پہلے تین تھیسس آخری حصہ
جدلیاتی مادیت کا تقاضا ہے کہ تھیوری کو تبدیلی کے عمل سے جوڑکر تشکیل دیا جائے۔
LAYYAH:
لہٰذا جدلیاتی مادیت کا تقاضا ہے کہ تھیوری کو تبدیلی کے عمل سے جوڑکر تشکیل دیا جائے ۔ تھیوری کو اس عمل (پریکٹس)کی تفہیم کرائی ہے جو بہ یک وقت ایک فعلیت بھی ہے اور عمل بھی! فلسفی کا فرض یہ ہے کہ وہ فلسفیانہ فعلیت کو اس عملی فعلیت سے الگ نہ کرے، کیونکہ اگر وہ ایسا کرتا ہے تو وہ مادیت پسند یا عینیت پسند توکہلا سکتا ہے، مگر اس کا مادی جدلیات سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔
ان گیارہ تھیسس میں' عمل' (پریکٹس) کا لفظ صرف آخری تھیسس میں استعمال نہیں ہوا ہے۔ باقی تمام تھیسس میں 'عمل' کے لفظ کا کثرت سے استعمال ہوا ہے، اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ 'انقلابی'، فعلیت، 'خود کی تبدیلی' جیسے تصورات 'عمل' سے وابستہ ہیں۔ لہٰذا ہمیں ان گیارہ تھیسس کے مطالعے سے ہی انقلابی تبدیلی کے عمل کی تفہیم کرنی ہے۔ انقلابی تبدیلی کا وہ تصور کہ جس کے تحت کوئی ''انقلابی جماعت'' کروڑوں لوگوں کی نمایندہ بن کر ان کے حقوق کا تحفظ کرتی ہے، مارکس کے ان تھیسس میں موجود نہیں ہے۔لہذا انقلابی عمل، حقیقت میں، خود کی تبدیلی اور سماج کی تبدیلی کا عمل ہے۔
تیسرا تھیسس کچھ یوں ہے۔
''حالات کی تبدیلی اور تربیت کے تعلق سے مادیت پسندی کے اس اصول میں کہ انسان حالات کی پیداوار ہوتے ہیں، میں اس بات کو فراموش کردیا جاتا ہے کہ انسان ہی حالات کو تبدیل کرتے ہیں اور تعلیم دینے والے پر بھی لازم ہے کہ وہ تعلیم حاصل کرے۔ یہ اصول لازمی طور پر سماج کو دو حصوں میں تقسیم کردیتا ہے ، جس میں ایک کو دوسرے پر فوقیت حاصل ہوتی ہے۔''
اس تیسرے تھیسس میں دو اہم باتیں کی گئیں ہیں اور دونوں ہی میں جدلیاتی عمل کوملحوظ خاطر رکھا گیا ہے۔ مادیت پسندی کے مطابق انسان حالات کی پیداوار ہوتے ہیں، اگر صرف اسی کو مکمل بات سمجھ لیا جائے تو یہ جدلیات نہیں بلکہ مابعد الطبیعات کہلائے گی۔ کیونکہ جدلیاتی سچ یکطرفہ نہیں ہوتا، بلکہ اس سچ کا الٹ بھی سچ ہی ہوتا ہے۔یہاں 'الٹ' سے مراد یہ ہے کہ یہ درست ہے کہ انسان حالات کی پیداوار ہیں، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ خود حالات انسان کی پیداوار ہیں۔تھوڑا سا غورکرنے سے یہ نکتہ عیاں ہوجاتا ہے، لہذا سرسری طور پر نظر ڈالنے سے جو بات یکطرفہ دکھائی دیتی ہے، غورکرنے پر اس کی جدلیاتی اہمیت واضح ہوجاتی ہے۔اسی طرح تعلیم دینا اور تعلیم دینے کے عمل سے اکتساب کرنا ہی جدلیاتی سچ ہے۔
کوئی شخص خواہ کتنا ہی بڑا انقلابی کیوں نہ ہو، وہ محنت کشوں کی جدوجہد کو محض ان نتائج کے مطابق نہیں ڈھال سکتا جو بذات خود کسی جدوجہد کے نتیجے میں تشکیل پاتے ہیں۔سماج میں محنت کشوں کی جدوجہد اورانقلابی رہنما کی رہنمائی کے درمیان جدلیاتی تعلق موجود رہتا ہے۔ کوئی ایسا انقلابی نہیں ہے جو محض اپنی خواہشات کے مطابق جدوجہد کا رخ متعین کرسکے۔
