آسیہ حبا مروہ رمشا… سنہرا مستقبل

ملک اندھیروں میں گھرا ہوا ہے۔ ہر صبح میری صبح پہ روتی ہے۔

SIALKOT/GUJRANWALA/MULTAN:
ملک اندھیروں میں گھرا ہوا ہے۔ ہر صبح میری صبح پہ روتی ہے۔ اور رات، رات بھر میرے ساتھ آنسو بہاتی ہے۔ ایسے گمبھیر حالات میں ایک خوشیوں بھری لہر اٹھی اور دکھی دلوں کو سیراب کرگئی۔ اندھیرے جیسے چھٹ سے گئے ''آنسو تھم سے گئے''، وہ صبح جس کا انتظار ہے، لگا! جیسے ہونے کو ہے، گولیوں کی سنسناہٹ، گیس کا دھواں، بارود کی بو، خون میں لتھڑے لاشے، دوڑتی ایمبولینسیں، مردہ باد، زندہ باد، گوگو کے نعرے۔ یہ سب منظر یہ سب آوازیں یک دم سب کچھ بدل گیا۔ اور مونس و ہمدم بن کر چند مسکراتی پریاں ماحول پر چھا گئیں۔

بادل تھے، ٹھنڈی ہوائیں تھیں، پھوار تھی اور ایسے میں ''یہ دوست کی آواز کہاں سے آئی '' کوئی کہہ رہا تھا ''یہ ہیں آسیہ خالد، شیرشاہ کراچی کے پان شاپ کے مالک خالد محمود کی بیٹی۔ اس ہونہار بیٹی نے انٹرمیڈیٹ سائنس گروپ میں سب سے زیادہ نمبر لے کر پہلی پوزیشن حاصل کی ہے۔ آسیہ خالد جیسی بیٹی کا باپ پان فروش خالد محمود کس درجہ خوش نصیب ہے کہ آسیہ نے اس کا دامن علم کی دولت سے بھردیا۔ خالد محمود صاحب سے زیادہ امیر کون ہوگا! کوئی نہیں کوئی نہیں۔

میں بھی سوچ رہا ہوں، یقیناً آپ بھی سوچ رہے ہیں ہوں گے کہ گھر میں نامساعد حالات اور آسیہ بیٹی کا پڑھنے کا طریقہ! یہ سب کیسے ہوا۔ مگر ایسا ہوتا رہا ہے۔ ماضی کے بہت سے بے مثال بچے ہیں اور خوش نصیب ماں باپ ہیں جنھیں یہ مقام نصیب ہوئے۔ یہی وہ بچے ہیں جو زمانے کو بتاتے ہیں کہ ''حالات کیسے بھی ہوں، ہمت نہیں ہارنا چاہیے''۔ ان بے مثل بچوں کے والدین بھی معاشرے کے لیے قابل فخر ہیں۔ یہی بچے ہیں، یہی والدین ہیں جنھیں دیکھ کر جینے کا حوصلہ ملتا ہے۔ یہی بچے بتا دیتے ہیں کہ ''امید صبح رکھو اور قدم بڑھائے چلو'' یہی تو وہ سنہرے بچے ہیں جو پورے سماج کو پیغام دیتے ہیں کہ:

رستہ کہیں سورج کا کوئی روک سکا ہے
ہوتی ہے کہاں رات کے زنداں میں سحر بند

کتنے بے کیف دن رات گزر رہے تھے۔ چاروں طرف سے بری ہی خبریں آرہی تھیں کیا اپنے کیا پرائے کیا دوست کیا دشمن کمی کسی نے نہیں کی کہ ان غریب گھرانوں کی بچیوں نے اپنے عمل سے آواز لگائی دیکھو دیکھو! ہوا سویرا۔

آسیہ خالد جیسی ہی دو بچیاں اور ہیں جنھوں نے اول آنے والی آسیہ خالد سے صرف ایک نمبر کم لیا ہے اور یوں یہ دونوں بچیاں انٹرمیڈیٹ ایوارڈ میں دوسرے نمبر پر فائز ہوئی ہیں۔ یہ بچیاں ہیں حبا خالد اور مروہ تنویر۔ ایک نمبر کا فرق ہوتا ہی کیا ہے۔ یوں یہ دوئم درجے والی بچیاں بھی ''اول درجے'' والی ہی ہیں۔ حبا کے والد فرنیچر کے کاروبار سے منسلک ہیں۔ حبا کی بڑی بہن نے بھی انٹربورڈ میں چوتھی پوزیشن حاصل کی تھی اور یہ سال تھا 2008۔ اب آٹھ سال بعد حبا چوتھی پوزیشن کو دوسری پوزیشن پر لے آئی ہے۔ گویا ذہانت اور تعلیم حبا کے گھر میں پہلے سے موجود تھی۔


