فرشتوں کے ملک میں کوئی چیزخالص نہیں ہے
کسی بات پربھی یقین نہیں رہا۔زبانی باتیں سنیں تو ایمان تازہ ہوجاتاہے۔
HARARE:
کسی بات پربھی یقین نہیں رہا۔زبانی باتیں سنیں تو ایمان تازہ ہوجاتاہے۔ مگرصرف زبانی۔ مساجد نمازیوں سے بھری پڑی ہیں۔ماتھے پرمحرابیںبڑھتی جارہی ہیں۔ رمضان کے مقدس مہینے میں لوگ رو رو کر دعائیں مانگتے ہیں۔طاق راتیں ڈھونڈڈھونڈکرساری ساری رات عبادت کرتے ہیں۔مگرعملاًمعاشرہ وہیں کا وہیں جامد کھڑا ہے۔ وہی ناانصافی،وہی بے ایمانی اوروہی لالچ۔ حج تزکیہ نفس کا بہترین طریقہ ہے۔ہرطرح کی قربانی سے مزین۔ مگر اسکو بھی کاروبار بنا دیا گیا ہے۔ فائیوسٹار حج سے لے کرٹوسٹارحج تک،کوئی بھی پیکیج لے سکتے ہیں۔کوئی ایساشعبہ نہیں جس میں توازن ہو۔سیاست سے لے کرتجارت تک،اورفنون لطیفہ سے لے کرنظام زندگی تک۔ پہلے گمان تھاکہ قدرے بہتری ہوسکتی ہے۔مگراب یقین ہے کہ بہتری کے عناصردن بدن مغلوب ہوتے جا رہے ہیں۔
زندگی بچانے کے لیے دواضروری ہے اورزندہ رہنے کے لیے غذا۔کمالِ زوال دیکھیے کہ دونوں شعبے بھی اس طرح تعفن زدہ ہیں جیسے دوسرے شعبہ جات۔خالدباغبانپورہ لاہور کارہائشی ہے۔چالیس سالہ خالدپائپ بنانے کی مقامی فیکٹری میں سپروائزرتھا۔تنخواہ یہی کوئی بیس ہزار کے لگ بھگ۔دوسال پہلے کام کرتے کرتے سینہ میں شدید تکلیف ہوئی۔جیل روڈ پر واقع ایک گورنمنٹ اسپتال میں پہنچادیاگیا۔دوتین دن کے بعدکہاگیاکہ دل کا چھوٹابلکہ معمولی ساآپریشن ہے۔طبی ملاحظہ سے معلوم ہوا کہ دل کی دوشریانیں مکمل بندہیںاوران میں سٹنٹ پڑینگے۔ خالدکے پاس پیسے نہیں تھے۔
ڈاکٹرکوکہنے لگاکہ ابھی آپریشن نہیں کروا سکتا۔ خیر ڈاکٹر نے اسے دوائیاں دیں۔ خالدنے اب چارلاکھ روپے جمع کرنے تھے۔ڈبل شفٹ پرکام کرنے کے بعداس کے پاس ایک لاکھ جمع ہوا۔ بیوی کے زیوربیچ کررقم تھوڑی سی بڑھ گئی۔ خالد پورے ڈیڑھ سال محنت کرتارہا۔پھراس کے پاس چار لاکھ روپے جمع ہوئے۔آپریشن کروانے کے لیے گیاتوڈاکٹر نے بتایا کہ سٹنٹ توبازارسے خریدناپڑیگا۔جیل روڈ پر لاتعداد دکانیں ہیں جویہ آلہ مہیاکررہے ہیں۔خالدکوقطعاًاندازہ نہیں تھا کہ یہ بھی مافیاکاایک گروہ ہے اور اس ملک میں سفاکی کے وہ قزاق ہیں جولوگوں کے دلوں کوجعلی سٹنٹ مہیا کرتے ہیں۔
