قربانی کا مقصد اُن تمام کاموں سے اجتناب ہے جو اللہ کو ناپسند ہیں
ملت اسلامیہ اوروطن عزیز کے لیے فرقوں کی قربانی دیئے بغیر مسائل حل نہیں ہوں گے
عید الاضحی، مسلمانوں کا عظیم مذہبی تہوار ہے جو ہرسال 10ذوالحجہ کو انتہائی عقیدت و احترام، محبت، خوشی و مسرت، ذوق و شوق، جوش و خروش اور جذبہ ایثار و قربانی کے ساتھ منایا جاتا ہے۔
اس دن مسلمان اللہ کی راہ میں اپنا تن، من، دھن قربان کرنے کے عہد کی تجدید کرتے ہیں اور یہی مسلمانوں کی عید ہوتی ہے۔ ''فلسفہ قربانی کیا ہے؟'' اس حوالے سے ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
قاری زوار بہادر
(مرکزی رہنما جمعیت علماء پاکستان)
اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو جتنی بھی چیزیں عطا فرمائی ہیں، ان کا مقصد اللہ کی رضا کا حصول ہے ۔ ایمان والے اللہ کی راہ میں نماز، روزہ، حج، قربانی غرض کے جو بھی عمل کرتے ہیں اس کا مقصد اللہ کو راضی کرنا ہوتا ہے۔ ہزاروں سال پہلے سیدنا ابراہیمؑ نے عظیم قربانی دی۔ آپؑ کی زندگی امتحانات میں گزری، آخری عمر میں بیٹے کا ملنا، پھر اس کی قربانی کا حکم اور اسے اللہ کی راہ میں قربانی کے لیے پیش کردینا، بہت بڑا متحان تھا ۔ باپ اور بیٹے دونوں نے اپنی جبین نیاز کو اللہ کے دربار میں خم کردیا ۔ جب آنکھوں سے پٹی کھولی توحضرت اسماعیل ؑ زندہ تھے۔
اللہ نے فرمایا کہ آپؑ نے اپنا خواب سچا کردیا۔ ہم محسنین کو ایسے بدلہ دیتے ہیں کہ آپ ؑکی قربانی قبول ہوگئی، رب بھی راضی ہوگیا اور آپؑ کا بیٹا بھی اسی طرح سلامت ہے۔ آگے ارشاد فرمایا : یہ بہت بڑاذبیحہ جو آپؑ کو ہم نے دیا، اسے ہم آگے آنے والوں کے لیے رکھیں گے، یادگار بنا دیں گے۔ سرکار دوعالم ﷺ سے پوچھا گیا کہ قربانی کیا ہے، ارشاد فرمایا کہ یہ میریؐ اور تمہارے باپ حضرت ابراہیم ؑ کی سنت ہے۔ اللہ کریم نے حضرت ابراہیم ؑ کی قربانی ایسی قبول فرمائی ہے کہ صدیاں گزرنے کے باوجود قربانی آج بھی اسی شان و شوکت کے ساتھ ہورہی ہے۔
آپؑ کا یہ عمل اللہ کی بارگاہ میں ایسا مقبول ہوا کہ جب حج کے لیے آواز دی تو وہاں آبادی کا نام و نشان نہیں تھا لیکن وہ آواز دنیا بھر میں ایسی پہنچی کے روحوں نے بھی سنی اور آج لوگ دنیا بھر سے حج کے لیے جاتے ہیں۔ قربانی اگرچہ بہت مہنگی ہوگئی ہے لیکن اس کے باوجود ہر مسلمان کی خواہش ہے کہ وہ قربانی کرے کیونکہ اللہ کے رسولﷺ نے قربانی فرمائی، ہر سال فرمائی بلکہ آخری حج کے موقع پر 100 قربانیاں فرمائیں، 63اپنے دست مبارک سے جبکہ باقی حضرت علی المرتضیؓ نے فرمائیں۔ مدینہ منورہ میں بھی جتنے ایام آپﷺ نے گزارے، اس میں قربانی ادا فرمائی بلکہ دو قربانیاں فرمائیں، ایک اپنی طرف سے اور ایک امت کی طرف سے۔ الحمداللہ! قربانی رضائے الٰہی کے لیے ہے کہ اللہ کی راہ میں خون بہایا جائے۔ ہم نماز میں عہد کرتے ہیںکہ بیشک ہماری نماز، ہماری قربانی،ہمارا جینا ،مرنا سب رب العالمین کے لیے ہے جو سب جہانوں کا پروردگار ہے۔
اس عہد کو مکمل کرنے کے لیے ہر شخص اپنی اپنی توفیق کے مطابق قربانی کرتا ہے، کوئی پورا جانور قربان کرتا ہے تو کوئی قربانی کے لیے حصہ ڈالتا ہے۔ یہ ہمارے بڑوں کی یادگار ہے، اللہ اس سلسلے کو قیامت تک جاری رکھے گا۔ قربانی کی برکت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایسے جانور جن کی قربانی حرام ہے، ان کی اتنی بڑی تعداد نہیں ہوتی لیکن حلال جانور جتنے زیادہ قربان ہوتے ہیں ان کی افزائش نسل اتنی ہی زیادہ ہوتی ہے۔ اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ جو اللہ کی راہ میں قربان ہوگاوہ کبھی ختم نہیں ہوگا، اس کی نسل مٹے گی نہیں بلکہ اس میںمزید اضافہ ہوگا۔ افسوس ہے کہ آج ہم قربانی کے اصل مقصد سے ہٹ چکے ہیں۔
ہم قربانی کرتے ہیں لیکن اس کے فوراََ بعد ہی بھول جاتے ہیں کہ جس رب کو راضی کرنے کیلئے ہم قربانی کررہے ہیں، اس کی ناراضگی والے بہت سارے کام ہم خود کررہے ہیں۔ ہم رضائے الٰہی کے لیے کرتے ہیں، اگر ہم اپنے سارے کام رب کو راضی کرنے کے اسی جذبے سے کریں تو معاملات میں بہتری آسکتی ہے اور ہمارے تمام مسائل حل ہو جائیں گے۔حضرت ابراہیم ؑ کا جس قوم سے واسطہ پڑا وہ ایک جاہل قوم تھی، انہیں بہت سارے دلائل دیے مگر نہیں مانے۔ وہ قوم بت پرست تھی، فرمایا کہ اپنے ہاتھوں سے بت بناتے ہو اور خود ہی ان کی پوجا کرتے ہو، جو نہ تمہیں نفع دے سکتے ہیں نہ نقصان پہنچا سکتے ہیں اور تم انہیں خدا مانتے ہو۔ آج میں دیکھ رہا ہوں کہ اس جدید دور میں بھی صدیوں پرانی سوچ والے لوگ بیٹھے ہیں، جو اس وقت نمرود کے درباری تھے آج بھی اسی طرح کے درباری موجود ہیں۔
ایک شخص فرعون بنا بیٹھا ہے جبکہ باقی سب اس کے حکم کی تعمیل کررہے ہیں، اس کے کہنے پر لوگ قتل بھی کردیے جاتے ہیں اور شہر بھی بند کردیے جاتے ہیں۔ افسوس ہے کہ ہم آج بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں حضرت ابراہیم ؑ نے اللہ کا پیغام شروع کیا اور ہم ایک بھی قدم آگے نہیں بڑھے۔ اگر ہمارے پیش نظر یہ رہے کہ ہم نے اپنے رب کو راضی کرنا ہے ، یہ بندہ اگر غلط ہے تو اسے چھوڑ دو۔سیدنا صدیق اکبرؓ نے پہلے خطبے میں ارشاد فرمایا کہ ''اگر میں اللہ، رسولؐ کی اطاعت کروں تو میری اطاعت کرنا، اگر میں ادھر، ادھر ہٹوں تو مجھے سیدھا کردو''۔ میرے نزدیک اس وقت قوم کو قربانی کے جذبے کو سامنے رکھنا چاہیے کہ ہم جس رب کو راضی کرنے کے لیے قربانی کررہے ہیں باقی کام بھی اس کی رضا کے لیے کریں۔