جدوجہد کے دوران میں محنت کشوں کا شعور کس سطح پر تشکیل پا رہا ہے، اسے جاننا کسی بھی انقلابی رہنما کے لیے لازمی ہے۔ محنت کشوں کی جدوجہد کے دوران میں ان کے شعور کی سطح کو جاننا، خود کو اس کے مطابق ڈھال کر اس کے اندر سے مزید جدوجہد کی لازمیت کو دریافت کرنا ایک ایسا عمل ہے جس کا اکتساب ہر انقلابی رہنما کو لازمی کرنا چاہیے۔
تیسرے تھیسس میں مارکس نے 'انسانی فعلیت' کو'خود کی تبدیلی' ہی کا متبادل سمجھا ہے اور خود کی تبدیلی 'عمل' سے ہوتی ہے۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ عمل، فعلیت یا خود کی تبدیلی کے انقلابی مفہوم کی تشریح کیسے کی جائے؟ کیا انقلابی کا تصور عمل، فعلیت یا خود کی تبدیلی سے الگ کہیں موجود ہے؟ ایسا ہرگز نہیں ہے! مارکسی فلسفے میں کوئی ایک مقولہ یا تصور کسی دوسرے مقولے یا تصور سے حتمی طور پر علیحدہ نہیں ہے۔ یہ سب ایک دوسرے سے داخلی وخارجی سطح پر جڑے ہوئے ہیں اور مسلسل حرکت اور تبدیلی کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ یہ ایک ایسابنیادی پہلو ہے جو مارکس کو ہیگل سے جوڑتاہے اور جس کا فیورباخ کے فلسفے میں فقدان تھا۔
عمل، فعلیت، خود کی تبدیلی، انقلابی جیسے تصورات باہم مربوط ہیں۔ ان کو قدرے واضح صورت میں مارکس نے ''1844 کے معاشی اور فلسفیانہ مسودات'' میں انسان اور فطرت کے درمیان تعلق کی نوعیت کا تجزیہ کرتے ہوئے پیش کیا تھا۔ مارکس کے خیال میں انسان فطرت پر عمل آرا ہوکر اسے سماج میں تبدیل کرتا ہے اور اس عمل کے دوران میں خود بھی تبدیل ہوتا ہے۔ اس تناظر میں مسلسل پیداوارکا عمل ہی سماج اور انسان کی تبدیلی کا عمل ہے۔ یہیں سے نظریے اورعمل کی وحدت کا تصور ابھرتا ہے۔ مارکسی فلسفے میں تھیوری یا فلسفے کو انقلابیت سے ہمکنارکرنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ نظریہ یا فلسفہ اس تبدیلی کے عمل کو جانے اور سمجھے جو ایک ہی وقت میں انسان ، سماج اور نظریے کی تبدیلی کا 'انقلابی 'عمل بھی ہے۔
اس حوالے سے نظریے کی تشکیل بھی اسی سماجی فعلیت کا حصہ ہے۔ نظریے کی تشکیل کا عمل حقیقت میں تبدیلی ہی کا عمل ہے، کیونکہ نظریے میں اس تبدیلی کے عمل کو جانا جاتا ہے اور تبدیلی کو جاننا نظریے کو انقلابی نظریے میں بدلنے کے مترادف ہے۔ جدلیاتی مادیت کا خاصہ ہی یہ ہے کہ اس میں عمل اور نظریہ ایک دوسرے میں موجود ہوتے ہیں، یعنی ان میں کوئی حتمی علیحدگی نہیں ہوتی ہے۔ سماجی تبدیلی جو عمل کے ذریعے ممکن ہوتی ہے، وہی نظریے کی صورت میں متشکل ہوتی ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے کہ جہاں مارکس کا راستہ تمام مغربی فلسفے سے الگ ہوجاتا ہے۔
