز بنائیں... خاص طور پر عوام اور غریب لوگ۔ آج کل کے دور میں جب ایک نسل یا عقیدے کے درمیان کوئی امتیاز یا فرق نہیں۔ ہم اس بنیادی اصول کے ساتھ سفر کا آغاز کرتے ہیں کہ ہم ایک ریاست کے شہری ہیں... برابر اور مساویانہ حیثیت میں۔''
ایک ایسے سماجی و سیاسی ڈھانچے میں جس کی بنیاد قائداعظم کے نظریات پر رکھی گئی ہے، جو عقیدے کی بنیاد پر ہر قسم کے امتیاز کو رد کرتا ہے اور جس میں پاکستان کے غیرمسلم شہریوں کو بھی وہی حقوق، استحقاق اور ذمہ داریاں حاصل ہیں جو اکثریت کو، اقلیتوں کو ان تحفظات کے رحم و کرم پر بھی نہیں چھوڑا جاسکتا جو مسلم برادری ازراہ کرم انہیں عطا کرے۔ ان کے بہ حیثیت شہری مساویانہ حقوق ہیں جو کم نہیں کیے جاسکتے۔
دیگر الفاظ میں انہیں کسی عہدے یا قانون سازی میں رائے دینے سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ نہ ہی قانون، تعلیم، خدمات یا کسی دیگر شعبے میں ان کے خلاف کوئی امتیازی سلوک روا رکھا جاسکتا ہے۔ ا س چیز کو محسوس کرنا آسان ہے کہ ہر وہ شخص جو خود کو بابائے قوم کی میراث کا پاسبان کہتا رہا یا اس کا دعویٰ کرتا ہے اس نے قائداعظم کے نظریات اور نصب العین کی ذرہ بھر پرواہ نہیں کی اور اس سلسلے میں سب سے بڑی مثال وہ سلوک ہے جو پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ کیا جارہا ہے۔
اس بات پر یقین کرنے کا جواز موجود ہے کہ قائداعظم کے پاس سیاسی برادری کی بنیاد پر پاکستان کے مسلمانوں اور غیرمسلموں پر مشتمل جس واحد قوم کا تصور تھا، اس پر عمل درآمد کے عملی نظریات بھی ان کے پاس موجود تھے۔ مثال کے طور پر پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے جلد ہی بعد وہ مسلم لیگ کے دروازے غیرمسلموں کے لیے کھول دینا چاہتے تھے۔
اس منصوبے کا وقت سے پہلے ہی پتا چل جانے پر، قائداعظم کے روایت پسند ساتھیوں نے ان پر اتنا دباؤ ڈالا کہ انہوں نے اس منصوبے کو التوا میں ڈال دیا... بالکل اسی طرح جس طرح ان کے ساتھیوں نے انہیں یہ تجویز پیش کی تھی کہ وہ اپوزیشن پارٹی کے کردار کو ختم کردیں... اگر قائداعظم نے یہ انتہائی قدم اٹھالیا ہوتا تو ان کے ساتھیوں کو اپنے نصب العین کی طرف بڑھنے میں کافی آسانی ہوجاتی۔
بدقسمتی سے برصغیر میں ہونے والے مکالمے کی توجہ کا مرکز مذہبی اقلیتیں ہی بنی رہیں اور قائداعظم کو اتنا موقع ہی نہ ملا کہ وہ ایک ایسی مملکت میں ان برادریوں کی حیثیت کا جائزہ لیں جن میں ایسی تمام برادریوں کے خدوخال موجود تھے جنہیں علیحدہ سیاسی وجود کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے، ماسوائے مذہبی امتیاز کے، مثلاً تعداد، علاقہ، زبان، نسل، ثقافت، فنون اور موسیقی، ان کے جانشینوں نے مذہب کو اتحاد اور امتیاز کی واحد بنیاد تسلیم کرنے پر ہی تکیہ کیا اور اقلیتوں کے مسئلے کو ماضی کے مقابلے میں زیادہ پیچیدہ بنادیا۔ تاہم اگر ہم جمہوریت، وفاق اور اقلیتوں کے متعلق قائداعظم کے خیالات کو ایک مکمل نظریے کے طور پر تسلیم کرلیں تو قائداعظم کے نصب العین کے مطابق پاکستان کی تصویر کو تخلیق کرنا ناممکن نہیں ہوگا۔ پاکستان کا مستقبل اسی امید میں مضمر ہے کہ ایسا کرنا اب بھی ممکن ہے۔
پاکستان کے وجود میں آنے سے تین روز قبل، قانون ساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کے دوران، قائداعظم نے نہ صرف یہ کہ ریاست کی سیاسی بنیادوں کی وضاحت کی بلکہ اقلیتوں کے بارے میں اپنی حتمی رائے کا خلاصہ بھی پیش کیا۔