افسوس ہے کہ رشوت، بدعنوانی و حرام مال سے لوگ قربانی کررہے ہیں حالانکہ کہ اگر لباس ، جسم یا مال میں حرام مال کا شائبہ بھی ہوگیا تو سرکار دوعالمﷺ نے فرمایا کہ ہزار یہ کہتا رہے ''لبیک اللھم لبیک'' اللہ فرماتا ہے کہ ''لالبیک ولا سعدیک''۔ قربانی کا وہ جذبہ ختم ہوگیا ہے جو حضرت ابراہیم ؑ کو اللہ نے عطا فرمایا تھا کہ صرف ایک اشارے پر اولاد بھی قربان ہے، وطن بھی قربان ہے، اللہ کی رضا کے لیے نمرود سے بھی ٹکر لی کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ میرا رب سب سے بڑا ہے اور وہ میرے ساتھ ہے۔ آج اس جذبے کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔
اگر قربانی کرتے ہوئے وہ جذبہ نہیں ہے تو اس کی تکبیریں اور قربانی اسے کوئی فائدہ نہیں دیں گی بلکہ صرف قربانی کی رسم پوری ہوگی۔ اگر جانور کے گلے پر تکبیر پھیرتے ہوئے حضرت ابراہیم ؑ کی اس قربانی کا تھوڑا سا تصور بھی آجائے تو انسان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں کہ حضرت اسماعیل ؑ کے گلے پر ان کے والد حضرت ابراہیم ؑ کی چھری تھی۔ اگر اس جذبے کا تھوڑا سا حصہ بھی ہمیں نصیب ہوجائے تو آج امت مسلمہ جن مسائل سے دوچار ہے ان کا خاتمہ ہوجائے گا۔
حافظ زبیر احمد ظہیر
(مرکزی رہنما جمعیت اہلحدیث)
ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام علیہ السلام میں سے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑ کو اور سرور کائنات حضرت محمدﷺ کو بہت ہی عظیم الشان مرتبہ عطاء فرمایا ہے۔ ہم حضرت محمدﷺ کی امت جبکہ حضرت ابراہیم ؑ کی ملت ہیں۔ ہمارا دین، دین ِ ابراہیمی ؑہے اور اللہ تعالیٰ نے بار بار اپنے پیارے رسول حضرت محمدﷺ کو یہ ارشاد فرمایا ہے کہ ''ساری دنیا کے لیے اسوئہ حسنہ آپؐ ہیں اور آپؐ کے لیے نمونہ اور اسوئہ حسنہ ابراہیم ؑ ہیں''۔ یہاں سے حضرت ابراہیم ؑ کے مرتبہ و مقام کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
انبیاء کرام علیہ السلام بڑی تعداد میں گزرے ہیں لیکن ہماری نماز میں صرف حضرت ابراہیم ؑ کا نام آتا ہے۔حضرت ابراہیم ؑ نے جو فلسفہ، نظریہ اور عقیدہ پیش کیا وہ اصل چیز ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی رضا ہے۔ قرآن پاک میں ہے کہ ''یہ قربانیاں جو تم کرتے ہو ، ا س کی نہ تو ہڈیاں ہمارے ہاں پہنچتی ہیں، نہ گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون، ہمارے پاس تو تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے''۔ اصل چیز نیت ہے کہ دل میں خلوص کتنا ہے، قربانی خالص رضائے الٰہی کے لیے ہے یا اس میںکوئی دوسری غرض بھی شامل ہے۔
کیا صرف اللہ کے لیے قربانی دی جارہی ہے یا اس میں ریاکاری اور دکھلاوا بھی ہے، غیر اللہ کا نام بھی لیا جارہا ہے؟ سرکار دوعالم ﷺ نے ارشاد فرمایا: '' اللہ تعالیٰ کی نگاہ نہ تمہاری شکلوں پر ہے اور نہ ہی مال و دولت پر، اللہ کی نگاہ تمہارے دلوں پر ہے اور تمہارے اعمال پر ہے''۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ جس شخص کے دل میں اللہ کے علاوہ کسی کے بارے میں رائی کے برابر بھی خیال آگیا تو قیامت والے دن اسے کہا جائے گا کہ اسی سے ہی جا کر اجر وثواب حاصل کرو، ہمارے پاس تمہارے لیے کچھ نہیں ہے۔
قربانی سنت ابراہیمی ؑہے اور اس میں ایک بہت بڑا پیغام ہے۔اس پر سرکار دو عالمﷺ نے ہمیشہ عمل کیا ہے اور قربانی دی ہے۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہمارے پیغمبر حضرت محمدﷺ نے 63قربانیاں اپنے ہاتھ مبارک سے کیں، ہم کتنی کرتے ہیں؟ قربانی ایک ایسی چیز ہے کہ جب بھی قوم، معاشرہ، ملت یا جماعت کوئی بڑا مقصد حاصل کرنا چاہتی ہے، وہ بغیر قربانی کے حاصل نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے جان، مال، وقت، اولاد، وطن ، غلط نظریات و عقائد اور اپنی خواہشات سمیت ہر طرح کی قربانیاں دینا پڑتی ہیں اور حضرت ابراہیم ؑ کی زندگی اسی چیز کا ہمیں درس دیتی ہے۔ افسوس ہے کہ آج ہم مسلمانوں میں یہ چیز نہیں ہے۔ علامہ اقبالؒ نے فرمایا:
نہ سلیقہ مجھ میں کلیم ؑ کا، نہ کرینہ تجھ میں خلیل ؑ کا
میں ہلاک جادؤ سامری، تو قتیل شیوۂ آزری
آج ہم میں ابراہیمی ؑ جذبہ اور محمدی ؐایمان کہاں ہے۔ دہشت گردی جس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، اگر ہم جواب شکوہ پڑھیں تو اس میں اقبالؒ نے کہا ہے کہ:
آج بھی ہو جو براہیم ؑ کا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا
مسلمان اگر دہشت گردی کی مصیبتوں اور تباہی سے بچنا چاہتے ہیں تو انہیں حضرت ابراہیم ؑ جیسا ایمان پیدا کرنا چاہیے۔ دہشت گردی نعرئہ نمرود ہے، مسلمانوں اور اسلام کو بدنام کرنے کی سازش ہے۔ یہ ضعیف قوموں کو نیست و نابود کرنے اور اپنے مفادات کے لیے ہے مگر سوال یہ ہے کہ اس سے نکلنے کا راستہ کیا ہے۔ ساتویں پارہ میں اللہ تعالیٰ نے پورا نقشہ کھینچا ہے۔
ایک طرف مشرکین ہیں اور دوسری طرف حضرت ابراہیم ؑ ہیں۔ دو نظریات کی جنگ ہے۔ آخر میں کہا ہے کہ : ''اب تم یہ بتاؤ کہ یہ دو نظریات کے لوگ ہیں، ان دونوں میں سے ہم امن کس کو دیں گے'' پھر آگے کہا کہ : ''ان لوگوں کو امن دیں گے جو ایمان لائے اور اپنے ایمان میں ظلم (شرک) کو شامل نہ کریں'' فرمایا: ''یہ وہ لوگ ہیں جن کو ہم ہدایت بھی دیں گے اور امن بھی دیں گے''۔ ہدایت سے مراد یہ نہیں ہوتا کہ کسی کو نماز پڑھنے یا مسجد میں جانے کی توفیق مل جائے بلکہ ہدایت کا مطلب ہے کہ دنیا جہان کی بھلائیاں، بصیرتیں، ترقی کے راستے اور کامیابیوں کے زینے اللہ تعالیٰ ان پر نمایاں کردے۔ہمیں ان چیزوں کو سمجھنا چاہیے۔ اقبالؒ نے کہا کہ:
صنم کدہ ہے جہاں اور مرد حق ہے خلیل ؑ
یہ نکتہ وہ ہے جو پوشیدہ لاالٰہ میں ہے
کدھر ہے وہ مسلمان؟؟ آج تو سب درباری ہیں اورآج کے نمرود کا قصیدہ پڑھنے والے ہیں۔
ہمیں سمجھنا چاہیے کہ قربانی صرف جانور ذبح کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ اپنی ناجائز خواہشات پر بھی چھری پھیرنے کا نام ہے۔ غلط عقائد، غلط نظریات، غلط فکر اور غلط سوچ کو بھی ختم کرنے کا نام قربانی ہے۔ مسلمانوں کے لیے فرقہ واریت بہت نقصان دہ ہے اور اس کی وجہ سے باطل اور سامراجی قوتوں کو تقویت ملتی ہے جبکہ ملت اسلامیہ کمزور ہوتی ہے۔
اس کا تقاضہ یہ ہے کہ صرف جانور ہی ذبح نہ کیے جائیں بلکہ اپنے اپنے فرقوں کی بھی قربانی دی جائے اور اللہ کی رضا کے لیے اپنے فرقے اور نظریے، عقائد چھوڑ کروہ کہیں جو حضرت ابراہیم ؑ کہتے تھے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کے پہلے پارے میں بڑے بڑے جلیل القدر انبیاء ؑ کا نام لے کر کہا ہے کہ وہ سب یہ کہتے تھے کہ ہم سارے مسلمان ہیں۔ یہی بات اللہ تعالیٰ نے چوتھے پارے میں کہی ہے کہ اے ایمان والو! اللہ سے اس طرح ڈرو جس طرح ڈرنے کا حق ہے، مسلمان ہی مرنا کچھ اور نہ بن جانا۔ ہم نے تو آج اہلحدیث، سنی، شیعہ، دیوبندی سمیت ہزاروں نام کے فرقے بنا لیے ہیں ۔
اللہ فرماتا ہے : فرقے نہ بنو۔ لیکن ہم فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ہم حضرت ابراہیم ؑ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے قربانی کرتے ہیں، ہمیں سمجھنا چاہیے کہ نہ حضرت ابراہیم ؑ کا کوئی فرقہ تھا اور نہ ہی رسول کریمﷺ کا۔ حضرت ابراہیم ؑ ، نبی کریمﷺ اور تمام ابنیاء کرام ؑ صرف اور صرف مومن اور مسلمان تھے۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم کس پیغمبر کی پیروی کررہے ہیں۔ہمارے اپنے اپنے مفادات ، لالچ ، انائیں اورضدیں ہیں، جب تک ہم اللہ تعالیٰ، اپنے رسولﷺ، ملت اسلامیہ ا ور اپنے وطن عزیز پاکستان کے لیے اپنے فرقوں کوقربان نہیں کریں گے، مسائل حل نہیں ہوں گے۔ اگر سیاستدان اور علماء اپنی اپنی جماعتوں کو ہی فروغ دیں گے تو بہتری کس طرح آئے گی۔ بہتری تو ایثار و قربانی سے آتی ہے۔ اس قربانی سے سبق تو یہ ملتا ہے کہ اپنے ملک و قوم ، بلند ترین مقاصد، قرآن و سنت کی بالا دستی ، توحید الٰہی کی سربلندی اور ختم نبوتؐ کے لیے جس چیز کی بھی ہمیں قربانی دینا پڑے ہم ا س کے لیے تیار ہوں۔اقبالؒ نے فرمایا:
نماز و روزہ و قربانی و حج
یہ سب باقی ہیں تو باقی نہیں ہے
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو عملاََ ابراہیمی ؑ، محمدیؐ اور مسلمان بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ اگر ہم اس راستے پر چل نکلیں تو ہماری نمازیں، روزے، زکوٰۃ، حج اور قربانیاں اللہ کے ہاں قبول ہوں گی۔ حضرت ابراہیم ؑ کے ہر کام میں اللہ تعالیٰ نے برکت دی۔ حج کے سارے ارکان حضرت ابراہیم ؑ اور ان کے خاندان کی اداؤں کا نام ہیں۔ ایک ایک رکن کے بارے میں فرمایا کہ یہ کرو میں تب راضی ہوں گا۔
ہمیں چاہیے تھا کہ ہم فرقے نہ بناتے اور عیسائی اور یہودی جو خود کو ابراہیمی ؑکہتے ہیں انہیں بھی صحیح معنوں میں ابراہیمی ؑ بننے کی دعوت دیتے۔ ہم خود ہی ابراہیمیؑ نہیں ہیں تو کسی کو کیسے دعوت دے سکتے ہیں۔ جو لوگ حضرت ابراہیم ؑ اور سرور کائناتﷺ کی سنت میں قربانیاں کرتے ہیں انہیں چاہیے کہ غریبوں، مسکینوں، یتیموں، بیواؤں اور ان تمام لوگوں میں، جنہیں سارا سال گوشت کھانا بہت کم نصیب ہوتا ہے یا ہوتا ہی نہیں تقسیم کریں اور اپنی فریجوں میں گوشت سارا سال نہ پڑا رہنے دیں۔
تین دن سے زیادہ جو شخص بھی گوشت کو رکھتا ہے میرے نزدیک یہ ایثار اور قربانی کے جذبے کے خلاف ہے۔ قربانی کے گوشت کے تین حصے کریں، ایک غریبوں کو دے دیں، ایک عزیز و اقارب کو اور ایک اپنے لیے رکھ لیں۔ جو اپنے لیے رکھا ہے اس میں سب سے بہترین بات یہ ہے کہ اسے بھی اللہ کی راہ میں تقسیم کر دیں۔ ایام ذوالحجہ پورے سال کے افضل ترین ایام ہیں، اس میں حضورﷺ نے فرمایا کہ جو شخص ان کے ایک دن کا روزہ رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اسے پورے سال کے روزوں کا ثواب عطا فرماتا ہے اور جو نویں ذوالحجہ کا روزہ رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے دو سالوں کے گناہ معاف فرما دیتا ہے، ایک سال جو گزر گیا اور ایک سال جو آئندہ آنے والا ہے۔ اس سے اندازہ فرما لیں کہ ان ایام کی کتنی فضیلت ہے۔
علامہ مشتاق حسین جعفری
(چیئرمین عالمی امن اتحاد کونسل)
اس میں کوئی شک نہیں کہ سنت ابراہیم ؑ کو ہر مسلمان انتہائی جذبے کے ساتھ سر انجام دیتا ہے۔ہمیں قربانی کے اصل مقصد اور مفہوم کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔ قربانی کا مقصد رضائے الٰہی اور اللہ کی قربت کا حصول ہوتاہے۔ عید الاضحی کے موقع پر ہم جو قربانی دیتے ہیں اس میں حضرت ابراہیم ؑ کے جذبے کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہمیں چاہیے کہ آپس میں محبت، اخوت، رواداری ،برداشت اور جذبہ ایثار و قربانی کو اجاگر کریں جو ہم میں بالکل ختم ہوتا جارہا ہے۔