انٹرمیڈیٹ بورڈ میں دوسری پوزیشن حاصل کرنے والی ایک اور طالبہ مروہ تنویر ہیں۔ ان کے والد 2001 میں اچانک انتقال کرگئے۔ باپ کے بعد باہمت ماں نے باپ بن کر بچوں کی ذمے داریاں سنبھال لیں۔ بغیر باپ کے گھر کیسے چلتے ہیں، یہ وہ لوگ خوب سمجھ سکتے ہیں جو ان حالات سے گزرے ہوں۔

مروہ اپنی نمایاں کامیابی کا سبب اپنی والدہ اور ساتھ دینے والے عزیز و اقارب کو ٹھہراتی ہیں، ساتھ ساتھ وہ طلبا و طالبات کو مشورہ دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ ''رٹا لگانے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا، سبق کو سمجھ کر پڑھنا چاہیے''۔ مروہ نے اپنی تعلیم کے ساتھ ساتھ دوسرے بچوں کو ٹیوشن پڑھانے کا سلسلہ بھی جاری رکھا اور تعلیمی اخراجات میں اپنی والدہ کا ہاتھ بٹایا۔ مروہ نے لوڈ شیڈنگ کا ذکر بھی کیا اور یہ بھی کہا کہ محنت کش، مزدور طبقہ مہنگی تعلیم حاصل نہیں کرسکتا لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ سرکاری اسکولوں اور کالجوں کی حالت زار پر توجہ دیتے ہوئے انھیں بہتر بنائے۔

انٹربورڈ میں تیسری پوزیشن رمشا عمران نے حاصل کی ہے۔ رمشا کے والد فرنیچر پر پالش کرنے کے کاریگر ہیں۔ مگر انھوں نے بچوں کی تعلیم پر ہمیشہ توجہ رکھی۔ رمشا نے میٹرک میں بھی 88 فیصد نمبر حاصل کیے تھے۔ ایک غریب گھرانے کی بچی تعلیمی میدان میں اپنی محنت اور ذہانت سے آگے بڑھتی رہی ہے۔ رمشا آج بھی اپنے گھر کے نامساعد حالات کے باوجود پرعزم ہے اور آیندہ بھی تعلیمی میدان میں معرکے سر کرنے کا پکا عہد کیے ہوئے ہے۔

انٹرسائنس میں اعلیٰ پوزیشن حاصل کرنے والی بچیاں مستقبل میں ایم بی بی ایس کرکے ڈاکٹر بننا چاہتی ہیں۔ آسیہ خالد، حبا خالد، مروہ تنویر اور رمشا عمران یہاں تک تو آگئیں۔ اب ان کی ذہانتوں کا فائدہ حاصل کرنا اور یوں ان کی تعلیمی میدان میں معاونت و سرپرستی کرنا ہم سب پر لازم ہے۔ یہ ذہین طلبا و طالبات ہمارا روشن مستقبل ہیں ان چراغوں کو ہم نے جلائے رکھنا ہے کیونکہ ''یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی''۔

تعلیم کا ہمارے وطن میں جو برا حال ہے وہ سب پر عیاں ہے۔ ہمارے سرکاری اسکول خستہ حالی کا شکار ہیں۔ ہمارے سرکاری اسکولوں میں جانور بندھے ہوئے ہیں، وڈیروں، چوہدریوں کے ڈیرے قائم ہیں اور ہمارے بچے باغ (آزاد کشمیر) سے لے کر کشمور تک کھلے میدانوں میں بغیر چھت کے زمین پر بیٹھ کر پڑھ رہے ہیں، یہ مناظر حکمران بھی دیکھتے ہیں اور میرا جی چاہ رہا ہے کہ اس وقت میں ایک وفاقی وزیر کا لہجہ اختیار کرتے ہوئے کہوں ''اوئے کوئی شرم کرو، حیا کرو''۔

چھوٹے شہروں، قصبوں، دیہاتوں کا ذکر تو رہنے دیں، ہمارے بڑے شہروں میں بچے گلیوں میں ''رُل'' رہے ہیں ، موٹر مکینکوں کی جھڑکیں کھا رہے ہیں، گھروں میں جھاڑو پوچا لگا رہے ہیں، کوڑے کے ڈھیروں میں رزق تلاش کر رہے ہیں۔

میں عرض کروں گا حکومتوں کو چھوڑو اور اہل دل لوگوں سے میری اپیل ہوگی کہ اجڑے اسکولوں کو مل جل کر گود لے لیں۔ جہاں غریبوں کے بچے موٹر مکینکوں کے پاس جانے کے بجائے اسکول آئیں انھیں یونیفارم، کتابیں، کاپیاں مفت فراہم کیے جائیں۔ میرے علم میں ہے بہت سے دردمند دل رکھنے والے یہ کام کر بھی رہے ہیں مگر ابھی اس میدان میں بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔
Load Next Story