ایک بڑے میڈیکل اسٹورپرگیا۔وہاں ایک باریش حاجی صاحب تشریف فرماتھے۔ماتھے پرمحراب اور سجدے کے نشانات،سفیدکپڑے۔لگتاتھاکہ ایک فرشتہ زمین پر ابھی ابھی آسمان سے اترا ہے۔خالدکوانھوں نے دیکھا اور کہا کہ تم بالکل ٹھیک وقت پرآئے ہو۔خوش قسمتی سے اعلیٰ ترین معیارکے سٹنٹ آج ہی پہنچے ہیں۔ خالد کو تین لاکھ کاایک سٹنٹ فروخت کردیا۔آپریشن سے پہلے خالد نے وہ سٹنٹ سرجن کے حوالے کردیا۔آپریشن بالکل کامیاب ہوا۔چالیس منٹ بعدآپریشن تھیٹرسے باہر آ گیا مگر تین گھنٹے بعد طبیعت شدیدخراب ہوگئی۔ایسے لگاکہ اس کادل دردسے پھٹ کرباہرآجائے گا۔ہنگامی طورپرآپریشن تھیٹرلے جایاگیا۔طے یہ پایاگیاکہ اس کابائی پاس آپریشن کیا جائے۔ خالدتوبے ہوش تھااور بیوی روروکرپاگل ہو چکی تھی۔
خیرجب بائی پاس آپریشن ہواتوسٹنٹ واپس نکالے گئے۔ ڈاکٹر نے غورسے ملاحظہ کیاتوپتہ چلاکہ یہ دونمبر سٹنٹ ہیں۔ اصل کمپنی کی عمدہ نقل مگربالکل غیرمعیاری۔ خالدبروقت آپریشن سے زندہ بچ گیا۔دوماہ بعد جب اس میڈیکل اسٹور پر پہنچاجہاں سے سامان خریدا تھا، توحاجی صاحب اسے دیکھ کر پریشان ہوگئے۔وجہ صرف یہ کہ ان کے فروخت شدہ سٹنٹ کے بعدکوئی انسان آج تک زندہ نہیں رہا تھا۔ لہٰذا شکایت کاکوئی سوال ہی نہیں تھا۔انھوں نے خالدکومبارک باددی کہ وہ صحتمند ہو چکا ہے اوربتایاکہ خالدکی جلدصحت یابی کے لیے بہت دعائیں کی ہیں۔حاجی صاحب کوکوئی شرمندگی نہیں تھی کہ انھوں نے ایک مریض کے ساتھ کتنابڑاظلم کیا ہے۔
دکان پر تھوڑا ساجھگڑابڑھاتوحاجی صاحب خالدکواپنی دکان کے پچھلے حصے میں لے گئے۔قسمیں اُٹھانے لگے کہ ان کا کوئی قصور نہیں۔ انھوں نے آج تک کوئی دونمبرکام نہیں کیا لہٰذا خالد ان کی شکایت نہ کرے۔خاموشی سے واپس آ گیا۔ تھوڑے دن کے بعد اپنے کام پرپہنچاتواسے نوکری سے فارغ کر دیا گیا تھا کیونکہ سیٹھ اپنے کاروبارمیں اتنی چھٹیاں کسی کونہیں دیتاتھا۔خالدآج کل بے روزگار ہے۔ مسلسل دوائی پراس کی سانسیں منحصرہیں۔بیوی محلے کے لوگوںکے کپڑے سی کرگزاراکرتی ہے۔پورا خاندان محتاجی کی زندگی گزاررہاہے۔مگرلاہورمیں حاجی صاحب کا دونمبر کاروبار بھرپورطریقے سے چل رہاہے۔کیونکہ مرے ہوئے لوگ شکایت نہیں کرسکتے۔پاکستان دنیامیں جعلی دوائیاں بنانے والے ممالک میں سرفہرست ہے۔
آن لائن غیرمعیاری دوائیاں مہیا کرنے کی سب سے بڑی مارکیٹ ہماراپیاراملک ہے۔ یہاں میڈیکل اسٹوروں پربکنے والی دوائیاں دس سے نوے فیصدتک جعلی یاغیرمعیاری ہیں۔آپ پاکستان کی بنی ہوئی سردردکی دوائی لیں۔ممکن ہے آپ خوش قسمتی سے سردردسے چھٹکاراحاصل کر لیں۔ مگرغالب امکان یہی ہے کہ دردمیں تھوڑاساہی افاقہ ہو گا۔ اس کے برعکس امریکا یایورپ سے خریدی ہوئی "ایسپرین" کھائیے۔ آپکا درد موثر طور پرٹھیک ہو جائے گا۔سردردتوبڑی معمولی سی تکلیف ہے مگر اندازہ لگائیے کہ مہلک بیماریوں کی دوائیاںاگرجعلی ہوں تو مریض کو کتنانقصان ہو سکتا ہے۔
