ایودھیا کے 20سال بعد کا بھارت ہندو انتہا پسند غالب نہ ہوسکے

ہندوتوایا ہندو شدت پسندی بیلٹ پرووٹرز کومائل نہ کرسکی، ایودھیا میں بے جے پی ناکام.

مسلمانوں کواب بھی غیرامتیازی سلوک کاسامنا،مشترکہ سماجی تعلقات قائم ہیں، بی بی سی. فوٹو ایکسپریس

تاریخ دان اور مصنف پیٹرک فرینچ کا کہنا ہے کہ ایودھیا میں بابری مسجد کو منہدم کرنے اور پرتشدد فسادات کے بیس سال بعد بھی ہندو انتہا پسند بھارت میں غلبہ حاصل کرنے میں ناکام رہے۔

1992 میں جب وہ بابری مسجد کے ٹوٹے ہوئے گنبد پر کھڑے تھے تو ایسا لگ رہا تھا کہ بھارت کی سیاست تبدیل ہوچکی ہے۔اس وقت ایسے ممتازدانشوروں کو تلاش کرنا مشکل نہیں تھا جن کو یقین تھا کہ سخت گیر سیاسی ہندوازم مستقبل کی نمائندگی کرے گا۔ہندوتوا یا ہندو شدت پسندی بیلٹ پر مسلسل ووٹرز کو مائل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ بھارت میں ہندوؤں کی ایک بڑی تعداد کی یہ رائے تھی کہ اگر انتہا پسند عناصر کا انتخاب کیا جائے تو یہ آزادی کے وقت کیے جانے والے تصور کے مطابق متنوع اور کثیر الاصوات قسم کی مختلف قوم بنا سکتے ہیں۔

'اسکول میں بچے روزانہ پڑھا کرتے تھے کہ مجھے اپنے ملک سے پیار ہے اور مجھے اس کے مختلف نوعیت کے ورثوں پر فخر ہے تاہم ایودھیا کے واقعے کے چند ماہ بعد تاریخ دان سروپالی گوپال کی تحریوں میں اس خوف کا ذکر کیا گیا تھا کہ سکیولرزم کا گلا گھونٹ دیا جائے گا اور بھارت اس طرف جا سکتا ہے جہاں فاشسٹ اس پر قبضہ کر لیں گے، اور بنیادی تصورات کاگھیراؤ جس پرایک آزاد بھارت نے اپنی بنیاد رکھنے کی کوشش کی تھی اب یہ بہت شدید ہو گیا ہے'۔بابری مسجد کے انہدام کے بعد ڈر یا خوف کی کئی وجوہات تھیں۔ملک بھرمیں شروع ہونیوالے فسادت میں ہزاروں افراد مارے گئے اور اس میں زیادہ تعداد مسلمانوں کی تھی۔




ممبئی میں سلسلہ وار بم دھماکے ہوئے اور ان کے پیچھے دبئی میں مقیم میں ایک جرائم پیشہ اور دہشت پھیلانے والی مافیا تھی اور اس ظلم و ستم کا شکار بہت دورکراچی میں بسنے والی ہندئووں سمیت کئی اور اقلیتیں بھی ہوئیں۔ہندو قوم پرست جماعت بھارتی جنتا پارٹی 'بی جے پی' کے سیاست دان جو ماضی میں شدت پسند ہندوتوا کے ساتھ بہت مضبوطی سے جڑے تھے، جیسا کہ لال کرشنا ایڈوانی اور نریندر مودی اب یہ اپنا زیادہ تر وقت اس میں صرف کرتے ہیں کہ یہ انتہا پسند نہ لگیں۔سنہ 1992 کے مقابلے میں اب بھارت غیر معمولی حد تک امیر بھی ہو چکا ہے۔ایسے ووٹرز کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جن کے نزدیک سیاسی جماعتوں کے پاس ان کی مسائل کا حل یا جواب نہیں ہے۔

معاشی ماہرین آپ کو بتائیں گے کہ کسی شخص کے اگر مفادات وابستہ ہونگے تو فساد کرنے کے امکانات کم ہیں۔نسلی فسادات سماجی دباؤ کے اس دور میں جاری رہے ہیں لیکن یہ بہت ہی کم عام ہے۔1992 کے خدشات کے برعکس لوگوں میں اب یہ بات کم ملتی ہے کہ ملک ایک مذہبی ریاست بن جائے یا فاشٹ اس پر قبضہ کر لیں۔ بدقسمتی سے اسلام کے آثار قدیمہ کو ہندو اکثریتی بھارت کے مقابلے میں سعودی عرب میں زیادہ خطرے میں دیکھا جا سکتا ہے۔

بابری مسجد کے بیس سال بعد مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان تعلقات نے کوئی مثبت یا منفی صورت اختیار نہیں کی ہے تاہم مسلمانوں کو اب بھی غیرامتیازی سلوک کا سامنا ہے، انھیں بینکاری سمیت اعلیٰ ملازمتوں سے دور رکھا گیاہے۔ تاہم دونوں کے درمیان مشترکہ سماجی تعلقات اور برادریوں کے مابین باہمی انحصار اب بھی قائم ہے جس پربھارت کی بنیاد پڑی۔
Load Next Story