بچے ہمارے عہد کے چالاک ہوگئے
پروین شاکر کا یہ مصرعہ گائے اور بکروں جیسے بے زبان جانوروں نے تو سنا ہی نہ ہوگا۔
لاہور:
پروین شاکر کا یہ مصرعہ گائے اور بکروں جیسے بے زبان جانوروں نے تو سنا ہی نہ ہوگا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ حیدرآباد کے تین لڑکوں نے بھی نہ سنا ہو۔ کم عمر بچوں نے منفی ذہانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے راہ چلتی ہوئی گائے کو قابو کیا۔ وہ گائے جو اپنی ساتھیوں یا مالک کو چھوڑ کر سڑک پر نکل آئے تھی، تین حیدرآبادی لڑکوں نے گائے کو اٹھارہ ہزار روپے میں بیچ دیا۔ فی کس چھ ہزار روپے۔ وہ رقم جو برابر برابر تقسیم ہوگئی۔
نہ جھگڑا اور نہ تماشا۔ پہلا خریدار کم عقل ثابت ہوا۔ اس نے چوری کی گائے بیس ہزار روپے میں فروخت کردی۔ دوسرا آدمی عقل مند نکلا کہ اس نے وہی گائے نو ہزار روپے منافع میں آگے بیچ دی۔ حیرت انگیز طور پر سب کے سب پولیس کے ہاتھوں دھر لیے گئے۔ خبر یوں بھی انوکھی ہے کہ بارہ تیرہ سال کے بظاہر معصوم لڑکوں نے چوری کی اور چالاکی دکھائی تو دوسری طرف بظاہر پولیس نے عقل مندی بھی دکھائی اور نیک نامی بھی کمائی۔ راجہ بازار کے تھانے میں سب کو بلوایا گیا اور جس کا جو مال تھا وہ اس کے حوالے کیا گیا، گائے والے کو گائے مل گئی اور رقم لگانے والوں کو ان کی رقم واپس مل گئی۔ پورے معاملے میں تین لڑکے بدنام ہوئے۔
پولیس نے نوجوانوں کو والدین کے ہمراہ تھانے بلاکر کچھ دیر اپنا مہمان رکھا، یوں تینوں لڑکوں کے لیے کھیل ختم پیسہ ہضم کی سی کیفیت پیدا ہوگئی اور وہ ہاتھ ملتے رہ گئے۔ انھوں نے ''کھایا پیا کچھ نہیں، گلاس توڑا بارہ آنے'' والی بات شاید سن رکھی ہو۔ تینوں لڑکوں نے پروین شاکر کے شعر کا پہلا مصرعہ تو بالکل ہی نہیں سنا ہوگا۔ شاعرہ تو جگنو کو دن میں پرکھنے کی ضد کرنے والے بچوں کو چالاک کہہ رہی ہیں، یہ الگ بات ہے کہ ''ایکسپریس'' کے نمایندے نے گائے کی چوری کرنے والے تین کم عمر لڑکوں کو چالاک کہا ہے۔ نو ہزار اور دو ہزار وقتی طور پر کمانے والے دونوں آدمی بھی نو دو گیارہ ہوگئے۔
چالاک لڑکے یعنی مجرمانہ ذہن رکھنے والے نوجوان۔ جی بالکل مجرمانہ ذہن والے ایسے ہی بچے آگے چل کر بڑے مجرم بنتے ہیں۔ کم حوصلہ ہوں تو چوریاں کرتے ہیں اور اگر کچھ حوصلہ مند ہوا تو ڈاکے مارتے ہیں۔