ہمارے ہاں،خطرناک ترین بیماریوں کی دوائیاں بھی ہرگزہرگزمعیاری نہیں ہیں۔ مگر کیا گلہ، کیا شکوہ، غیرمعیاری قوم کے لیے ادنیٰ درجہ کی دوائیاں، کوئی مسئلہ نہیں۔ یہاں توہرچیزہی ملاوٹ ذدہ ہے۔ اب آپکو اندازہ ہوگاکہ ہمارے تمام قائدین، امیر تاجر اور رہنما علاج کروانے ملک سے جانے پر کیوں مجبور ہیں۔ انھیں پتہ ہے کہ ہسپتاہوں میں جعلی ادویات پہنچ چکی ہیں۔ جعلی سٹنٹ ڈل سکتے ہیں۔ان جرائم کاباہرکے ملکوں میں تصور تک نہیں۔ چین میں جعلی دوائیاں بنانے کی سزاموت ہے مگرہمارے یہاں اس پرکوئی خاص پوچھ گچھ نہیں۔ غیرمعیاری دوائیوں کے خلاف چندہفتوں کی سرکاری مہم، چند بیکارسے اشتہار اور پھر دوبارہ معمول کی کاروائی۔چندسالوں سے ایک نیارجحان بھی سامنے آیا ہے۔
دیہاتوں میں نہیں بلکہ بڑے شہروں میں بھی انسانوں کو جانوروں کی دودائیاں بیچی جارہی ہیں۔انکوجانوروں کو لگانے والے انجکشن بھی لگائے جارہے ہیں۔ڈیرہ خازی خان، مظفرگڑھ یاراجن پور کو چھوڑ دیجیے۔ یہ ظلم گجرانوالہ، لاہور اورفیصل آبادمیں بھی عام ہے۔اکثراَن پڑھ مرداور خواتین میڈیکل اسٹورپرجاکرمرض بتاتے ہیں۔ وہاں کسی قسم کا کوئی ڈاکٹرنہیں ہوتا۔ایک عام ساآدمی جسے چند ددوائیوں کے نام یادہوتے ہیں۔لوگ اس کے جھانسے میں آ جاتے ہیں۔ یہ بڑے آرام اوراطمینان سے لوگوں کو جانوروں کے لیے مختص انجکشن لگادیتے ہیں۔یہاں کیونکہ کسی کی پوچھ گچھ نہیں،لہٰذااگرمریض مربھی جائے تووہ قدرت کی طرف سے مختص ہوتی ہے۔
جعلی دوائیوں اوراس کے آگے کی عملی بات کی طرف نظر دوڑائیے۔پاکستان کے ہر محلہ ، گلی، قصبہ،دیہات اورشہرمیں جعلی ڈاکٹراورجعلی حکیم اطمینان سے پر یکٹس کرتے ہوئے ملیں گے۔ان کے اشتہارات مقامی کیبل پرآرہے ہونگے۔ ان میں گولڈمیڈلسٹ ہونے کا دعویٰ بھی موجود ہو گا۔ گولڈ میڈل کااعزازکس ادارے نے دیا، اس کاذکرکبھی بھی نہیں ہو گا۔ پروفیسرکالقب عام استعمال ہوتا نظرآتاہے۔حالانکہ میڈیسن یاسرجری کے شعبہ میں پروفیسرہوناانتہائی دشواراوربہت قابل قدربات ہے۔ مگر یہاں جاہل لوگ اپنے آپکوپروفیسرلکھتے اورکہلواتے ہیں ۔ ویسے معذرت سے اب توکئی بارمجھے اصلی پروفیسرحضرات کے رویہ دیکھ کربھی شک گزرتاہے کہ کیایہ واقعی کسی میڈیکل کالج میں گئے بھی ہیں کہ نہیں؟
