خان سے تعزیت

یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ6 اور 7 ستمبر کے ناکام شو نے پی ٹی آئی، کراچی کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی ہے

BEIJING:
بڑے بوڑھے کہتے ہیں، خیر خواہ وہ ، جو غم میں تمھیں یاد رکھے۔

ہم تو ہیں ہی خان کا بھلا چاہنے والے۔ صبح کلی کر کے پہلے اُس کے لیے دعاکرتے ہیں۔ حال ہمارا جیسا ہو، اس کی خیریت ہمیشہ نیک مطلوب رہی۔اس کی خوشیوں میںخوش ہونے والے، بھنگڑے ڈالنے والے، اوئے اوئے کے نعروں کا ساتھ دینے والے تو کئی ہمہ وقت اس کے دائیں بائیں رہتے ہیں۔ تماش بینوں کا بھی ہجوم ہوتا ہے، مگر ہم اس کمیاب قبیلے سے، جو غم میں اس کے ساتھ کھڑا ہو۔ جب کبھی کپتان پر مشکل آئی، ہم نے اس سے دوستی نبھائی۔ پیٹھ تھپکی، غم بانٹا، آگے بڑھنے کی راہ سجھائی۔

پیارے قاری ، تو سوچتا ہو گا کہ عید کے دن بھی ہم غموں کا ذکر لے بیٹھے۔آج تو بیف اور مٹن کی اشتہاانگیز مہک پھیلی ہے۔ جی، مسالوں کا موسم ہے۔ ہر چہرے کھلا جارہا ہے۔منہ کھلا جارہا ہے، پھرکراچی بھی توبدلا بدلا ہے۔ ایم کیو ایم، جس کے شریف النفس کارکن بکرا ذبح ہونے سے پہلے کھال لینے پہنچ جاتے تھے کہ کہیں بے چارہ شہری اُسے ٹھکانے لگانے کی فکر میں ہلکان نہ ہورہا ہو، اِس بار کھالیں جمع نہیں کر رہی۔کوئی بتلا رہا تھا کہ گزشتہ برس اُنھیں نے جو کھالیں جمع کیں، وہ بھی کوئی لے اڑا تھا ۔ضرور لندن سیکریٹریٹ مالی بحران کا شکار ہوگا۔ خیر، جو ہوا سو ہوا، اب کراچی کو،کراچی کے مینڈیٹ کے دعوے داروں کو آگے بڑھنا ہوگا ۔فیصل سبزواری کی آمد، حیدرعباس رضوی کے تذکرے سے کچھ امید بندھی ہے۔اب آپ سمجھ لیجیے، پاکستان زندہ باد ہی اکلوتا راستہ ہے، جو اس سے پرے گیا، مائنس ہوا۔

یہ جو ہم کالم میں کراچی اورکراچی والوں کا ذکر لے بیٹھے، تو یہ مت سمجھیں کہ ہم بھٹک گئے۔ روشنیوں کے شہر کا تذکرہ بلاسبب نہیں۔ اِس کی ایک وجہ ہے پیارے۔ ہم جو خان سے تعزیت کر رہے ہیں،اِس کا تعلق اِسی خستہ حال بستی ہے۔ پریشان مت ہوں، ابھی گتھی سلجھ جائے گی۔بھئی جب پی ٹی آئی بنی تھی، تو کراچی سے بھی کچھ سیاسی کارکن اس میں شامل ہوئے۔

جی، عارف علوی اور عمران اسماعیل ابتدائی لوگوں میں شمار ہوتے ہیں۔ پھر اِسی شہر سے عمران کی جماعت کو ایک حقیقی سیاست داں، ایک مفکر ملا، جناب معراج محمد خاں! کپتان اس وقت نووارد تھے، معراج صاحب کی طرز سیاست ، اُن کی فکر سمجھ نہ سکے۔ وہ شخص، جس نے بھٹو کی تحریک کو ملک بھر میں منظم کیا، ترقی پسند طلبا کو ایک پلیٹ فورم پر اکٹھا کرکے 70ء کے انتخابات میں پی پی کی فتح یقینی بنائی، کچھ ہی عرصے بعد عمران سے جدا ہوگیا۔ (ضرور ہم جیسے خیرخواہوں نے اس سمے کپتان کا غم بانٹا ہوگا کہ یہ بڑا بھاری صدمہ تھا)