اسی تقریر میں قائداعظم نے ملک کی تقسیم کو ''بھارت کے آئینی مسئلے کا واحد حل'' قرار دیا۔ اس تمام عرصے کے دوران برصغیر کی آئینی پیش رفت اور نو آبادیاتی تسلط سے آزادی کے متعلق بحث میں مرکزی حیثیت اس مسئلے ہی کی رہی کہ اقلیتوں کا کیا مقام ہے۔ مسلم راہ نماؤں نے آغاز تحفظات کے مطالبہ سے کیا۔ جب ان مطالبات پر کوئی سمجھوتا ممکن نہ ہوسکا اور مسلم لیگ نے 1937-39ء میں کانگریس کے زیرحکم رانی صوبوں میں مسلم اقلیت کے خلاف سلوک کو انتہائی بھیانک محسوس کیا تو اس نے مسلم اکثریت کے علاقوں میں سیلف رول (خودمختاری) کا مطالبہ کرنا شروع کردیا۔
یوں اقلیتوں کے حقوق ایک ایسا معاملہ تھا جو طویل سیاسی کیریئر کے دوران قائداعظم کی توجہ کا مرکز بنارہا۔ خاص طور پر 1934ء کے بعد جب انہوں نے مسلم لیگ کی قیادت مستقل طور پر سنبھال لی۔ 11 اگست 1947ء کو ان کا یہ تبصرہ کہ مذہب، خالق اور فرد کے درمیان ایک ذاتی معاملہ ہے اور حکومت کا اس سے کوئی واسطہ نہیں، ان کے بنیادی عقیدے کا حصہ تھا۔ لیکن ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ اقلیتوں کے متعلق ان کے خیالات کئی سالوں میں ایک ارتقائی عمل سے گزرنے کے بعد پروان چڑھے۔
1920ء کی دہائی میں مسلم لیگ کے اقلیتوں کے بارے میں تحفظات کے دائرہ کار میں جداگانہ انتخاب (بشرط یہ کہ کوئی فرقہ ان کا مطالبہ کرے) اور منتخب عہدوں اور خدمات میں شراکت کے علاوہ، اقلیتوں کی ''مکمل مذہبی آزادی مثلاً عقیدے، عبادت کرنے، تہواروں کو منانے، پروپیگنڈہ، تنظیم بنانے اور تعلیم کی آزادی'' کے حقوق شامل تھے۔ قائداعظم نے 1926ء میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کے موقع پر آئینی ڈھانچے کے متعلق قرارداد میں اقلیتوں کو ناموافق قانون سازی سے بچانے کے لیے جو اضافی شق متعارف کی تھی، اس میں یہ تحفظات شامل تھے۔
1928ء کے اجلاس میں متن کو مزید جامع بناکر اس کی وضاحت کی گئی۔ 1937ء میں اس وقت اس بات کی تصدیق ہوگئی کہ ان تحفظات کا تقاضا مسلمانوں کے لیے ہی نہیں بل کہ تمام اقلیتی برادریوں کے لیے کیا جارہا تھا، جب مولانا حسرت موہانی کی طرف سے پیش کردہ قرارداد کو مسلم لیگ نے ان الفاظ میں منظور کرلیا:
''انڈیا میں خود مختار جمہوری ریاستوں کے وفاق کی شکل میں مکمل آزادی کا نظام، جس میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے حقوق اور مفادات کو آئینی طور پر موثر اور جامع تحفظ فراہم کیا جائے گا۔''
1930ء کی دہائی میں قائداعظم نے اقلیتوں کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار ان الفاظ میں کیا کہ یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے نہ کہ مذہبی۔ مثال کے طور پر 1935ء میں آئینی اصلاحات کے بارے میں پارلیمانی کمیٹی کی رپورٹ کے متعلق بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے اتفاق کیا کہ مذہب کو سیاست میں دخل اندازی کی اجازت نہیں دینی چاہیے اور کہا، ''مذہب صرف بندے اور خدا کے درمیان ایک معاملہ ہے۔ اقلیتوں سے متعلقہ سوال ہے اور ایک سیاسی مسئلہ ہے۔ اقلیتوں کا مطلب حقائق کا مجموعہ ہے۔ ہوسکتا ہے اقلیت کا مذہب، مملکت کے دیگر شہریوں سے مختلف ہو۔ ان کی زبان بھی مختلف ہوسکتی ہے۔ ان کی نسل بھی مختلف ہوسکتی ہے۔ ان کی ثقافت بھی مختلف ہوسکتی ہے اور ان تمام عناصر، مذہب، ثقافت، نسل، زبان، فنون، موسیقی وغیرہ کا مجموعہ اقلیت کو مملکت میں ایک علیحدہ وجود کی شکل فراہم کرتا ہے اور اس علیحدہ وجود کو تحفظات کی ضرورت ہے۔''