مریض دیکھنے کابنیادی اصول یہ ہے کہ ڈاکٹراورمریض مکمل یکسوئی اورتنہائی میں پروفیشنل بات کریں۔مگریہاں اکثرجگہ دیکھنے میں آتاہے کہ پرائیویٹ کلینک میں بھی ڈاکٹرصاحب دوتین مریضوں کواکھٹے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ساتھ ساتھ کسی دیگرمریض سے موبائل پربات کرنابھی فرض سمجھتے ہیں۔سرکاری اسپتال میں توخیرمریض کی پرائیویسی کاکوئی معاملہ ہی نہیں ہے۔ مریضوں کے سیلاب میں بیٹھاہواڈاکٹرتشخیص کرنے کی کوشش کررہاہوتاہے۔غیرمعیاری میڈیکل کالج،جعلی حکیموں اورادنیٰ ڈاکٹروں نے ملکرایک ایسامضبوط گروہ قائم کرلیاہے۔
جس کے خلاف نہ آپ شکایت کرسکتے ہیں اورنہ کوئی قانونی کاروائی ہوتی ہے۔پاکستان واحدملک ہے جہاں انسانوں کوجانوروں کے انجکشن لگانے کی کوئی کڑی سزانھیں ہے۔جہاں جعلی ادوایات بیچنے پرمعمولی ساجرمانہ ہے،جوملزم ہنستے ہوئے اداکر دیتاہے کیونکہ اس کی نوبت ہی بہت کم آتی ہے۔جہاں دل کے آپریشن کے دوران استعمال ہونے والے سٹنٹ تک غیرمعیاری یاجعلی فروخت ہوتے ہیں۔جہاں اَن پڑھ لوگ اپنے آپکوڈاکٹرلکھتے اورکہلواتے ہیں وہ پھربھی محفوظ ہیں۔ اگرباتیں سنیں توہرشعبہ میں ایسے لگتاہے کہ پورے ملک میں فرشتے بیٹھے ہوئے ہیں۔ یہاں ہرچیزدرست ہے۔ پوری دنیاہمارے بہترین ملکی نظام سے شدید متاثر ہے۔ ہرفیصلہ میں میرٹ ہی میرٹ ہے۔لوگ ہرطریقے سے محفوظ ہیں اورخوش وخرم زندگی گزاررہے ہیں۔ہرانسان اپناکام بالکل قانون کے مطابق کررہاہے۔مگرحقیقت یہ ہے کہ فرشتوں کے اس ملک میں کوئی چیزبھی خالص نہیں ہے،نہ ایمان اورنہ انسان!
کسی بات پربھی یقین نہیں رہا۔زبانی باتیں سنیں تو ایمان تازہ ہوجاتاہے۔ مگرصرف زبانی۔ مساجد نمازیوں سے بھری پڑی ہیں۔ماتھے پرمحرابیںبڑھتی جارہی ہیں۔ رمضان کے مقدس مہینے میں لوگ رو رو کر دعائیں مانگتے ہیں۔طاق راتیں ڈھونڈڈھونڈکرساری ساری رات عبادت کرتے ہیں۔مگرعملاًمعاشرہ وہیں کا وہیں جامد کھڑا ہے۔ وہی ناانصافی،وہی بے ایمانی اوروہی لالچ۔ حج تزکیہ نفس کا بہترین طریقہ ہے۔ہرطرح کی قربانی سے مزین۔ مگر اسکو بھی کاروبار بنا دیا گیا ہے۔ فائیوسٹار حج سے لے کرٹوسٹارحج تک،کوئی بھی پیکیج لے سکتے ہیں۔کوئی ایساشعبہ نہیں جس میں توازن ہو۔سیاست سے لے کرتجارت تک،اورفنون لطیفہ سے لے کرنظام زندگی تک۔ پہلے گمان تھاکہ قدرے بہتری ہوسکتی ہے۔مگراب یقین ہے کہ بہتری کے عناصردن بدن مغلوب ہوتے جا رہے ہیں۔
زندگی بچانے کے لیے دواضروری ہے اورزندہ رہنے کے لیے غذا۔کمالِ زوال دیکھیے کہ دونوں شعبے بھی اس طرح تعفن زدہ ہیں جیسے دوسرے شعبہ جات۔خالدباغبانپورہ لاہور کارہائشی ہے۔چالیس سالہ خالدپائپ بنانے کی مقامی فیکٹری میں سپروائزرتھا۔تنخواہ یہی کوئی بیس ہزار کے لگ بھگ۔دوسال پہلے کام کرتے کرتے سینہ میں شدید تکلیف ہوئی۔جیل روڈ پر واقع ایک گورنمنٹ اسپتال میں پہنچادیاگیا۔دوتین دن کے بعدکہاگیاکہ دل کا چھوٹابلکہ معمولی ساآپریشن ہے۔طبی ملاحظہ سے معلوم ہوا کہ دل کی دوشریانیں مکمل بندہیںاوران میں سٹنٹ پڑینگے۔ خالدکے پاس پیسے نہیں تھے۔