تمام مسلمان اور جو شخص حضورﷺ کی ختم نبوت پر یقین رکھتا ہے، جو کلمہ گو ہے، آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم آپس میں یکجہتی پیدا کریں، ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں اور قربانی انجام دیتے ہوئے قربانی کے اصل مفہوم کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ قربانی اور ایثار کا جو جذبہ عید الاضحی کے موقع پر ہمارے اندر پیدا ہوتا ہے ، یہ جذبہ پورا سال ہمارے اندر رہنا چاہیے۔ قربانی دینے والے حضرت اسماعیل ؑ اور حضرت ابراہیم ؑ کی سنت ادا کرتے ہیں۔مسلمان خواہ کسی بھی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتا ہو، قربانی دیتا ہے اور دوسرے مکتبہ فکر کے لوگوں کے گھر میں گوشت بھی بھیجتا ہے۔ یہی جذبہ ہمیں عام حالات میں بھی اپنے اندر پیدا کرنا چاہیے۔ علامہ اقبالؒ نے خوب فرمایا ہے کہ:
غریب و سادہ و رنگیں ہے داستان حرم
نہایت اس کی حسین،ؓ ابتداء ہے اسماعیل ؑ
علامہ اقبالؒ کے مطابق اس قربانی کی ابتداء حضرت اسماعیل ؑ نے کی اور اسے مکمل حضرت امام حسینؓنے کیا۔ میں گزرش کروں گا کہ جس عقیدت اور جذبے کے ساتھ ہم حضرت ابراہیم ؑ کے فررزند کا دن مناتے ہیں وہی جذبہ ہمیں دس محرم کوحسین ابن علیؓ کے وقت بھی اپنے دلوں میں اجاگر کرنا چاہیے کیونکہ اسی میں ہی ہماری بقاء اور فلاح ہے۔
وطن عزیز اس وقت جن حالات سے دوچار ہے، ہمیں چاہیے کہ آپس میں محبت کی فضا کو قائم کریں۔ میں حافظ زبیر احمد ظہیر کو سلام پیش کرتا ہوں کیونکہ ان سے میں نے قرآن پاک کی اس آیت سے استفادہ کیا تھا کہ '' جو تمہیں سلام کرے، اسے مت کہو کہ تم مومن نہیں ہو'' جو بھی شخص کلمہ پڑھتا ہے ہمیں اس کا احترام کرنا چاہیے، اس کی جان و مال کا تحفظ کرنا چاہیے، ہم سب مسلمان ہیں،ہمیں مل کر پاکستان کا دفاع کرنا ہے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ اس ملک کو استحکام عطا فرمائے۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ اگر ہم قربانی کے اس جذبے کو سارا سال اپنے اندر پیدا رکھیں گے اور ایک دوسرے کے ساتھ ایثار و قربانی کریں گے تو نہ صرف پاکستان بلکہ امت مسلمہ کے تمام مسائل کا خاتمہ ہوجائے گا۔
مولانا سید محمد عبدالخبیر آزاد
(خطیب امام بادشاہی مسجد لاہور و چیئرمین مجلس علماء پاکستان)
حضرت محمدﷺ سے پوچھا گیا کہ قربانی کیا ہے، آپﷺ نے فرمایا کہ یہ سنت ہے میرے ابا ابراہیم ؑ کی۔جو لوگ استطاعت رکھتے ہیں اور قربانی نہیں کرتے، ان کے بارے میں آپﷺ نے سخت وعید فرمائی ہے کہ وہ عید گاہ کی طرف نہ آئیں۔ حضور اکرمﷺ نے فرمایا کہ جب انسان قربانی کا جانور لیتا ہے تو اللہ تبارک و تعالیٰ ہر بال کے عوض نیکی عطا فرماتا ہے۔
آپؐ نے فرمایا کہ ابھی خون زمین پر نہیں گرتا کہ رب تعالیٰ کے ہاں قبول و مقبول ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ اللہ کو تمہارا خون نہیں چاہیے، اللہ اس میں تقویٰ دیکھ رہا ہے۔ قربانی، حضرت ابراہیم ؑ کی سنت ہے جو انہوں نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل ؑ کی قربانی کے طور پر کی، تو اللہ نے ان کی جگہ دنبہ بھیجا اور سنت ابراہیمی ؑ بن گئی۔ آج پوری ملت اسلامیہ عید الاضحی کے دن سنت ابراہیمی ؑ ادا کرتی ہے۔ جتنے بھی لوگ استطاعت رکھتے ہیں وہ اس کا خیال کریںکہ گائے اور اونٹ میں سات حصے جبکہ بکرا، دنبہ وغیرہ ایک حصہ ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو قربانی کے عمل سے گزرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ قربانی کے گوشت کے تین حصے کیے جائیں، ایک اپنا، ایک رشتہ داروں کا اور تیسرا غرباء اور مساکین میں تقسیم کردیں۔ ان لوگوں کو زیادہ سے زیادہ گوشت بانٹا جائے جن کے گھر سارا سال بہت کم گوشت پکتا ہے یا انہیں کھانا نصیب نہیں ہوتا ۔ بہت سارے ادارے، تنظیمیں اور مدارس ہیں جہاں اجتماعی قربانی کی جاتی ہے اور فلاح و بہبود کے لیے کھالیں دی جاتی ہیں، یہ عمل بھی انتہائی ضروری ہے اور سب کو چاہیے کہ کھال ایسے ادارے کو دیں جو لوگوں کی فلاح کے لیے کام کررہا ہے۔ عید کے روز گندگی نہ پھیلائیں اور جانوروں کی آلائشیں و دیگر فضلہ گلی محلوں میں نہ پھینکیں بلکہ متعلقہ ادارے کے ساتھ تعاون کریں۔ قربانی کے عمل کو عام کیا جائے اور جو بھی استطاعت رکھتا ہے اسے قربانی کرنی چاہیے۔ جو لوگ اس سال حج کررہے ہیں اللہ ان کا حج قبول فرمائے اور ہمیں بھی حج کی توفیق عطا فرمائے۔ قربانی ہمیں صبر وتحمل، برداشت اور ایثار کا سبق دیتی ہے، ہمیں ایک دوسرے سے محبتوں کو بڑھانا چاہیے اور صبرو استقامت کے جذبے کو عام کرنا چاہیے۔
حجۃ الوداع کا خطبہ ہمارے لیے نمونہ ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر، امیر کو غریب پر، غریب کو امیر پر، کالے کو گورے پر، گورے کو کالے پر کوئی فوقیت، فضیلت حاصل نہیں ہے بلکہ فضیلت کی بنیاد تقویٰ ہے۔ آپ ﷺ نے جس طرح تمام چیزوں کو ختم کیا ہمیں بھی اپنے درمیان ان تمام چیزوں کو ختم کرنا ہے، پھر ہی ہم صحیح امتی کہلائیں گے اور حقیقی معنوں میں آپ ﷺ کے امتی بنیں گے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ بہترین امت کے نام سے آپ کو پکارا گیا اور بہترین امت کہا گیا۔ آج نفرتیں بڑھ رہی ہیں، مسائل میں اضافہ ہورہا ہے، اگر ہم ایثار و قربانی کے اس فلسفے کو سمجھ جائیں تو معاشرے میں موجود تمام مسائل ختم ہوجائیں گے اور محبت، اخوت اور بھائی چارے کے جذبے کو فروغ ملے گا۔ اس کے لیے ہر انسان کو قربانی دینا ہوگی اور اپنا محاسبہ کرنا ہوگا۔