ذہن نشین رہے کہ مارکس فلسفے کو مسترد نہیں کرتا،جیسا کہ مارکس کے بعض شارحین دعویٰ کرتے ہیں۔وہ صرف فلسفے کی حدودکو واضح کرکے اس کی مزید اہمیت کو اجاگرکرتا ہے، اگر فلسفہ اس' تبدیلی' کے عمل کو جاننے سے قاصر رہتا ہے جو انسانی فعلیت کا نتیجہ ہے تو فلسفے کے اندر ثنویت کے اس تصورکو ختم نہیں کیا جاسکتا، جس کی نفی پہلے تھیسس میں کی گئی ہے۔
یہی وہ نکتہ ہے جس کی بنیاد پر مارکس نے ہیگل کے فلسفے کو بھی ' ثنویت' کا عکاس کہا تھا۔ یہاں ایک اہم بات ضرور ذہن میں رہنی چاہیے کہ جب فلسفی اس انسانی، فعلیت، انقلابی عمل، سماجی تبدیلی کے عمل کو جانتا ہے تو اس انسانی، سماجی تبدیلی کو اسی طرح جانتا ہے جیسے کہ وہ واقع ہوتی ہے۔اس مفہوم میں فلسفہ کبھی بھی جامد نہیں رہتا، وہ انقلابی سماجی تبدیلی کے عمل سے جڑکر مسلسل تبدیل ہوتا رہتا ہے۔
تاہم اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ فلسفہ تبدیلی کے عمل کا مجہول عکس ہوتا ہے۔ اس فکر کو پہلے ہی تھیسس میں رد کردیا گیا ہے۔ تبدیلی کاعمل نظریے اور عمل کی جدلیات پر قائم ہوتا ہے۔ لہذا پیداواری عمل کی تبدیلی، جو کہ انسانی عملی فعلیت کا نتیجہ ہے، انسان کی تبدیلی جوکہ اس انسانی عملی فعلیت کا لازمی نتیجہ ہے، جب نظریے کی شکل اختیارکرتا ہے تواس نظریے کو بھی انقلابیت سے ہمکنار ہونا پڑتاہے۔ اسی نکتے پر ہمیں عمل اور نظریے کی جدلیات کے مفاہیم کو سمجھنا ہے۔بالکل اسی طرح محنت کشوں کی جدوجہد اور اس جدوجہد اور فلسفے کے درمیان جدلیاتی تعلق عمل اور فلسفے کو تقویت دیتے ہیں۔
لہٰذا جدلیاتی مادیت کا تقاضا ہے کہ تھیوری کو تبدیلی کے عمل سے جوڑکر تشکیل دیا جائے ۔ تھیوری کو اس عمل (پریکٹس)کی تفہیم کرائی ہے جو بہ یک وقت ایک فعلیت بھی ہے اور عمل بھی! فلسفی کا فرض یہ ہے کہ وہ فلسفیانہ فعلیت کو اس عملی فعلیت سے الگ نہ کرے، کیونکہ اگر وہ ایسا کرتا ہے تو وہ مادیت پسند یا عینیت پسند توکہلا سکتا ہے، مگر اس کا مادی جدلیات سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔
ان گیارہ تھیسس میں' عمل' (پریکٹس) کا لفظ صرف آخری تھیسس میں استعمال نہیں ہوا ہے۔ باقی تمام تھیسس میں 'عمل' کے لفظ کا کثرت سے استعمال ہوا ہے، اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ 'انقلابی'، فعلیت، 'خود کی تبدیلی' جیسے تصورات 'عمل' سے وابستہ ہیں۔ لہٰذا ہمیں ان گیارہ تھیسس کے مطالعے سے ہی انقلابی تبدیلی کے عمل کی تفہیم کرنی ہے۔ انقلابی تبدیلی کا وہ تصور کہ جس کے تحت کوئی ''انقلابی جماعت'' کروڑوں لوگوں کی نمایندہ بن کر ان کے حقوق کا تحفظ کرتی ہے، مارکس کے ان تھیسس میں موجود نہیں ہے۔لہذا انقلابی عمل، حقیقت میں، خود کی تبدیلی اور سماج کی تبدیلی کا عمل ہے۔
تیسرا تھیسس کچھ یوں ہے۔