کچھ پڑھ لکھ جاتے ہیں تو وائٹ کالر کرائم میں ملوث ہوجاتے ہیں۔ چھوٹے ذہن کے بزدل ہوں تو چوری کا مال خریدتے ہیں۔ عیار اور منافق ہوں تو بھائی بہنوں کا حق مارلیتے ہیں۔ بے شرم ہوں تو پڑوسیوں اور دیگر کاروباریوں کو دھوکا دیتے ہیں۔ بے شرمی انتہا تک پہنچ جائے تو ڈاکا مارنے کے دوران قتل کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔
میاں بیوی پارک میں اپنے تین بیٹوں کے ساتھ تفریح کررہے تھے، بلکہ یوں سمجھیں کہ اپنے بچوں کو کرکٹ کھیلتے دیکھ رہے تھے، ایک بھائی بولنگ کر رہا تھا تو دوسرا فیلڈنگ تو تیسرا بیٹنگ کر رہا تھا۔ پارک کا ایک چکر چھ منٹ میں لگتا ہے، دوسرے چکر پر بھی سب سے چھوٹا لڑکا بیٹنگ کر رہا تھا۔ وہ آؤٹ ہونے پر بھی آؤٹ نہیں دے رہا تھا۔ دونوں بھائی اپنے لاڈلے بھائی اور والدین کو بے بسی سے دیکھ رہے تھے۔
لڑکے سے کہا کہ آپ آؤٹ ہوگئے ہو بیٹا۔ باری ختم، یہ جملہ سننے پر باپ کھسیانا ہوکر کہنے لگا کہ یہ آؤٹ نہیں مان رہا۔ ''یہ آپ کی شہ پر بلا تھامے مسلسل بیٹنگ کررہا ہے، اس طرح تو یہ کل آپ کے چھوڑے ہوئے مال و دولت پر قبضہ کرکے دوسرے بھائی بہنوں کو محروم کردے گا''۔ چلتے چلتے مختصر جملے نے آدمی کو چونکادیا۔ تیسرے چکر پر دیکھا تو دوسرا بیٹا بیٹنگ کر رہا تھا۔ ایسی ہی ملتی جلتی بات اس دادا کو کہی جو اپنے پوتے پوتی کے کھیل میں فیلڈنگ کر رہا تھا۔ لڑکا بیٹ تھامے مسلسل لڑکی سے بالنگ کروا رہا تھا۔ ایک چکر کے بعد تو اتفاق ہوسکتا ہے کہ چھ منٹ تک ایک بیٹسمین بیٹنگ کرے، اگر بارہ منٹ سے ایک ہی بندہ بلا تھامے ہوئے ہے تو دوسرے کی باری کب آئے گی۔
عصر سے مغرب کے درمیان بمشکل ایک گھنٹہ ہوتا ہے ''آج چھوٹا ہے تو بہن کا چھوٹا حق مار رہا ہے جب کل بڑا ہوگا تو بڑا حق مارے گا''۔ معاشرے کے ایسے لالچی اور خودغرض بچے کل کے کرپٹ لوگ ہیں، اگر انھیں موقع ملے گا تو بلدیہ میں گھپلا کریںگے اور اگر چانس ملے گا تو تعلیم اور صحت کے شعبوں سے مال بنائیںگے۔ اگر ان کا زور لگا تو ذخیرہ اندوزی یا ملاوٹ یا مصنوعی مہنگائی کرکے دولت بٹوریںگے، موقع ملا تو ملکی سودے میں یا سفارتی محاذ پر گل کھلائیں گے۔ قسمت نے ساتھ دیا تو درآمد برآمد میں سرکاری افسروں سے مل کر بہتی گنگا سے ہاتھ دھوئیںگے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ آج کے بچوں کو ممکنہ حد تک ایسی چھوٹی موٹی بے ایمانیوں اور بدمعاشیوں سے روکا جائے، ورنہ کل جب وہ بڑے اور ہم بوڑھے ہوجائیںگے تو ہمیں ان کی نت نئی اور انوکھی بدمعاشیوں سے واسطہ پڑے گا۔