اس دن مسلمان اللہ کی راہ میں اپنا تن، من، دھن قربان کرنے کے عہد کی تجدید کرتے ہیں اور یہی مسلمانوں کی عید ہوتی ہے۔ ''فلسفہ قربانی کیا ہے؟'' اس حوالے سے ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
قاری زوار بہادر
(مرکزی رہنما جمعیت علماء پاکستان)
اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو جتنی بھی چیزیں عطا فرمائی ہیں، ان کا مقصد اللہ کی رضا کا حصول ہے ۔ ایمان والے اللہ کی راہ میں نماز، روزہ، حج، قربانی غرض کے جو بھی عمل کرتے ہیں اس کا مقصد اللہ کو راضی کرنا ہوتا ہے۔ ہزاروں سال پہلے سیدنا ابراہیمؑ نے عظیم قربانی دی۔ آپؑ کی زندگی امتحانات میں گزری، آخری عمر میں بیٹے کا ملنا، پھر اس کی قربانی کا حکم اور اسے اللہ کی راہ میں قربانی کے لیے پیش کردینا، بہت بڑا متحان تھا ۔ باپ اور بیٹے دونوں نے اپنی جبین نیاز کو اللہ کے دربار میں خم کردیا ۔ جب آنکھوں سے پٹی کھولی توحضرت اسماعیل ؑ زندہ تھے۔
اللہ نے فرمایا کہ آپؑ نے اپنا خواب سچا کردیا۔ ہم محسنین کو ایسے بدلہ دیتے ہیں کہ آپ ؑکی قربانی قبول ہوگئی، رب بھی راضی ہوگیا اور آپؑ کا بیٹا بھی اسی طرح سلامت ہے۔ آگے ارشاد فرمایا : یہ بہت بڑاذبیحہ جو آپؑ کو ہم نے دیا، اسے ہم آگے آنے والوں کے لیے رکھیں گے، یادگار بنا دیں گے۔ سرکار دوعالم ﷺ سے پوچھا گیا کہ قربانی کیا ہے، ارشاد فرمایا کہ یہ میریؐ اور تمہارے باپ حضرت ابراہیم ؑ کی سنت ہے۔ اللہ کریم نے حضرت ابراہیم ؑ کی قربانی ایسی قبول فرمائی ہے کہ صدیاں گزرنے کے باوجود قربانی آج بھی اسی شان و شوکت کے ساتھ ہورہی ہے۔
آپؑ کا یہ عمل اللہ کی بارگاہ میں ایسا مقبول ہوا کہ جب حج کے لیے آواز دی تو وہاں آبادی کا نام و نشان نہیں تھا لیکن وہ آواز دنیا بھر میں ایسی پہنچی کے روحوں نے بھی سنی اور آج لوگ دنیا بھر سے حج کے لیے جاتے ہیں۔ قربانی اگرچہ بہت مہنگی ہوگئی ہے لیکن اس کے باوجود ہر مسلمان کی خواہش ہے کہ وہ قربانی کرے کیونکہ اللہ کے رسولﷺ نے قربانی فرمائی، ہر سال فرمائی بلکہ آخری حج کے موقع پر 100 قربانیاں فرمائیں، 63اپنے دست مبارک سے جبکہ باقی حضرت علی المرتضیؓ نے فرمائیں۔ مدینہ منورہ میں بھی جتنے ایام آپﷺ نے گزارے، اس میں قربانی ادا فرمائی بلکہ دو قربانیاں فرمائیں، ایک اپنی طرف سے اور ایک امت کی طرف سے۔ الحمداللہ! قربانی رضائے الٰہی کے لیے ہے کہ اللہ کی راہ میں خون بہایا جائے۔ ہم نماز میں عہد کرتے ہیںکہ بیشک ہماری نماز، ہماری قربانی،ہمارا جینا ،مرنا سب رب العالمین کے لیے ہے جو سب جہانوں کا پروردگار ہے۔
اس عہد کو مکمل کرنے کے لیے ہر شخص اپنی اپنی توفیق کے مطابق قربانی کرتا ہے، کوئی پورا جانور قربان کرتا ہے تو کوئی قربانی کے لیے حصہ ڈالتا ہے۔ یہ ہمارے بڑوں کی یادگار ہے، اللہ اس سلسلے کو قیامت تک جاری رکھے گا۔ قربانی کی برکت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایسے جانور جن کی قربانی حرام ہے، ان کی اتنی بڑی تعداد نہیں ہوتی لیکن حلال جانور جتنے زیادہ قربان ہوتے ہیں ان کی افزائش نسل اتنی ہی زیادہ ہوتی ہے۔ اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ جو اللہ کی راہ میں قربان ہوگاوہ کبھی ختم نہیں ہوگا، اس کی نسل مٹے گی نہیں بلکہ اس میںمزید اضافہ ہوگا۔ افسوس ہے کہ آج ہم قربانی کے اصل مقصد سے ہٹ چکے ہیں۔
ہم قربانی کرتے ہیں لیکن اس کے فوراََ بعد ہی بھول جاتے ہیں کہ جس رب کو راضی کرنے کیلئے ہم قربانی کررہے ہیں، اس کی ناراضگی والے بہت سارے کام ہم خود کررہے ہیں۔ ہم رضائے الٰہی کے لیے کرتے ہیں، اگر ہم اپنے سارے کام رب کو راضی کرنے کے اسی جذبے سے کریں تو معاملات میں بہتری آسکتی ہے اور ہمارے تمام مسائل حل ہو جائیں گے۔حضرت ابراہیم ؑ کا جس قوم سے واسطہ پڑا وہ ایک جاہل قوم تھی، انہیں بہت سارے دلائل دیے مگر نہیں مانے۔ وہ قوم بت پرست تھی، فرمایا کہ اپنے ہاتھوں سے بت بناتے ہو اور خود ہی ان کی پوجا کرتے ہو، جو نہ تمہیں نفع دے سکتے ہیں نہ نقصان پہنچا سکتے ہیں اور تم انہیں خدا مانتے ہو۔ آج میں دیکھ رہا ہوں کہ اس جدید دور میں بھی صدیوں پرانی سوچ والے لوگ بیٹھے ہیں، جو اس وقت نمرود کے درباری تھے آج بھی اسی طرح کے درباری موجود ہیں۔
ایک شخص فرعون بنا بیٹھا ہے جبکہ باقی سب اس کے حکم کی تعمیل کررہے ہیں، اس کے کہنے پر لوگ قتل بھی کردیے جاتے ہیں اور شہر بھی بند کردیے جاتے ہیں۔ افسوس ہے کہ ہم آج بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں حضرت ابراہیم ؑ نے اللہ کا پیغام شروع کیا اور ہم ایک بھی قدم آگے نہیں بڑھے۔ اگر ہمارے پیش نظر یہ رہے کہ ہم نے اپنے رب کو راضی کرنا ہے ، یہ بندہ اگر غلط ہے تو اسے چھوڑ دو۔سیدنا صدیق اکبرؓ نے پہلے خطبے میں ارشاد فرمایا کہ ''اگر میں اللہ، رسولؐ کی اطاعت کروں تو میری اطاعت کرنا، اگر میں ادھر، ادھر ہٹوں تو مجھے سیدھا کردو''۔ میرے نزدیک اس وقت قوم کو قربانی کے جذبے کو سامنے رکھنا چاہیے کہ ہم جس رب کو راضی کرنے کے لیے قربانی کررہے ہیں باقی کام بھی اس کی رضا کے لیے کریں۔