اس کے بعد قائداعظم نے اقلیت کے مقام اور حیثیت کو اس کی تعداد اور زیرتسلط رقبے سے منسوب کرنا شروع کردیا اور 1939ء میں انہوں نے اعلان کیا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو اکثر غلط طور پر اقلیت کا نام دیا جاتا ہے... جس طرح کہ مغرب میں عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔ وہ نارتھ ویسٹ اور بنگال میں ایک اکثریت کی حیثیت رکھتے ہیں... اس ساری پٹی میں جو کراچی سے لے کر کلکتہ تک پھیلی ہوئی ہے، برصغیر کے صرف اسی حصہ میں رہنے والی آبادی برطانیہ کی آبادی سے دوگنا ہے اور رقبے میں یہ علاقہ برطانیہ سے 10 گنا بڑا ہے۔'' اقلیت کی حیثیت پر تعداد اور رقبے کا اثر مزید دوبار قائداعظم کے زیربحث آیا۔
اول: جب قرارداد لاہور منظور ہونے کے بعد انہوں نے سکھوں کو بتایا کہ بھارت کے مقابلے میں وہ نارتھ ویسٹرن مسلم زون میں بہتر رہیں گے۔ انہوں نے کہا،''مجھے یقین ہے کہ وہ (سکھ) متحدہ ہندوستان یا واحد مرکزی حکومت کے مقابلے میں نارتھ ویسٹ مسلم علاقے میں کہیں زیادہ بہتر زندگی بسر کریں گے، کیوںکہ واحد مرکزی حکومت کے ماتحت ان کی آواز نہ سنائی دینے کے برابر ہوگی۔ پنجاب، کسی بھی صورت میں ایک آزاد اور خود مختار یونٹ ہوگا اور بہرحال انہیں پنجاب ہی میں رہنا ہے۔ متحدہ ہندوستان میں ان کی حیثیت محض صفر کے برابر ہوگی جب کہ مسلم مملکتوں میں جو خود مختار ریاست بھی شامل ہوگی اس میں سکھوں کا مقام عزت و آبرو کا حامل ہوگا اور وہ کاروبار مملکت میں مؤثر کردار ادا کریں گے۔''
دوسرا موقع 1942ء میں اس وقت آیا جب قائداعظم نے انڈین مسلمانوں کو دو زمروں میں تقسیم کیا وہ زیربحث رقبے اور ان علاقوں میں جہاں وہ اکثریت میں تھے ''قومی گروپ'' کی حیثیت رکھتے تھے جب کہ دیگر علاقوں میں (مثال کے طور پر یوپی، جہاں وہ آبادی کا 14 فی صد تھے اور بکھرے ہوئے تھے) ان کی حیثیت ''ذیلی قومی گروپ'' کی تھی جو اس چیز سے زیادہ کا تقاضا نہیں کرسکتے جو کسی مذہبی حکومت کی طرف سے اقلیت کا جائز حصہ ہے۔
جب پاکستان نے حقیقت کا روپ دھارا تو قائداعظم نے اقلیتوں کے متعلق اپنے خیالات کو مزید واضح کیا۔ انہوں نے ایسا اس ریاست کے حوالے سے کیا جس کے بارے میں انہوں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ وہ ایک ''عوامی جمہوریت'' ہوگی اور جہاں آئین، عوام کی مرضی کے مطابق تشکیل پائے گا وہ اقلیتوں کی سلامتی اور ان کے تحفظ سے بھی آگے چلے گئے۔ اقلیتوں کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار انہوں نے اپنی 11 اگست کی تقریر میں کیا۔
جب انہوں نے کہا کہ حکومت کا اولین فرض امن و امان قائم کرنا ہے،''تاکہ عوام کی زندگی، جائیداد اور ان کے مذہبی عقائد کو مکمل تحفظ حاصل ہو۔'' اس رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہ ''اس حوالے سے اقلیتوں کے مسائل کو نظرانداز کرنا ناممکن ہے، چاہے وہ ایک مملکت میں رہ رہی ہوں یا دوسری مملکت میں'' قائداعظم نے اعلان کیا کہ ''ہمارے پاس صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم کلی طور پر شہریوں کی فلاح و بہبود اور ان کے سُکھ اور آرام کو اپنی توجہ کا مرکز بنائیں... خاص طور پر عوام اور غریب لوگ۔ آج کل کے دور میں جب ایک نسل یا عقیدے کے درمیان کوئی امتیاز یا فرق نہیں۔ ہم اس بنیادی اصول کے ساتھ سفر کا آغاز کرتے ہیں کہ ہم ایک ریاست کے شہری ہیں... برابر اور مساویانہ حیثیت میں۔''