ڈاکٹرکوکہنے لگاکہ ابھی آپریشن نہیں کروا سکتا۔ خیر ڈاکٹر نے اسے دوائیاں دیں۔ خالدنے اب چارلاکھ روپے جمع کرنے تھے۔ڈبل شفٹ پرکام کرنے کے بعداس کے پاس ایک لاکھ جمع ہوا۔ بیوی کے زیوربیچ کررقم تھوڑی سی بڑھ گئی۔ خالد پورے ڈیڑھ سال محنت کرتارہا۔پھراس کے پاس چار لاکھ روپے جمع ہوئے۔آپریشن کروانے کے لیے گیاتوڈاکٹر نے بتایا کہ سٹنٹ توبازارسے خریدناپڑیگا۔جیل روڈ پر لاتعداد دکانیں ہیں جویہ آلہ مہیاکررہے ہیں۔خالدکوقطعاًاندازہ نہیں تھا کہ یہ بھی مافیاکاایک گروہ ہے اور اس ملک میں سفاکی کے وہ قزاق ہیں جولوگوں کے دلوں کوجعلی سٹنٹ مہیا کرتے ہیں۔
ایک بڑے میڈیکل اسٹورپرگیا۔وہاں ایک باریش حاجی صاحب تشریف فرماتھے۔ماتھے پرمحراب اور سجدے کے نشانات،سفیدکپڑے۔لگتاتھاکہ ایک فرشتہ زمین پر ابھی ابھی آسمان سے اترا ہے۔خالدکوانھوں نے دیکھا اور کہا کہ تم بالکل ٹھیک وقت پرآئے ہو۔خوش قسمتی سے اعلیٰ ترین معیارکے سٹنٹ آج ہی پہنچے ہیں۔ خالد کو تین لاکھ کاایک سٹنٹ فروخت کردیا۔آپریشن سے پہلے خالد نے وہ سٹنٹ سرجن کے حوالے کردیا۔آپریشن بالکل کامیاب ہوا۔چالیس منٹ بعدآپریشن تھیٹرسے باہر آ گیا مگر تین گھنٹے بعد طبیعت شدیدخراب ہوگئی۔ایسے لگاکہ اس کادل دردسے پھٹ کرباہرآجائے گا۔ہنگامی طورپرآپریشن تھیٹرلے جایاگیا۔طے یہ پایاگیاکہ اس کابائی پاس آپریشن کیا جائے۔ خالدتوبے ہوش تھااور بیوی روروکرپاگل ہو چکی تھی۔
خیرجب بائی پاس آپریشن ہواتوسٹنٹ واپس نکالے گئے۔ ڈاکٹر نے غورسے ملاحظہ کیاتوپتہ چلاکہ یہ دونمبر سٹنٹ ہیں۔ اصل کمپنی کی عمدہ نقل مگربالکل غیرمعیاری۔ خالدبروقت آپریشن سے زندہ بچ گیا۔دوماہ بعد جب اس میڈیکل اسٹور پر پہنچاجہاں سے سامان خریدا تھا، توحاجی صاحب اسے دیکھ کر پریشان ہوگئے۔وجہ صرف یہ کہ ان کے فروخت شدہ سٹنٹ کے بعدکوئی انسان آج تک زندہ نہیں رہا تھا۔ لہٰذا شکایت کاکوئی سوال ہی نہیں تھا۔انھوں نے خالدکومبارک باددی کہ وہ صحتمند ہو چکا ہے اوربتایاکہ خالدکی جلدصحت یابی کے لیے بہت دعائیں کی ہیں۔حاجی صاحب کوکوئی شرمندگی نہیں تھی کہ انھوں نے ایک مریض کے ساتھ کتنابڑاظلم کیا ہے۔