افسوس ہے کہ رشوت، بدعنوانی و حرام مال سے لوگ قربانی کررہے ہیں حالانکہ کہ اگر لباس ، جسم یا مال میں حرام مال کا شائبہ بھی ہوگیا تو سرکار دوعالمﷺ نے فرمایا کہ ہزار یہ کہتا رہے ''لبیک اللھم لبیک'' اللہ فرماتا ہے کہ ''لالبیک ولا سعدیک''۔ قربانی کا وہ جذبہ ختم ہوگیا ہے جو حضرت ابراہیم ؑ کو اللہ نے عطا فرمایا تھا کہ صرف ایک اشارے پر اولاد بھی قربان ہے، وطن بھی قربان ہے، اللہ کی رضا کے لیے نمرود سے بھی ٹکر لی کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ میرا رب سب سے بڑا ہے اور وہ میرے ساتھ ہے۔ آج اس جذبے کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔
اگر قربانی کرتے ہوئے وہ جذبہ نہیں ہے تو اس کی تکبیریں اور قربانی اسے کوئی فائدہ نہیں دیں گی بلکہ صرف قربانی کی رسم پوری ہوگی۔ اگر جانور کے گلے پر تکبیر پھیرتے ہوئے حضرت ابراہیم ؑ کی اس قربانی کا تھوڑا سا تصور بھی آجائے تو انسان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں کہ حضرت اسماعیل ؑ کے گلے پر ان کے والد حضرت ابراہیم ؑ کی چھری تھی۔ اگر اس جذبے کا تھوڑا سا حصہ بھی ہمیں نصیب ہوجائے تو آج امت مسلمہ جن مسائل سے دوچار ہے ان کا خاتمہ ہوجائے گا۔
حافظ زبیر احمد ظہیر
(مرکزی رہنما جمعیت اہلحدیث)
ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام علیہ السلام میں سے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑ کو اور سرور کائنات حضرت محمدﷺ کو بہت ہی عظیم الشان مرتبہ عطاء فرمایا ہے۔ ہم حضرت محمدﷺ کی امت جبکہ حضرت ابراہیم ؑ کی ملت ہیں۔ ہمارا دین، دین ِ ابراہیمی ؑہے اور اللہ تعالیٰ نے بار بار اپنے پیارے رسول حضرت محمدﷺ کو یہ ارشاد فرمایا ہے کہ ''ساری دنیا کے لیے اسوئہ حسنہ آپؐ ہیں اور آپؐ کے لیے نمونہ اور اسوئہ حسنہ ابراہیم ؑ ہیں''۔ یہاں سے حضرت ابراہیم ؑ کے مرتبہ و مقام کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
انبیاء کرام علیہ السلام بڑی تعداد میں گزرے ہیں لیکن ہماری نماز میں صرف حضرت ابراہیم ؑ کا نام آتا ہے۔حضرت ابراہیم ؑ نے جو فلسفہ، نظریہ اور عقیدہ پیش کیا وہ اصل چیز ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی رضا ہے۔ قرآن پاک میں ہے کہ ''یہ قربانیاں جو تم کرتے ہو ، ا س کی نہ تو ہڈیاں ہمارے ہاں پہنچتی ہیں، نہ گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون، ہمارے پاس تو تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے''۔ اصل چیز نیت ہے کہ دل میں خلوص کتنا ہے، قربانی خالص رضائے الٰہی کے لیے ہے یا اس میںکوئی دوسری غرض بھی شامل ہے۔
کیا صرف اللہ کے لیے قربانی دی جارہی ہے یا اس میں ریاکاری اور دکھلاوا بھی ہے، غیر اللہ کا نام بھی لیا جارہا ہے؟ سرکار دوعالم ﷺ نے ارشاد فرمایا: '' اللہ تعالیٰ کی نگاہ نہ تمہاری شکلوں پر ہے اور نہ ہی مال و دولت پر، اللہ کی نگاہ تمہارے دلوں پر ہے اور تمہارے اعمال پر ہے''۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ جس شخص کے دل میں اللہ کے علاوہ کسی کے بارے میں رائی کے برابر بھی خیال آگیا تو قیامت والے دن اسے کہا جائے گا کہ اسی سے ہی جا کر اجر وثواب حاصل کرو، ہمارے پاس تمہارے لیے کچھ نہیں ہے۔
قربانی سنت ابراہیمی ؑہے اور اس میں ایک بہت بڑا پیغام ہے۔اس پر سرکار دو عالمﷺ نے ہمیشہ عمل کیا ہے اور قربانی دی ہے۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہمارے پیغمبر حضرت محمدﷺ نے 63قربانیاں اپنے ہاتھ مبارک سے کیں، ہم کتنی کرتے ہیں؟ قربانی ایک ایسی چیز ہے کہ جب بھی قوم، معاشرہ، ملت یا جماعت کوئی بڑا مقصد حاصل کرنا چاہتی ہے، وہ بغیر قربانی کے حاصل نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے جان، مال، وقت، اولاد، وطن ، غلط نظریات و عقائد اور اپنی خواہشات سمیت ہر طرح کی قربانیاں دینا پڑتی ہیں اور حضرت ابراہیم ؑ کی زندگی اسی چیز کا ہمیں درس دیتی ہے۔ افسوس ہے کہ آج ہم مسلمانوں میں یہ چیز نہیں ہے۔ علامہ اقبالؒ نے فرمایا:
نہ سلیقہ مجھ میں کلیم ؑ کا، نہ کرینہ تجھ میں خلیل ؑ کا
میں ہلاک جادؤ سامری، تو قتیل شیوۂ آزری
آج ہم میں ابراہیمی ؑ جذبہ اور محمدی ؐایمان کہاں ہے۔ دہشت گردی جس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، اگر ہم جواب شکوہ پڑھیں تو اس میں اقبالؒ نے کہا ہے کہ:
آج بھی ہو جو براہیم ؑ کا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا
مسلمان اگر دہشت گردی کی مصیبتوں اور تباہی سے بچنا چاہتے ہیں تو انہیں حضرت ابراہیم ؑ جیسا ایمان پیدا کرنا چاہیے۔ دہشت گردی نعرئہ نمرود ہے، مسلمانوں اور اسلام کو بدنام کرنے کی سازش ہے۔ یہ ضعیف قوموں کو نیست و نابود کرنے اور اپنے مفادات کے لیے ہے مگر سوال یہ ہے کہ اس سے نکلنے کا راستہ کیا ہے۔ ساتویں پارہ میں اللہ تعالیٰ نے پورا نقشہ کھینچا ہے۔
ایک طرف مشرکین ہیں اور دوسری طرف حضرت ابراہیم ؑ ہیں۔ دو نظریات کی جنگ ہے۔ آخر میں کہا ہے کہ : ''اب تم یہ بتاؤ کہ یہ دو نظریات کے لوگ ہیں، ان دونوں میں سے ہم امن کس کو دیں گے'' پھر آگے کہا کہ : ''ان لوگوں کو امن دیں گے جو ایمان لائے اور اپنے ایمان میں ظلم (شرک) کو شامل نہ کریں'' فرمایا: ''یہ وہ لوگ ہیں جن کو ہم ہدایت بھی دیں گے اور امن بھی دیں گے''۔ ہدایت سے مراد یہ نہیں ہوتا کہ کسی کو نماز پڑھنے یا مسجد میں جانے کی توفیق مل جائے بلکہ ہدایت کا مطلب ہے کہ دنیا جہان کی بھلائیاں، بصیرتیں، ترقی کے راستے اور کامیابیوں کے زینے اللہ تعالیٰ ان پر نمایاں کردے۔ہمیں ان چیزوں کو سمجھنا چاہیے۔ اقبالؒ نے کہا کہ:
صنم کدہ ہے جہاں اور مرد حق ہے خلیل ؑ
یہ نکتہ وہ ہے جو پوشیدہ لاالٰہ میں ہے
کدھر ہے وہ مسلمان؟؟ آج تو سب درباری ہیں اورآج کے نمرود کا قصیدہ پڑھنے والے ہیں۔
ہمیں سمجھنا چاہیے کہ قربانی صرف جانور ذبح کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ اپنی ناجائز خواہشات پر بھی چھری پھیرنے کا نام ہے۔ غلط عقائد، غلط نظریات، غلط فکر اور غلط سوچ کو بھی ختم کرنے کا نام قربانی ہے۔ مسلمانوں کے لیے فرقہ واریت بہت نقصان دہ ہے اور اس کی وجہ سے باطل اور سامراجی قوتوں کو تقویت ملتی ہے جبکہ ملت اسلامیہ کمزور ہوتی ہے۔
اس کا تقاضہ یہ ہے کہ صرف جانور ہی ذبح نہ کیے جائیں بلکہ اپنے اپنے فرقوں کی بھی قربانی دی جائے اور اللہ کی رضا کے لیے اپنے فرقے اور نظریے، عقائد چھوڑ کروہ کہیں جو حضرت ابراہیم ؑ کہتے تھے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کے پہلے پارے میں بڑے بڑے جلیل القدر انبیاء ؑ کا نام لے کر کہا ہے کہ وہ سب یہ کہتے تھے کہ ہم سارے مسلمان ہیں۔ یہی بات اللہ تعالیٰ نے چوتھے پارے میں کہی ہے کہ اے ایمان والو! اللہ سے اس طرح ڈرو جس طرح ڈرنے کا حق ہے، مسلمان ہی مرنا کچھ اور نہ بن جانا۔ ہم نے تو آج اہلحدیث، سنی، شیعہ، دیوبندی سمیت ہزاروں نام کے فرقے بنا لیے ہیں ۔
اللہ فرماتا ہے : فرقے نہ بنو۔ لیکن ہم فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ہم حضرت ابراہیم ؑ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے قربانی کرتے ہیں، ہمیں سمجھنا چاہیے کہ نہ حضرت ابراہیم ؑ کا کوئی فرقہ تھا اور نہ ہی رسول کریمﷺ کا۔ حضرت ابراہیم ؑ ، نبی کریمﷺ اور تمام ابنیاء کرام ؑ صرف اور صرف مومن اور مسلمان تھے۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم کس پیغمبر کی پیروی کررہے ہیں۔ہمارے اپنے اپنے مفادات ، لالچ ، انائیں اورضدیں ہیں، جب تک ہم اللہ تعالیٰ، اپنے رسولﷺ، ملت اسلامیہ ا ور اپنے وطن عزیز پاکستان کے لیے اپنے فرقوں کوقربان نہیں کریں گے، مسائل حل نہیں ہوں گے۔ اگر سیاستدان اور علماء اپنی اپنی جماعتوں کو ہی فروغ دیں گے تو بہتری کس طرح آئے گی۔ بہتری تو ایثار و قربانی سے آتی ہے۔ اس قربانی سے سبق تو یہ ملتا ہے کہ اپنے ملک و قوم ، بلند ترین مقاصد، قرآن و سنت کی بالا دستی ، توحید الٰہی کی سربلندی اور ختم نبوتؐ کے لیے جس چیز کی بھی ہمیں قربانی دینا پڑے ہم ا س کے لیے تیار ہوں۔اقبالؒ نے فرمایا:
نماز و روزہ و قربانی و حج
یہ سب باقی ہیں تو باقی نہیں ہے
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو عملاََ ابراہیمی ؑ، محمدیؐ اور مسلمان بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ اگر ہم اس راستے پر چل نکلیں تو ہماری نمازیں، روزے، زکوٰۃ، حج اور قربانیاں اللہ کے ہاں قبول ہوں گی۔ حضرت ابراہیم ؑ کے ہر کام میں اللہ تعالیٰ نے برکت دی۔ حج کے سارے ارکان حضرت ابراہیم ؑ اور ان کے خاندان کی اداؤں کا نام ہیں۔ ایک ایک رکن کے بارے میں فرمایا کہ یہ کرو میں تب راضی ہوں گا۔
ہمیں چاہیے تھا کہ ہم فرقے نہ بناتے اور عیسائی اور یہودی جو خود کو ابراہیمی ؑکہتے ہیں انہیں بھی صحیح معنوں میں ابراہیمی ؑ بننے کی دعوت دیتے۔ ہم خود ہی ابراہیمیؑ نہیں ہیں تو کسی کو کیسے دعوت دے سکتے ہیں۔ جو لوگ حضرت ابراہیم ؑ اور سرور کائناتﷺ کی سنت میں قربانیاں کرتے ہیں انہیں چاہیے کہ غریبوں، مسکینوں، یتیموں، بیواؤں اور ان تمام لوگوں میں، جنہیں سارا سال گوشت کھانا بہت کم نصیب ہوتا ہے یا ہوتا ہی نہیں تقسیم کریں اور اپنی فریجوں میں گوشت سارا سال نہ پڑا رہنے دیں۔
تین دن سے زیادہ جو شخص بھی گوشت کو رکھتا ہے میرے نزدیک یہ ایثار اور قربانی کے جذبے کے خلاف ہے۔ قربانی کے گوشت کے تین حصے کریں، ایک غریبوں کو دے دیں، ایک عزیز و اقارب کو اور ایک اپنے لیے رکھ لیں۔ جو اپنے لیے رکھا ہے اس میں سب سے بہترین بات یہ ہے کہ اسے بھی اللہ کی راہ میں تقسیم کر دیں۔ ایام ذوالحجہ پورے سال کے افضل ترین ایام ہیں، اس میں حضورﷺ نے فرمایا کہ جو شخص ان کے ایک دن کا روزہ رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اسے پورے سال کے روزوں کا ثواب عطا فرماتا ہے اور جو نویں ذوالحجہ کا روزہ رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے دو سالوں کے گناہ معاف فرما دیتا ہے، ایک سال جو گزر گیا اور ایک سال جو آئندہ آنے والا ہے۔ اس سے اندازہ فرما لیں کہ ان ایام کی کتنی فضیلت ہے۔
علامہ مشتاق حسین جعفری
(چیئرمین عالمی امن اتحاد کونسل)
اس میں کوئی شک نہیں کہ سنت ابراہیم ؑ کو ہر مسلمان انتہائی جذبے کے ساتھ سر انجام دیتا ہے۔ہمیں قربانی کے اصل مقصد اور مفہوم کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔ قربانی کا مقصد رضائے الٰہی اور اللہ کی قربت کا حصول ہوتاہے۔ عید الاضحی کے موقع پر ہم جو قربانی دیتے ہیں اس میں حضرت ابراہیم ؑ کے جذبے کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہمیں چاہیے کہ آپس میں محبت، اخوت، رواداری ،برداشت اور جذبہ ایثار و قربانی کو اجاگر کریں جو ہم میں بالکل ختم ہوتا جارہا ہے۔