ایک ایسے سماجی و سیاسی ڈھانچے میں جس کی بنیاد قائداعظم کے نظریات پر رکھی گئی ہے، جو عقیدے کی بنیاد پر ہر قسم کے امتیاز کو رد کرتا ہے اور جس میں پاکستان کے غیرمسلم شہریوں کو بھی وہی حقوق، استحقاق اور ذمہ داریاں حاصل ہیں جو اکثریت کو، اقلیتوں کو ان تحفظات کے رحم و کرم پر بھی نہیں چھوڑا جاسکتا جو مسلم برادری ازراہ کرم انہیں عطا کرے۔ ان کے بہ حیثیت شہری مساویانہ حقوق ہیں جو کم نہیں کیے جاسکتے۔
دیگر الفاظ میں انہیں کسی عہدے یا قانون سازی میں رائے دینے سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ نہ ہی قانون، تعلیم، خدمات یا کسی دیگر شعبے میں ان کے خلاف کوئی امتیازی سلوک روا رکھا جاسکتا ہے۔ ا س چیز کو محسوس کرنا آسان ہے کہ ہر وہ شخص جو خود کو بابائے قوم کی میراث کا پاسبان کہتا رہا یا اس کا دعویٰ کرتا ہے اس نے قائداعظم کے نظریات اور نصب العین کی ذرہ بھر پرواہ نہیں کی اور اس سلسلے میں سب سے بڑی مثال وہ سلوک ہے جو پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ کیا جارہا ہے۔
اس بات پر یقین کرنے کا جواز موجود ہے کہ قائداعظم کے پاس سیاسی برادری کی بنیاد پر پاکستان کے مسلمانوں اور غیرمسلموں پر مشتمل جس واحد قوم کا تصور تھا، اس پر عمل درآمد کے عملی نظریات بھی ان کے پاس موجود تھے۔ مثال کے طور پر پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے جلد ہی بعد وہ مسلم لیگ کے دروازے غیرمسلموں کے لیے کھول دینا چاہتے تھے۔
اس منصوبے کا وقت سے پہلے ہی پتا چل جانے پر، قائداعظم کے روایت پسند ساتھیوں نے ان پر اتنا دباؤ ڈالا کہ انہوں نے اس منصوبے کو التوا میں ڈال دیا... بالکل اسی طرح جس طرح ان کے ساتھیوں نے انہیں یہ تجویز پیش کی تھی کہ وہ اپوزیشن پارٹی کے کردار کو ختم کردیں... اگر قائداعظم نے یہ انتہائی قدم اٹھالیا ہوتا تو ان کے ساتھیوں کو اپنے نصب العین کی طرف بڑھنے میں کافی آسانی ہوجاتی۔
بدقسمتی سے برصغیر میں ہونے والے مکالمے کی توجہ کا مرکز مذہبی اقلیتیں ہی بنی رہیں اور قائداعظم کو اتنا موقع ہی نہ ملا کہ وہ ایک ایسی مملکت میں ان برادریوں کی حیثیت کا جائزہ لیں جن میں ایسی تمام برادریوں کے خدوخال موجود تھے جنہیں علیحدہ سیاسی وجود کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے، ماسوائے مذہبی امتیاز کے، مثلاً تعداد، علاقہ، زبان، نسل، ثقافت، فنون اور موسیقی، ان کے جانشینوں نے مذہب کو اتحاد اور امتیاز کی واحد بنیاد تسلیم کرنے پر ہی تکیہ کیا اور اقلیتوں کے مسئلے کو ماضی کے مقابلے میں زیادہ پیچیدہ بنادیا۔ تاہم اگر ہم جمہوریت، وفاق اور اقلیتوں کے متعلق قائداعظم کے خیالات کو ایک مکمل نظریے کے طور پر تسلیم کرلیں تو قائداعظم کے نصب العین کے مطابق پاکستان کی تصویر کو تخلیق کرنا ناممکن نہیں ہوگا۔ پاکستان کا مستقبل اسی امید میں مضمر ہے کہ ایسا کرنا اب بھی ممکن ہے۔