دکان پر تھوڑا ساجھگڑابڑھاتوحاجی صاحب خالدکواپنی دکان کے پچھلے حصے میں لے گئے۔قسمیں اُٹھانے لگے کہ ان کا کوئی قصور نہیں۔ انھوں نے آج تک کوئی دونمبرکام نہیں کیا لہٰذا خالد ان کی شکایت نہ کرے۔خاموشی سے واپس آ گیا۔ تھوڑے دن کے بعد اپنے کام پرپہنچاتواسے نوکری سے فارغ کر دیا گیا تھا کیونکہ سیٹھ اپنے کاروبارمیں اتنی چھٹیاں کسی کونہیں دیتاتھا۔خالدآج کل بے روزگار ہے۔ مسلسل دوائی پراس کی سانسیں منحصرہیں۔بیوی محلے کے لوگوںکے کپڑے سی کرگزاراکرتی ہے۔پورا خاندان محتاجی کی زندگی گزاررہاہے۔مگرلاہورمیں حاجی صاحب کا دونمبر کاروبار بھرپورطریقے سے چل رہاہے۔کیونکہ مرے ہوئے لوگ شکایت نہیں کرسکتے۔پاکستان دنیامیں جعلی دوائیاں بنانے والے ممالک میں سرفہرست ہے۔
آن لائن غیرمعیاری دوائیاں مہیا کرنے کی سب سے بڑی مارکیٹ ہماراپیاراملک ہے۔ یہاں میڈیکل اسٹوروں پربکنے والی دوائیاں دس سے نوے فیصدتک جعلی یاغیرمعیاری ہیں۔آپ پاکستان کی بنی ہوئی سردردکی دوائی لیں۔ممکن ہے آپ خوش قسمتی سے سردردسے چھٹکاراحاصل کر لیں۔ مگرغالب امکان یہی ہے کہ دردمیں تھوڑاساہی افاقہ ہو گا۔ اس کے برعکس امریکا یایورپ سے خریدی ہوئی "ایسپرین" کھائیے۔ آپکا درد موثر طور پرٹھیک ہو جائے گا۔سردردتوبڑی معمولی سی تکلیف ہے مگر اندازہ لگائیے کہ مہلک بیماریوں کی دوائیاںاگرجعلی ہوں تو مریض کو کتنانقصان ہو سکتا ہے۔
ہمارے ہاں،خطرناک ترین بیماریوں کی دوائیاں بھی ہرگزہرگزمعیاری نہیں ہیں۔ مگر کیا گلہ، کیا شکوہ، غیرمعیاری قوم کے لیے ادنیٰ درجہ کی دوائیاں، کوئی مسئلہ نہیں۔ یہاں توہرچیزہی ملاوٹ ذدہ ہے۔ اب آپکو اندازہ ہوگاکہ ہمارے تمام قائدین، امیر تاجر اور رہنما علاج کروانے ملک سے جانے پر کیوں مجبور ہیں۔ انھیں پتہ ہے کہ ہسپتاہوں میں جعلی ادویات پہنچ چکی ہیں۔ جعلی سٹنٹ ڈل سکتے ہیں۔ان جرائم کاباہرکے ملکوں میں تصور تک نہیں۔ چین میں جعلی دوائیاں بنانے کی سزاموت ہے مگرہمارے یہاں اس پرکوئی خاص پوچھ گچھ نہیں۔ غیرمعیاری دوائیوں کے خلاف چندہفتوں کی سرکاری مہم، چند بیکارسے اشتہار اور پھر دوبارہ معمول کی کاروائی۔چندسالوں سے ایک نیارجحان بھی سامنے آیا ہے۔
دیہاتوں میں نہیں بلکہ بڑے شہروں میں بھی انسانوں کو جانوروں کی دودائیاں بیچی جارہی ہیں۔انکوجانوروں کو لگانے والے انجکشن بھی لگائے جارہے ہیں۔ڈیرہ خازی خان، مظفرگڑھ یاراجن پور کو چھوڑ دیجیے۔ یہ ظلم گجرانوالہ، لاہور اورفیصل آبادمیں بھی عام ہے۔اکثراَن پڑھ مرداور خواتین میڈیکل اسٹورپرجاکرمرض بتاتے ہیں۔ وہاں کسی قسم کا کوئی ڈاکٹرنہیں ہوتا۔ایک عام ساآدمی جسے چند ددوائیوں کے نام یادہوتے ہیں۔لوگ اس کے جھانسے میں آ جاتے ہیں۔ یہ بڑے آرام اوراطمینان سے لوگوں کو جانوروں کے لیے مختص انجکشن لگادیتے ہیں۔یہاں کیونکہ کسی کی پوچھ گچھ نہیں،لہٰذااگرمریض مربھی جائے تووہ قدرت کی طرف سے مختص ہوتی ہے۔