تمام مسلمان اور جو شخص حضورﷺ کی ختم نبوت پر یقین رکھتا ہے، جو کلمہ گو ہے، آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم آپس میں یکجہتی پیدا کریں، ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں اور قربانی انجام دیتے ہوئے قربانی کے اصل مفہوم کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ قربانی اور ایثار کا جو جذبہ عید الاضحی کے موقع پر ہمارے اندر پیدا ہوتا ہے ، یہ جذبہ پورا سال ہمارے اندر رہنا چاہیے۔ قربانی دینے والے حضرت اسماعیل ؑ اور حضرت ابراہیم ؑ کی سنت ادا کرتے ہیں۔مسلمان خواہ کسی بھی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتا ہو، قربانی دیتا ہے اور دوسرے مکتبہ فکر کے لوگوں کے گھر میں گوشت بھی بھیجتا ہے۔ یہی جذبہ ہمیں عام حالات میں بھی اپنے اندر پیدا کرنا چاہیے۔ علامہ اقبالؒ نے خوب فرمایا ہے کہ:
غریب و سادہ و رنگیں ہے داستان حرم
نہایت اس کی حسین،ؓ ابتداء ہے اسماعیل ؑ
علامہ اقبالؒ کے مطابق اس قربانی کی ابتداء حضرت اسماعیل ؑ نے کی اور اسے مکمل حضرت امام حسینؓنے کیا۔ میں گزرش کروں گا کہ جس عقیدت اور جذبے کے ساتھ ہم حضرت ابراہیم ؑ کے فررزند کا دن مناتے ہیں وہی جذبہ ہمیں دس محرم کوحسین ابن علیؓ کے وقت بھی اپنے دلوں میں اجاگر کرنا چاہیے کیونکہ اسی میں ہی ہماری بقاء اور فلاح ہے۔
وطن عزیز اس وقت جن حالات سے دوچار ہے، ہمیں چاہیے کہ آپس میں محبت کی فضا کو قائم کریں۔ میں حافظ زبیر احمد ظہیر کو سلام پیش کرتا ہوں کیونکہ ان سے میں نے قرآن پاک کی اس آیت سے استفادہ کیا تھا کہ '' جو تمہیں سلام کرے، اسے مت کہو کہ تم مومن نہیں ہو'' جو بھی شخص کلمہ پڑھتا ہے ہمیں اس کا احترام کرنا چاہیے، اس کی جان و مال کا تحفظ کرنا چاہیے، ہم سب مسلمان ہیں،ہمیں مل کر پاکستان کا دفاع کرنا ہے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ اس ملک کو استحکام عطا فرمائے۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ اگر ہم قربانی کے اس جذبے کو سارا سال اپنے اندر پیدا رکھیں گے اور ایک دوسرے کے ساتھ ایثار و قربانی کریں گے تو نہ صرف پاکستان بلکہ امت مسلمہ کے تمام مسائل کا خاتمہ ہوجائے گا۔
مولانا سید محمد عبدالخبیر آزاد
(خطیب امام بادشاہی مسجد لاہور و چیئرمین مجلس علماء پاکستان)
حضرت محمدﷺ سے پوچھا گیا کہ قربانی کیا ہے، آپﷺ نے فرمایا کہ یہ سنت ہے میرے ابا ابراہیم ؑ کی۔جو لوگ استطاعت رکھتے ہیں اور قربانی نہیں کرتے، ان کے بارے میں آپﷺ نے سخت وعید فرمائی ہے کہ وہ عید گاہ کی طرف نہ آئیں۔ حضور اکرمﷺ نے فرمایا کہ جب انسان قربانی کا جانور لیتا ہے تو اللہ تبارک و تعالیٰ ہر بال کے عوض نیکی عطا فرماتا ہے۔
آپؐ نے فرمایا کہ ابھی خون زمین پر نہیں گرتا کہ رب تعالیٰ کے ہاں قبول و مقبول ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ اللہ کو تمہارا خون نہیں چاہیے، اللہ اس میں تقویٰ دیکھ رہا ہے۔ قربانی، حضرت ابراہیم ؑ کی سنت ہے جو انہوں نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل ؑ کی قربانی کے طور پر کی، تو اللہ نے ان کی جگہ دنبہ بھیجا اور سنت ابراہیمی ؑ بن گئی۔ آج پوری ملت اسلامیہ عید الاضحی کے دن سنت ابراہیمی ؑ ادا کرتی ہے۔ جتنے بھی لوگ استطاعت رکھتے ہیں وہ اس کا خیال کریںکہ گائے اور اونٹ میں سات حصے جبکہ بکرا، دنبہ وغیرہ ایک حصہ ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو قربانی کے عمل سے گزرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ قربانی کے گوشت کے تین حصے کیے جائیں، ایک اپنا، ایک رشتہ داروں کا اور تیسرا غرباء اور مساکین میں تقسیم کردیں۔ ان لوگوں کو زیادہ سے زیادہ گوشت بانٹا جائے جن کے گھر سارا سال بہت کم گوشت پکتا ہے یا انہیں کھانا نصیب نہیں ہوتا ۔ بہت سارے ادارے، تنظیمیں اور مدارس ہیں جہاں اجتماعی قربانی کی جاتی ہے اور فلاح و بہبود کے لیے کھالیں دی جاتی ہیں، یہ عمل بھی انتہائی ضروری ہے اور سب کو چاہیے کہ کھال ایسے ادارے کو دیں جو لوگوں کی فلاح کے لیے کام کررہا ہے۔ عید کے روز گندگی نہ پھیلائیں اور جانوروں کی آلائشیں و دیگر فضلہ گلی محلوں میں نہ پھینکیں بلکہ متعلقہ ادارے کے ساتھ تعاون کریں۔ قربانی کے عمل کو عام کیا جائے اور جو بھی استطاعت رکھتا ہے اسے قربانی کرنی چاہیے۔ جو لوگ اس سال حج کررہے ہیں اللہ ان کا حج قبول فرمائے اور ہمیں بھی حج کی توفیق عطا فرمائے۔ قربانی ہمیں صبر وتحمل، برداشت اور ایثار کا سبق دیتی ہے، ہمیں ایک دوسرے سے محبتوں کو بڑھانا چاہیے اور صبرو استقامت کے جذبے کو عام کرنا چاہیے۔
حجۃ الوداع کا خطبہ ہمارے لیے نمونہ ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر، امیر کو غریب پر، غریب کو امیر پر، کالے کو گورے پر، گورے کو کالے پر کوئی فوقیت، فضیلت حاصل نہیں ہے بلکہ فضیلت کی بنیاد تقویٰ ہے۔ آپ ﷺ نے جس طرح تمام چیزوں کو ختم کیا ہمیں بھی اپنے درمیان ان تمام چیزوں کو ختم کرنا ہے، پھر ہی ہم صحیح امتی کہلائیں گے اور حقیقی معنوں میں آپ ﷺ کے امتی بنیں گے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ بہترین امت کے نام سے آپ کو پکارا گیا اور بہترین امت کہا گیا۔ آج نفرتیں بڑھ رہی ہیں، مسائل میں اضافہ ہورہا ہے، اگر ہم ایثار و قربانی کے اس فلسفے کو سمجھ جائیں تو معاشرے میں موجود تمام مسائل ختم ہوجائیں گے اور محبت، اخوت اور بھائی چارے کے جذبے کو فروغ ملے گا۔ اس کے لیے ہر انسان کو قربانی دینا ہوگی اور اپنا محاسبہ کرنا ہوگا۔