گلوبل وارمنگ کے ہولناک اثرات
دنیا کے دو بڑے ممالک امریکا اور چین جن کا عالمی ماحولیات کو تباہ کرنے میں سب سے بڑا حصہ ہے
NEW DELHI:
دنیا کے دو بڑے ممالک امریکا اور چین جن کا عالمی ماحولیات کو تباہ کرنے میں سب سے بڑا حصہ ہے دونوں نے عالمی حدت پر قابو پانے کے لیے پیرس معاہدے کی منظوری دے دی ہے، اس جی 20 اجلاس میں جو چین کے شہر ہانگ زو میں منعقد ہوا۔ واضح رہے کہ عالمی حدت میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ عالمی سطح پر کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں اضافہ ہے۔
اس وقت دنیا میں عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں کا سبب بننے والی گیس کاربن کا اخراج سب سے زیادہ چین میں ہوتا ہے جب کہ امریکا اور چین کی جانب سے مجموعی طور پر 40 فیصد کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کا اخراج کیا جاتا ہے۔ چین کی طرف سے معاہدے کی توثیق کے اعلان سے معاہدے کی توثیق کرنے والے ممالک کی تعداد 23 ہو گئی ہے۔ ان ممالک کا مضر گیسوں کے اخراج میں حصہ صرف ایک فیصد کے لگ بھگ ہے جب کہ دو ممالک چین اور امریکا کا حصہ چالیس فیصد سے زائد ہے۔ چین کی جانب سے اس اعلان کے بعد وہائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ یہ اعلان صدر بارک اوباما اور چینی صدر شی کے دور حکومت کا ایک اہم سنگ میل ہے اور عالمی سطح پر ماحولیات کے حوالے سے دونوں صدور کی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ پیرس معاہدہ اس کو عملی جامہ پہنانے کی جانب ایک اہم قدم ہے۔
پیرس میں طے پانے والے اس پہلے جامع ماحولیاتی معاہدے پر اس وقت تک قانونی طور پر عملدرآمد شروع نہیں ہو سکتا جب تک عالمی سطح پر 55 فیصد کاربن کے اخراج کے ذمے دار ممالک اس کی توثیق نہیں کر دیتے۔اس موقع پر چین کے اس اقدام کا خیرمقدم کرتے ہوئے امریکی صدر اوباما نے کہا کہ آخرکار وہ لمحہ آ پہنچا ہے جب ہم نے فیصلہ کیا کہ اس کرۂ ارض کو ماحولیاتی آلودگی سے محفوظ کیا جائے۔ چین کی طرف سے اس ڈیل کی منظوری کے بعد غریب ملکوں کو ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کے لیے کھربوں ڈالر کی مدد دی جا سکے گی۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب میں پرامید ہوں کہ اس معاہدے پر عملدرآمد موجودہ سال کے آخر سے شروع ہو جائے گا۔ اس معاہدے پر تبصرہ کرتے ہوئے گرین سپیس کے پالیسی ایڈوائزر اور ماحولیاتی تنظیموں نے کہا کہ امریکا اور چین کی طرف سے کرہ ارض کے درجہ حرارت میں دو ڈگری کمی کافی نہیں، انھیں یہاں رکنا نہیں چاہیے بلکہ درجہ حرارت میں مزید کمی کے لیے اور بھی اقدامات اٹھانے چاہئیں۔
پیرس معاہدے پر عملدرآمد خوش آیند سہی لیکن سائنسدانوں، ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ کرہ ارض کے شمالی منطقے میں درجہ حرارت میں جتنا اضافہ ہوا ہے گزشتہ پندرہ سو برس میں نہیں ہوا یعنی صنعتی ترقی کی دوڑ میں انسانوں نے اپنی دنیا کو دونوں ہاتھوں اور اپنی دماغی صلاحیتوں سے اس طرح تباہ کر دیا ہے کہ اس تباہی کا ازالہ کرنا ایک معجزہ ہی ہو گا۔ جس بڑے پیمانے پر پچھلی کئی دہائیوں سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج ہو رہا ہے اس کے اثرات ماحولیات پر آیندہ ایک ہزار سال تک رہنے کا امکان ہے۔
ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کا عمل دو سال پہلے لگائے گئے اندازوں اور اعداد وشمار سے کہیں زیادہ ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر نقصان دہ گیسوں کے اخراج پر کسی نہ کسی طرح قابو پا بھی لیا جائے تو بھی دنیا میں قدرتی آفات کا امکان کم نہیں ہو گا کہ جنگلی حیات کی نصف سے زیادہ پناہ گاہیں اور اہم جنگلات تباہ ہونے سے چالیس کروڑ لوگ بھوک کا شکار ہو جائینگے۔
ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بڑھتا ہوا درجہ حرارت دنیا میں تباہ کن طوفانوں کا سبب بن رہا ہے۔ دریاؤں اور سمندری طوفانوں و خشک سالی کے نتیجے میں کروڑوں افراد بے گھر ہو جائینگے جس کے نتیجے میں ہماری زمین ایک ایسی تبدیلی اور خاتمہ دیکھے گی جو اس سے پہلے اس نے 65 کروڑ سال پہلے دیکھا تھا اور وہ ایسی ہولناک تبدیلی تھی جس کے نتیجے میں دیوہیکل ڈائنا ساروں کا خاتمہ ہو گیا تھا۔ درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ کارخانوں، گاڑیوں، جہازوں، فیکٹریوں اور گھروں میں جلنے والے ایندھن سے خارج ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کا سب سے بڑا کردار ہے۔
اس وقت زہریلی گیس کا سب سے زیادہ اخراج سعودی عرب میں ہو رہا ہے جب کہ سب سے کم سویڈن میں ہے جس کے باعث وہ دنیا کا شفاف ترین آب وہوا رکھنے والا ملک قرار پایا ہے۔ اس حوالے سے یہ بات بھی انتہائی توجہ کے لائق ہے کہ اس دنیا کے باسی سالانہ 27 لاکھ ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ زہریلی گیس فضا کی طرف روانہ کر رہے ہیں جس کی فی منٹ یومیہ مقدار 2400 ٹن بنتی ہے۔ بہت تھوڑے لوگوں کے علاوہ دنیا کی مجموعی آبادی ان ہولناک حقائق سے بے خبر ہے۔ ہم تو بے خبری میں اپنے اوپر ظلم کر ہی رہے ہیں لیکن ہماری آنیوالی نسلیں ماحولیاتی تباہی کو کس طرح بھگتیں گی اس کا تصور بھی لرزا دینے والا ہے۔ گلیشیئر پگھلیں گے، شہر ڈوبیں گے، بے وقت کی بارشیں زراعت کو تباہ کر دیں گی۔
نتیجہ بھوک اور خشک سالی۔ گرم علاقوں میں سردی پڑیگی اور سرد علاقے گرمی کا شکار ہو جائینگے۔ زہریلی گیس فضا میں آکسیجن کی مقدار کم کر دیگی جس کے نتیجے میں لوگ بڑے پیمانے پر دماغی اور نفسیاتی عوارض کا شکار ہو جائینگے، جھگڑوں، قتل و غارت میں اضافہ ہو گا، بے چینی، خوف، دباؤ کے نتیجے میں بلڈپریشر، شوگر، ہارٹ اٹیک، کینسر اور دیگر خطرناک بیماریوں سے بہت کم لوگ بچ سکیں گے، دنیا کے لیے امن کتنا ضروری ہے کہ جنگیں، بارود، ایٹمی تجربات سے فضا مزید زہر آلود ہوتی جا رہی ہے۔ ماحولیاتی بگاڑ کی وجہ سے پیدا ہونے والی قدرتی آفات سے نقصان صرف 2010ء میں 235 بلین ڈالر ہو چکا ہے۔
افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کا ماحولیاتی بگاڑ میں بہت کم حصہ ہے اس کے باوجود ماحولیاتی بگاڑ سے متاثر ہونیوالے ممالک میں آٹھویں نمبر پر ہے۔ دنیا میں انتہائی ضروری ہے کہ فوری طور پر ماحولیاتی بگاڑ کو نصاب میں شامل کر لیا جائے تا کہ اسکول، کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر طالبعلم اس سے آگاہی حاصل کر سکیں۔ پاکستان میں میٹھا پانی جو پینے کے لیے استعمال ہوتا ہے اس کے ذخائر خطرناک حد تک کم رہ گئے ہیں۔ ضروری ہے کہ عوام خاص طور پر بچوں اور عورتوں کو میٹھے پانی کی افادیت سے آگاہ کر کے گھروں میں اس کے ضیاع سے روکا جائے۔