جعلی دوائیوں اوراس کے آگے کی عملی بات کی طرف نظر دوڑائیے۔پاکستان کے ہر محلہ ، گلی، قصبہ،دیہات اورشہرمیں جعلی ڈاکٹراورجعلی حکیم اطمینان سے پر یکٹس کرتے ہوئے ملیں گے۔ان کے اشتہارات مقامی کیبل پرآرہے ہونگے۔ ان میں گولڈمیڈلسٹ ہونے کا دعویٰ بھی موجود ہو گا۔ گولڈ میڈل کااعزازکس ادارے نے دیا، اس کاذکرکبھی بھی نہیں ہو گا۔ پروفیسرکالقب عام استعمال ہوتا نظرآتاہے۔حالانکہ میڈیسن یاسرجری کے شعبہ میں پروفیسرہوناانتہائی دشواراوربہت قابل قدربات ہے۔ مگر یہاں جاہل لوگ اپنے آپکوپروفیسرلکھتے اورکہلواتے ہیں ۔ ویسے معذرت سے اب توکئی بارمجھے اصلی پروفیسرحضرات کے رویہ دیکھ کربھی شک گزرتاہے کہ کیایہ واقعی کسی میڈیکل کالج میں گئے بھی ہیں کہ نہیں؟
مریض دیکھنے کابنیادی اصول یہ ہے کہ ڈاکٹراورمریض مکمل یکسوئی اورتنہائی میں پروفیشنل بات کریں۔مگریہاں اکثرجگہ دیکھنے میں آتاہے کہ پرائیویٹ کلینک میں بھی ڈاکٹرصاحب دوتین مریضوں کواکھٹے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ساتھ ساتھ کسی دیگرمریض سے موبائل پربات کرنابھی فرض سمجھتے ہیں۔سرکاری اسپتال میں توخیرمریض کی پرائیویسی کاکوئی معاملہ ہی نہیں ہے۔ مریضوں کے سیلاب میں بیٹھاہواڈاکٹرتشخیص کرنے کی کوشش کررہاہوتاہے۔غیرمعیاری میڈیکل کالج،جعلی حکیموں اورادنیٰ ڈاکٹروں نے ملکرایک ایسامضبوط گروہ قائم کرلیاہے۔
جس کے خلاف نہ آپ شکایت کرسکتے ہیں اورنہ کوئی قانونی کاروائی ہوتی ہے۔پاکستان واحدملک ہے جہاں انسانوں کوجانوروں کے انجکشن لگانے کی کوئی کڑی سزانھیں ہے۔جہاں جعلی ادوایات بیچنے پرمعمولی ساجرمانہ ہے،جوملزم ہنستے ہوئے اداکر دیتاہے کیونکہ اس کی نوبت ہی بہت کم آتی ہے۔جہاں دل کے آپریشن کے دوران استعمال ہونے والے سٹنٹ تک غیرمعیاری یاجعلی فروخت ہوتے ہیں۔جہاں اَن پڑھ لوگ اپنے آپکوڈاکٹرلکھتے اورکہلواتے ہیں وہ پھربھی محفوظ ہیں۔ اگرباتیں سنیں توہرشعبہ میں ایسے لگتاہے کہ پورے ملک میں فرشتے بیٹھے ہوئے ہیں۔ یہاں ہرچیزدرست ہے۔ پوری دنیاہمارے بہترین ملکی نظام سے شدید متاثر ہے۔ ہرفیصلہ میں میرٹ ہی میرٹ ہے۔لوگ ہرطریقے سے محفوظ ہیں اورخوش وخرم زندگی گزاررہے ہیں۔ہرانسان اپناکام بالکل قانون کے مطابق کررہاہے۔مگرحقیقت یہ ہے کہ فرشتوں کے اس ملک میں کوئی چیزبھی خالص نہیں ہے،نہ ایمان اورنہ انسان!