''حالات کی تبدیلی اور تربیت کے تعلق سے مادیت پسندی کے اس اصول میں کہ انسان حالات کی پیداوار ہوتے ہیں، میں اس بات کو فراموش کردیا جاتا ہے کہ انسان ہی حالات کو تبدیل کرتے ہیں اور تعلیم دینے والے پر بھی لازم ہے کہ وہ تعلیم حاصل کرے۔ یہ اصول لازمی طور پر سماج کو دو حصوں میں تقسیم کردیتا ہے ، جس میں ایک کو دوسرے پر فوقیت حاصل ہوتی ہے۔''
اس تیسرے تھیسس میں دو اہم باتیں کی گئیں ہیں اور دونوں ہی میں جدلیاتی عمل کوملحوظ خاطر رکھا گیا ہے۔ مادیت پسندی کے مطابق انسان حالات کی پیداوار ہوتے ہیں، اگر صرف اسی کو مکمل بات سمجھ لیا جائے تو یہ جدلیات نہیں بلکہ مابعد الطبیعات کہلائے گی۔ کیونکہ جدلیاتی سچ یکطرفہ نہیں ہوتا، بلکہ اس سچ کا الٹ بھی سچ ہی ہوتا ہے۔یہاں 'الٹ' سے مراد یہ ہے کہ یہ درست ہے کہ انسان حالات کی پیداوار ہیں، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ خود حالات انسان کی پیداوار ہیں۔تھوڑا سا غورکرنے سے یہ نکتہ عیاں ہوجاتا ہے، لہذا سرسری طور پر نظر ڈالنے سے جو بات یکطرفہ دکھائی دیتی ہے، غورکرنے پر اس کی جدلیاتی اہمیت واضح ہوجاتی ہے۔اسی طرح تعلیم دینا اور تعلیم دینے کے عمل سے اکتساب کرنا ہی جدلیاتی سچ ہے۔
کوئی شخص خواہ کتنا ہی بڑا انقلابی کیوں نہ ہو، وہ محنت کشوں کی جدوجہد کو محض ان نتائج کے مطابق نہیں ڈھال سکتا جو بذات خود کسی جدوجہد کے نتیجے میں تشکیل پاتے ہیں۔سماج میں محنت کشوں کی جدوجہد اورانقلابی رہنما کی رہنمائی کے درمیان جدلیاتی تعلق موجود رہتا ہے۔ کوئی ایسا انقلابی نہیں ہے جو محض اپنی خواہشات کے مطابق جدوجہد کا رخ متعین کرسکے۔
جدوجہد کے دوران میں محنت کشوں کا شعور کس سطح پر تشکیل پا رہا ہے، اسے جاننا کسی بھی انقلابی رہنما کے لیے لازمی ہے۔ محنت کشوں کی جدوجہد کے دوران میں ان کے شعور کی سطح کو جاننا، خود کو اس کے مطابق ڈھال کر اس کے اندر سے مزید جدوجہد کی لازمیت کو دریافت کرنا ایک ایسا عمل ہے جس کا اکتساب ہر انقلابی رہنما کو لازمی کرنا چاہیے۔
تیسرے تھیسس میں مارکس نے 'انسانی فعلیت' کو'خود کی تبدیلی' ہی کا متبادل سمجھا ہے اور خود کی تبدیلی 'عمل' سے ہوتی ہے۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ عمل، فعلیت یا خود کی تبدیلی کے انقلابی مفہوم کی تشریح کیسے کی جائے؟ کیا انقلابی کا تصور عمل، فعلیت یا خود کی تبدیلی سے الگ کہیں موجود ہے؟ ایسا ہرگز نہیں ہے! مارکسی فلسفے میں کوئی ایک مقولہ یا تصور کسی دوسرے مقولے یا تصور سے حتمی طور پر علیحدہ نہیں ہے۔ یہ سب ایک دوسرے سے داخلی وخارجی سطح پر جڑے ہوئے ہیں اور مسلسل حرکت اور تبدیلی کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ یہ ایک ایسابنیادی پہلو ہے جو مارکس کو ہیگل سے جوڑتاہے اور جس کا فیورباخ کے فلسفے میں فقدان تھا۔