ستمبر میں شروع ہونے والا بحران نومبر میں اپنے عروج پر ہو گا۔
سیل فون: 0346-4527997
دنیا کے دو بڑے ممالک امریکا اور چین جن کا عالمی ماحولیات کو تباہ کرنے میں سب سے بڑا حصہ ہے دونوں نے عالمی حدت پر قابو پانے کے لیے پیرس معاہدے کی منظوری دے دی ہے، اس جی 20 اجلاس میں جو چین کے شہر ہانگ زو میں منعقد ہوا۔ واضح رہے کہ عالمی حدت میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ عالمی سطح پر کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں اضافہ ہے۔
اس وقت دنیا میں عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں کا سبب بننے والی گیس کاربن کا اخراج سب سے زیادہ چین میں ہوتا ہے جب کہ امریکا اور چین کی جانب سے مجموعی طور پر 40 فیصد کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کا اخراج کیا جاتا ہے۔ چین کی طرف سے معاہدے کی توثیق کے اعلان سے معاہدے کی توثیق کرنے والے ممالک کی تعداد 23 ہو گئی ہے۔ ان ممالک کا مضر گیسوں کے اخراج میں حصہ صرف ایک فیصد کے لگ بھگ ہے جب کہ دو ممالک چین اور امریکا کا حصہ چالیس فیصد سے زائد ہے۔ چین کی جانب سے اس اعلان کے بعد وہائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ یہ اعلان صدر بارک اوباما اور چینی صدر شی کے دور حکومت کا ایک اہم سنگ میل ہے اور عالمی سطح پر ماحولیات کے حوالے سے دونوں صدور کی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ پیرس معاہدہ اس کو عملی جامہ پہنانے کی جانب ایک اہم قدم ہے۔
پیرس میں طے پانے والے اس پہلے جامع ماحولیاتی معاہدے پر اس وقت تک قانونی طور پر عملدرآمد شروع نہیں ہو سکتا جب تک عالمی سطح پر 55 فیصد کاربن کے اخراج کے ذمے دار ممالک اس کی توثیق نہیں کر دیتے۔اس موقع پر چین کے اس اقدام کا خیرمقدم کرتے ہوئے امریکی صدر اوباما نے کہا کہ آخرکار وہ لمحہ آ پہنچا ہے جب ہم نے فیصلہ کیا کہ اس کرۂ ارض کو ماحولیاتی آلودگی سے محفوظ کیا جائے۔ چین کی طرف سے اس ڈیل کی منظوری کے بعد غریب ملکوں کو ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کے لیے کھربوں ڈالر کی مدد دی جا سکے گی۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب میں پرامید ہوں کہ اس معاہدے پر عملدرآمد موجودہ سال کے آخر سے شروع ہو جائے گا۔ اس معاہدے پر تبصرہ کرتے ہوئے گرین سپیس کے پالیسی ایڈوائزر اور ماحولیاتی تنظیموں نے کہا کہ امریکا اور چین کی طرف سے کرہ ارض کے درجہ حرارت میں دو ڈگری کمی کافی نہیں، انھیں یہاں رکنا نہیں چاہیے بلکہ درجہ حرارت میں مزید کمی کے لیے اور بھی اقدامات اٹھانے چاہئیں۔
پیرس معاہدے پر عملدرآمد خوش آیند سہی لیکن سائنسدانوں، ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ کرہ ارض کے شمالی منطقے میں درجہ حرارت میں جتنا اضافہ ہوا ہے گزشتہ پندرہ سو برس میں نہیں ہوا یعنی صنعتی ترقی کی دوڑ میں انسانوں نے اپنی دنیا کو دونوں ہاتھوں اور اپنی دماغی صلاحیتوں سے اس طرح تباہ کر دیا ہے کہ اس تباہی کا ازالہ کرنا ایک معجزہ ہی ہو گا۔ جس بڑے پیمانے پر پچھلی کئی دہائیوں سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج ہو رہا ہے اس کے اثرات ماحولیات پر آیندہ ایک ہزار سال تک رہنے کا امکان ہے۔
ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کا عمل دو سال پہلے لگائے گئے اندازوں اور اعداد وشمار سے کہیں زیادہ ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر نقصان دہ گیسوں کے اخراج پر کسی نہ کسی طرح قابو پا بھی لیا جائے تو بھی دنیا میں قدرتی آفات کا امکان کم نہیں ہو گا کہ جنگلی حیات کی نصف سے زیادہ پناہ گاہیں اور اہم جنگلات تباہ ہونے سے چالیس کروڑ لوگ بھوک کا شکار ہو جائینگے۔
ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بڑھتا ہوا درجہ حرارت دنیا میں تباہ کن طوفانوں کا سبب بن رہا ہے۔ دریاؤں اور سمندری طوفانوں و خشک سالی کے نتیجے میں کروڑوں افراد بے گھر ہو جائینگے جس کے نتیجے میں ہماری زمین ایک ایسی تبدیلی اور خاتمہ دیکھے گی جو اس سے پہلے اس نے 65 کروڑ سال پہلے دیکھا تھا اور وہ ایسی ہولناک تبدیلی تھی جس کے نتیجے میں دیوہیکل ڈائنا ساروں کا خاتمہ ہو گیا تھا۔ درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ کارخانوں، گاڑیوں، جہازوں، فیکٹریوں اور گھروں میں جلنے والے ایندھن سے خارج ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کا سب سے بڑا کردار ہے۔
اس وقت زہریلی گیس کا سب سے زیادہ اخراج سعودی عرب میں ہو رہا ہے جب کہ سب سے کم سویڈن میں ہے جس کے باعث وہ دنیا کا شفاف ترین آب وہوا رکھنے والا ملک قرار پایا ہے۔ اس حوالے سے یہ بات بھی انتہائی توجہ کے لائق ہے کہ اس دنیا کے باسی سالانہ 27 لاکھ ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ زہریلی گیس فضا کی طرف روانہ کر رہے ہیں جس کی فی منٹ یومیہ مقدار 2400 ٹن بنتی ہے۔ بہت تھوڑے لوگوں کے علاوہ دنیا کی مجموعی آبادی ان ہولناک حقائق سے بے خبر ہے۔ ہم تو بے خبری میں اپنے اوپر ظلم کر ہی رہے ہیں لیکن ہماری آنیوالی نسلیں ماحولیاتی تباہی کو کس طرح بھگتیں گی اس کا تصور بھی لرزا دینے والا ہے۔ گلیشیئر پگھلیں گے، شہر ڈوبیں گے، بے وقت کی بارشیں زراعت کو تباہ کر دیں گی۔
نتیجہ بھوک اور خشک سالی۔ گرم علاقوں میں سردی پڑیگی اور سرد علاقے گرمی کا شکار ہو جائینگے۔ زہریلی گیس فضا میں آکسیجن کی مقدار کم کر دیگی جس کے نتیجے میں لوگ بڑے پیمانے پر دماغی اور نفسیاتی عوارض کا شکار ہو جائینگے، جھگڑوں، قتل و غارت میں اضافہ ہو گا، بے چینی، خوف، دباؤ کے نتیجے میں بلڈپریشر، شوگر، ہارٹ اٹیک، کینسر اور دیگر خطرناک بیماریوں سے بہت کم لوگ بچ سکیں گے، دنیا کے لیے امن کتنا ضروری ہے کہ جنگیں، بارود، ایٹمی تجربات سے فضا مزید زہر آلود ہوتی جا رہی ہے۔ ماحولیاتی بگاڑ کی وجہ سے پیدا ہونے والی قدرتی آفات سے نقصان صرف 2010ء میں 235 بلین ڈالر ہو چکا ہے۔
افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کا ماحولیاتی بگاڑ میں بہت کم حصہ ہے اس کے باوجود ماحولیاتی بگاڑ سے متاثر ہونیوالے ممالک میں آٹھویں نمبر پر ہے۔ دنیا میں انتہائی ضروری ہے کہ فوری طور پر ماحولیاتی بگاڑ کو نصاب میں شامل کر لیا جائے تا کہ اسکول، کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر طالبعلم اس سے آگاہی حاصل کر سکیں۔ پاکستان میں میٹھا پانی جو پینے کے لیے استعمال ہوتا ہے اس کے ذخائر خطرناک حد تک کم رہ گئے ہیں۔ ضروری ہے کہ عوام خاص طور پر بچوں اور عورتوں کو میٹھے پانی کی افادیت سے آگاہ کر کے گھروں میں اس کے ضیاع سے روکا جائے۔
ستمبر میں شروع ہونے والا بحران نومبر میں اپنے عروج پر ہو گا۔
سیل فون: 0346-4527997