کم عمر لڑکوں کا ڈرائیونگ کرنا بھی ایک قسم کی بدمعاشی ہے، اسکوٹر یا کار دوڑاتے بچے اس کے اتنے ذمے دار نہیں ہوتے جتنے کہ بڑے ہوتے ہیں۔ عموماً یہ کام وہ لڑکے کرتے دکھائی دیتے ہیں جو کئی بہنوں کے بعد پیدا ہوتے ہیں یا ان کے والد نے بڑی عمر میں شادی کی ہوتی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کا اچھا خاصا وقت ضایع ہوچکا ہے۔ دیر سے اولاد ہونے والوں کے لڑکے بھی گاڑیاں چلاتے دکھائی دیتے ہیں۔ تدبیر یا تقدیر کے سبب ضایع ہونے والے وقت کی تلافی کم عمر بچوں کو گاڑی سونپ کر کی جاتی ہے۔ غربت کی دنیا سے امیری کی چکاچوند میں داخل ہونے والے نو دولتیے بھی کم عمر لڑکوں کو گاڑی سونپ کر اتراتے دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے بچے آگے چل کر وہ کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو قبل از وقت ہوتا ہے، وہ بے ایمانی جس میں تھوڑی بہادری اور تھوڑی بے قاعدگی درکار ہو۔
ماجد جہانگیر خان پاکستان کرکٹ کا وہ ستارا تھے جو وکٹ کیپر یا سلپ کے فیلڈرز کے ہاتھوں کیچ آؤٹ ہونے پر بغیر پیچھے دیکھے پویلین کی جانب چل پڑتے۔ کم ٹیکنالوجی کے دور میں وہ امپائر کے انگلی اٹھانے سے پہلے اپنے آپ کو آؤٹ قرار دیتے۔ ماجد جانتے تھے کہ بلے نے گیند کا کنارا چھولیا ہے اور وہ کلین بولڈ ہوگئے ہیں۔
اسی طرح آصف اقبال نے ایک مرتبہ یوں کیچ پکڑا کہ امپائر کے لیے فیصلہ دینا مشکل ہوتا کہ وہ گیند کی جانب جھک گئے تھے۔ گیند ان کے ہاتھوں میں تھی لیکن امپائر کا فیصلہ دینے سے پہلے انھوں نے نفی کا اشارہ دیا۔ اس کا مطلب تھا کہ بیٹسمین آؤٹ نہیں کہ گیند ان کے ہاتھ سے چھوٹ گئی ہے۔ آج کے دور میں گلیوں میں کرکٹ کھیلنے والوں کو لکڑی یا لوہے کی تیار شدہ وکٹیں دستیاب ہیں، ہمارے زمانے میں دو پتھر رکھ کر وکٹ بنائی جاتی تھی۔ بالر کہتا کہ آؤٹ ہے اور بلے باز کہتا کہ گیند اوپر سے گئی ہے یا برابر سے گئی ہے۔ بظاہر سہولتوں نے بے ایمانی کے راستے کم کردیے ہیں لیکن پھر بھی کرپشن بڑھ رہی ہے۔ وجہ کیا ہے؟
کرپشن یا بگاڑ کے بڑھنے کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے بے ایمانی کو فنکاری کا نام دیا ہے۔ جائز یا ناجائز ذرایع سے مال و دولت کمانے والے آج کے کامیاب انسان ہیں۔ ایمان داری کی مالا جپنے یا پیچھے رہ جانے والوں کو نکھٹو، نکما کہا جاتا ہے۔ معاشرہ کامیاب ڈاکو، چالاک چور، ڈھیٹ رشوت خور اور عقل مند اٹھائی گیرے کو بڑی حسرت سے دیکھتا ہے۔ اگر یہ چالاکیاں اور چوریاں بارہ تیرہ سال کے لڑکے کریں تو ہم طنز تو کرجاتے ہیں لیکن پھر بھی کہتے یہی ہیں کہ ''بچے ہمارے عہد کے چالاک ہوگئے''۔