عمل، فعلیت، خود کی تبدیلی، انقلابی جیسے تصورات باہم مربوط ہیں۔ ان کو قدرے واضح صورت میں مارکس نے ''1844 کے معاشی اور فلسفیانہ مسودات'' میں انسان اور فطرت کے درمیان تعلق کی نوعیت کا تجزیہ کرتے ہوئے پیش کیا تھا۔ مارکس کے خیال میں انسان فطرت پر عمل آرا ہوکر اسے سماج میں تبدیل کرتا ہے اور اس عمل کے دوران میں خود بھی تبدیل ہوتا ہے۔ اس تناظر میں مسلسل پیداوارکا عمل ہی سماج اور انسان کی تبدیلی کا عمل ہے۔ یہیں سے نظریے اورعمل کی وحدت کا تصور ابھرتا ہے۔ مارکسی فلسفے میں تھیوری یا فلسفے کو انقلابیت سے ہمکنارکرنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ نظریہ یا فلسفہ اس تبدیلی کے عمل کو جانے اور سمجھے جو ایک ہی وقت میں انسان ، سماج اور نظریے کی تبدیلی کا 'انقلابی 'عمل بھی ہے۔
اس حوالے سے نظریے کی تشکیل بھی اسی سماجی فعلیت کا حصہ ہے۔ نظریے کی تشکیل کا عمل حقیقت میں تبدیلی ہی کا عمل ہے، کیونکہ نظریے میں اس تبدیلی کے عمل کو جانا جاتا ہے اور تبدیلی کو جاننا نظریے کو انقلابی نظریے میں بدلنے کے مترادف ہے۔ جدلیاتی مادیت کا خاصہ ہی یہ ہے کہ اس میں عمل اور نظریہ ایک دوسرے میں موجود ہوتے ہیں، یعنی ان میں کوئی حتمی علیحدگی نہیں ہوتی ہے۔ سماجی تبدیلی جو عمل کے ذریعے ممکن ہوتی ہے، وہی نظریے کی صورت میں متشکل ہوتی ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے کہ جہاں مارکس کا راستہ تمام مغربی فلسفے سے الگ ہوجاتا ہے۔
ذہن نشین رہے کہ مارکس فلسفے کو مسترد نہیں کرتا،جیسا کہ مارکس کے بعض شارحین دعویٰ کرتے ہیں۔وہ صرف فلسفے کی حدودکو واضح کرکے اس کی مزید اہمیت کو اجاگرکرتا ہے، اگر فلسفہ اس' تبدیلی' کے عمل کو جاننے سے قاصر رہتا ہے جو انسانی فعلیت کا نتیجہ ہے تو فلسفے کے اندر ثنویت کے اس تصورکو ختم نہیں کیا جاسکتا، جس کی نفی پہلے تھیسس میں کی گئی ہے۔
یہی وہ نکتہ ہے جس کی بنیاد پر مارکس نے ہیگل کے فلسفے کو بھی ' ثنویت' کا عکاس کہا تھا۔ یہاں ایک اہم بات ضرور ذہن میں رہنی چاہیے کہ جب فلسفی اس انسانی، فعلیت، انقلابی عمل، سماجی تبدیلی کے عمل کو جانتا ہے تو اس انسانی، سماجی تبدیلی کو اسی طرح جانتا ہے جیسے کہ وہ واقع ہوتی ہے۔اس مفہوم میں فلسفہ کبھی بھی جامد نہیں رہتا، وہ انقلابی سماجی تبدیلی کے عمل سے جڑکر مسلسل تبدیل ہوتا رہتا ہے۔
تاہم اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ فلسفہ تبدیلی کے عمل کا مجہول عکس ہوتا ہے۔ اس فکر کو پہلے ہی تھیسس میں رد کردیا گیا ہے۔ تبدیلی کاعمل نظریے اور عمل کی جدلیات پر قائم ہوتا ہے۔ لہذا پیداواری عمل کی تبدیلی، جو کہ انسانی عملی فعلیت کا نتیجہ ہے، انسان کی تبدیلی جوکہ اس انسانی عملی فعلیت کا لازمی نتیجہ ہے، جب نظریے کی شکل اختیارکرتا ہے تواس نظریے کو بھی انقلابیت سے ہمکنار ہونا پڑتاہے۔ اسی نکتے پر ہمیں عمل اور نظریے کی جدلیات کے مفاہیم کو سمجھنا ہے۔بالکل اسی طرح محنت کشوں کی جدوجہد اور اس جدوجہد اور فلسفے کے درمیان جدلیاتی تعلق عمل اور فلسفے کو تقویت دیتے ہیں۔