یا دکیجیے، اسی شہر سے خان صاحب کو جسٹس وجیہہ الدین جیسا اصول پسند، مخلص اور بے داغ شخص ملا۔ ایسا آدمی، مخالفین بھی جس کا تذکرہ احترام سے کریں۔ شومئی قسمت، کپتان کو جسٹس وجیہہ الدین سے بھی ہاتھ دھونا پڑا۔ سوچیے ذرا،اختلاف کا سبب کیا تھا۔۔۔جی، پی ٹی آئی کے پارٹی الیکشن میں ہونے والی کرپشن۔ جسٹس صاحب تو پارٹی ہی کا بھلا چاہتے تھے، مگر کپتان جہانگیر ترین کے بھلے کے خواہش مند تھے( کل الیکشن جیت گئے، تو شایدوزیر اعظم بھی اپنی جگہ اُنھیں ہی بنائیں)،تو یوں جسٹس صاحب اور عمران کی راہیں جدا ہوئیں (ایک اور صدمہ) اب یہ حال کہ کراچی میں پارٹی کی سینئر قیادت شپ میں جناب علی زیدی اور جناب فیصل واوڈا کا بھی شمار ہونے لگا ہے۔ (ذرا معراج محمد خاں، جسٹس وجیہہ اور موجودہ قیادت کا موازنہ کیجیے)خیر، یہ کپتان کا فیصلہ تھا۔ ہم نے لاکھ سمجھایا، مگر وہ کنٹینر پر چڑھے تھے۔ ہماری آوازکیا خاک اُن تک پہنچتی۔


یہ وہ شہر ہے، جہاں 2013 کے انتخابات میں، ایم کیو ایم کے اثر(جسے کچھ حلقے خوف بھی کہتے ہیں) کے باوجود پی ٹی آئی آٹھ لاکھ ووٹ لے اڑی اوریہ سارے ووٹ اسے ڈیفینس یا پشتون علاقوں سے نہیں ملے۔جی، ناظم آباد، نارتھ ناظم آباد اور نارتھ کراچی جیسے علاقوں سے بڑے پیمانے پرعمران کی جماعت کو ووٹ پڑا۔ یہی نہیں، جب احتجاج کی کال دی گئی، تب فقط دو تلوارنہیں(دو تلوار، جس کا ''بانی ایم کیو ایم'' نے اپنے مخصوص انداز میں تذکرہ کرکے اچھا خاصا ایشوکھڑا کر دیا تھا)بلکہ ایم کیو ایم کا مضبوط ووٹ بینک تصور کیے جانے والے علاقوں میں بھی نوجوان احتجاج پر بیٹھ گئے۔

ضرور اس وقت خان مسرور ہوں گے۔ الیکشن میں ان کی مہم کا مرکز پنجاب تھا۔کراچی سے ووٹرز کا ایسا ردعمل آناخوش گوار حیرت کا باعث بنا ہوگا۔ اسی غیرمتوقع ردعمل کی وجہ سے 18 سیٹیں جیتنے کے باوجود ایم کیو ایم کے مرکز90 پر وہ افسوسناک صورت حال پیدا ہوئی، جس کا مصطفی کمال اپنی ابتدائی تقریروں میں حوالہ دیا کرتے تھے۔ اصولی طورپر عمران خان کو اس مینڈیٹ کا احترام کرتے ہوئے کراچی کی جانب توجہ دینی چاہیے تھی۔

شہر کے دورے کرتے، تنظیم مضبوط کرتے، موزوں قیادت چنتے، مگر افسوس۔۔۔ ایسا کچھ نہیںہوا۔ کراچی میں پی ٹی آئی کا گراف گرتا چلا گیا۔ ضمنی انتخابات میں شکست، بلدیاتی انتخابات میں ناقص کارکردگی، امیدوار بھاگ گیا، رکن اسمبلی نے دوسری پارٹی جوائن کر لی۔۔۔ ایک کے بعد ایک صدمے، مگر صاحبو، سمجھ لو، ان میں سے کوئی صدمہ 6 اور 7 ستمبر کے صدمے جیسا نہیں کہ اُس روزکراچی میں پی ٹی آئی کے ساتھ وہ حادثہ ہوا، جس کی اس کے مخالفین بھی توقع نہیں کر رہے تھے۔

6 ستمبر کو نشتر پارک میں ہونے والا جلسہ۔۔۔ ایک ناکام شو تھا اور اس سے بھی زیادہ ناکام اور افسوسناک شو وہ تھا، جو اگلے روز جناب فیصل واوڈا نے شارع فیصل پر پیش کیا۔آج عوام میں غصے اور ناپسندیدگی ہے۔ جنھوںنے اس جماعت کو 2013 میں ووٹ دیا تھا،وہ اس کی قیادت کے ''کارناموں'' کو دیکھتے ہوئے شاید اگلی بار اِس کے برعکس فیصلہ کریں۔

یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ6 اور 7 ستمبر کے ناکام شو نے پی ٹی آئی، کراچی کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی ہے ۔یہ عمران کے لیے ایک بڑا صدمہ ہے اور ہم کپتان کے ایک سچے خیرخواہ کی حیثیت سے اُن سے تعزیت کرتے ہیں، دکھ میں ان کے شریک ہیں۔ اگر آپ پاکستان کے سب سے بڑے شہر میںاپنے پارٹی یونٹ محروم ہوجائیں، تو واقعی افسوس کی بات ہے۔ہمارا تو مشورہ ہے کہ اب کراچی میں یہ پارٹی ایک اسٹڈی سرکلر کے طور پر چلائی جائے۔

پتا نہیں ہمارا مشورہ ان تک پہنچے گا بھی یا نہیں۔ وہ توپھرکنٹینر پر چڑھنے کی تیاری کررہے ہیں۔
Load Next Story